سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اورسیاسی و قبائلی راہنما عبداللطیف آ فریدی ایڈووکیٹ کاقتل

پشاور میں سینئر قانون دان اور سیاسی وقبائلی راہنما عبداللطیف آفریدی ایڈووکیٹ کو بار روم کے اندر قتل کردیا گیا۔گزشتہ پیر کے روز سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عبداللطیف آفریدی پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں بیٹھے تھے کہ اس دوران ملزم عدنان سمیع آفریدی ولد سمیع اللہ آفریدی نے آکر اُن پر پستول سے فائرنگ کی، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے، انہیں وکلا نے تشویش ناک حالت میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ وقوعہ کے بعد ایس ایس پی آپریشن پشاور کاشف آفتاب عباسی ہائی کورٹ پہنچے اور بتایا کہ عبداللطیف آفریدی کو 6گولیاں لگیں۔ واضح رہے کہ فریقین میں دشمنی چلی آرہی ہے۔ کچھ ماہ قبل پشاور کینٹ کے علاقے میں رضا اللہ خان ایڈووکیٹ کو بھتیجے نے جائداد کے تنازعے پر فائرنگ کرکے قتل کیا تھا۔ مقتول قانون دان انسدادِ دہشت گردی عدالت کے سابق جج آفتاب آفریدی، اُن کی اہلیہ، بہو اور پوتے کے مقدمۂ قتل میں نامزد تھے اور عدالت نے عدم ثبوت پر انہیں گزشتہ ماہ بری کردیا تھا۔ یاد رہے کہ اپریل 2021ء میں صوابی انٹر چینج کے قریب موٹر وے پر فائرنگ سے انسدادِ دہشت گردی کے سابق جج آفتاب آفریدی خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ایک قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ ورثاء نے قتل کی دعویداری سینئر وکیل عبداللطیف آفریدی سمیت دیگر 7 افراد پر کی تھی جو عدم ثبوت پر مقدمے سے بری ہوگئے تھے۔

عبداللطیف آفریدی ایڈووکیٹ کو دن دہاڑے ہائی کورٹ بارروم میں قتل کرنے والا ملزم سفید کپڑے اور کالا کوٹ پہن کر پستول اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوا جو جونیئر وکیل بتایا جاتا ہے، تاہم پشاور ہائی کورٹ کے اندر قتل کے واقعے پر سیکورٹی انتظامات پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ پشاور میں دہشت گردی کی حالیہ لہر اور تھانوں اور پولیس پر حملوں کے پیش نظر سیکورٹی سخت کی گئی ہے، تاہم اس کے باوجود ملزم اسلحہ لے کر ہائی کورٹ کے اندر داخل ہوا۔ ملزم کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ خود بھی جونیئر وکیل ہے جس کی وجہ سے وہ پستول اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوا۔ وکلا نے واقعے کا ذمہ دار پولیس کے ناقص سیکورٹی انتظامات کو قرار دیا ہے۔ دوسری طرف عبداللطیف آفریدی کے قتل کے خلاف صوبے بھر میں عدالتی بائیکاٹ اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیاگیا۔ خیبر پختون خوا بار کونسل، پشاور ہائی کورٹ بار، ڈسٹرکٹ بار پشاور اور دیگر وکلا تنظیموں نے اس المناک واقعے پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جو سیکورٹی کی کوتاہی میں ملوث پائے گئے۔ کے پی بار کونسل کے وائس چیئرمین محمد علی جدون، پشاور ہائی کورٹ بار کے صدر رحمان اللہ، جنرل سیکرٹری فاروق آفریدی، کے پی بار کونسل کے ارکان سید مبشر شاہ، نعمان کاکاخیل، ڈسٹرکٹ بار کے صدر علی زمان، سینئر وکلا اسحاق علی قاضی، یاسر خٹک، عباس خان سنگین، امین الرحمان، دانیال خان چمکی و دیگر وکلا نے عبداللطیف آفریدی کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان اور گورنر حاجی غلام علی نے سینئر قانون دان عبداللطیف آفریدی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کو انتہائی افسوس ناک قرار دیا ہے، انہوں نے کہا کہ غم کی اس گھڑی میں سوگوار خاندان کے ساتھ ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ نے مرحوم کے درجات کی بلندی اور سوگوار خاندان کے لیے صبرِ جمیل کی دعا کی۔ سابق صدر آصف علی زرداری، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیر پاؤ، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی، امیر حیدر خان ہوتی، ایمل ولی، میاں افتخار، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، معاون خصوصی برائے اطلاعات و تعلقاتِ عامہ بیرسٹر محمد علی سیف اور دیگر رہنماؤں نے بھی سینئر وکیل عبداللطیف آفریدی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔

عبداللطیف آفریدی ایڈووکیٹ کو بار روم میں اُس جگہ قتل کیا گیا جہاں وہ برسوں سے آکر دوسرے وکلا کے ساتھ نشست کرتے تھے۔ وکلا کے مطابق مرحوم لطیف لالہ ہائی کورٹ کے سفیر اللہ خان ہال میں اسی جگہ پر بیٹھے تھے جہاں وہ برسوں سے اپنے ساتھی وکلا کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگاتے تھے اور مختلف موضوعات پر ان کے ساتھ بات چیت کرتے تھے۔ وقوعہ کے وقت ان کے ساتھ دیگر وکلا بھی موجود تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق لطیف لالہ پر فائرنگ کے بعد ملزم چیختا رہا کہ اس نے اپنے دشمن کی جان لی ہے اور یہ کہ اُس کی کسی اور کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ملزم پستول لہرا رہا تھا، اسی اثناء ایک پولیس اہلکار نے آکر اسے پکڑ لیا۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملزم کو پولیس گرفتار کرکے ساتھ لے جارہی ہے، جبکہ ملزم پستول کو مسلسل لہرا رہا ہے۔ فائرنگ کی آواز سنتے ہی بار روم کے باہر کھڑے وکلا و سائلین بھی اِدھراُدھریہ سمجھ کر بھاگ گئے تھے کہ شاید بارروم میں مبینہ طور پر دہشت گرد داخل ہوگئے ہیں۔

سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کے قتل کے الزام میں پشاور ہائی کورٹ بار روم سے گرفتار ہونے والے ٹرینی وکیل عدنان سمیع کا تعلق ایک تعلیم یافتہ اور معزز خاندان سے بتایا جاتا ہے، اس کے والد سمیع اللہ خان ایڈووکیٹ اسامہ بن لادن کی جاسوسی کے الزام میں گرفتار ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل تھے اور انہیں مارچ 2015ء میں متھرا میں شام کے وقت نامعلوم افراد نے گولیاں مارکر قتل کردیا تھا۔ ملزم عدنان کے ماموں اور انسداد دہشت گردی عدالت کے جج آفتاب خان آفریدی کو بھی اُن کی اہلیہ، بہواور کم سن پوتے سمیت صوابی انٹر چینج پر قتل کیا گیا تھا۔ ایک ہی گھر کے 6 افراد کے قتل کا دعویٰ لطیف آفریدی کے خلاف کیا گیا تھا۔ ابتدائی تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے کہ ٹرینی وکیل عدنان نے لطیف آفریدی کا قتل ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کی غرض سے کیا ہے، تاہم مزید تفتیش میں اس قتل کے محرکات کے بارے میں معلوم ہوسکے گا۔

کہا جاتا ہے کہ عبداللطیف آفریدی جس ملزم کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں وہ ان کا قریبی رشتہ دار ہے۔ ملزم کے والد سمیع اللہ، لطیف آفریدی اور جج آفتاب آفریدی قریبی عزیز تھے، اور یہ تینوں آپس کی دشمنی میں قتل ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جب اسامہ بن لادن کے کیس میں گرفتار کیا گیا تو لطیف آفریدی ایڈووکیٹ اور سمیع اللہ آفریدی دونوں ان کے وکیل تھے۔ کچھ عرصے بعد سمیع اللہ آفریدی کو دھمکی آمیز کالیں موصول ہونے لگیں اور بعد میں انہیں قتل کردیا گیا۔ سمیع اللہ آفریدی ایڈووکیٹ کے خاندان نے اس قتل کا الزام لطیف آفریدی پر لگایا تھا اور کچھ ہی عرصے میں بدلے کے طور پر مبینہ طور پر لطیف آفریدی کے ایک کزن کو قتل کردیا گیا تھا۔

عبداللطیف آفریدی پہلے پشتون قوم پرست سیاست دان تھے جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ اُس وقت وہ پشتون تحفظ موومنٹ سے جدا ہوکر نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے الگ سیاسی جماعت بنانے والے محسن داوڑ کی اس جماعت میں بطور سینئر لیڈر شامل تھے۔آپ 1997ء کے الیکشن میں اے این پی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے، جبکہ 1986ء سے 1989ء تک عوامی نیشنل پارٹی کے پہلے صوبائی صدر اور 2005ء میں اے این پی کے جنرل سیکرٹری رہے۔ آپ پانچ بار سے زائد پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ عبداللطیف آفریدی 1943ء میں خیبر ایجنسی کے علاقے تیراہ میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1966ء میں پشاور یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور دو سال بعد ایل ایل بی کیا۔ انہیں 1964ء کے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کی حمایت کرنے پر پشاور یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ 1979ء میں وہ غوث بخش بزنجو کی زیر قیادت پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے اور اس کے خیبر پختون خوا کے صوبائی صدر بن گئے۔ 1986ء میں جب پاکستان نیشنل پارٹی کو عوامی نیشنل پارٹی میں ضم کردیا گیا تو لطیف آفریدی اس کے پہلے صوبائی صدر بنائے گئے۔ 1997ء میں وہ این اے 46 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ لطیف آفریدی 30 اکتوبر2020ء کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ زمانۂ طالب علمی سے قوم پرست نظریے کے حامل ایڈووکیٹ لطیف آفریدی 2007ء میں اجمل خٹک کی سربراہی میں اے این پی سے الگ ہونے والے دھڑے نیشنل عوامی پارٹی میں سرگرم رہے، جس کے بعد وہ دوبارہ پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ 2 ستمبر 2019ء کو ایمل ولی خان کی ہدایت پر انہیں اے این پی سے نکال دیا گیا تھااور وہ ان دنوں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے اور ان کا ہائی کورٹ بھی کم کم آنا ہوتا تھا۔

لطیف آفریدی مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے اور سینئر وکلا کے ساتھ ساتھ نوجوان وکیلوں میں بھی انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی آئین و قانون کی بالادستی، جمہوریت کے فروغ اور پختونوں کے مسائل کوحل کرنے کے لیے وقف کررکھی تھی۔ وہ قبائلی علاقوں سے ایف سی آر کے خاتمے اور ان علاقوں کے خیبرپختون خوا میں انضمام کے زبردست حامی اور وکیل تھے۔ لطیف آفریدی صوبے کی پہلی سرکردہ سیاسی اور سماجی شخصیت نہیں ہیں جنہیں اس بے دردی سے اور پیرانہ سالی میں قتل کیاگیا ہے، بلکہ ان سے پہلے اے این پی سے تعلق رکھنے والے سابق گورنر ارباب سکندر خان خلیل، جے یوآئی کے راہنما اور معروف عالم دین مولانا حسن جان، جے یو آئی (س) کے سربراہ اور ممتاز عالم دین مولانا سمیع الحق، پیپلزپارٹی کے سابق گورنر اور آفتاب شیرپائو کے بڑے بھائی حیات محمد خان شیرپائو جیسے بڑے سیاسی راہنمائوں کو بھی مختلف واقعات میں قتل کیا جاچکا ہے۔ گو لطیف آفریدی کے قتل کے تانے بانے اُن کی ذاتی دشمنی سے جوڑے جارہے ہیں، لیکن جب تک اس حوالے سے عدالت کی معرفت کوئی حقیقت سامنے نہیں آتی تب تک اس واقعے کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ یہاں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ہمیشہ قانون کی پاس داری کا درس دینے والا اور بظاہر ایک امن پسند شخص کسی کے قتل جیسے انتہائی اقدام میں کیسے شریک ہوسکتا ہے؟ اور اگر بالفرض لطیف لالہ اسی دشمنی کی بھینٹ چڑھے ہیں تو ایک امن پسند اور ترقی پسند پختوم قوم پرست راہنما کے طور پر انہوں نے اپنی دشمنی کی اس آگ پر جرگے کے ذریعے قابو پانے کی بظاہر کوئی کوشش کیوں نہیں کی؟ جس کی ان جیسے روشن خیال راہنما سے یقیناً توقع کی جاسکتی تھی۔