(دوسرا اور آخری حصہ)
وادی سندھ سے برآمد ہونے والی مہروں پر کندہ نشانات کی تعداد مختلف ماہرین آثار قدیمہ نے مختلف بتائی ہیں،مہروں کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وادی سندھ کے رسم الخط میں کام کرنے والے نشانات کی تعداد تقریباً750ہے۔ وادی سندھ کے رسم الخط میں اس دور کے تمام اہم رسم الخط سے پائی جانے والی مماثلت،مشابہت اور مطابقت ایک حیرت انگیز بات ہے جس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔بعض ماہرین آثار قدیمہ کی رائے میں موئن جو دڑو کا خط ہیرو غلافی،سومیری رسم الخط سے مماثل ہے، جبکہ بعض ماہرین نے اسے قبل از دراوڑی رسم الخط قرار دیا ہے۔مولانا ابو الجلا ل ندوی کا دعویٰ ہے کہ دنیا کہ تمام رسم الخط وادی سندھ کے رسم الخط سے برآمد ہوئے اور دنیا کی تمام تر زبانوں کے حروفِ تہجی کا سلسلہ آخر کار وادی سندھ پر جاکے مل جاتا ہے۔وادی سندھ کی زبان عربی کی ابتدائی شکل تھی اور عربی زبان ہی دنیا کی فطری زبان ہے۔
فہرست ابن ندیم جو چوتھی صدی ہجری کی کتاب ہے اس کے مصنف محمد بن اسحاق کے پہلے مقالے میں وادی سندھ کے رسم الخط کے چار نمونے دئیے گئے ہیں۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وادی سندھ کا رسم الخط چوتھی صدی ہجری میں دنیا ئے عرب میں مشہور ومعروف تھا،جبکہ مارشل کا دعویٰ ہے کہ اس نے1920ء میں کھدائی کے بعد اس رسم الخط کی مہریں دریافت کیں۔لہٰذا ابن ندیم نے مارشل سے آٹھ سو برس قبل اس خط کا ذکر کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری میں یہ خط مستعمل تھا۔
وادی سندھ کا رسم الخط ابھی تک طلسم ہوش ربا ہے لیکن مولانا ابو الجلال ندوی نے اپنے علم سے اس طلسماتی خزانے کو کھوجنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش کا ثمر ان کا تیار کردہ تختہ نقوش ہے۔اس تختہ نقوش کی مدد سے وادی سندھ کی مہروں کو پڑھا جاسکتا ہے۔مولانا ندوی کے دعوے کے مطابق انہوں نے اس تختے کی مدد سے چھ سو مہریں پڑھ لی تھیں لیکن دنیا بھر کے ماہرین آثار قدیمہ عربی اور عبرانی حروف کے ذریعے وادی سندھ کی مہروں کو پڑھنے پر آج بھی آمادہ نہیں ہیں۔
سجاد حیدر علی قادری اپنے ایک تحقیقی مقالے میں تحریر فرماتے ہیں کہ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لفظِ ہند جو آج کل گنگا وجمنا کے میدانوں کے حامل پڑوسی ملک کے نا م کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے دراصل سندھ ہی کی ایک تبدیل شدہ شکل ہے،اِس امر کی تائید دنیا کی ایک قدیم کتاب ژنداوستا سے ہوتی ہے۔ژنداوستا پارسی یا آتشی مذہب کی سب سے متبرک اور مقدس کتاب ہے۔یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ ایران میں رہنے والے اور فارسی بولنے والے بھی دراصل آریا النسل ہیںجو کسی وجہ سے ایران میں آباد ہوگئے تھے۔انہوں نے سندھ کے نام کو اپنی سب سے مقدس کتاب میں درج کرکے سندھ کی عظمت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔اس طرح سندھ کے نام کو رگ وید کے بعد دنیا کی ایک اور قدیم کتاب اور اس خطے کے کسی دور کے سب سے بڑے مذہب کی مقدس کتاب میں بھی درج ہونے کا شرف اور اعزاز حاصل ہوا۔اس زمانے میں ایران میں رہنے والے آریائوں اور باقی آریائوں کی زبان میں فرق تھا اور خاص طور پر وہ لفظ ’س‘کو ھ سے بدل دیتے تھے،اس بات کا ثبوت فارسی لفظ ’ہفت‘ ہے۔دراصل اصل لفظ سنسکرت کا سپت ہے جس کے معنی بھی سات ہی ہے لیکن جب یہی لفظ فارسی میں آیا تو انہوں نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے پ کو ف سے اور سین کو ھ سے بدل دیا،ایرانی آریائوں کی اس روایت کا دوسرا ثبوت خود ان کی کتاب ژنداوستا سے بھی ملتا ہے جس میں انہوں نے لفظ سوم کو ہوم لکھا ہے،سوم دراصل ایک بوٹی ہوتی تھی جس کو آریا اپنا اجایا دیوتا بھی مانتے تھے، پوجا کے وقت اس کو پیتے بھی تھے اور دیوتائو ں کو بھینٹ بھی چڑھایا کرتے تھے۔رگ ویدمیں اس بوٹی کے لیے لفظ سوم استعمال ہوا ہے لیکن جب یہی لفظ ژنداوستا میں استعمال ہوا تو سوم کے بجائے ہوم بن گیا۔
یونانیوں کو بھی سندھ کا علم ایرانیوں ہی کے ذریعے ہوا تھا(ایرانی سندھ کو اپنی زبان کی وجہ سے ہند کہتے تھے)،اس لیے سکندر اعظم کے ساتھ جو تاریخ نویس آئے تھے انہوں نے بھی اس ملک کو ہندو (سندھو) ہی کہا، لیکن یونانی زبان ہونے کی وجہ سے ہندو کے ساتھ ’ئی‘بھی لگانے لگے، یعنی سندھ کا تلفظ ایرانی لفظ ہندو سے مزید تبدیل ہوکر ہندوئی یا انڈوئی بنا۔یونانیوں نے دریائے سندھ کو انڈوس کا نام دیا۔اس سارے خطے کو کل ملاکر انڈیکا اور انڈیکوس کہا جانے لگا۔اس طرح ایک لفظ سندھو تاریخ اور وقت کے بہائو میں بہتا ہوا اور مختلف زبانوں کے حرفی ونحوی سانچوں میں ڈھلتا ہوا سندھو سے ہندو اور ہندو سے انڈوئی اور انڈیکا اور انڈیکوس بنا اور بعد میں ہند اور انڈیا کی شکل اختیار کرنے کے بعد ہندوستان کے نام کی شکل اختیار کرگیا۔ظہورِ اسلام کے بعد لفظ ہندو کے معنی میں اور بھی تبدیلی ہوئی اور ہندو کو عام معانی پر ہمنی آریائی مذہب کو ماننے والے کے مفہوم میں لیاجانے لگا۔
سندھ کی جغرافیائی حدود کی تحقیقات سے بھی مذکورہ بالا دعوے کی تصدیق ہوتی ہے،ایک صدی قبل شمالی علاقہ جات میں تعینات برطانوی فوجی کرنل الجیرنن ڈیورانڈ اپنی کتاب سرحدوںکی تلاش میں لکھتے ہیں کہ گلگت ایجنسی کی حدود تقریباً وہی ہیں جسے خطہ درستان کا نام دیا جاتا ہے۔درستان جن علاقوں پر مشتمل ہے ان میں چترال کی ریاست یاسین، پنیال، وادی گلگت، ہنزہ نگر،وادی استور(بونجی سے باتیرا تک) کوہستان ملازئی یعنی دریائے پنجگورا کا شمالی علاقہ اور سوات کا کوہستان شامل ہے۔وادی سندھ کا جو حصہ درستان میں شامل ہے اس کے دو بڑے حصے ہیں جن کو بالائی اور زیریں حصے کہا جاتا ہے۔بالائی حصے میں گور،چلاس،داریل اور تنگیر کی ریاستیں پائی جاتی ہیں اور زیریں حصے کو کوہستان کہا جاتا ہے۔اس زیریں حصے میں دریائے کانڈیا سے لے کر باتیرا تک کا علاقہ شامل ہے جس کے باشندے دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر آباد ہیں، جبکہ بائیں کنارے پر بسنے والے باشندوں کو در کہتے ہیں۔قدیم جغرافیہ دانوں مثلاً پلائی نی اور پٹولیمی نے یہ لفظ اس خطے کے باسیوں کے لیے استعمال کیا لیکن درستان کی جغرافیائی حدود کا تعین نہیں کیا،تاہم ہم بڑی آسانی سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ وادیِ سندھ کا تمام پہاڑی علاقہ ہندوستان کے میدانوں سے لے کر شمال میں دریائے سندھ کے منبع تک در قبائل کا علاقہ تھا۔
جدید تحقیقات کے مطابق جاپان کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ہیو مینٹی اینڈ نیچر کے تحت انڈس پراجیکٹ نامی ایک ریسرچ اسٹڈی کے تحت جاپان کی کیوٹو یونیورسٹی کی جانب سے اس تحقیق پر مبنی رپورٹس شائع کی گئیں۔ یہ رپورٹس ’’وادیِ سندھ… جنوبی ایشیا میں ابتدائی تہذیب کا تحقیقی جائزہ‘‘ اور ’’وادیِ سندھ کے راز‘‘ کے عنوانات سے شائع کی گئیں مذکورہ رپورٹس کو پروفیسر اوساڈا نے اپنی ٹیم کی جامع تحقیقات کے بعد شائع کیا۔انڈس پراجیکٹ کی ٹیم میں مختلف ممالک سے چالیس ریسرچ اسکالرز شامل رہے جو جاپانی محققین کی سربراہی میں کام کرتے رہے۔اس ٹیم نے تاریخ میں پہلی مرتبہ وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب سے وابستہ دوکھنڈرات بھارت کی جغرافیائی سرحد کے اندر تلاش کیے۔ان جگہوں کی کھدائی کے بعد تحقیقی ٹیم کی ساری توجہ اس جانب مرکوز رہی کہ وہ کو ن سے عوامل تھے جنہوں نے وادی سندھ کی قدیم تہذیب کو معدوم کیا۔
پروفیسر توشیکی اوساڈا نے مختلف کھنڈرات سے ملنے والے شواہد میں باہمی ربط کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب میں معیشت کی بنیاد سمندری راستو ں سے بین الاقوامی تجارت تھی۔ جاپانی ٹیم نے پانچ مقامات کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔پاکستان میں اس حوالے سے دو اہم مقامات گنیری والا میں موجود ہیں جو ایک ریگستانی علاقہ ہے، جبکہ بھارت میں دھولا ویرا اور راکھی گڑھی کے تین مقامات اہمیت کے حامل ہیں۔ دھولاویرا کے کھنڈرات سے دریافت نوادرات سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ لوگ سمندری تجارت میں کافی ترقی کرچکے تھے اور ان کے تجارتی جہاز بحیرہ عرب کے راستے عراق سے افریقہ تک جایا کرتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق وادی سندھ کی قدیم تہذیب دنیا کی چار قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ تہذیب اپنی اعلیٰ ثقافت اور اپنے وقت کی جدید ٹیکنالوجی کی حامل ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔ موئن جو دڑو سے ملنے والی مہریں، تحریریں، فصلیں،پکے مکان،پکی گلیاں اور نالیاں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ یہ لوگ انتہائی تہذیب یافتہ تھے۔ ماضی میں یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ یہ تہذیب پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں تک محدود تھی لیکن مذکورہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ریاست کا رقبہ چھ لاکھ اسّی ہزار مربع کلومیٹر تھا،جو ایک جانب دریائے سندھ سے متصل تھی تو دوسری جانب بھارت کی ریاست گجرات کے دریائے گھاگر سے جاملتی تھی۔اس تحقیقی پروجیکٹ میں اس بات پر بھی غور کیا گیا ہے کہ آخر وہ کیا عوامل تھے جو کہ اس قدر عظیم اورعالیشان تہذیب کے زوال کا باعث بنے۔ جیوگرافک انفارمیشن سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے مختلف مقامات کے کھنڈرات کی جانچ کی گئی تو اس سے حاصل شدہ معلومات سے اندازہ ہوا کہ درمیانی شہروں میں آباد قدیم باشندوں نے شمالی ہندوستان سے ہجرت شروع کردی تھی،یہ اس عظیم تہذیب کی معدومی کی ابتداء تھی۔
جاپان کی تیزوکایاما یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر تاکائو ویونو کے بقول غالباً ان لوگوں نے اپنے شہر و ں کو چھوڑ کر دوسری جانب اس لیے ہجرت کی کہ یہ لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں سے عاجز تھے۔ عراقی تہذیب سے ملنے والے قدیم رسم الخط سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ وادیِ سندھ کی تہذیب کے ان سے گہرے تجارتی مراسم تھے۔ ایک ہزار قبل مسیح ان کی اہم بندرگاہ لوتھل سمندری تبدیلیوں کی وجہ سے استعمال کے قابل نہ رہی تھی۔
تحقیق سے حاصل ہونے والے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ وادیِ سندھ کی تہذیب کے زوال کے دور میں یہاں مون سون کی بارشیں غیر معمولی انداز سے برس رہی تھیں۔ان بارشوں نے بھی وادی سندھ کے مختلف شہروں کے درمیان رابطے کاٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس تحقیق کے مجموعی نتائج کو جب آپس میں جوڑ کر دیکھا جاتا ہے توکچھ اس طرح کی تصویر سامنے آتی ہے کہ وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے بے شمار شہر پاکستان اور بھارت کی جغرافیائی حدود میں وسیع وعریض علاقے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں اور ان کی روایات بھی ایک دوسرے سے مختلف تھیں، اس کے باوجود یہ تمام شہر مل کر وادیِ سندھ کا عکس پیش کرتے تھے۔ یونیورسٹی آف ٹوکیو سے وابستہ میوزیم سے تعلق رکھنے والے پروفیسر یوشی ہیرونیشیا کا کہنا ہے کہ قدیم وادیِ سندھ کی تہذیب کی کڑیاں آج کے جنوبی ایشیا کے معاشرے سے جاملتی ہیں۔
باب الاسلام سندھ جسے وادی مہران بھی کہا جاتا ہے،یہ پیار،خلوص اور محبت کی سرزمین ہے، اس سر زمین کو خدائے بزرگ وبرتر نے اعلیٰ تعظیم وتکریم سے سرفراز کیا ہے،باب الاسلام کے شرف کا ثمر ہے کہ سندھ تصوف کے رنگ میں رنگے لاکھوں اولیاء وصوفیائے کرام،درویشوں اور فقراء کی جنم بھومی ہے۔
سندھ کی سرزمین کو یہ شرف اور مقام بھی حاصل ہے کہ برصغیر میں سب سے پہلے اسلام کا سورج اسی خطے میں طلوع ہوا،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عربوں نے93ھ میں سندھ کو فتح کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔مگر اسلام کا پیغام اس سرزمین پر عہد نبوی ﷺ میں ہی آچکا تھا،چونکہ سندھ کی سرزمین جغرافیائی لحاظ سے ایسے خطے پر واقع ہے جہاں لوگوں کی بحری ذریعے سے آمد ورفت اور خاص طور پر مسلمان تاجر حضرات کی گزرگاہ تھی۔یہ تجارت کے لیے برصغیر آتے تھے اور اس کے ساتھ اسلام کا پیغام بھی یہاں والوں کے لیے لاتے۔
علامہ سیوطی کی ’’جمع الجوامع‘‘ کی ایک روایت سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ سندھ کے لوگو ں میں سے کچھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبرِ اسلام ﷺ نے صبح کے وقت صحابہ کرام کو مبارک باد دی اور ارشاد فرمایا :’’آج میرے پاس ایک وفد سندھ سے آیا ہے، یہ پانچ افراد پر مشتمل ہے،اللہ کے فضل سے انہوں نے اسلام قبول کیا‘‘۔ان میں دو صحابہ مدینہ پاک میں رہے اور تین واپس سندھ تشریف لائے۔
تقریباً تمام ہی مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امیر المومنین حضرت علی ؓ کی ایک بیوی جن کا نام حنفیہ تھا ان کا تعلق سندھ سے تھا اور ان کے صاحب زادے محمد بن حنفیہ ان کے بطن سے تھے۔اسی طرح مسلم شریف کی روایت ہے کہ پیغمبر اسلام کے گھر ایک کنیز تھی، جس کا تعلق سندھ سے تھا۔اسی طرح حضرت عائشہ ؓ امیر معاویہ ؓ کے دور میں جب بیمار ہوئیں تو امیر معاویہ نے ان کے لیے سندھ سے طبیب کو بلایا تھا۔یہ وہ تمام روابط تھے جو اہل سندھ کے عربوں سے محمد بن قاسم کے آنے سے پہلے تھے۔
عرب مورخین مسعودی، بشاری،مقدسی اور ابن حوقل کے بیان کے مطابق سندھ کے لوگ عربی اور سندھی دونوں زبانیں بولتے تھے۔ابنِ بطوطہ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ سندھ کے چرواہے بھی عربی زبان بولتے تھے۔
سندھ کے لوگوں نے عرب علماء سے علم حاصل کیا۔فنِ حدیث اور فقہ میں تو اتنی لیاقت پیدا کی کہ خود عرب آکے ان کے حلقہ درس میں شامل ہونے لگے۔ علامہ سمعانی نے اپنی مشہور کتاب ’’کتاب الانساب‘‘ میں ان سندھی علماء ومحدثین کے نام لکھے ہیں جنہوں نے اس زمانے میں بڑے بڑے مدرسے کھولے جہاں حدیث کا درس دیا جاتا تھا۔
عربوں کے دورِ حکومت میں دیبل یعنی ٹھٹہ کی علمی شہرت بغداد سے کم نہ تھی جس میں نامور سندھی اور عرب علماء ومحدثین کا شمار ہوتا تھا۔ یاقوت حموی نے اپنی مشہور کتاب ’’معجم البلدان‘‘ میں علی بن موسیٰ دیبلی کی درسگاہ کا ذکر کیا ہے جو اس زمانے میں دیبل کی سب سے بڑی درسگاہ تھی جہاں پر حدیث کا درس دیا جاتا تھا۔سندھ کے محدثین اور فقہاء کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔
تہذیب وثقافت محبتوں کے پرچار کا بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی ہیں، ماضی کی عمیق تاریکیوں میں کھوتی وادیِ سندھ کی پُر شکوہ اور عظیم تہذیب کو زندہ کرنے کے لیے دیس بدیس بسنے والے سندھ کے باشندوں کو اپنی تہذیب، ثقافت، علم وہُنر سے رشتہ جوڑنا ہوگا۔وادیِ سندھ کی صدیوں پر محیط قدیم اور پُرشکوہ تہذیب،ثقافت اور روایات کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔