میدانِ سیاست میں سیاسی کھلاڑیوں کے درمیان انتخابی میچ میں صرف انہی سیاستدان کھلاڑیوں کو شرکت کا حق حاصل ہے جنہوں نے کسی جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو
پاکستان کے موجودہ سیاسی انتشار کے تناظر میں اکثر یہ فقرے، تبصرے یا تجزیے کثرت سے سامنے آرہے ہیں کہ ایک عوامی اور مقبول یا پاپولر لیڈرشپ، یا لیڈر کو کرپشن یا قانون شکنی کے ارتکاب یا الزامات پر کس طرح کے ردعمل، برتائو یا عملی اقدامات کا سامنا کرنا چاہیے۔
اگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں، ماہرین و دانش وروں کے تبصروں اور تجزیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آتی ہے کہ بعض بڑے بڑے نامور صحافی و تجزیہ کار اس حوالے سے غیر معمولی طور پر مقبولیت کے حامل کسی بھی پاپولر لیڈر کو استثنیٰ دینے کے قائل و متفق نظر آتے ہیں۔
گویا کہ عوامی سطح پر معروف و مقبول پارٹی، لیڈرشپ یا پارٹی سربراہ کو احتساب سے بالاتر قرار دیا جانا چاہیے، اور ایسی شخصیات کو عوامی پذیرائی، مقبولیت اور قابلِ چُنائو یعنی ایک بہت بڑے ووٹ بینک کے حصول میں کامیابیوں کے باعث قانون سے بالاتر ہونے اور احتساب کے کٹہرے سے استثنیٰ و نجات کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح سے ایسے معاملات میں یہ فلسفہ و نظریہ بھی بعض معروف اشاعتی اداروں، صحافیوں اور دانش وروں کی جانب سے پیش کیا جارہا ہے کہ کرپشن، قومی خزانے کو نقصان پہنچانے، اقربا پروری، بدانتظامی و ناقص طرز ِحکمرانی کے باوجود اگر ایسی سیاسی قیادت کو قانون سے بالاتر درجے پر فائز نہ کیا جائے اور اسے احتساب کے کٹہرے میں لاکر احتسابی عمل سے گزارا جائے، اور اگر کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے جیسے مکروہ اور گھنائونے جرائم و افعال کے ثابت ہوجانے پر سزا یا نااہلی ملتی ہے تو جزا و سزا کا یہ سارا عمل کسی بھی سیاسی پارٹی یا لیڈرشپ کو میدانِ سیاست سے باہر کردینے کا سبب بن جائے گا۔ گویا کہ یہ احتساب خواہ کتنی ہی دیانت داری سے کیوں نہ کیا جائے لیکن کیوں کہ مقبول لیڈرشپ یا لیڈر کو سزا ملتی ہے تو یہ ایک سیاسی میدان میں سیاسی جنگ لڑے بغیر میدانِ سیاست سے باہر نکالے جانے والی کیفیت ہے۔ لہٰذا سیاسی جنگ و معرکہ آرائی کے معاملات اور سیاسی نااہلی کے نتائج میدانِ سیاست اور انتخابی عمل پر منحصر ہونے چاہئیں تاکہ حصولِ اقتدار و کرسی کا معاملہ عوامی پسند و ناپسند اور ووٹوں کے ذریعے طے ہوسکے اور یوں اقتدار کی منتقلی عمل میں آیا کرے۔
اسی لیے بعض صحافی و تجزیہ کار بدعنوانیوں اور خراب طرزِ حکمرانی کے معاملات میں عدالتی کارروائیوں کے بعد ملنے والی سزائوں کی مخالفت کررہے ہیں، ان کے نزدیک سیاست دانوں کی اقتدار سے محرومی و حصول کا معاملہ عوامی ووٹوں کے ذریعے طے کیا جانا چاہیے تاکہ کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر کو جرائم کے باوجود عدالتی جزا و سزا کے عمل سے بچایا جاسکے۔
اگر مذکورہ بالا دونوں نظریات کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو باآسانی یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دینِ اسلام میں کوئی بھی ادارہ یا شخصیت قانون و احتساب سے بالاتر نہیں۔اس حقیقت و تعلیم کو واضح اور آسان طور پر سمجھانے کے لیے اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک موقع پر امت کی رہنمائی کے لیے فرمایا کہ اگر میری پیاری بیٹی بھی چوری کرے تو اُس کو بھی وہی سزا دی جائے گی جو عام مسلمان کے لیے مقرر کی گئی ہے۔
اسی طرح ایک موقع پر مالِ غنیمت کی تقسیم کے بعد حضرت عمر فاروقؓ کے پاس ایک زائد چادر ظاہر ہونے پر ایک عام مسلمان نے اُن سے بلاخوف و خطر احتساب و عدل و انصاف کے پیش نظر دریافت کیا۔ جواباً فاروق اعظمؓ نے نہ تو یہ کہاکہ میری چادر میری مرضی، اور نہ ہی یہ کہاکہ چادر کا تحفہ دینے والے کا نام ظاہر کرنے سے ہمارے باہمی تعلقات کشیدہ ہوسکتے ہیں، بلکہ انہوں نے فوراً خود احتسابی کی مثال قائم کرکے اس سوال کا جواب دیا اور پوری امتِ مسلمہ کے خلیفہ ہونے کے باوجود خوش دلی سے اس کی وضاحت پیش فرمائی۔ اور حقیقت سے آگہی کے بعد اس موقع پر موجود تمام ہی مسلمان مطمئن ہوگئے۔ آج یہ واقعہ درحقیقت خلفائے راشدین کے دور ہی سے ’معلومات تک رسائی کے حق‘ و آگہی کے تسلیم و نفاذ کا مسلمہ ثبوت قرار دیا جاسکتا ہے جوکہ پوری امت کے لیے ایک مثال بن کر احتساب و انصاف کے معاملات میں بھرپور رہنمائی کررہا ہے۔
اب اگر غور کیا جائے تو با آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ خاتونِ جنت بی بی فاطمہؓ کی مقبولیت یعنی پاپولیرٹی، تقویٰ، حسب نسب اور مقام و مرتبہ بھی انہیں نظام انصاف سے بالاتر نہیں کرتا۔
اگر مسلمانوں کے خلیفہ دوئم حضرت فاروق اعظمؓ جو کہ عشرۂ مبشرہ میں شامل ہیں، صحابیِ رسول ہیں، نہ صرف تقویٰ و دیانت داری میں ممتاز و نمایاں ہیں بلکہ وہ عالمِ اسلام کے غیر متنازع خلیفۂ وقت بھی تھے تو کیا ان کی پاپولیرٹی یا مقبولیت پر شک کیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لیکن ان تمام مثالی خوبیوں کے باوجود وہ نہ تو قانون و احساب سے بالاتر سمجھے جاتے تھے اور حقیقتاً نہ ہی وہ قانون و احتساب سے بالاتر تھے۔
لہٰذا بعض ادارے و شخصیات اس غیر منصفانہ اور غیر شرعی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ عوامی مقبولیت استثنیٰ عطا کرتی ہے کیونکہ سیاسی شخصیات کو جرائم و قانون شکنی کے باوجود ملنے والی سزا و نااہلی عوامی سطح پر انتشار و مزاحمت اور بدنظمی کا سبب بن جایا کرتی ہے، جس سے ریاست اور عوام کو محفوط رکھنے کے لیے پاپولر لیڈرز کو استثنیٰ دیا جانا ناگزیر ہے۔
درحقیقت یہ سوچ، یہ نظریہ اور یہ استثنیٰ ہی مقبول لیڈروں کو کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور خراب طرزِ حکمرانی کے لیے تقویت و حوصلہ فراہم کرتا ہے۔
یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ جب ریاست کا چوتھا ستون یعنی قلم اور کیمرہ ہی عوامی سطح پر مقبول ترین شخصیات کو خراب طرزِ حکمرانی، کوتاہیوں اور جرائم کے باوجود سزائوں اور نااہلی سے محفوظ کرنے کے خواہاں ہوجائیں تاکہ معاشرہ اُن کے سپورٹرز، ووٹرز اور پشت پناہوں کے شر، انتشار اور بدنظمی سے محفوظ رہ سکے، تو پھر ایسے پاپولر لیڈرز کو بھلا کون اور کیسے من مانیوں، آئین و قانون شکنی اور جرائم سے روک سکتا ہے؟
میدانِ سیاست میں سیاسی کھلاڑیوں کے درمیان انتخابی میچ میں صرف انہی سیاست دان کھلاڑیوں کو شرکت کا حق حاصل ہے جنہوں نے کسی جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو، لہٰذا اگر کسی سیاست دان کو شفاف عدالتی عمل سے گزر کر جرم ثابت ہوجانے کے بعد کوئی سزا دی جاتی ہے تو اُس سیاست دان کو عوامی نمائندگی کا حق عطا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے وہ نااہل ہوجانے کی بنیاد پر انتخابی میچ میں پولنگ کے ذریعے حصہ نہیں لے سکتا۔ چنانچہ یہ کہنا کہ مقبول عوامی لیڈر کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے باہر کردینا، نااہل کیا جانا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے یا دیگر امیدواروں کو سہولت فراہم کرنے کے مترادف ہے، سراسر غلط اور غیر منصفانہ سوچ ہے، بلکہ یہ توہینِ عدالت سے کم نہیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام و احتساب ہے۔ اگر اس جملے کا جائزہ لیا جائے تو اس کا مفہوم یہ طے کیا جاسکتا ہے کہ عوام انتخابی عمل کے ذریعے غلط، کرپٹ اور نااہل جماعت و شخصیات اور لیڈران کو اقتدار و حکومت سے محروم کرسکتے ہیں، اس لیے سیاسی لیڈروں اور سیاسی نمائندوں کو عدالتی نظام انصاف و کارروائیوں میں گھسیٹنا ایک فضول مشق ہے۔
لیکن اس دلیل کے جواب میں مشاہدہ یہ واضح کرتا ہے کہ ہمارے جیسے معاشرے میں عوامی نمائندوں کا چنائو بالعموم کارکردگی و اہلیت پر نہیں بلکہ نسلی، لسانی، قبائلی، گروہی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ یہاں جیتنے والا بھی الیکٹ ایبل اور ہارنے والا بھی الیکٹ ایبل ہی ہوا کرتا ہے۔ یہاں جو آج ایوانوں میں براجمان ہیں کل ان میں سے بعض ایوانوں سے باہر تھے، اور جو کل ایوانوں میں تھے ان میں سے بعض آج ایوانوں سے باہر ہیں۔ ان الیکٹ ایبلز کا باہمی گٹھ جوڑ، اتحاد و صف بندیاں کم و بیش ان سبھی کو مختلف اوقات میں آگے پیچھے ان ایوانوں کی رکنیت عطا کرتے چلے آرہے ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ جمہوریت یا انتخابی عمل سیاسی نمائندوں کا احتساب کرسکتا ہے، کلی طور پر یقینا درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال، قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور خراب طرز حکمرانی جیسے قبیح و گھنائونے افعال و جرائم کا احتساب و سزا عدالتی عمل کے بغیر ممکن نہیں، اور یہ ذمہ داری محض ایک غیر جانب دار و آزاد اور دیانت دار عدلیہ پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس فریضے کو ادا کرے۔ لہٰذا یہ سوچ بھی ہرگز درست قرار نہیں دی جاسکتی کہ کرپٹ اور نااہل سیاسی نمائندوں کو اگر انتخابی عمل کے ذریعے بھی اقتدار سے محروم و نکال باہر کیا جائے تو یہ بھی ان کا احتساب ہی ہے۔ کیوں کہ انتخابی شکست ان کی مزید کرپشن و نااہلی کو تو روک سکتی ہے لیکن ان کی گزشتہ کرپٹ پریکٹسز اور کرتوت کا حقیقی احتساب تو عدالتی عمل سے ہی ممکن ہے تاکہ اگر وہ قصوروار پائے جائیں تو انہیں قرار واقعی سزا دی جاسکے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی پچھلی وفاقی حکومت میں مرحوم رحمان ملک بطور وفاقی وزیر امریکہ کے دورے پر تھے جہاں ایک سرکاری میٹنگ میں شرکت کے لیے وہ اپنے ڈرائیور کے ہمراہ سڑک پر ٹریفک قانون کی کسی خلاف ورزی پر روک لیے گئے، جس پر مرحوم نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ پاکستان کے وفاقی وزیر ہیں اور اپنے امریکی ہم منصب سے مذاکرات کے لیے نکلے تھے اور تاخیر ہوجانے کے باعث یہ واقعہ ہوگیا۔ مرحوم کو امید تھی کہ ان کے تعارف اور امریکی ہم منصب اعلیٰ عہدیدار سے میٹنگ کا حوالہ انہیں یہاں بھی وطنِ عزیز کی طرح سرخرو کردے گا، لیکن ان کی امیدوں پر اُس وقت پانی پھر گیا جب امریکی ٹریفک عہدیدار نے یہ کہتے ہوئے انہیں جرمانے کا چالان فی الفور پکڑا دیا کہ “Rulles are equal in America for Every One” (قانون امریکہ میں سب کے لیے برابر ہوتا ہے)۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل میں صحافی ڈیوڈ روزکی جانب سے برطانیہ کے محکمہ بین الاقوامی ترقیات (D.F.I.D) کی جانب سے فراہم کردہ فنڈز میں بدعنوانی اور خوردبرد کے الزامات میاں محمد شہبازشریف اور ان کے داماد عمران علی یوسف کے اوپر عائد کیے گئے تھے، جس کے جواب میں میاں محمد شہبازشریف نے اخبار ڈیلی میل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا، اگرچہ میاں شہبازشریف اور ان کے داماد یہ جنگ جیت چکے ہیں اور اخبار نے ان سے معافی مانگ لی ہے، مگر ایک مرتبہ دورانِ سماعت میاں شہبازشریف کی عدالت میں غیر حاضری پر جب اُن کے وکیل نے کہاکہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں لہٰذا اپنی سرکاری مصروفیات کے باعث حاضر نہ ہوسکے تو برطانوی عدالت کے جج مسٹر میتھیونیکلین نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہاکہ یہ عدالت ہے اور یہاں آنے والا ہر شخص برابر ہے، کسی عام انسان اور وزیراعظم میں کوئی فرق نہیں۔
ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، شیرِخدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ بتلا گئے ہیں کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں۔ یعنی نظامِ عدل و انصاف اور قانون و احتساب ریاست و حکومت کے لیے ناگزیر ہیں، اور ان کے بغیر ریاست و حکومت کا قیام و بقا اور استحکام ہرگز ہرگز ممکن نہیں۔