سیاسی انجینئرنگ کا کھیل اورممکنہ منظرنامہ

جس انداز سے ریاستی مشینری کو چلایا جارہا ہے اس کا نتیجہ کسی بھی صورت میں سیاست اور معیشت کے حق میں اچھا نہیں نکلے گا

ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں، اور تواتر کے ساتھ پرانی غلطیاں زیادہ شدت کے ساتھ دہرائی جارہی ہیں۔ ایک طرف دہائی دی جاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ موجودہ حالات میں غیر سیاسی ہوگئی ہے اور اب قومی سطح پر سیاسی مداخلت کے کھیل کا حصہ نہیں رہی۔ مگر جو حالات ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ آج بھی پرانے کھیل میں شامل ہے۔ اگرچہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران حکومت کے قیام یا نگران وزیراعلیٰ کے انتخاب پر بظاہر یہی تاثر دیا جارہا ہے کہ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی تقرری کا فیصلہ الیکشن کمیشن اور آئینی تقاضوں کے تحت ہوا ہے، لیکن عمومی رائے یہی ہے کہ نگران وزیراعلیٰ کی تقرری میں کہیں نہ کہیں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی بھی شامل ہے۔بلکہ اس فیصلے کو پسِ پردہ قوتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا فیصلہ ساز ابھی سے مستقبل کے سیاسی منظرنامے کی تصویر پیش کررہے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر محسن نقوی کسی بھی طور پر غیر جانب دار نہیں، اور اُن کی سیاسی ہمدردیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ رجیم چینج سے پہلے سے محسن نقوی پی ڈی ایم کی سیاست کے ساتھ کھڑے تھے اور اُن کا میڈیا ہائوس بھی عمران خان کی مخالفت میں پیش پیش تھا۔ اس لیے ان کی سیاسی ہمدریاں سب کو معلوم ہیں، اور ایسے میں اُن کی تقرری کو سیاسی بنیادوں پر ہی دیکھا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اورمسلم لیگ (ق) نے اس تقرری پر سخت ردعمل دیا ہے، اور ان کے بقول اس تقرری کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا جائے گا۔ عمران خان مسلسل اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانا چاہتی ہے اوراس کے لیے انہیں نااہل بھی کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان کے بقول نگران وزیراعلیٰ کے طور پر محسن نقوی کی تقرری بھی اسی کھیل کا حصہ ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی تقرری پر سب سے زیادہ تنقید الیکشن کمیشن پر ہورہی ہے اور تحریک انصاف کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ دوبارہ اس نکتے پر زور دے کہ الیکشن کمیشن واقعی مسلم لیگ (ن) کا ذیلی ادارہ ہے یا اس کے فیصلوں میں عمران خان کی مخالفت پیش پیش ہے۔ بہت سے سیاسی پنڈت پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کو اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن اور حکمران اتحاد کے باہمی گٹھ جوڑ کے طور پر دیکھ ر ہے ہیں۔ اس لیے بظاہر لگتا ہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کو سیاسی بنیادوں پر پرکھا جائے گا اور اس کے سیاسی مخالفین اس تقرری کو متنازع بناکر پیش کریں گے۔

کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ موجودہ سیاسی حالات اورسیاسی وابستگی کے پیش نظر پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی اپنی غیر جانب داری برقرار رکھ سکیں! کیونکہ آصف علی زرداری اور نوازشریف گروپ پوری کوشش کریں گے کہ وہ محسن نقوی کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کریں۔ ظاہر ہے جب حکمران اتحاد نے محسن نقوی کا نام بطور نگران وزیراعلیٰ پیش کیا تو اس کے پیچھے یقیناً سیاسی سوچ یا اُن کے سیاسی مفادات تھے۔ ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت محسن نقوی کا نام پیش کیا گیا تاکہ حکومت اور حزبِ اختلاف سمیت پارلیمانی پارٹی میں کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہوسکے۔ حکمران اتحاد چاہتا ہی یہ تھا کہ فیصلہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے اور وہی محسن نقوی کی حمایت میں فیصلہ کرے تاکہ ان کا سیاسی کھیل آگے بڑھ سکے۔ پنجاب میں پہلے چودھری سرور، جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان اوراب شاہد خاقان عباسی، چودھری نثار، مصطفی نواز کھوکھر سمیت چند لوگوں کو پنجاب کی سیاست میں متحرک کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک نئی سیاسی جماعت یا ایک نیا سیاسی پریشر گروپ بنانے کے پیچھے کون ہے اورکیا چاہتا ہے؟ آصف علی زرداری اور محسن نقوی کے تعلقات اہم ہیں۔آصف علی زرداری پنجاب کی سیاست میں اپنا کھویا ہوا مقام بحال کرنا چاہتے ہیں، اور ان کی کوشش ہے کہ وہ نگران وزیراعلیٰ کی مدد سے الیکٹ ایبلز کا ایک ایسا گروپ اپنی جماعت کے نام پر پنجاب میں جتوا سکیں جو اُن کی اقتدار کی سیاست میں مدد فراہم کرسکے۔ پہلے بھی ان ہی صفحات پر عرض کرچکا ہوں کہ ہمیں اپنی قومی سیاست سے سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز کا کھیل ختم کرنا ہوگا، پسِ پردہ قوتیں کسی کی حمایت اورمخالفت سے باہر نکلیں، کیونکہ نہ ماضی میں، نہ ہی حال میں اورنہ ہی مستقبل میں اس سے قومی سیاست یا جمہوریت کی کوئی خدمت ہوسکے گی۔ یہ جو عمران خان کے خلاف کھیل ترتیب دیا جارہا ہے وہ الٹا عمران خان کے حق میں جائے گا،کیونکہ پہلے ہی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سمیت عمران خان کے تمام سیاسی مخالفین عمران خان مخالف بیانیہ بنانے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔ ایک بات اور اچھی طرح الیکشن کمیشن کے بارے میں واضح ہوگئی ہے کہ وہ اپنی ساکھ کھوچکا ہے۔ اس وقت الیکشن کمیشن کے فیصلے عملاً پی ٹی آئی کے خلاف ہیں اور وہ بظاہر پارٹی بن چکا ہے۔ عمران خان پہلے ہی الیکشن کمیشن پر سخت تنقید کررہے ہیں اور موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی نگرانی میں انتخابات کی قبولیت سے انکاری ہیں۔ اب جب کہ الیکشن کمیشن نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر محسن نقوی کو نامزد کردیا ہے تو عمران خان الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ پر اور زیادہ برہم ہوں گے اور حالات کو مزید محاذ آرائی میں دھکیلا جائے گا۔ عمران خان نے واضح انداز میں کہا ہے کہ اول جو لوگ مجھے سائڈ لائن کرنا چاہتے ہیں یا مجھ پر ریڈ لائن یا کراس لگانا چاہتے ہیں وہی نگران وزیراعلیٰ کی تقرری میں بھی شامل ہیں۔ وہ اس اہم تقرری پر ملک گیر اجتجاج کی کال دے رہے ہیں اور عدالت سمیت ہر فورم پر اسے چیلنج کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ وہ نگران وزیراعلیٰ کی تقرری سمیت الیکشن کمیشن کو بھی چیلنج کررہے ہیں، اور ان کے بقول ملک میں شفاف انتخابات نہیں بلکہ انتشارکی سیاست کو پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور پاپولر سیاست دانوں کو دیوار سے لگانے کا انجام برا ہوگا۔ عمران خان نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب ان کی حکومت کو گرانے کے کھیل کا حصہ تھا اور وہ حکمران اتحاد میں سہولت کار کا کردار ادا کرتا تھا اور میرا اور میری جماعت کا بدترین دشمن ہے۔ ایسے میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب سے شفاف انتخابات کی توقع مذاق ہوگا۔

اسی طرح جب پنجاب میں انتخابات ہوں گے تو مرکزی حکومت ہر صورت میں پنجاب کی نگران حکومت کو اپنے حق اور عمران خان کی مخالفت میں استعمال کرے گی۔ بعض سیاسی مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ انتخابات کروانا نہیں بلکہ انتخابات میں تاخیر پیدا کرنا اور ایک ایسے عبوری نظام کی تشکیل ہے جو کم ازکم ایک سے دوبرس تک ملک کے معاملات کو چلائے، جو معاشی ماہرین پر مشتمل ہو اور اسے عدالت سے منظور کروایا جائے۔ اس کے پیچھے اصل مقصد انتخابات سے فرار حاصل کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل بہت سے سیاست دان اور سیاسی دانشور مسائل کے حل کو انتخابات سے جوڑنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ وہ یہی دہائی دے رہے ہیں کہ انتخابات مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ اب یہ کون لوگ ہیں اورکس کے اشارے پر یہ مشورے دے رہے ہیں، اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ایک بات کا احساس کرنا چاہیے کہ وہ چاہے معاملات میں براہِ راست کسی بھی سطح پر مداخلت نہ کررہی ہو لیکن اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے اپنا دامن نہیں بچا سکے گی۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ وہ ان معاملات پر اپنے کردار کو ہر صورت محدودکرے اورجو بھی اسے اس کھیل میں شامل کررہا ہے چاہے وہ اس کا اپنا ہو یا باہر سے اس کا تعلق ہو… اس سے خود کو دور رکھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی عدم مداخلت کا عمل ایک طرف سیاسی نظام کو مضبوط بنائے گا تو دوسری طرف خود اس کے مفاد میں ہے کہ خود کو غیر جانب دار رکھے۔

دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی تحریک انصاف کے ستّر سے زیادہ ارکان قومی اسمبلی کے استعفے قبول کرچکے ہیں اور مزید کرنے والے ہیں۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ حکومت چاہتی ہے اگر نگران وزیراعظم کا انتخاب ہو تو اس میں تحریک انصاف کا کوئی کردار نہ ہو… اور یہ عمل حکومت اور حکومت کے حمایت یافتہ حزبِ اختلاف کے لیڈر راجا ریاض سے مل کر کیا جائے۔ یعنی حکومت ہی نگران وزیراعظم کا انتخاب کرے گی اوراس میں تحریک انصاف کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اس کھیل سے بچنے کے لیے تحریک انصاف کے 45 ارکان نے اپنے استعفے واپس لینے کا فیصلہ کیا تو اس پر اسپیکر قومی اسمبلی دیوار بن گئے ہیںاور اب ان 45 ارکان کے بھی استعفے قبول کرلیے گئے ہیں، حالانکہ یہی اسپیکر تھے جو کہتے تھے کہ آئین کے مطابق جب تک ارکان انفرادی سطح پر میرے سامنے تحریری درخواست کے ساتھ پیش نہیں ہوں گے میں ان استعفوں کو قبول نہیں کروں گا۔ یہ سارا کھیل ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر نکالنا مقصود ہے، یا اسے شفافیت سے دور رکھ کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا ہیں۔ حالانکہ کچھ دن قبل سپریم کورٹ نے نیب ترمیمی بل پر ریمارکس دیے تھے کہ اگر تحریک انصاف دوبارہ اسمبلیوں میں جارہی ہے تو نیب سے جڑے معاملات بھی پارلیمنٹ ہی طے کرے، لیکن حکومت کو ڈر تھا، اس لیے اسمبلیوں سے استعفوں کی قبولیت کو اسی تناظر میں دیکھا جائے۔ خیر اس کھیل کے بعد عام انتخابات کی منزل اور زیادہ نزدیک ہوگئی ہے، کیونکہ اب قومی اسمبلی سے 125کے قریب استعفوں کی قبولیت کے بعد وہاں ایک ہی وقت میں ضمنی انتخاب کروانا اوردو صوبوں میں صوبائی انتخاب کروانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو بھی اندازہ ہے کہ عام انتخابات کی منزل دور نہیں، اور اسی کو بنیاد بنا کر سیاسی فیصلے حکومتی سطح پر کیے جارہے ہیں۔

مسئلہ محض سیاست کا نہیں بلکہ ریاست کے مجموعی کردار کا ہے، اور جس انداز سے ریاستی مشینری کو چلایا جارہا ہے اس کا نتیجہ کسی بھی صورت میں سیاست اور معیشت کے حق میں اچھا نہیں نکلے گا۔ جو لوگ بھی انتخابات کے مقابلے میں نئی مہم جوئی کی ترغیب اسٹیبلشمنٹ یا حکومت کو دے رہے ہیں وہ ملک میں مزید بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں۔کیونکہ بار بار اس نکتے پر توجہ دلائی جارہی ہے کہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچر ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس لیے واحد راستہ شفاف انتخابات ہیں، اور اسی کو بنیاد بناکر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم ملک میں سیاسی مہم جوئی یا سیاسی انجینئرنگ کے کھیل کو بند کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی قوتیں، سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں جہاں اس صورتِ حال کی ذمہ دار ہیں وہیں اسٹیبلشمنٹ بھی اس بحران سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سیاسی یا غیر سیاسی فریق مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں، اور محاذ آرائی یا ٹکرائو کی سیاست نے ملک کو بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ریاستی، سیاسی، معاشی اورانتظامی نظام مفلوج ہوگیا ہے اور ہم بطور ریاست ایک مشکل مرحلے میں ہیں۔ اس مشکل سے باہر نکلنا چاہتے ہیں مگر ہماری حکمت عملی باہر نکلنے کی نہیں بلکہ معاملات کو مزید دلدل میں ڈالنے کی ہے۔ ایسے میں کون ہوگا جو اس وقت ملک کے حالات کے پیش نظر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے! مسائل کا حل جذبات سے نہیں بلکہ معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے سے ہی جڑا ہوا ہے، مگر بلی کے گلے میںگھنٹی کون باندھے گا؟ یہی مشکل سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔