سیاسی دنگل میدان پنجاب ہوگا

دو صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ پنجاب ہی اصل میدانِ جنگ ہے جہاں پر گھمسان کا رن پڑے گا۔ خیبر پختون خوا میں نگران حکومت تو متفقہ طور پر آئی، مگر اس اتفاق میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات (جو کہ آئینی تقاضا ہے) کے انعقاد پر بڑے بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ گورنر خیبر پختون خوا کہہ چکے ہیں کہ الیکشن کی آئینی ذمہ داری سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی صوابدید اور ذمہ داری ہے۔ اب منظرنامہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنی حکومتوں کے جاتے ہی نشانے پر آگئی ہے۔ اس وقت ملکی سیاست تہذیب کی پست ترین سطح پر ہے۔ سنجیدہ سیاست دانوں کے بیانات میں اعلیٰ قسم کی جگت بازی کی بو آتی ہے، ایسے بیانات سیاسی مقبولیت کا پہلا زینہ سمجھے جاتے ہیں اور سیاست دان ہر وہ کام کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جسے کبھی گمراہی سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت جب ملک سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحرانوں کا شکار ہے، سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے دو ذاتی ملازمین کو اسلام آباد سے شراب کی برانڈڈ بوتلیں لاہور لے جاتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس گرفتاری سے معلوم ہوتا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ کے گرد سیاسی انتقام کی آکاس بیل چڑھائی جانے لگی ہے اور انہیں ان کے گھر کے بھیدیوں کے ذریعے ایسے مقدمے میں الجھایا جائے گا جسے ثابت کرنا تو ممکن دکھائی نہیں دیتا لیکن ان کی سیاسی ساکھ کو کسی حد تک نقصان ضرور پہنچایا جا سکتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے گرد کئی کیس ابھی محاصرے کے لیے زیرالتوا ہیں۔ ہر روز گرفتاری کی خبریں یا افواہیں آرہی ہیں۔ فواد چودھری الیکشن کمیشن کی درخواست پر گرفتار کیے گئے ہیں۔ اندازہ ہورہا ہے کہ پولیٹکل انجینئرنگ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے۔ مستقبل میں نااہلیوں اور گرفتاریوں سمیت نئی کنگ پارٹی کے نمودار ہونے تک کئی سنگِ میل عبور کیے جائیں گے۔ پارٹیوں کی توڑ پھوڑ اور نئے نئے دھڑوں کا نمودار ہونا بھی اس سارے عمل کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ پہلا سنگِ میل صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے التوا کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ مردم شماری اور حلقہ بندیاں ہونے جارہی ہیں، آئینی طور پر اب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن اُسی وقت ساتھ ساتھ یا قریب قریب ہوسکتے ہیں جب قومی اسمبلی اور دیگر دو صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل ہوں۔ قومی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کا امر بھی حکومت کی طرف سے اس وقت خارج از امکان ہے جبکہ اقتصادی طور پر حکومت کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مستقبل قریب میں اس طرح کے کئی اتحاد متوقع ہیں، لہٰذا کئی کمزور اور ڈبل مائنڈڈ الیکٹ ایبلز بھی حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

سیاسی انجینئرنگ جیسی بھی ہو، اصل میدان تو الیکشن کے دن ہی لگے گا۔ پنجاب اور خیبرپختون خوا کی نگران کابینہ تشکیل پاچکی ہیں جن میں معروف کاروباری افراد، صنعت کار اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس سمیت اہم شخصیات شامل کی گئی ہیں۔ خیبرپختون خوا میں جمعیت علمائے اسلام کو بڑا حصہ ملا ہے، حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین کے رشتے دار کابینہ میں شامل کیے گئے ہیں جس سے غیر جانب دارانہ انتخابات کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ دونوں صوبوں کی نگران حکومتوں کے قیام کے بعد ان کا بنیادی فرض منصفانہ، شفاف اور غیر جانب دار الیکشن کا انعقاد ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اگرچہ ابھی اعلان نہیں ہوا، دونوں نگران وزرائے اعلیٰ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے مینڈیٹ سے آگے نہیں جائیں گے۔ آئین کے مطابق نگران حکومتوں کو 90روز میں نئے انتخابات کرانا ہیں لیکن شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی تشویش ظاہر کی ہے، وہ عمران خان کو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ فوری الیکشن میں سے لفظ ’فوری‘ نکال کر بات چیت کی میز پر آئیں۔ گورنر پنجاب نے انہیں بتایا کہ اسمبلی توڑنے کی سمری پر دستخط نہیں کیے لہٰذا تاریخ دے کر کوئی غیر آئینی کام نہیں کریں گے۔ یہ صورتِ حال ایک نئے سیاسی تصادم کی جانب جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، اسی لیے صدرِ مملکت نے حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر راہ نکالنے کا مشورہ دیا ہے۔ صدرِ مملکت بھی تاریخ کا اعلان نہ ہونے سے تشویش کا شکار ہیں۔ اِس تناظر میں یہ پیش رفت ہوئی کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ملاقات کی جس میں عام انتخابات سے متعلق نئی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ حکمران اتحاد عام انتخابات نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت کرانے پر غور کررہا ہے جس کا آغاز یکم مارچ سے ہونے کا امکان ہے اور اُس کے نتائج30اپریل تک تیار کیے جا سکیں گے، جس کے بعد حلقہ بندیاں ہوں گی، پھر انتخابات ہوں گے۔ تحریک انصاف کے دور میں ہی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل مردم شماری کرائی جائے گی۔ اب مردم شماری کے بغیر الیکشن کا انعقاد اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اِس فیصلے کو تبدیل نہ کیا جائے۔ آئینی مدت کے تحت دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اپریل 2023ء تک کرانے لازم ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور قومی اسمبلی اگست 2023ء میں اپنی مدت پوری کریں گی۔

ایک منظرنامہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 33 نشستوں پر 16مارچ کو ضمنی انتخاب کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ تاہم صوبائی انتخابات کا شیڈول تاحال جاری نہیں کیا جا سکا۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ڈیجیٹل مردم شماری کے بعد ہوں گے یا پہلے؟ یہ فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ یہ بحث ختم ہو، لیکن حکومت کے تیور کچھ اور دکھائی دیتے ہیں، پنجاب اور کے پی کے میں نگران حکومتیں آجانے سے وفاق میں حکمران اتحاد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا ہے، اور تحریک انصاف کے ہاتھ میں سوائے احتجاج کے کچھ نہیں ہے، اسمبلیاں توڑ کر اس نے خود اپنے لیے مشکل پیدا کرلی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کے معاون سمیر احمد سید کا پنجاب کی نگران حکومت میں شامل ہوجانا اس بات کی علامت ہے کہ فیصلوں میں وزیراعظم براہِ راست شریک رہیں گے۔ نگران حکومتوں کے مینڈیٹ کی حد کیا ہے، اسے آئین کے اندر رہتے ہوئے دیکھنا ہوگا۔ کہا جارہا ہے کہ پنجاب میں تمام تبادلے اور تقرریاں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اجازت کے ساتھ کی جارہی ہیں، جب کہ اس نے صوبے کے اندر اور اندرون ملک سرکاری افسروں کے تبادلوں پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نے تمام انتظامی سربراہان کو بھی اس سلسلے میں الیکشن کمیشن سے آزادانہ طور پر رابطہ کرنے سے روک دیا ہے اور ہنگامی صورتِ حال میں الیکشن کمیشن کی منظوری حاصل کرنے کے لیے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے ذریعے درخواستیں ارسال کی جائیں گی۔

سیاست دلیل، مذاکرات، بات چیت کے داؤ پیچ کا کھیل ہے، یہ ذہن سے سوچ کر کام کرنے اور اپنی بات منوانے کا کھیل بھی ہے۔ اس میں زور آزمائی اور پہلوانوں کی طرح جسم کی طاقت کا اظہار نہیں کرنا ہوتا، ایسے کھلاڑی سیاست کے کھیل کی نزاکتوں سے قطعی نابلد ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے انتخابات کی تاریخ لیے بغیر پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں تحلیل کرکے یہی کچھ کیا ہے۔ وہ وفاقی حکومت کو طعنہ دیتے تھے کہ پنجاب کی حکومت چھن جانے سے اب شہبازشریف 27 کلو میٹر کے وزیراعظم رہ گئے ہیں، مگر جلدبازی میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں تحلیل کرکے تحریک انصاف اب خود کہاں کھڑی ہے، اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ابھی سفر کس قدر کٹھن ہے اور راستہ کس قدر ناہموار اور منزل کتنی دور ہے، اس کا انہیں اندازہ ہوچکا ہے۔ مستقبل کی سیاسی تصویر کچھ اس طرح بن رہی ہے کہ دنگل ہوتا ہوا صاف نظر آرہا ہے اور بگل بج چکا ہے۔ تحریک انصاف کا سارا منصوبہ راولپنڈی اور گوجر خان سے پہلے ہی پگھل گیا تھا، اب اس میں دوبارہ طاقت پکڑنے کی ہمت نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے سارے پتّے گم ہوجانے کے بعد فیصلہ کیا کہ اسمبلی میں واپس جائیں، قومی اسمبلی میں نومنتخب رکن کی حیثیت سے حلف اٹھائیں، اور راجا ریاض کو قائد حزبِ اختلاف کے عہدے سے ہٹاکر اس مسند پر خود بیٹھا جائے، لیکن اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پہلے مرحلے میں 35 اور دوسرے مرحلے میں مزید 35 استعفے منظور کرکے سارا منصوبہ ہی ملیا میٹ کردیا۔ پھر سوچا گیا کہ مخصوص نشستوں پر خواتین کی نئی فہرست دی جائے تاکہ راجا ریاض کو قائد حزبِ اختلاف کے عہدے سے ہٹا دیا جائے، فیصلہ یہی تھا کہ خواتین کے ذریعے قومی اسمبلی میں نمبر پورے کیے جائیں گے تو یقیناً ان خواتین کو فوقیت دی جائے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ داؤ پیچ آتے ہوں اور ’دم‘ بھی ہو۔ کئی مہینوں سے یہ مشورہ دیا جارہا تھا، بلکہ چیف جسٹس نے بھی کہا تھا کہ اسمبلی میں واپس جائیں، لیکن کسی نے ایک نہیں سنی۔ پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر کو نئی درخواست دے کر اپنا راستہ ایک بار پھر مسدود کردیا ہے، اب جب تک فیصلہ نہیں ہوگا خواتین کی نشستوں کی آئینی شق پر عمل درآمد بھی معطل رہے گا، کیونکہ حکم نامہ الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی ہے۔ یہ مقدمہ بھی عدالت میں ہے۔ تحریک انصاف اب عدالتوں کے پھیرے لگاتی نظر آرہی ہے۔ وہ پنجاب کے الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ بذریعہ عدالت لینا چاہتی ہے۔ ایسے ہی خیبر پختون خوا کا فیصلہ عدالت میں، عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ عدالت میں، توہینِ الیکشن کمیشن کا فیصلہ عدالت میں، جھوٹے حلف نامے کا فیصلہ عدالت میں، توشہ خانہ عدالت میں، ممنوعہ فنڈنگ کیس عدالت میں، پارٹی سربراہی کا معاملہ عدالت میں ہے۔ اب اعلان ہوا ہے کہ دو ہفتوں کے بعد پھر باہر نکلوں گا۔ اب تو نہ پنجاب پولیس، نہ پروٹوکول، نہ سرکاری ملازمین، نہ دیگر سہولتیں… اور یہی حال خیبر پختون خوا میں ہوگا۔ خبر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بنی گالہ منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے، آئندہ چند روز میں وہ بنی گالہ منتقل ہوں گے، بنی گالہ رہائش گاہ کی سیکورٹی بڑھائی جارہی ہے، اور عمران خان کی پرائیوٹ سیکورٹی میں بھی اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سیکورٹی کے لیے نجی کمپنی کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ بنی گالہ میں عمران خان کے لیے دو خصوصی بلٹ پروف کمرے تیار کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔