’’…کسی بھی معاشرے میں مذہب کا اصولی محافظ کون ہے؟ جواب ہے: عورت۔ مسلمان عورت کو صحیح مذہبی تعلیم حاصل ہونی چاہیے کیونکہ عملاً وہی معاشرے کی معمار ہے۔ میں ایک مطلق نظام ِتعلیم کا قائل نہیں۔ تعلیم، دوسری اشیا کی طرح، معاشرے کی ضروریات سے متعین ہوتی ہے۔ ہمارے مقصد کے پیشِ نظر مذہبی تعلیم مسلمان عورت کے لیے کافی ہے۔ ایسے تمام مضامین جن میں نسوانیت اور مسلمانیت سے محروم کردینے کا رجحان پایا جائے، احتیاطاً نظامِ تعلیم سے خارج کردینے چاہئیں، مگر ہمارے ماہرینِ تعلیم ابھی تک اندھیرے میں ٹٹول رہے ہیں۔ وہ ابھی تک اس قابل نہیں ہوئے کہ اپنی بچیوں کے لیے تعلیم کا نصاب مقرر کرسکیں۔ شاید وہ مغربی تصورات کی کشش سے اس قدر چندھیا چکے ہیں کہ ایک طرف اسلام جو خالصتاً ایک ذہنی تصور یعنی ’’مذہب‘‘ کی بنیاد پر قومیت کی تعمیر کرتا ہے اور دوسری طرف ’’مغربیت‘‘ جس میں قومیت کا تصور ایک مادی شے یعنی ’’ملک‘‘ سے عبارت ہے، میں فرق نہیں سمجھ سکے‘‘۔
(منتشر خیالاتِ اقبال، مترجم: میاں ساجد علی، ص53، 54)