جنرل پرویز مشرف… ’’فااعتبر و یا اولی الابصار‘‘

خالق ارض و سما، رب العالمین کا اپنی آخری کتاب ہدایت قرآن حکیم، فرقان حمید کی سورۃ الرحمن کی آیت 26 اور 27 میں فیصلہ کن ارشاد ہے کہ:۔ ’’زمین پر موجود ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے اور تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔‘‘ سورۃ انبیاء کی آیت 35 میں فرمایا جاتا ہے۔ ’’ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے‘ اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ آخر کار تمہیں ہماری طرف پلٹنا ہے۔‘‘ سورۂ آل عمران کی آیت 185 میں مزید وضاحت فرمائی گئی کہ:۔ ’’آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔‘‘ سورہ المنافقون کی آیت گیارہ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ: ’’جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ہر گز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘ غرض قرآن حکیم کو پڑھتے جایئے، آپ کو اس دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتی آیات جا بجا بکھری ملیں گی جو پکار پکار کر یہ پیغام دیتی ہیں کہ: ؎

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے

انسان مگر ایسا نسیان کا مارا ہے کہ وہ اس بار بار کی پکار کو سننے پر آمادہ ہی نہیں ہوتا اور دنیا کی طلب میں اس طرح بگٹٹ بھاگتا چلا جاتا ہے۔ گویا اسے ہمیشہ یہیں رہنا ہے آخر پھر وہ وقت آ پہنچتا ہے جس کو انسان فراموش کئے بیٹھا ہے: قرآن ہی کی سورۂ ق کی آیت 19 کے الفاظ میں:۔ ’’پھر دیکھو، وہ موت کی جان کنی حق لے کر آ پہنچی، یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔‘‘

ایک وقت تھا، جنرل پرویز مشرف خود کو اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک سمجھتے تھے،وہ صدر مملکت ، چیف آف آرمی سٹاف اور ملک کے منتظم اعلیٰ سمیت نہ جانے کون کون سی ٹوپیاں سرپر سجائے مختار کل اور آمر مطلق کے طور پر بلا شرکت غیرے اس طرح حکم چلاتے تھے جیسے یہ اقتدار و اختیار ان کی مستقل میراث ہے، انہیں موت یاد تھی نہ ہی خالق موت و حیات۔ وہ کسی بھی احساس جواب دہی کے بغیر اختیارات کا اندھا دھند استعمال کرتے، البتہ جب یک محوری دنیا کے مدارمہام امریکہ کے صدر نے فون کیا تو انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر مشروط اطاعت تسلیم کر لی اور بے گناہ افغان بھائیوں پر امریکی جارحیت میں اس کے آلۂ کار بن گئے۔ ان کے جرائم کی ایک طویل فہرست تاریخ کے صفحات پر رقم ہے، جنرل پرویز مشرف نے ایک نہیں دو بار آئین توڑنے کا اعزاز اپنے نام کیادو تہائی اکثریت سے قائم جمہوری حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیا۔ افغان طالبان کے ٹھکانوں کی نشاندہی اور ان تک امریکی فوج کی رسائی میں مخبر کا کردار ادا کیا، امریکی افواج کو اسلحہ اور جدید آلات کی فراہمی کے لیے پاک سرزمین کے استعمال کی اجازت دی، افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو تمام سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ کے حوالے کر دیا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت ہزاروں مسلمانوں کو امریکہ کے عقوبت خانوں کے سپرد کیا اور اس پر شرمندگی کی بجائے اپنی کتاب میں نہایت ڈھٹائی سے اس پر فخر کا اظہار بھی کیا… ان ظالمانہ اقدامات کی مزاحمت کرنے والے اسلام پسند، مخلص اور محب وطن پاکستانیوں کو نشان عبرت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ان پالیسیوں کے سبب پاکستان کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ہدف بنا دیا۔ یوں بلا مبالغہ لاکھوں افغان اور پاکستانی مسلمانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا اور ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا… پاکستان کی سالمیت کا خیال کئے بغیر سردار اکبر بگتی کو ساتھیوں سمیت پہاڑوں میں بمباری کا نشانہ بنا کر بلوچ بھائیوں کو ملک دشمن سرگرمیوں اور علیحدگی کی تحریک کا حصہ بنا دیا، بارہ مئی کو کراچی میں47 شہریوں کا خون بہانے کو اپنی طاقت کی علامت قرار دے کر مکے لہراتے ہوئے اس پر فخر و انبساط کا اظہار کیا ۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر مارٹر اور فاسفورس بم گرا کر بربریت کی انتہا کرتے ہوئے سینکڑوں دینی طلبہ و طالبات کو جرم بے گناہی میں موت کی نیند سلا دیا، اس دوران قرآن حکیم، کتب احادیث اور دوسری دینی کتب اور مسجد و مدرسہ کی بے حرمتی سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکہ کی خواہش پر بلا جواز اندھا دھند بمباری کر کے پاکستان کے بلامعاوضہ محافظوں کو شہید کیا اور علاقہ میں پاکستان دشمنی کی بنیاد رکھی جس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے، ملک میں لا دینیت، بے حیائی اور فحاشی کی کھلے عام سرپرستی کر کے نئی نسل کی تباہی کا سامان کیا۔ ان کے جرائم کی داستان اس قدر طویل ہے کہ ’کہاں تک سنو گے‘ کہاں تک سنائوں؟‘‘ والا معاملہ ہے، بہرحال آخر کار اللہ تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی بروئے کار آئی اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ عدالتوں کے انصاف سے خوفزدہ ہو کر ملک سے فرار ہونے میں عافیت جانی، پاکستانی عدالت نے سزائے موت دے کر لاش تین دن تک ڈی چوک میں لٹکانے کا حکم سنایا، اپنے ادارہ اور اپنے جانشینوں کی مداخلت سے اس سزا سے تو بچ گئے مگر دوبئی میں ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوئے کہ دنیا بھر میں ان کے سرپرست جدید ترین طبی تحقیق کے باوجود علاج سے عاجز آ گئے۔ یوں زندگی ہی میں ایسی کیفیت میں آخری دن بسر کئے کہ دیکھنے سننے والے توبہ توبہ کرتے رہ گئے… اب موت کے بعد بھی شاید جنرل پرویز مشرف پاکستانی تاریخ کے واحد حکمران ہیں جن کے لیے دعائے مغفرت سے بھی مجلس شوریٰ کے ایوان بالا کے ارکان کی اکثریت نے انکار کر دیا…

ہم مفتی ہیں نہ فتویٰ لگانا ہمارا منصب ہے، البتہ امام غزالیؒ کا فرمان ہے: ’’جو غلطی نہیں کر سکتا وہ فرشتہ ہے، جو غلطی کر کے ڈٹ جائے وہ شیطان ہے اور جو غلطی کر کے فوراً توبہ کر لے وہ انسان ہے۔‘‘ جنرل پرویز مشرف کی حیثیت پاکستانی تاریخ میں ہمیشہ متنازعہ رہے گی۔ وہ اب اپنے مالک حقیقی کے حضور پہنچ چکے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا…’’ پھر دیکھو، وہ موت کی جان کنی حق لے کر آ پہنچی، یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔‘‘
’’فااعتبر و یا اولی الابصار‘‘
(حامد ریاض ڈوگر)