مولانا محمد اسحاق بھٹیؒ چند خوش گوار یادیں

مولانا محمد اسحاق بھٹیؒ نامور ادیب اور مؤرخ تھے۔ قدیم علمائے کرام کی یادداشتوں کا بیش بہا خزانہ ان کے سینے میں محفوظ تھا۔ خوش مزاج، ملنسار اور مہمان نواز تھے۔ 91 برس کی عمر میں بھی وہ کسی کے محتاج نہیں ہوئے۔ ایک دن علالت اور پھر اچانک ناگہانی موت۔ ’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔ (القرآن)

ان کے قلم نے کبھی قرار نہیں پایا، آخری وقت تک تصنیفی کام جاری تھا۔ جو بھی ان سے ایک بار ملا، متاثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ وہ محفل کی جان تھے، ہر فرقے اور طبقے سے میل جول رکھتے۔ کسی کا برا نہ مناتے۔ مختلف شخصیتوں پر بھی لکھا، مثلاً: شیخ قمر الدینؒ پر لکھا تو ایسی خاکہ نگاری کی کہ ان کی شخصیت نکھر کر سامنے آگئی۔ کتاب کا نام ’’محفلِ دانشمنداں‘‘ ہے۔ نئے محقق اور تاریخ دان پیدا ہونا تو دور کی بات، نئی نسل اگر انہی کی علمی خدمات سے استفادہ کرلے تو بہت بڑی بات ہے۔ جانا سبھی کو ہے، لیکن اگر کوئی زندگی اور موت کی حقیقت جاننا چاہتا ہے تو ایک لمحے کے لیے سوچ لے کہ وہ کیا لے کر اور کیا چھوڑ کر جارہا ہے؟ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔

مولانا اسحاق بھٹیؒ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے منعقدہ 25، 26 اگست 1941ء کے تاسیسی اجلاس کے عینی شاہد تھے۔ وہ اگرچہ جماعت اسلامی میں باقاعدہ شامل نہیں ہوئے تھے، تاہم تمام عمر جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے رہے۔

مولانا اسحاق بھٹیؒ سے میرا پہلا تعارف کتاب ’’تذکرۃ النبلاء فی تراجم العلماء‘‘ از مولانا عبدالرشید عراقی سے ہوا، جس میں لکھا تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں شریک ہوئے۔ پھر میں مولانا مودودیؒ کے ذاتی معاون بشیر احمد بٹؒ سے ان کی رہائش گاہ معلوم کرکے حاضر خدمت ہوا۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ چلتا رہا، جو اُن کی وفات سے چند دن قبل تک جاری رہا۔ لیاقت بلوچ صاحب سے اسحاق بھٹی صاحب کا تذکرہ کیا کہ آپ کی اُن سے فون پر بات کروانی ہے تو بلوچ صاحب نے کہا کہ وہ بزرگ ہیں، ان سے میں خود ملنے جائوں گا۔

ممتاز اسکالر پروفیسر ظفر حجازی ہمیشہ اسحاق بھٹیؒ کا احترام کرتے اور میری جب بھی ملاقات ہوتی تو بھٹی صاحبؒ کا احوال ضرور پوچھتے اور ہمیشہ کہتے کہ بھٹی صاحبؒ کی باتیں بہت قیمتی ہیں، ان کو نوٹ کرلیا کرو۔ وفات سے چند دن پہلے تک پروفیسر محمد ایوب منیر کی شدید خواہش تھی کہ ان کے ساتھ ناشتے پر ایک نشست رکھی جائے، مگر انہوں نے کہاکہ کچھ تصنیفی کام کررہا ہوں، اس لیے کچھ دن بعد رکھ لینا۔

بھٹی صاحب اکثر کہا کرتے تھے ’’تم نے مجھے زیادہ مشہور کردیا ہے‘‘، تو میں جواباً عرض کرتا کہ آپ مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں تو میں آپ کی خوبیوں کا تذکرہ لوگوں سے کیوں نہ کروں! مولانا اسحاق بھٹیؒ نے عبدالوکیل علوی صاحبؒ کی شخصیت اور ان کے علمی کام پر تفصیلی مضمون لکھ دیا ہے۔ مولانا مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، مولانا نصراللہ خان عزیزؒ، نعیم صدیقیؒ اور عبدالحمید صدیقیؒ سے ان کی بہت زیادہ یادیں وابستہ تھیں۔ ایک واقعہ انہوں نے مجھے سنایا کہ عبدالحمید صدیقی مرحوم ’’ترجمان القرآن‘‘ کے لیے ’’اشارات‘‘ لکھ چکے تھے، انہی دنوں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت آگئی۔ وہ تمام ’’اشارات‘‘ بھٹو مرحوم کے خلاف تھے۔ صدیقی صاحبؒ اسحاق صاحبؒ کا پنجاب پبلک لائبریری میں انتظار کررہے تھے۔ جب اسحاق صاحب تشریف لائے تو صدیقی صاحب نے کہا: ’’میں آپ کا انتظار کررہا تھا۔ یہ ’’اشارات‘‘ میں نے لکھ دیئے ہیں اور بھٹو صاحب کی حکومت آگئی ہے۔ مجھے آپ پر اعتماد ہے، ان میں جو صفحات نکالنے ہیں وہ نکال دیں، باقی میں برائے اشاعت بھیج دوں گا۔‘‘

تو اسحاق صاحب نے پڑھنے کے بعد کہا: ’’یہ 13صفحات میں سے 8 صحیح ہیں، باقی ٹھیک نہیں ہیں‘‘۔ پھر مجھ سے کہنے لگے: ’’تمہارے بزرگ مجھ پر اتنا اعتماد کرتے تھے‘‘۔ اسحاق بھٹی صاحب نے وہ واقعہ بھی مجھے سنایا، جب جوش ملیح آبادی لاہور احسان دانش صاحب کے گھر آئے اور آکر کہاکہ کسی کو پتا ہے مودودی صاحبؒ کے گھر کا؟‘‘ تو اسحاق صاحب نے کہاکہ مجھے معلوم ہے۔ وہ جوش صاحب کو لے کر مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے مولانا مودودیؒ سے کہاکہ آپ بہت بوڑھے ہوگئے، حیدرآباد میں تو آپ بڑے جوان تھے۔

بھٹی صاحب نے مجھے بتایا: جب جوش صاحب لاہور میں اپنی کتاب ’’یادوں کی برات‘‘ چھپوانے کے لیے ایک ادارے کے سربراہ کے پاس گئے، تو انہوں نے جوش صاحب سے کہاکہ یا تو آپ کی کتاب چلے گی یا ہمارا ادارہ چلے گا‘‘۔

بھٹی صاحب نے بتایا کہ مولانا مودودیؒ نے مجھے آخری ایام میں کسی کے ذریعے پیغام پہنچایا کہ مولانا مودودیؒ آپ کو یاد فرما رہے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’میں ملاقات کے لیے تو نہ جاسکا، البتہ نماز جنازہ میں شریک ہوا۔‘‘ بھٹی صاحب میاں طفیل محمد صاحب کی نماز جنازہ میں بھی شریک ہوئے اور بعد میں آپا مریم جمیلہ پر ایک تحریر بھی لکھی۔

جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کی جتنی بھی کتابیں عرب ممالک میں پھیلی ہیں، ان کو پھیلانے والے سارے کے سارے لوگ اہلِ حدیث تھے۔ مولانا مودودیؒ کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی یا کوئی مشکل سا سوال آتا تو وہ فیصل آباد میں مولانا عبداللہ اہل حدیث عالم سے رابطہ کرتے تھے، بقول اسحاق بھٹی صاحب: اس اللہ کے بندے کو یہ ذوق و شوق تھا کہ کوئی اوکھا سوال لے کر آئے۔

میں یہ اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں کہ مولانا اسحاق بھٹی صاحب سے میری بہت زیادہ ملاقاتیں ہیں اور انہوں نے مجھے کہا بھی ہوا تھا کہ مجھ سے وقت لے لیا کریں بلکہ آپ آجایا کریں۔ میں وہ باتیں جو وہ کرتے تھے نہ لکھ سکا اور نہ ریکارڈ کرسکا۔ بقول ظفر حجازی صاحب آپ جب مولانا کے پاس جایا کریں ان کو لکھ لیا کریں، ان کی یادداشت بہت زبردست ہے اور وہ قیمتی الفاظ ہوتے ہیں۔ مولانا اسحاق بھٹی کی شخصیت کے مجھ پر بہت اثرات ہیں۔

ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ پبلشر اور ناشر کے ساتھ شر بھی لگتا ہے۔

ایک دن میں نے ظفر حجازی صاحب سے بات کروائی تو علامہ اقبال کا یہ مصرع پڑھا:

تُو حجازی نہ بن سکا

جماعت اسلامی سے ان کو بہت زیادہ پیار محبت تھا، اور اس کی ہر بات ازبر تھی۔ وہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے پہلے آفس سیکریٹری تھے جنہیں خود مولانا دائود غزنویؒ نے مقرر کیا تھا۔ بھٹی صاحب میرے ساتھ خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ مجھے کہتے تھے کہ آپ وقت نہ لیا کریں، آجایا کریں۔ میں نے جب بھی ان کو اپنے گھر ناشتے پر بلایا بوجوہ اوپر والی منزل ہونے کے انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ یہ مجھ پر اُن کا بڑا احسان تھا جو وہ مجھ پر عنایت فرماتے تھے، اور ان کا بھتیجا حافظ محمد حسان بھٹی… اب بھی لاہور میں جہاں کہیں جانا ہو میں ان کے ساتھ جاتا ہوں اور انہوں نے بھی کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

مولانا اسحاق بھٹی صاحب نے ایک دن بتایا کہ جماعت اسلامی بننے کے بعد میرے پاس ایک خط اور لٹریچر آیا۔ مجھے چاہیے تھا کہ اس کا جواب دیتا، مگر میں نے جواب نہ دیا۔ اُس وقت لٹریچر کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ میں نے کہاکہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے بارے میں لکھ دیتے، تو کہنے لگے کہ پچھلا مہینہ اگست کا تھا، مجھے بتاتے، میں لکھ دیتا۔ اسحاق بھٹی صاحب کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے تاسیسی اجلاس میں شریک تھا، مجھے جماعت اسلامی کے تیسرے درجے میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، یہ تو ان کی کرم نوازی تھی کہ تیسرے درجے میں جگہ دی، ورنہ سچی بات یہ ہے کہ اپنی گوناگوں کمزوریوں کی وجہ سے تجدیدِ ایمان کے باوجود اس درجے کے لائق بھی نہ تھا۔

ایک دن کہتے ہیں کہ میں نے طیب گلزار کو کہاکہ تم شوکت اسلام کرتے ہو کہ شوکت کا معنی کنڈا، کانٹا ہوتا ہے۔

علم و عرفان پبلشرز کے مالک گل فراز ایک دفعہ بتارہے تھے کہ اسحاق بھٹی صاحب اہلِ حدیث طریقے کے مطابق نماز پڑھاتے تھے، میں نے ان سے کہاکہ اسحاق صاحب ہمیں حنفی طریقے سے نماز پڑھائیں تو انہوں نے حنفی طریقے سے نماز پڑھائی۔ یہ ان کی بڑی فراخ دلی اور دریا دلی تھی۔

ادارہ علم و عرفان پبلشرز کا نام اسحاق بھٹی صاحب نے رکھا اور گل فراز کو کہا کہ نہ تجھ میں علم ہے نہ عرفان۔ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے، مولانا مودودیؒ کے ایک کتابچے کا سخت جواب دیا، بھٹی صاحب نے کہاکہ حکمت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس جگہ کتابچہ بھیجنا نہیں چاہیے تھا جس کا بعد میں سخت ردعمل آیا۔

میں نے ایک دن پوچھا: مولانا مودودیؒ سے کیا اختلاف تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ ’’تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘‘ کے بعض حصوں سے مجھے اختلاف تھا۔ حکومت انگریز کی ہے اور مولانا مودودیؒ کہہ کسی کو رہے ہیں جس پر میرا اختلاف تھا۔ پھر ایک اور بات انہوں نے بتائی کہ مولانا مودودیؒ نے مجھے پیغام بھیجا، پَر ملنے کے لیے میں نہ جاسکا، جب مولانا مودودیؒ فوت ہوئے تو میں اُن کے جنازے میں شامل ہوا۔