کراچی کے بلدیاتی انتخابات :جماعت اسلامی کی تاریخی کامیابی عظیم الشان جلسہ تشکرکراچی کے حالات ضرور بدلیں گے

کراچی کے لوگوں نے ایک بار پھر جماعت اسلامی پر اعتماد کیا ہے اور بلدیاتی انتخابات میں بڑی تعداد میں اس کے امیدواروں کو کامیاب کیا ہے، اور پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے وہ تمام حربے ناکام بنادیے جو انہوں  نے انتخابات ملتوی کرانے کے لیے اختیار کیے، جس کے بعد ایم کیو ایم نے تو نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے ان انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کرکے اپنی شکست تسلیم کرلی، جبکہ پیپلز پارٹی انتظامی مشنری اور آر اوز کے ذریعے اپنی شکست کو کئی مقامات پر جیت میں تبدیل کرنے کے روایتی ہتھکنڈوں کے ساتھ متحر ک ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی کراچی کے لوگوں نے اُس کی قیادت کی عدم توجہ اور عدم دلچسی اور قومی اسمبلی کی 14سیٹوں کے باوجود کوئی کارکردگی نہ دکھانے پر مسترد کردیا۔

جماعت اسلامی پوری طرح متحرک ہے اور اس کے کامیاب یوسی چیئرمین اور کونسلر کئی مقامات پر گلی محلوں کے کاموں کے لیے متحرک ہوگئے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی جہاں شہر کی اہم سیاسی جماعتوں سے میئر کے انتخاب کے لیے بات چیت کررہی ہے وہیں لوگوں  کا ریلیوں اور کارنر میٹنگز میں، اعتماد کرنے پر شکریہ بھی ادا کررہی ہے۔ اسی پس منظر میں جماعت اسلامی نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں تاریخی کامیابی پرنیو ایم اے جناح روڈ پر ایک عظیم الشان اور ”جلسہ تشکر“ منعقد کیا جس میں شہر بھر سے جماعت اسلامی کے مرد و خواتین کارکنوں، منتخب نمائندوں اور عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ گزشتہ روز سے شہر بھر میں سخت سردی کی لہر اور تیز ہواؤں کے باوجود خواتین نے بھی بھرپور شرکت کی جن کے ہمراہ کم سن بچے اور بچیاں بھی تھیں۔ جلسہ تشکر کے شرکاء میں زبردست جوش و خروش دیکھنے میں آیا اور جلسہ گاہ ”شکریہ شکریہ، اہلِ کراچی شکریہ“، ”تیز ہو تیز ہو، جدوجہد تیز ہو“ کے نعروں سے گونجتی رہی۔ جلسے میں تاجروں، صنعت کاروں، مزدوروں، علمائے کرام، اساتذہ، طلبہ و طالبات، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء، صحافی، ورکنگ ویمن، سول سوسائٹی اور اقلیتی برادری کے نمائندوں اور مختلف طبقاتِ سے وابستہ افراد نے شرکت کی اور جماعت اسلامی کی شاندار کامیابی کو شہر کی حالت بدلنے اور تعمیر و ترقی کے لیے نیک شگون قرار دیا۔ نیو ایم اے جناح روڈ پر پیپلز چورنگی کے قریب ایک بڑا اسٹیج بنایا گیا تھا، جبکہ سڑک کے دونوں ٹریک پر شرکاء کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا اور ایک ٹریک خواتین کے لیے مختص تھا۔ اسٹیج پر ایک بہت بڑا بینر لگایا گیا تھا جس پر جلی حروف میں ”جلسہ تشکر“ اور ”تیز ہو تیز ہو، جدوجہد تیز ہو“ تحریر تھا۔ اس موقع پر تمام نومنتخب یوسیز چیئرمین کو اسٹیج پر بلایا گیا۔ قائدین کی تقاریر سننے کے لیے بڑے پیمانے پر ساؤنڈ سسٹم کے علاوہ لائٹنگ کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ شہر بھر سے قافلے امرائے اضلاع کی قیادت میں جلسہ گاہ پہنچے، نومنتخب بلدیاتی نمائندے اپنے حامیوں کے ہمراہ جلوس کی شکل میں جلسہ تشکر میں پہنچتے رہے جس کا اسٹیج سے بار بار خیرمقدم کیا جاتا رہا۔ شرکاء نے کامیاب ہونے والوں کا پُرجوش نعروں میں استقبال کیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کی اسٹیج آمد پر ڈاکٹر اسامہ رضی نے انہیں کراچی کے مستقبل کا معمار اور میئر کراچی قرار دیتے ہوئے پُرجوش نعرے لگوائے، ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ بعد ازاں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی، جنہوں نے نائب امرائے پاکستان اسد اللہ بھٹو، راشد نسیم، معراج الہدیٰ صدیقی، صوبہ سندھ کے امیر محمد حسین محنتی، حافظ نعیم الرحمٰن و دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر شرکاء سے اظہار یکجہتی کیا اور اہلِ کراچی کا شکریہ ادا کیا۔ جلسہ تشکر کا آغاز نومنتخب چیئرمین یوسی قاری منصور کی تلاوت ِ کلام پاک سے ہوا، جس کے بعد محمد شاکر نے نعتِ رسول ِ مقبول ؐ پیش کی اور ترانہ پڑھا۔نائب امیر کراچی ڈاکٹر واسع شاکر نے درسِ قرآن و حدیث دیا۔

یہ ایک تاریخی جلسہ ثابت ہوا، جس سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”کراچی کے عوام نے جو مینڈیٹ دیا ہے اسے ہرگز چوری نہیں ہونے دیں گے اور اپنی ایک سیٹ تو کیا، اپنا ایک ووٹ بھی پیپلز پارٹی کے پاس نہیں جانے دیں گے، پیپلز پارٹی یہ حقیقت جتنی جلدی تسلیم کرلے اتناہی اُس کے حق میں بہتر ہے کہ کراچی کے میئر تو حافظ نعیم الرحمٰن ہی ہوں گے۔ ہم پیپلز پارٹی سے کہتے ہیں کہ کراچی کے عوام نے ہمیں جو مینڈیٹ دیا اسے تسلیم کریں، پیپلز پارٹی بتائے سندھ میں آج بھی مظلوم غریب اور ہاری بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں ہیں؟ اندرونِ سندھ کے عوام بدحال ہیں، پیپلز پارٹی ان کے حال پر رحم کرے، کراچی میں ہمارا مینڈیٹ تو ہر صورت قبول کرنا پڑے گا خواہ ہنس کر قبول کیا جائے یا رو کر۔ کراچی کے مینڈیٹ کو کسی کو بھی ہضم نہیں کرنے دیں گے۔ ہم اپنی حدود میں ہیں لیکن اگر ہماری بات نہیں سنی گئی تو پھر حالات کی تمام تر ذمہ داری اُن پر عائد ہوگی جو ہمارے مینڈیٹ کو ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں۔ قومی خزانہ اور فنڈز عوام کا حق ہے اور عوام کا حق دینا ہو گا۔ 14سال سے سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت کررہی ہے، آج نواز لیگ اور پی ڈی ایم کی حکومت ہے، کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت رہی، لیکن عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں اور لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ جماعت اسلامی اسلام کا عادلانہ اور منصفانہ نظام قائم کرنا چاہتی ہے جس میں عوام کو ان کے تمام حقوق ملیں گے، اگر آج کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کا ساتھ دیا تو اس کامیابی کا سہرا عبدالستار افغانی کے کردار کے سر ہے جنہوں نے عوام کی خدمت کی اور میئر کراچی بننے سے پہلے جس گھر میں رہتے تھے اُن کا جنازہ بھی اسی گھر سے نکلا۔ اس کامیابی کا کریڈٹ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی عوامی خدمت اور تاریخی جدوجہد کو جاتا ہے۔ اب ایک بار پھر حافظ نعیم الرحمٰن کراچی کے میئر بن کر تعمیر و ترقی کے اس سفر کو ازسرنو شروع کریں گے جہاں نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے ادھورا چھوڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج ایک مثالی اور تاریخی کامیابی پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرتے ہیں۔ آج ہم اُن سب لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے تمام تر وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ترازو پر مہر لگائی ہے، ہم کراچی کے تمام لوگوں کی بلا امتیاز خدمت کریں گے اور اس کے لیے ہمیں کراچی کے عوام، تاجروں اور دیگر شعبوں کے لوگوں اور ہر اُس شخص کا تعاون چاہیے جو کراچی سے دلچسپی رکھتا ہو۔ ہم سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔“

جلسہ تشکر میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے مرد و خواتین کارکنان، ذمہ داران اور اہلِ کراچی سے بھرپور اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ ”آپ سب کی محنت اور جدوجہد کے باعث ہی آج جماعت اسلامی شہر میں ایک بڑی سیاسی قوت و طاقت اور نمبر ون پارٹی بن کر اُبھری ہے۔ آج ہم اپنے مرحوم قائدین اور شہدا کو بھی یاد کرتے ہیں۔ ہم نے انتخابات کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور عوام نے ہمارا ساتھ دیا جس کی وجہ سے سب سے زیادہ سیٹیں اور ووٹ بھی ہم نے حاصل کیے، میئر تو جماعت اسلامی کا ہی ہوگا، ہم دیکھیں گے کون ہمارا راستہ روکتا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کس کے ساتھ جاؤ گے؟ ہم کہتے ہیں کون کون ہمارے ساتھ آئے گا۔ جس کو عزت چاہیے اور حالات کو بہتر رکھنا ہے وہ ہمارے ساتھ آئے۔ ہم سب کو ساتھ لے کرچلنے کا عزم کرکے آئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں گئے تو فنڈ نہیں ملیں گے، ہم پھر کہتے ہیں کہ اختیارات سے بڑھ کر کام کریں گے اور عوام اور کراچی کے اداروں کے اختیارات لے کر رہیں گے، الیکشن کے بعد بھی حقوق کراچی تحریک جاری رہے گی۔ ہم کرپشن اور لوٹ مار نہیں کریں گے، ہمارا کردار سب کے سامنے ہے۔ عوام کی طاقت ہمارے ساتھ ہے، ہم تمام تر اختلافات کے باوجود پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی سمیت سب سے کہتے ہیں کہ آئیں منی پاکستان کراچی کے لیے اتفاقِ رائے کرلیں۔ ایک وقت تھا یہ شہر امن و محبت اور خوشیوں کا گہوارہ تھا، اس کی شناخت اور تشخص تعلیم اور تہذیب تھی، لیکن پھر اس شہر کو کسی کی نظر لگ گئی اور عصبیت و لسانیت کی آگ اور نفرت کی سیاست نے شہر کو اُجاڑ دیا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت کے کارکنوں نے اس ماحول میں بھی محبت اور امن کا پیغام عام کیا اور اس کے لیے بڑی قربانیاں دیں۔ آج ہم اس کامیابی کو ان شہدا کے نام کرتے ہیں۔ آج ہم فتح کا جشن منا رہے ہیں اور اللہ رب العالمین کا شکر بھی ادا کررہے ہیں۔ بعض طالع آزما طاقتوں نے شہر کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ایک سازش کے تحت عوام کو لڑوایا۔ جب شہر میں حالات خراب تھے اُس وقت سید منور حسن اور پروفیسر غفور احمد نے واضح طور پر کہا کہ ایم کیو ایم سے ہمارا اختلاف اپنی جگہ لیکن کراچی کے نوجوان اور عوام ہمارے ساتھ ہیں، ہم ان کو ہرگز تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ آج پیپلز پارٹی کراچی میں اپنی اکثریت کا دعویٰ کررہی ہے، وہ بتائے جب کراچی میں اُس کو اپنا جھنڈا تک لگانا مشکل تھا تب وہ کہاں تھی؟ اُن حالات میں بھی جماعت اسلامی کے کارکنان میدانِ عمل میں موجود تھے اور آج جماعت اسلامی پھر اس شہر کو اپنی اصل شناخت کی طرف لے آئی ہے۔ ہم نے اس شہر کی ترجمانی کی ہے، عوام کے حقوق اور مسائل کے حل کی جدوجہد کی ہے۔ کے الیکٹرک کے ظلم و لوٹ مار کے خلاف اور واٹر بورڈ، نادرا اور بحریہ ٹاؤن کے حوالے سے جماعت اسلامی نے تاریخی جدوجہد کی ہے۔ ہم نے کورونا کی وبا میں عوام کی خدمت کی۔ الخدمت نے مختلف شعبوں اور سیلاب زدگان کی امداد و بحالی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ نوجوانوں کے لیے آئی ٹی کورسز شروع کردیے ہیں۔ جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک جاری ہے اور جاری رہے گی، بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ایک سنگ ِ میل ہے، جب ہمارا میئر آئے گا اور ہمارے منتخب بلدیاتی نمائندے کام شروع کریں گے تو شہر کے حالات ضرور بدلیں گے، عوام کے مسائل حل ہوں گے اور ہم حقوق بھی لیں گے، ہمیں شہر کے ہر حصے سے لوگوں نے ووٹ دیے ہیں، ہم تمام شہریوں کی بلا امتیاز خدمت کریں گے۔ جماعت اسلامی آج شہر میں سب سے بڑی سیاسی و سماجی قوت بن کر سامنے آئی ہے، امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی رہنمائی میں ہم نے اپنی جدوجہد اور سفر شروع کیا اور اسے اب جاری رکھیں گے۔ مردم شماری میں کراچی کا حق مارا گیا، حلقہ بندیاں اور ووٹر لسٹیں بھی ٹھیک نہیں تھیں اور کوئی بھی بلدیاتی انتخابات کرانے پر تیار نہیں تھا، سندھ حکومت نے اپنی مرضی سے آر اوز اور ڈی آر اوز لگائے لیکن لیکن پھر ہماری اکثریت کو کم کرنے کی سازش کی گئی، ہم نے احتجاج کیا اور اپنے عوامی مینڈیٹ کے تحفظ کے لیے ہم سڑکوں پر بھی نکلے اور قانونی جنگ بھی لڑی۔ ہم عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ہرگز نہیں ڈالنے دیں گے۔ شہر کراچی کا میئر جماعت اسلامی کا ہی ہوگا۔ شہر کو ازسرنو تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں گے۔ اتفاقِ رائے پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی دعوت سب کو دیتے ہیں۔ ہم کراچی کے عوام کی خاطر متفقہ طور پر مل کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہم صرف کراچی کی تعمیر و ترقی اور نوجوانوں کے روشن مستقبل کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے پیپلز پارٹی کے وفد سے ادارہ نورحق میں صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر بات کی تھی کہ ہمارے مینڈیٹ کو تسلیم کرلو پھر بات کریں گے۔“

جلسے سے نائب امیر کراچی ڈاکٹر ااسامہ رضی نے بھی خطاب کیا اور نعمان شاہ نے ترانہ پڑھا جس کے بول تھے:
”میرا رہنما میری جان تُو
اس شہر کی پہچان حافظ نعیم الرحمن تُو
لو یہ ترازو، تول کے دیکھو کس کا پلا بھاری ہے“

ڈاکٹر اسامہ رضی نے ایک موقع پر کہا کہ ہم اپنی تحریک اور جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا کو بھی ضرور یاد کریں گے اور دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔

دورانِ تقریر حافظ نعیم الرحمٰن نے شہدا کا ذکر کرتے ہوئے شہید نصر اللہ خان شجیع کو بھی شاندار خراج ِ عقیدت پیش کیا۔ اپنی تقریر کے اختتام پر حافظ نعیم الرحمٰن نے پُرجوش نعرے لگوائے۔