مفتی رفیع عثمانی:ایں خانہ ہمہ آفتاب است

تاریخ پیدائش:21 جولائی 1936ء دیوبند۔ تاریخ وفات 18 نومبر2022ء کراچی

دارالعلوم کراچی کے شیخ الجامعہ (صدر) مفتی محمد رفیع عثمانی کی رحلت سے ہمارا ملک نہ صرف علومِ دینیہ کے ایک بڑے فقیہ سے محروم ہوگیا، بلکہ تحریکِ پاکستان میں قائداعظم کی قیادت میں سرگرم حصہ لینے والے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ (جو مفتی محمد شفیعؒ صاحب کے پھوپھی زاد بھائی تھے) اور مفتی محمد شفیعؒ کے خاندان کے ایک اور چشم و چراغ سے بھی محروم ہوگیا۔
تحریکِ پاکستان میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور مفتی محمد شفیعؒ کا ایک اہم کارنامہ صوبہ سرحد (اب خیبرپختون خوا) میں ریفرنڈم میں کامیابی ہے جس کے لیے انہوں نے دیگر علما و مشائخ کے ساتھ بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ خود مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنے تینوں بڑے بھائیوں ذکی کیفی، محمد رضی، ولی رازی اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ دیوبند کے گلی کوچوں میں تحریکِ پاکستان میں عملی حصہ بھی لیا تھا۔ (یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ قائداعظم کی نماز جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے پڑھائی اور قائداعظم کی بہن مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی نمازجنازہ مفتی محمد شفیع ؒ نے پڑھائی تھی۔)

میں مفتی محمد رفیع عثمانیؒ کے علمی مرتبے پر گفتگو کا اہل اس لیے نہیں کہ میں اس کوچے کا شناور نہیں ہوں۔ البتہ محبت کا رشتہ اُن سے ضرور ہے۔ اُن کی دینی خدمات پر سیر حاصل گفتگو تو اہلِ علم کا کام ہے جو وہ بخوبی کررہے ہیں۔ میں نے ایک صحافی کے طور پر اور ذاتی ملاقاتوں میں انہیں اور ان کے خاندان کو جس طرح دیکھا یہ تحریر انہی تاثرات پر مبنی ہے۔

علامہ شبیر احمد عثمانی تو دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے، جب کہ مفتی رفیع عثمانی کے والد محترم مفتی محمد شفیعؒ نے بھی قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کو مستحکم کرنے اور دستور سازی کے مرحلے میں رہنمائی کا فریضہ ادا کیا تھا۔

مفتی محمد شفیع اُن تمام مکاتبِ فکر کے31 علما میں بھی نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں سے ایک تھے جنہوں نے دستور ساز اسمبلی کی رہنمائی کے لیے متفقہ طور پر 22 نکات مرتب کیے تھے بلکہ حکومت نے دستور ساز اسمبلی کی رہنمائی کے لیے بورڈ آف تعلیماتِ اسلامیہ کے نام سے جو ادارہ قائم کیا تھا اُس کے پہلے صدر علامہ سید سلیمان ندویؒ اور سیکرٹری جنرل مولانا ظفر احمد انصاریؒ کو بنایا گیا تھا۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے انتقال کے بعد اس کی صدارت کے منصب پر مفتی محمد شفیعؒ فائز ہوئے۔ یہ ادارہ 1956ء کے دستور کی منظوری تک برقرار رہا۔

مفتی محمد شفیعؒ نے قومی امور میں منہمک ہونے کے باوجود اپنی توجہ دینی علوم کی ترویج و اشاعت کے لیے دارالعلوم کے قیام پر مرکوز رکھی، جس کا سلسلہ تقسیم کی وجہ سے منقطع ہوگیا تھا، جو1951ء میں دارالعلوم کراچی کے نام سے عملی شکل میں سامنے آیا۔
دارالعلوم کراچی کے قیام کے لیے ابتدا میں جو جگہ حاصل کی گئی تھی یہ جگہ وہ تھی جہاں آج اسلامیہ کالج قائم ہے اور جہاں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ مدفون ہیں، مگر وہ منصوبہ سازشوں کی نذر ہوگیا تھا، جس کے بعد 1951ء میں دارالعلوم کا قیام نانک واڑہ کی ایک عمارت میں عمل میں آیا۔ لیکن جلد ہی اللہ نے جنوبی افریقہ کے مسلمانوں کی اعانت سے کورنگی میں دارالعلوم کے قیام کے لیے 55 ایکڑ کی زمین عطا کردی جہاں درس و تدریس کے لیے درکار ضروری تعمیرات کے بعد درسِ نظامی کا شعبہ نانک واڑہ سے کورنگی کی عمارت میں منتقل ہوگیا۔

یہاں اس کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ مفتی محمد شفیعؒ نے دارالعلوم کی پہلی انتظامی کمیٹی میں علماء سے زیادہ دیگر حضرات کو منتخب کیا تھا۔ اس کمیٹی میں مفتی محمد شفیع صدر، اور اُن کے داماد مولانا نور احمد مرحوم ناظم تھے، اور علما میں تیسرا نام مولانا متین خطیب کا تھا۔ بقیہ لوگوں میں حکیم محمد سعید شہید، مولانا ظفر احمد انصاری، شجاعت علی مرحوم (اکائونٹنٹ جنرل ملٹری اکائونٹس) اور پین اسلامک اسٹیم شپ کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر اور تاج ریسٹورنٹ کراچی کے مالک حاجی محمد سلیمان مرحوم تھے۔ نانک واڑہ کی عمارت کو شعبۂ حفظ و تجوید کے لیے مختص کردیا گیا جہاں یہ کام اِس وقت بھی جاری ہے اور ساتھ ہی حفظِ قرآن کا نیا شعبہ کورنگی میں بھی قائم ہوا۔

محترم مفتی شفیعؒ کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس شعبے کی نگرانی کے لیے قاری فتح محمدؒ صاحب (نابینا) کی اعزازی خدمات حاصل کیں۔ ان کو قرآن پاک ایسا حفظ تھا کہ تراویح پڑھاتے ہوئے کبھی کسی کو لقمہ دینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں بڑے بڑے حفاظ قرا شامل تھے (قاری فتح محمد صاحب 1970ء کے اوائل میں مدینہ ہجرت کرنے سے قبل دارالعلوم نانک واڑہ میں ہی مقیم رہے)۔ قاری فتح محمد صاحب دارالعلوم نانک واڑہ کراچی میں جب تک رہے وہ ہر سال رمضان المبارک میں نماز تراویح میں دس پارے روزانہ پڑھا کرتے تھے، عشاء کے بعد نماز تراویح شروع ہوتی اور سحری کا وقت ختم ہونے سے ایک گھنٹے قبل تک جاری رہتی۔ قاری فتح محمدؒ نہ صرف شعبہ قرأت کے امام تھے بلکہ دارالعلوم دیوبند سے درسِ نظامی کے فارغ التحصیل اور مولانا اشرف علی تھانویؒ سے بیعت بھی تھے۔ واضح رہے کہ قاری فتح محمدؒ صاحب نے شعبہ قرأت کے لیے زمین پانی پت میں عثمانی خاندان کے ایک بڑے متمول زمیندار قاری محی الاسلام عثمانیؒ سے حاصل کی تھی جو اپنی حویلی میں قرأت کے شائقین کو اعزازی طور پر قرآن پاک کی تعلیم دیتے تھے، اور ان ہی کی مساعی سے وہ دارالعلوم دیوبند تعلیم کے لیے گئے تھے جہاں اُس وقت مفتی محمد شفیع صاحب درس و تدریس کے ساتھ شعبہ فتاویٰ کے سربراہ بھی تھے۔

میں نے حضرت مفتی محمد شفیعؒ کے خاندان کو جتنا کچھ دیکھا ہے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ وہ اپنے شخصی اوصاف میں اپنے ہم عصروں میں نہ صرف ممتاز تھے بلکہ اس تاثر کو بھی ختم کرتے تھے جو عام طور سے ہمارے جدید فکر کے اسیر لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے۔ مفتی محمد رفیع عثمانیؒ کے بڑے بھائی ذکی کیفی مرحوم کے گھر لاہور میں مجھے محترم مولانا ظفر احمد انصاریؒ اور محترم ماہرالقادریؒ کے ساتھ کئی بار قیام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جہاں اس خاندان کی وسیع المشربی کا بھی اندازہ ہوا۔ ان کا دسترخوان وسیع تھا۔ جب بھی ماہر صاحب یا مولانا ظفر احمد انصاری ان کے ہاں مقیم ہوتے تو ان کے احباب کو وہ اپنے گھر کھانے پر مدعو کرتے، جس میں ڈاکٹر سید عبداللہ بھی جو اُن کے گھر کے نچلے حصے میں مقیم تھے، تشریف لے آتے۔ اور معروف شاعر کلیم عثمانی جن کا تعلق مفتی صاحب کے خاندان سے تھا اور مصطفیٰ صادق مرحوم، محترم الطاف حسن قریشی اور جناب مجیب الرحمٰن شامی کو بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ یہی کیفیت ان کی موجودگی کی وجہ سے ان کی دکان ادارہ اسلامیات انار کلی میں بھی رہتی، جہاں بیک وقت ادیبوں، شاعروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی بیٹھک رہتی تھی، جن میں ملک نصراللہ خان عزیز، نواب زادہ نصراللہ خان، حبیب جالب، کلیم عثمانی اور دیگر حضرات کی بھی آمدورفت رہتی۔ یہ ان کے وسیع المشرب ہونے کی ایک بڑی مثال ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں اپنے مسلک پر سختی سے پابند رہنے والے اور دوسروں کے ساتھ بحث و تمحیص سے احتراز کرنے والے تھے۔

مفتی محمد رفیع عثمانیؒ اپنے والدِ محترم کے انتقال کے بعد اس ادارے کے صدر مقرر ہوئے تو انہوں نے نہ صرف اُن کے درس و تدریس کے کام کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا بلکہ دارالعلوم کی اراضی میں بھی اضافہ کیا جو اب تقریباً 75 ایکڑ کے قریب ہے۔ اس کی چہار دیواری تعمیر کرائی اور پرانی مسجد کو شہید کرکے ایک وسیع و عریض شان دار مسجد تعمیر کرائی، اور اس کے ساتھ وضو خانے اور غسل خانوں کی صفائی ستھرائی کا ایسا انتظام رکھا جس کی مثال ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں میں تو کیا نجی شعبے میں قائم مہنگے ترین پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بھی کم کم ملے گی، اس سے مفتی رفیع عثمانیؒ صاحب کے حُسنِ انتظام اور نفاست پسندی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے اس حدیثِ مبارکہ پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے جس کی تعلیم امت کو رسالت مآبؐ نے اپنے اس ارشادِ مبارک میں فرمائی’’الطہارۃ نصف الایمان۔‘‘

مفتی رفیع عثمانیؒ کی انتظامی صلاحیتوں کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے دارالعلوم میں پھل دار درختوں اور پھولوں کی ایسی کہکشاں سجائی کہ اس میں داخل ہوتے ہی ایک خوش گوار اور فرحت بخش ماحول کا احساس ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اس کہکشاں پر اٹھنے والے اخراجات کا بوجھ دارالعلوم کے بیت المال پر پڑنے نہیں دیا، بلکہ ان درختوں کے پھل اور نرسری کے پودوں کی فروخت سے، اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کا انتظام کیا۔

مفتی رفیع عثمانیؒ نے دارالعلوم کا کچن (مطبخ) اتنا شان دار بنوایا جو بلاشبہ ’اسٹیٹ آف دی آرٹ‘ کے زمرے آتا ہے۔ اسے ملائشیا کے ماہرین نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ حفظانِ صحت کے اصولوں پر بنایا گیا ہے اور مستقل اس کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک رکھنے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کیفے ٹیریا کو بھی صاف ستھرا اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق رکھنے اور نرخوں کو باہر کے مقابلے میں نسبتاً کم رکھنے کو یقینی بنایا گیا ہے۔ دارالعلوم کے کیمپس میں ہی بینک، اے ٹی ایم اور ڈاک خانے کی سہولتیں بھی موجود ہیں۔

دارالعلوم کراچی نے اپنے قیام کے ساتھ ہی اس امر کا اہتمام رکھا کہ جن طلبہ کے والدین ہاسٹل میں رہنے والے بچوںکو زکوٰۃ/صدقات کی مد سے تعلیم نہیں دلوانا چاہتے وہ اپنے خرچ پر اپنے بچوں کے لیے الگ کمرہ حاصل کرسکتے ہیں، اس میں چاہیں تو ائر کنڈیشنر بھی لگا سکتے ہیں اور ریفریجریٹر بھی رکھ سکتے ہیں، اور بجلی کا بل ادا کردیں اور تعلیم مکمل ہونے پر اپنا سامان ساتھ لے جائیں۔ اس سہولت سے نہ صرف بیرون ملک سے آنے والے طلبہ استفادہ کرتے ہیں بلکہ اندرون ملک اور کراچی کے طلبہ بھی مستفید ہوتے ہیں۔

ایک اہم بات جس کا مشاہدہ میں نے خود کیا ہے وہ یہ کہ اپنے خرچ پر ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کے ساتھ ساتھ اُن طلبہ کے کمرے بھی صفائی ستھرائی کے اعتبار سے مثالی ہیں جن کے اخراجات دارالعلوم برداشت کرتا ہے۔ البتہ اُن طلبہ کی بڑے کمروں میں مشترکہ رہائش ہوتی ہے۔ اس سے اہم اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مفتی رفیع عثمانیؒ نے طلبہ کے لیے لانڈری میں کپڑے دھونے اور سُکھانے کے لیے الگ جگہ مختص کی جو باہر سے آنے والے کسی فرد کو نظر نہیں آتی اور کسی طالب علم کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اُس مختص جگہ کے سوا کسی اور جگہ کپڑے دھوئے یا سُکھائے جیسا کہ عام طور پر تعلیمی اداروں کے ہاسٹلوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ ان کی اعلیٰ انتظامی صلاحیت، عملیت پسندی اور کفایت شعاری پر عمل پیرا ہونے کی مثالیں وہ لوگ بھی دیتے ہیں جن کا شمار اس طرح کے اداروں کے ناقدین میں ہوتا ہے۔

میرے مرحوم عزیز دوست ڈاکٹر انوار حسین صدیقی جو اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر رہے اور قبل ازیں جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد (سپریم کورٹ کا ذیلی ادارہ) کے ڈائریکٹر جنرل رہے اور کراچی میں نیپا (NIPA) کے ڈائریکٹر بھی رہے (ڈاکٹر انوار صدیقی آئی بی اے کراچی کے پہلے بیچ کے ایم بی اے گریجویٹ تھے، بعدازاں انہوں نے امریکہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی سے ایڈمنسٹریشن اور اکنامک بجٹنگ میں پی ایچ ڈی کیا تھا۔ انہوںنے بیرونِ ملک بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھایا بھی ہے)، اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر دارالعلوم کراچی دیکھنے آئے تو اس کے حسنِ انتظام، نظم ونسق اور صفائی ستھرائی کو دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔

ڈاکٹر صاحب دارالعلوم کے دورے کے بعد رات کو میرے گھر آئے تو مجھ سے کہنے لگے کہ ’’اس ادارے کے نظم و نسق نے میری سوچ ہی بدل دی اور میں اسلام آباد جاکر اپنے اساتذہ سے درخواست کروں گا کہ وہ ایک وفد کی صورت میں طلبہ کے مختلف گروپ اپنے ساتھ لے کر جائیں اور دارالعلوم میں کچھ وقت گزارکر جائزہ لیں کہ ہم اپنی یونیورسٹی میں ’’الطہارۃ نصف الایمان‘‘ کی حقیقی روح کیسے اجاگر کرسکتے ہیں۔

دارالعلوم کراچی کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ پاکستان میں یہ پہلا ادارہ ہے جس نے دینی علوم حاصل کرنے والے اپنے طلبہ کو اختیاری مضمون کے طور پر انگریزی پڑھانے کا انتظام کیا تھا، جب کہ دیگر مدارس نے اس سلسلے میں دارالعلوم کی تقلید کی۔ اس کے علاوہ ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ حفظ و قرأت کے اساتذہ نے حجاز مقدس جاکر وہاں بچوں کو قرآن پاک حفظ کروائے، اس کی ابتدا حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے قائم کردہ مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ سے ہوئی۔ بعدازاں مدینہ طیبہ، جدہ اور سعودی عرب کے دیگر شہروں تک اس کا دائرہ وسیع ہوا۔ دارالعلوم کراچی کے بعد خیرالمدارس ملتان سے بھی اساتذہ وہاں گئے۔ سعودی عرب میں حفظِ قرآن کے سلسلے کو جاری اور وسیع کرنے کا سہرا یوسف سیٹھی مرحوم کے سر ہے جن کا تعلق گوجرانوالہ کے ایک متمول صنعتی خاندان سے تھا۔ یوسف سیٹھی مرحوم جن اساتذہ کو پاکستان سے حفظِ قرآن کرانے کے لیے لے کر جاتے تھے اُن کے تمام اخراجات وہ اپنی جیب سے برداشت کرتے تھے (واضح رہے کہ انہوں نے جب یہ سلسلہ شروع کیا تھا تو حرمِ مکہ میں بھی امامِ کعبہ تراویح کی نماز میں قرآن پاک ہاتھ میں لے کر پڑھتے تھے)۔ اس کے بعد جلد ہی سعودی عرب میں پاکستان اور ہندوستان کے مقیم خاندانوں کے بچوں کی بڑی تعداد میں حفاظ کی جماعت تیار ہوئی بلکہ خود سعودی خاندانوں کے بچوں نے بھی قرآن پاک حفظ کیا، جس کا مظہر یہ ہے کہ حرمین اور پورے سعودی عرب میں اب سعودی قرأ حفاظ نماز تراویح پڑھاتے ہیں۔ مفتی رفیع عثمانیؒ کے دور میں ہی دارالعلوم کے احاطے میں نہ صرف طلبہ اور طالبات کے لیے الگ الگ میٹرک سسٹم کے تحت اسکول قائم ہوئے بلکہ کیمبرج سسٹم کے تحت او اور اے لیول کی تعلیم کے لیے بڑا ادارہ بھی قائم ہوا جس کے طلبہ امتحان میں اعلیٰ پوزیشنیں لے رہے ہیں۔ دارالعلوم کراچی میں حرا فائونڈیشن کے تحت عصری علوم کے ساتھ حفظِ قرآن کرانے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ یہ بھی مفتی صاحب کی دور اندیشی کی ایک مثال ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دارالعلوم میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد ہزاروں میں ہے جب کہ شعبہ قرأت، طالبات کا ہائی اسکول اور کیمبرج سسٹم کے تحت او اور اے لیول کے طلبہ کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ مفتی محمد تقی عثمانی کے مطابق اِس سال اے لیول کے امتحان میں جو بچہ دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آیا ہے اس کا تعلق اسی حرا فائونڈیشن سے ہے (ان کا یہ بیان یوٹیوب پر اِس وقت بھی موجود ہے)۔

دنیا بھر میں دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اب دارالعلوم کو پہلے کی طرح اخراجات پورے کرنے کے لیے چندہ وصول کرنے لوگوں کے پاس نہیںجانا پڑتا۔ ایک زمانے میں دارالعلوم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ماہانہ بنیادوں پر مخیر حضرات سے اعانت حاصل کرنے کے لیے افراد مقرر کیے جاتے تھے۔

ایک بار میں اپنے چیف ایڈیٹر جناب مجیب الرحمٰن شامی (روزنامہ پاکستان) کے ساتھ مفتی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو شامی صاحب کے استفسار پر مفتی صاحب نے بتایا تھا کہ الحمدللہ ہمارے جاری اخراجات ماہانہ تقریباً ڈھائی کروڑ سے زائد ہیں۔ مفتی صاحبؒ نے بجلی کے بھاری اخراجات سے نجات کے لیے سولر سسٹم بھی نصب کروایا اور اس کے ساتھ متبادل نظام کے طور پر دو اسٹینڈ بائی بڑے جنریٹر بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے دارالعلوم میں کبھی بجلی کا نظام منقطع نہیں ہوتا۔ نیز اپنے اساتذہ اور مستقل اسٹاف کے لیے صاف ستھری رہائشی کالونی بھی تعمیر کرائی۔ مفتی صاحب کے اہلِ خانہ اور جسٹس ریٹائرڈ مفتی تقی عثمانی صاحب کی فیملی بھی اسی کالونی میں رہائش پذیر ہیں (واضح رہے مفتی صاحب کے ان ہی دو صاحبزادگان یعنی مفتی رفیع عثمانی اور مفتی تقی عثمانی نے درسِ نظامی کیا ہے)۔

مفتی صاحبؒ کی ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے معاملات میں کھرے پن کی شہادت ان کے صاحبزادے ڈاکٹر مفتی زبیر عثمانی نے اس طرح دی کہ وہ دارالعلوم کے کسی سپلائر سے (خواہ چھوٹی شے سپلائی کرتا ہو یا بڑی) کسی قسم کا کوئی تحفہ وصول نہیں کرتے تھے، البتہ اگر ان کا کوئی ذاتی دوست یا ملنے والا صدرِ ادارہ کے طور پر کوئی چیز پیش کرتا تو اسے بھی وہ اپنے ذاتی استعمال میں لانے کے بجائے دارالعلوم میں جمع کروا دیتے تھے۔ البتہ اپنے ذاتی دوستوں اور عزیز و اقارب کو خود تحائف دیتے بھی تھے اور اُن کے تحائف قبول بھی کرلیتے تھے، تاہم اس میں بھی یہ احتیاط برتتے تھے کہ تحفہ قیمتی نہ ہو اور اس میں سے بھی اپنی ضرورت سے زائد جو چیز ہوتی وہ دوسروں کو ہدیہ کردیتے۔

مفتی رفیع عثمانی صاحب کو حرمین کی زیارت کے دوران جن حضرات نے بھی دیکھا ہے، وہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ وہاں حاضری کے وقت اپنے چاہنے والوں کے جلو میں آنے کے بجائے شعوری طور پر اس کا اہتمام کرتے تھے کہ یہاں حاضری کے آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔ خصوصی طور پر مدینہ طیبہ میں حاضری کے وقت اُن کو دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک غلام کی طرح تنہا سلام کے لیے حاضر ہوتے تھے۔

مفتی رفیع عثمانیؒ کے اکلوتے صاحبزادے ڈاکٹر مفتی زبیر عثمانی نے مفتی صاحب کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا ہے جس سے ان کی شخصیت کا ایک اور روشن پہلو اجاگر ہوتا ہے: دارالعلوم کے اسٹاف میں ایک صاحب نے کسی سپلائر کے خرچ پر عمرہ ادا کیا۔ جب ان کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے اسے دوسروںکے سامنے شرمندہ کرنے کے بجائے الگ بلا کر کہا کہ ’’آپ نے یہ عمرہ رشوت کے پیسے سے کیا ہے، اس کا تدارک آپ کیسے کرتے ہیں یہ آپ اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے۔‘‘

ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ کسی کے اخلاق اور معاملات کا اندازہ کرنا ہو تو یہ دیکھیں کہ وہ اپنے زیر دست لوگوں، اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب کے ساتھ کیسے پیش آتا ہے۔ ان کے معاملات کے کھرے پن کا ذکر مفتی زبیر عثمانی کی زبانی بیان ہوچکا ہے۔
مفتی رفیع عثمانی صاحب اپنے اہلِ خانہ، عزیز و اقارب اور خاندان کے بچوں کے ساتھ کس طرح خوش مزاجی سے رہتے تھے، اس کی تفصیل اُن کے بڑے بھائی ذکی کیفی مرحوم کے بیٹے سعود عثمانی جو ملک کے معروف شاعر اور کالم نگار ہیں، روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے کالموں میں تفصیل سے بیان کررہے ہیں۔ یہ پڑھنے کی چیز ہے۔

مفتی رفیع عثمانی کے والد مفتی شفیعؒ نے اپنے خاندان کے حالات اور کوائف کی تفصیل اپنی کتاب ’’میرے والد ماجد‘‘ میں اس طرح بیان کی:

’’برصغیر میں عثمانی خاندان محمود غزنوی کے لشکر کے ساتھ ترکمانستان سے ہجرت کرکے پانی پت آیا تھا۔ مفتی صاحب کا خاندان شہر سے متصل ’’جوراسی‘‘ نامی قصبے میں آباد ہوا، جس کے سربراہ شیخ عبدالرحمٰن گرزنی تھے جو حضرت عثمانؓ کے بیٹے ابانؒ کی اولاد میں سے تھے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال سے قبل مرہٹوں نے پانی پت میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا تو وہاں کے مسلمانوں نے روہیل کھنڈ کے سردار نجیب الدولہ سے مدد کی درخواست کی۔ ان کی طرف سے مدد کے لیے کمک تو ضرور آئی مگر وہ اتنی کارگر نہ ہوسکی کہ مرہٹوں کا ظلم و ستم ختم ہوسکے۔ نتیجتاً عثمانی خاندان کی ایک شاخ پانی پت میں ضرور رہی مگر مفتی شفیع صاحب کا خاندان وہاں سے دریا پار کرکے ضلع سہارن پور کے دیوبند نامی قصبے میں آباد ہوگیا۔ اس شاخ کے سربراہ حافظ کلیم اللہ پانی پت سے آئے تھے اور یہی مفتی شفیع صاحب کے خاندان کے جدِّ امجد بھی ہیں جو دیوبند میں ہی مدفون ہیں۔

سعود عثمانی کے مطابق ہندوستان بھر میں جہاں جہاں عثمانی خاندان آباد ہیں جس میں لکھنؤ، بدایوں، بریلی اور دیگر شہر بھی شامل ہیں، پانی پت سے ہی ہجرت کرکے آباد ہوئے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ پانی پت میں رہ جانے والے عثمانی خاندان کے افراد کی کوئی رشتے داری مفتی شفیع صاحب کے خاندان سے تھی یا نہیں؟ البتہ یہ خاندان بھی پانی پت میں محمود غزنوی کے لشکر کے ساتھ ہی آیا تھا۔ قیامِ پاکستان تک پانی پت میں مقیم عثمانی خاندان کی قدآور شخصیات میں ایک بڑی شخصیت قاری محی الاسلام عثمانی کی تھی جو وہاں کے بڑے زمین دار تھے۔ تقسیم کے بعد قاری صاحب کا خاندان اوکاڑہ شہر اور راول پنڈی میں آباد ہوگیا اور اس خاندان کے افراد سول اور فوجی ملازمت میں اہم مناصب پر فائز ہوئے۔ ان کے ایک بیٹے ایچی سن کالج لاہور کے پرنسپل بھی رہے اور ایک داماد وزارتِ خارجہ میں اعلیٰ منصب پر فائز رہے ہیں۔ ان کے خاندان کے کچھ افراد کراچی میں بھی آکر آباد ہوئے جن میں ایک معروف شخصیت حافظ کرامت اللہ عثمانی مرحوم کی بھی تھی۔

البتہ خود قاری محی الاسلام عثمانیؒ مرحوم اوکاڑہ ہی میں مقیم رہے اور وہیں مدفون ہیں۔ وہ خود تو اپنے ذاتی خرچ پر آخر دم تک قرآن پاک کی تعلیم و اشاعت کے لیے مصروف رہے البتہ ان کے خاندان میں سے اب کوئی ایسا فرد نظر نہیں آتا جو ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہو۔

مولانا رفیع عثمانی کے دادا مولانا محمد یاسینؒ کا سن پیدائش اور دیوبند کا قیام ایک ہی سال ہوا۔ مولانا محمد یاسینؒ دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل بھی تھے اور وہیں مدرس بھی ہوئے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ وہ دارالعلوم میں فارسی پڑھاتے تھے اور فارسی شعر و ادب کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے بیٹے مفتی محمد شفیعؒ خود بھی صاحبِ دیوان شاعر تھے اور ان کے بیٹے ذکی کیفی، مفتی تقی عثمانی بھی شاعر ہیں، جب کہ ان کے پوتے سعود عثمانی کا شمار تو اب بڑے مقبول شاعروں میں ہوتا ہے۔
جناب انیق احمد کے دنیا ٹی وی کے مقبول دینی پروگرام ’’پیامِ صبح‘‘ جس میں تمام مکاتب فکر کے جید علما تشریف لاتے ہیں، انہی میں دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کے بعد عصری علوم میں پی ایچ ڈی کرنے والے علما بھی شامل ہوتے ہیں۔