’’کھلی چھٹی‘‘ ختم ہونے والی ہے

مکمل تاریکی ایسے معاشروں کی علامت ہوتی ہے جہاں روشنی کے تمام راستے بند ہوجائیں۔ آپ کو کہیں سے بھی انصاف کی توقع نہ رہے۔ آپ ایک ایسی بند گلی میں آجائیں جہاں سے بھاگ نکلنا ممکن ہی نہ ہو۔ ایسے معاشروں کے انسان خود کو ایک زیرزمین تہہ خانے میں قید محسوس کرتے ہیں جہاں کسی قسم کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا جس سے وہ سر ٹکرا سکیں یا کوئی روشن دان جس سے ہوا اور روشنی کی اُمید لگا سکیں۔ مایوسی کا یہ عالم انتہائی خوفناک ہوتا ہے، مگر اس خوفناکی میں ایک پُرزور طوفان چھپا ہوتا ہے۔ زوال کی طرف گامزن پاکستان کا معاشرہ آہستہ آہستہ ایک ایسی ہی بند گلی میں آنکلا ہے جہاں سے آگے جانے کے لیے تو راستہ ہی نہیں ہے مگر پیچھے مڑنا بھی موت ہے۔ ہم ان حالات تک ایک دن میں نہیں پہنچے۔ ہم پر یہ تاریکی آہستہ آہستہ مسلط ہوئی ہے۔ جب کبھی اس ملک کے ایک طبقے پر ایسی تاریکی مسلط ہوتی تھی تو دیگر طبقات میں سے کچھ گروہ بہت خوش ہوتے تھے، جبکہ باقی طبقات خاموشی سے اپنے کام دھندوں میں مصروف رہا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم نے ایک ایسا قومی رویہ اختیار کرلیا کہ اگر میرے ساتھ ناانصافی اور ظلم نہیں ہورہا تو پھر باقی پورا شہر بے شک ظلم سے بلبلاتا رہے، مجھے اس کی پروا نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری بداعمالیوں کا ایک عالم یہ بھی رہا ہے کہ اگر کوئی ظالم، خائن، جھوٹا، بددیانت یا چور ہماری اپنی صفوں میں سے ہے، ہماری برادری سے تعلق رکھتا ہے، ہمارے قبیلے کا فرد ہے، ہماری سیاسی پارٹی کا سربراہ یا ہمارا ہی لیڈر ہے تو پھر ہم اُس کی تمام برائیوں کا سرعام دفاع کرتے رہے۔ ہم ایک ایسا بدقسمت معاشرہ بنتے چلے گئے جس میں ایک عام آدمی سے لے کر ایک باشعور سیاسی رہنما بلکہ دانشور تک، نہ صرف اپنی مجلسوں میں بلکہ عوامی جلسوں اور ٹیلی ویژن مباحثوں میں بھی ایسا سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ وہ جس شخص کا دفاع کررہا ہے وہ چور ہے، بددیانت ہے، قاتل ہے، مگر پھر بھی ڈھٹائی سے اُس کے حق میں دلیلوں پر دلیلیں پیش کرتا رہا۔ ہمیں بخوبی علم تھا کہ ہمارا فلاں رہنما گھنائونے جرائم میں ملوث ہے، لیکن ہمارے ضمیر نے ایک لمحے کے لیے بھی ہمیں نہیں جھنجھوڑا۔ معاملہ اگر صرف سیاست دانوں تک رہتا تو ہم اسے سیاسی مزاج کی بنیادی خرابی سے تعبیر کردیتے۔ لیکن یہ مکروہ اور خوفناک رویہ تو ہمارے ہر طبقۂ خیال اور ہر معاشرتی گروہ میں سرایت کر گیا۔ ایک وکیل اگر اشارہ توڑ کر نکلا اور ٹریفک کانسٹیبل نے اسے روک کر چالان کاٹنے کی ’’جسارت‘‘ کی تو خبر ملتے ہی وکیلوں کا غول اس نہتے کانسٹیبل پر ٹوٹ پڑا اور اسے نشانِ عبرت بنادیا۔ ڈاکٹر اگر کسی دواساز کمپنی سے رشوت میں گاڑی یا بیرونِ ملک سفر کی سہولت لے کر اپنے مریضوں کو غلط ادویہ دیتا رہا، انہیں تجرباتی کھلونے یعنی “Guinea Pig” بناتا رہا اور ایسے میں مریضوں کی موت واقع ہوگئی، مرنے والوں کے لواحقین سڑکوں پر نکل آئے تو تمام ڈاکٹر ایسے ڈاکٹروں کے دفاع پر متحد ہوگئے۔ سول سروس، پولیس اور دیگر محکمے تو مدتوں سے اس سلسلے میں بدنام تھے ہی کہ وہ اپنی صفوں میں موجود مجرموں کی پردہ پوشی کیا کرتے تھے، لیکن آہستہ آہستہ ایسے ادارے جنہیں اس ملک میں انصاف قائم کرنا تھا، جن کے ہاتھ میں میزانِ عدل تھی، اُن کے خلاف بھی جب اِکاّ دُکاّ آواز بلند ہوئی تو توہینِ عدالت کی خوفناک تلوار گلیوٹین (Guillotine) کی طرح لہرانے لگی تاکہ گستاخوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کیا جائے۔ وہ ’’مردانِ میدان‘‘ کہ جن کے بارے میں ہم یہ گیت گایا کرتے تھے ’’تیرے پیراں دی مٹی چُمن میریاں اکھاں‘‘ (تمہارے پائوں کی مٹی میری آنکھیں چومتی ہیں) کے بارے میں تو سوال کرنا ایسے ہوگیا جیسے ہم انیسویں صدی کے ہندوستان کی غلام اور مجبور رعایا ہوں اور اگر ہم نے آواز اُٹھائی تو 1860ء میں بنائے گئے کالے قوانین کی شق 124 کے تحت ہم باغی قرار دیئے جائیں گے اور غدار بھی۔ بار بار یہی چند ’’مردانِ میدان‘‘ کروڑوں لوگوں کو کبھی روس کے خلاف امریکہ کی جنگ میں جھونکنے کا فیصلہ کرتے تھے اور کبھی افغان مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی دہشت گردی والی جنگ کا ایندھن بنا دیتے تھے۔ لیکن سوال کرنے والے، الامان، الحفیظ میں ان کے غضب کے پائوں تلے بُری طرح روندے گئے، عدالتوں میں منہ پر کالے کپڑے ڈال کر گھسیٹے گئے، کئی ماہ بلکہ کئی سال تک لاپتا ہوگئے، لیکن ہم میں لاتعداد ایسے لوگ تھے جو ’’قومی مفادات‘‘ کے نام پر اس سب کچھ کا دفاع کرتے رہے۔ یہ دفاع کرنے والے کچھ تو اس قدر ظالم تھے کہ وہ اس ملک کے عوام کے ’’حقیقی‘‘ سربراہ تھے مگر پسِ پردہ امریکیوں سے کہتے تھے: اگر تم پاکستانیوں پر ڈرون گرائو گے، یہاں انسانوں کی لاشوں کے پرخچے اُڑائو گے، مگر ہم پھر بھی بالکل احتجاج نہیں کریں گے۔ ہمارے علماء جس طرح گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر مسلک میں جس طرح کے تعصبات پائے جاتے ہیں، اس سے خوف آتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآنِ پاک کی آیات اور احادیثِ مبارکہ کی تعلیمات پڑھ رکھی ہیں لیکن شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور دیگر تمام فرقوں کے پیروکار اپنے افراد کا ناحق دفاع بھی کرتے ہیں اور ان کے ظلم اور ناانصافیوں پر تاویلیں بھی پیش کرتے ہیں۔ ایسا رویہ، ایسی بے حسی اور صاحبانِ حیثیت و اقتدار کا یہ عالم کس چیز کی علامت ہے؟ ایسی حالت کب اور کیوں پیدا ہوتی ہے؟ پورا معاشرہ ہی بدترین تاریکی میں کیوں ڈوب جاتا ہے؟ میرا اللہ اس صورتِ حال کی کھل کر وضاحت فرماتا ہے۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی قوم کے لوگوں سے ناراض ہوجاتا ہے تو پھر ان کو برباد کرنے سے پہلے ایک انتہائی اہم فیصلہ صادر فرماتا ہے ’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے ’’خوش عیش‘‘ لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور پھر وہ اس بستی میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں۔ یوں اس بستی پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر ہم اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں‘‘ (بنی اسرائیل:16)۔ ’’خوش عیش‘‘ عمومی طور پر ’’مترفین‘‘ کا لفظی ترجمہ کردیا جاتا ہے جبکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ معاشرے میں ہر طبقے پر قابض اہم ترین افراد۔ یعنی جب یہ افراد برائیوں کا سرچشمہ بن جاتے ہیں تو پھر وہ معاشرے میں ہر اصلاحی، اخلاقی اور انسانی آواز کو روند دیتے ہیں۔ اس آیت میں ایسے معاشرے میں موجود لوگوں کو دراصل ایک وارننگ دی گئی ہے کہ اپنی حکومت و اختیار ’’مترفین‘‘ یعنی نفسانی خواہشات میں لت پت دولت مندوں کے ہاتھ میں نہ دیں، ان کے پیچھے نہ لگیں کیونکہ انہی افراد کی وجہ سے ایک دن ان کے معاشرے کو ہلاک کرنے کا فیصلہ صادر کردیا جائے گا۔ کیا ہماری ہلاکت کا فیصلہ صادر ہوچکا ہے؟ اس سوال کا جواب ہمارے اس روّیے پر منحصر ہے کہ کیا ہم نے اپنے ’’مترفین‘‘ یعنی صاحبانِ حیثیت و اقتدار کی بداعمالیوں، ظلم اور سرمستیوں کے خلاف بحیثیت قوم اُٹھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کیا ہم اس قابل ہو چکے کہ ہم غداری و بغاوت کے الزام، توہینِ عدالت کی تلوار اور کفر کے فتوے کی پرواکیے بغیر حق کو حق کہہ سکیں۔ ان لوگوں کا گریبان پکڑ سکیں۔ ہمیں اب تک ’’کھلی چھٹی‘‘ ملی ہوئی تھی کہ ہم کچھ کر گزریں اور ان ’’خوش عیش‘‘ لوگوں کو بھی مہلت ملی ہوئی تھی کہ وہ ظلم اور ناانصافی کرتے رہیں۔ اہلِ نظر کہتے ہیں کہ وہ چھٹی اب ختم ہونے والی ہے۔ اس سے پہلے کہ میرا اللہ ہماری ہلاکت کا فیصلہ کرے، سنبھل جائو ورنہ سب کچھ خس و خاشاک ہو جائے گا۔
(اوریا مقبول جان۔ روزنامہ 92 نیوز، منگل 31 جنوری 2023ء)