انتخابات کا راستہ موجودہ حکمرانوں کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا
پاکستان کی سیاست مجموعی طور پر مختلف نوعیت کے سیاسی اورغیر سیاسی تجربات سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے طاقت ور طبقات ہوں یا فیصلہ ساز… وہ معاملات کو اپنی خواہشات کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہی ہے۔ سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی میں جو عدم استحکام دیکھنے کو ملتا ہے اس کی بھی بنیادی وجہ سیاسی مہم جوئی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے ماضی کے تجربات سے سبق نہیں سیکھا، اور تواتر کے ساتھ انہیں شدت سے دہرا رہے ہیں۔ اس کا قصوروار کون ہے؟ یقیناً وہی ہیں جو فیصلہ ساز ہیں اور فیصلے کی طاقت رکھتے ہیں، باقی لوگوں یا فریقین کی حیثیت تو محض اس کھیل میں رنگ بھرنے والوں کی ہوتی ہے۔ ہم نے سیاست، انتخابات، اقتدار اور عوامی حمایت کی بنیاد پر حکومتوں کی تشکیل کے کھیل کو عملاً بطور ہتھیار استعمال کیا ہے، کیونکہ عوامی حمایت سے بننے والی حکمرانی کا عمل ہماری قومی سیاست میں اپنی حیثیت کو نہیں منوا سکا۔ اسی لیے یہاں جمہوری عمل ابھی تک اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے اور ہمیں جمہوری یا سیاسی حکمرانی کے تناظر میں بہت زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔
اس وقت بھی پاکستان کا سیاسی بحران تواتر کے ساتھ بڑھ رہا ہے جو فریقین میں محاذ آرائی، ٹکرائو، تنائو اور الجھائو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے پی ٹی آئی کے 123 ارکان کے استعفے قبول کرلیے گئے ہیں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے عملی طور پر ان استعفوں کی قبولیت کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کو بھی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتوں نے تحلیل کردیا ہے۔ عملی طور پر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کا 65 فیصد ہائوس خالی ہوگیا ہے۔ قانون کے مطابق صوبائی انتخابات اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90روز میں کروانا آئینی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابی عمل کا انعقاد 60دن میں کروانا بھی آئینی ذمہ داری ہے۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ اگر دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی اور قومی اسمبلی سے استعفے قبول ہوں گے تو اس کے نتیجے میں دو صوبائی انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات ہوں گے۔ حکومت کے بقول وہ کسی بھی صورت میں عمران خان کی دھمکیوں یا دبائو میں آکر عام انتخابات کا راستہ اختیار نہیں کرے گی۔
لیکن حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت حکمران طبقے کو کسی بھی صورت میں دونوں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کا انعقاد اپنے حق میں نہیں لگتا۔ حکومت کے بقول ایک طرف عمران خان کی سیاسی مقبولیت ہے تو دوسری طرف حکومت کی سیاسی اور معاشی کارکردگی ہے۔ کیونکہ اس حکومت نے عوام کو کسی بھی سطح پر نہ صرف معاشی ریلیف نہیں دیا بلکہ پہلے سے بھی بدتر معاشی حالات کردیے ہیں، ایسے میں انتخابات کا راستہ موجودہ حکمرانوں کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ حکومت کا یہی خیال تھا کہ پی ٹی آئی دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ نہیں کرسکے گی، مگر پی ٹی آئی کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے نے حکومتی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اوّل عمران خان فوری طورپر عام انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں اور دوسری طرف ان کی جانب سے یہ بھی دبائو موجود ہے کہ دونوں صوبائی اورقومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کیا جائے۔ عمران خان خود بھی اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ حکومتی اتحاد انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے۔
حکومتی اتحاد بالخصوص مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اورجے یو آئی سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہیں اورکوئی ایسا راستہ نکالنا چاہتی ہیں جو ان کے حق میںہو۔ پیپلزپارٹی سے زیادہ پریشانی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختون خوا میں مولانا فضل الرحمٰن کو ہے، کیونکہ ان دونوں صوبوں میں بڑی سیاسی حقیقتیں مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کی صورت میں موجود ہیں۔ حکمران اتحاد کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ابتدائی طور پر ان دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرواتے ہیں اور نتیجہ ان کے حق میں نہیں آتا تو ایسی صورت میں عام انتخابات کی کیا اہمیت باقی رہ جائے گی! یہی وجہ ہے کہ حکومتی اتحاد کی جانب سے ان آپشنز پر غور کیا جارہا ہے:
1۔ ملک کی معاشی بدحالی یا صورتِ حال کو بنیاد بناکر عملاً ان دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کو موخر کردیا جائے۔
2۔ پہلے مردم شماری کی جائے، اور اس کے نتائج کے بعد عام انتخابات سمیت دونوں صوبائی یا قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کا انعقاد ہو۔
3۔ الیکشن کمیشن سے یہ درخواست کی جائے کہ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کو عام انتخابات تک ملتوی کردیا جائے، کیونکہ ان کے بقول اسمبلی کی مدت میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں، اس لیے الیکشن کمیشن کو ضمنی انتخابات سے گریز کرنا چاہیے۔
4۔ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو اکتوبر 2023ء تک موخر رکھا جائے، اور پہلے صوبائی سطح کے انتخابات کے فیصلے کو پس پشت ڈال کر بس عام انتخابات کا راستہ اختیار کیاجائے۔
5۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ پہلے احتساب ہو، پھر انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے۔
حکومتی اتحاد کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جب تک ملک کے معاشی حالات میں بہتری نہیں آتی اور ہم کسی بھی حوالے سے عوام کے لیے معاشی ریلیف کو یقینی نہیں بناتے، ہمیں انتخابات کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ حکومتی اتحاد میں شامل بہت سے لوگ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ اِس برس اکتوبر میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، اور ان کے بقول عام انتخابات کو ایک برس کے لیے آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں انتخابات میں جانے کے حق میں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف حکومتی اتحاد ہی نہیں بلکہ حکومت کا حمایتی میڈیا اور حمایت یافتہ صحافی بھی بڑی دلیری کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں انتخابات بھی مسئلے کا حل نہیں اور انتخابی عمل مزید بحران پیدا کرے گا۔ یعنی حکومت کی کوشش ہے کہ کسی بھی طریقے سے انتخابات کے انعقاد کے خلاف ماحول بنایا جائے۔ اب مسئلہ سادہ سا ہے کہ چاہے عام انتخابات کا بروقت یعنی اکتوبر 2023ء میں انعقاد ہونا ہے یا پہلے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات یا قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کو آئینی مدت کے اندر نہیں کروانا تو پھر اس سے بچنے کے لیے جہاں مختلف سیاسی اقدامات کرنے ہیں، وہیں ان کو عدالتوں کو بھی اپنے فیصلوںکی توثیق کے لیے استعمال کرنا پڑے گا۔
اسی طرح اسلا م آباد کے سیاسی حلقوں میں یہ خبر بھی زیر بحث ہے کہ حکمران اتحاد کے مقابلے میں ایک یا دو برس کے لیے ’’ معاشی ماہرین پر مشتمل عبوری حکومت ‘‘ یا تمام جماعتوں پر مشتمل ’’ قومی حکومت‘‘بنادی جائے تاکہ سیاست کو پیچھے چھوڑ کر معیشت پر توجہ دی جائے۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ صوبائی سطح پر بننے والی دو نگراں حکومتیں ہی لمبے عرصے کے لیے عبوری طور پر حکومت کا کردار ادا کریں گی۔یہ سارا کھیل ظاہر کرتا ہے کہ ملک کو سیاسی، آئینی یا قانونی بنیادوں یا تقاضوں کے مطابق چلانے اور جمہوری عمل میں تسلسل کو برقرار رکھنے کے بجائے یہاں سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز کے کھیل میں رنگ بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ تقاضا یہی تھا کہ آئینی طریقے سے معاملات کو چلایا جائے اور انتخابات کو ہی بنیاد بنا کر آگے بڑھا جائے۔ اصولی طور پر تو فریقین میں موجودہ حالات میں عام انتخابات پر ہی اتفاق ہونا چاہیے اور یہی بہتر راستہ بھی ہے۔ لیکن اگر اس پر اتفاق نہیں ہوتا تو پھر صوبائی اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کو اختیار کرنا ہی آئینی تقاضا ہوگا۔ انتخابات سے محض اس بنیاد پر فرار اختیارکرنا کہ یہ کسی جماعت کے حق میں ہوں گے اورکسی جماعت کے حق میں نہیں ہوں گے یہ درست حکمت عملی نہیں ہوگی۔ ایک بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ اگر انتخابی عمل سے فرار کا راستہ یا اس عمل میں تاخیری حربے، یا کسی بھی سطح پر انتخابات کے مقابلے میں متبادل راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو اس کا ملبہ محض حکومتی اتحاد پر ہی نہیں گرے گا بلکہ خود اسٹیبلشمنٹ پر بھی گرے گا، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ان حالات میں خود کو نہیں بچاسکے گی اور عوام سمجھیں گے کہ جو کچھ اس ملک میں ہورہا ہے یا جو فیصلے سامنے آئے ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی براہِ راست الزام لگایا ہے کہ انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے، اور مقصد اُن کو عملاً انتخابی عمل سے باہر کرنا یا سیاسی طور پر نااہل کرنا ہے۔ عمران خان نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ آصف علی زرداری ان کی جان لینا چاہتے ہیں اوران کو قتل بھی کیا جاسکتا ہے جس کے لیے کالعدم مذہبی تنظیموں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو نہیں معلوم کہ عمران خان کے آصف علی زرداری پر الزامات میں کتنی صداقت ہے، مگر ایک بات طے ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ اس سے قبل بھی وزیر آباد میں ہونے والے قاتلانہ حملے سے قبل وہ کہہ چکے تھے کہ ان کو قتل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اس کا الزام مذہبی شدت پسندوں پر لگایا جائے گا اور ان کا حشر بھی سلمان تاثیر کی طرح کا ہوگا۔ عمران خان کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا، اور انہوں نے جو کہا وہ سامنے بھی آیا۔ اس لیے ان کی سیکورٹی کا مسئلہ اہم ہے۔ اس وقت کے پی کے، پنجاب اوراسلام آباد میں ان کی سرکاری سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے جس سے ان کی زندگی کو مزید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ عمران خان کے بقول اُن کو بار بار یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اُن پر اور اُن کی جماعت پر ریڈلائن لگادی گئی ہے اور اب اُن کو اقتدار کی سیاست میں کسی بھی طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ ریڈلائن کس نے لگائی ہے اورکیوں لگائی ہے، یہی وہ سوال ہے جس کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر بھی لگ رہا ہے جو خود اُس کے حق میں نہیں ہے۔
اس لیے ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھنا چاہیے کہ انتخابات کا راستہ ہی واحد راستہ ہے جو اس وقت ملک کو سیاسی بحران سے نکال سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ انتخابات میں کوئی مہم جوئی اور سیاسی مداخلت نہ کی جائے، اور یہ شفاف ہوں۔ جو بھی انتخابات میں کامیابی حاصل کرے اس کے مینڈیٹ کو خوش دلی سے قبول کیا جائے۔ کوئی پالیسی کسی کو لانے یا نکالنے پر مبنی نہیں ہونی چاہیے، اور اس بات کو یقینی بنانا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ انتخابات شفاف ہوں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ فریقین مل بیٹھ کر انتخابات سے قبل انتخابات کی شفافیت یا اصلاحاتی فریم ورک پر متفق ہوں تاکہ انتخابات متنازع حیثیت اختیار نہ کرسکیں۔ اس وقت بدقسمتی سے انتخابات سے قبل بننے والی دو صوبائی نگران حکومتوں کی تشکیل اور قومی اسمبلی سے استعفوں کی قبولیت (تاکہ نگران وزیراعظم کے چنائو سے پی ٹی آئی کو باہر نکالا جاسکے) کے عمل نے آنے والے انتخابات کی شفافیت پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ اس لیے جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ ہماری سیاست، جمہوریت اور انتخابات کے حق میں نہیں ہوگا۔