بجلی کا ملک گیر بریک ڈائون،نظامِ زندگی بری طرح متاثر
خوراک، تعلیم اور ضروری ادویہ کے بعد بجلی،گیس اور پانی انسان کی بنیادی ضرورت تصور کیے جاتے ہیں، بلکہ یہ بنیادی ضرورت بن چکے ہیں۔ پاکستان کی کوئی بھی حکومت ملک کے شہریوں کے لیے یہ بنیادی سہولتیں یا ضروریات پوری نہیں کررہی ہے۔ یہ سب شعبے آج کل مافیا کی گرفت میں ہیں۔ پاکستان کے ہر شہری کو فخر ہے کہ وہ ایک آزاد اور ایٹمی قوت کی حامل مملکت کا شہری ہے۔ یہ فخر ہر حکومت نے اپنی نااہلی کے باعث چھین لیا ہے۔ مارکیٹیں ملاوٹ شدہ اشیاء سے بھری پڑی ہیں۔ جعلی ادویہ مہنگے داموں فروخت ہورہی ہیں۔ پانی، گیس اور بجلی کے بھاری بھرکم بل آتے ہیں لیکن ان سہولتوں کی فراہمی یقینی نہیں ہے۔ ان سہولتوں کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے نااہل اور کرپٹ انتظامیہ کے بوجھ تلے دب کر مر رہے ہیں اور کسی حکومت کو اس کی پروا نہیں ہے۔ اسی نااہلی کے سبب پیر23 جنوری کو ملک بھر میں بجلی کا بریک ڈائون ہوا، جس سے پورا ملک، صنعت اور کاروباری مشینری جام ہوگئی، ہسپتالوں میں مریضوں کے آپریشن متاثر ہوئے، موبائل فون سروس معطل ہوگئی، رابطے منقطع رہے۔ گڈو سے کوئٹہ جانے والی ٹرانسمیشن لائن میں فنی خرابی کے باعث بریک ڈاؤن ہوا جس کی وجہ سے فریکوئنسی کم ہوگئی۔ بجلی کی فریکوئنسی متعلقہ سطح سے کم ہونے پر جھرجھری ہوئی، جس کے باعث لازمی طور پر پاور پلانٹ ٹرپ کرجاتے ہیں۔ اس بریک ڈاؤن سے سندھ، پنجاب، اورآئیسکو ریجن متاثر ہوئے۔ ملک بھر میں بجلی کا طویل بریک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے 16 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی بجلی مکمل طور پر بحال نہ ہوسکی۔ بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن نے این ٹی ڈی سی کی کارکردگی کا پول کھول دیا۔ ادارہ بجلی بحالی کا وقت بھی بتانے سے قاصر رہا۔ بریک ڈاؤن کے وقت پروٹیکشن سسٹم نے کام نہیں کیا۔ پروٹیکشن سسٹم کے رسپانس نہ دینے کے باعث بڑا بریک ڈاؤن ہوا۔ تربیلا اور منگلا پاور پلانٹ کو چلانے کی دو کوششیں ناکام ہوئیں۔ گڈو سے کوئٹہ جانے والی این ٹی ڈی سی میں خرابی پیدا ہوئی، این ٹی ڈی سی اور پاور پلانٹ میں رابطہ منقطع ہونے سے بجلی کی فریکوئنسی کم ہوئی، کیسکیڈنگ کے باعث ایک کے بعد دوسرے پاور پلانٹ ٹرپ کرتے گئے۔ پاور پلانٹس بند ہونے سے سندھ، جنوبی پنجاب، سینٹرل پنجاب کی بجلی بند ہوگئی، لیسکو کو فیڈ کرنے والے 9 گرڈ اسٹیشن بھی بند ہوئے۔ بریک ڈاؤن کے باعث لیسکو کے 132 کے وی کے 153 گرڈ اسٹیشن بند ہونے کی وجہ سے لاہور، ننکانہ، شیخوپورہ، اوکاڑہ، قصور کے علاقے بجلی سے محروم رہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لاہور میں پانی کا بحران سر اٹھانے لگا، شہریوں کو ٹیوب ویلز بند ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت کا سامنا رہا، جبکہ ہسپتال اور دیگر ادارے بھی بجلی سے محروم رہے۔
ملک بھر میں بجلی کے طویل بریک ڈاؤن کی وجہ سے کراچی سے پشاور اور گلگت سے گوادر تک پورا ملک صبح ساڑھے سات بجے سے بجلی سے محروم رہا۔ دن بھر لوگوں نے بجلی کے بغیر گزارا۔ ایک سے زائد بار بجلی کی بحالی کی کوششیں کی گئیں جو بے سود رہیں۔17 گھنٹوں بعد بھی بجلی بحال نہیں ہوئی تھی۔ کسی شہر، کسی گاؤں، کسی محلے میں بجلی نہیں تھی۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں 15 گھنٹوں تک بجلی بند رہی۔ اس دوران پشاور سے وارسک ڈیم سے بجلی بحالی کی ایک کوشش ناکام بھی ہوئی۔ دن میں ایک وقت ایسا بھی گزرا کہ پورے ملک میں ایک یونٹ بجلی بھی نہیں تھی۔ بجلی کی بندش سے ملک بھر میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا کام ٹھپ ہوگیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بجلی کی بندش پر نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی۔
ملک میں بجلی کا بریک ڈائون کیوں ہوا؟ یہی اصل سوال ہے جس کا جواب حکومت نہیں دے سکتی، اس لیے کہ متوقع خرابی حکومت کے علم میں تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ حکومت درآمدی بل کم کرنے کے لیے فرنس آئل منگوانے سے کترا رہی تھی۔ ملک بھر میں جتنے بھی آئی پی پیز کام کررہے ہیں، حکومت اُن کی اصل استطاعت کے مطابق ادائیگی کرنے کی پابند ہے، اور فرنس آئل انہیں خود فراہم کرتی ہے، یہ براہِ راست خود فرنس آئل نہیں خرید سکتے۔ جب سے ملک میں ڈالر کا ایشو بنا ہے حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ رات کے وقت بجلی کی کم کھپت اور ضرورت ہوتی ہے لہٰذا پاور اسٹیشن اگر بند رکھے جائیں تو فرنس آئل کی بچت ہوسکتی ہے۔ یہی بچت کرتے کرتے پاور اسٹیشن کی فریکوئنسی ڈائون ہوگئی اور انہیں دوبارہ چالو کرنے کے لیے بارہ سے پندرہ گھنٹے کا وقت درکار تھا، لہٰذا پورا ملک بریک ڈائون کا شکار رہا۔ پیر کے روز جب صبح سات بجے کے قریب رات کو بند رکھے جانے والے پاور اسٹیشن ایک ایک کرکے چالو کیے جارہے تھے تو اس دوران جامشورو اور دادو کے درمیان فریکوئنسی کی کمی کی وجہ سے پورے ملک میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا۔ فنی زبان میں اس بریک ڈاؤن کو شمال سے جنوب تک بریک ڈائون کا نام دیا گیا۔ پورا سسٹم بھی اسی ترتیب سے جنوب سے شمال کی طرف بحال کیا گیا۔ تربیلا اور وارسک بھی متاثر ہوئے جس کی وجہ سے ملک بھر میں بجلی منقطع رہی۔
ہمیں ایک جانب زرِمبادلہ کے ذخائر کی کمی کا سامنا ہے اور دوسری جانب یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم بہت مشکل میں گھر چکے ہیں، اب وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کی ترتیب بدلیں، اس کے بغیر ملکی صنعت اور انسانی زندگی کا پہیہ چلنا ممکن نہیں ہوگا۔
پاکستان میں بجلی کے جنوبی ترسیل کے نظام میں خرابی کے باعث کراچی سمیت اندرونِ سندھ کے مختلف علاقوں اور بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہوئی۔ گزشتہ چھے ماہ پہلے کراچی میں بریک ڈائون ہوا تھا، سندھ ہائی کورٹ نے اس واقعے کی سماعت کی تھی اور کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی ’کے الیکٹرک‘ کے سی ای او کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، لیکن مافیا کی اپنی قوت اور طاقت ہے۔ حالیہ بریک ڈائون سے نیشنل گرڈ میں خرابی کے باعث 6 ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی معطل ہوئی، جس کے باعث بریک ڈاؤن شروع ہوا اور پورے ملک میں پھیل گیا۔ وفاقی وزارتِ توانائی نے بیان جاری کیاکہ ’’ملک کے جنوبی ٹرانسمیشن سسٹم میں حادثاتی خرابی کے باعث متعدد جنوبی پاور پلانٹ مرحلہ وار ٹرِپ ہورہے ہیں جس سے ملک کے جنوبی حصے میں بجلی کی ترسیل میں رکاوٹ آرہی ہے، جلد از جلد بجلی کے نظام کو مکمل بحال کرلیا جائے گا۔‘‘
واپڈا حکام نے تصدیق کی ہے کہ گڈو تھرمل پاور ہاؤس میں بھی فنی خرابی ہوئی ہے جس سے 832 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے 6 یونٹ ٹرپ ہوگئے تھے، اس خرابی کے باعث سندھ، بلوچستان اور پنجاب کو گڈو تھرمل بجلی گھر سے بجلی کی فراہمی معطل ہوئی، آئیسکو کے117گرڈ اسٹیشنزکو بجلی کی فراہمی معطل ہوئی، اسی طرح ملتان ریجن میں بجلی کا سسٹم ٹرپ ہوا، بعد میں لاہور میں بھی بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا جس کے بعد شہر بھر میں بجلی کی فراہمی معطل ہونے سے اورنج لائن ٹرین بھی بند ہوگئی۔ کراچی میں بجلی کا سب سے بڑا بریک ڈاؤن ہوا۔ کراچی کے90 فیصد علاقوں میں بجلی کی سپلائی بند ہوئی۔ پشاور اور خیبرپختون خوا کے بیشتر اضلاع میں بھی بجلی کے بریک ڈاؤن کے باعث بجلی کی فراہمی معطل ہوئی۔ حکومت نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ پاور پلانٹس بند کیے جانے سے بجلی کا بریک ڈائون ہوا ہے۔ حکومت نے بجلی بچانے کے لیے رات کو پاور پلانٹس بند کیے، تاہم صبح جب بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا تو بجلی کا بریک ڈائون ہوگیا۔ پاور ڈویژن کو علم تھا مگر اس خرابی کی نوعیت اور اسے کیسے حل کیا جائے؟ اس بارے میں وہ مکمل لاعلم رہا۔ بارہ گھنٹوں کے بعد 10 ہزار میگاواٹ میں سے صرف 750 میگاواٹ بجلی بحال ہوئی لیکن وہ بھی مستحکم نہیں تھی، جس کی وجہ سے سسٹم میں مسلسل ٹرپنگ کا سلسلہ جاری رہا اور توانائی کی وزارت بے سدھ رہی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے ملک میں بجلی کے تعطل کا سخت نوٹس لے لیا ہے، تاہم یہ نوٹس کی حد تک ہی رہے گا۔ وزیراعظم نے ملک میں بجلی کی فوری بحالی کا حکم دیا اور بریک ڈائون کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی تشکیل دے دی، اس کی رپورٹ منظرعام پر لانا بہت ضروری ہے۔
ماضی میں 2002ء میں بجلی کا بریک ڈائون ہوا تھا، پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران بجلی بند ہوگئی تھی، اُس وقت چیف انجینئر معطل ہوئے اور ریٹائرمنٹ سے قبل انہیں بحال کرکے پوری مراعات دے کر رخصت کیا گیا تھا۔ پاور ڈویژن ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ گڈو پاور پلانٹ کے حفاظتی سسٹم کی ناکامی سے بجلی کا ملک گیر بریک ڈائون ہوا،گڈو پاورپلانٹ سے گزشتہ سال بھی ملک گیر بریک ڈائون ہوا تھا۔ گڈو پاور پلانٹ ملک کے پاور ٹرانسمیشن کے لیے بلیک ہول بن گیا ہے۔ اِس پاور پلانٹ میں صبح 7 بج کر 34 منٹ پر خرابی پیدا ہوئی، پلانٹ 747 میں خرابی سے ملک گیر بریک ڈائون ہوا، پاور پلانٹ کا حفاظتی نظام خرابی کو نیشنل گرڈ میں جانے سے نہ روک سکا۔ پروٹیکشن سسٹم کی ناکامی سے خرابی پورے نیشنل گرڈ تک پھیل گئی۔گڈو سے این ٹی ڈی سی کی دو لائنیں بلوچستان کو بجلی فراہم کرتی ہیں، سبی کے ذریعے ایک 220، دوسری 500 کے وی لائن بلوچستان کو بجلی فراہم کرتی ہے، ان لائنوں میں سے کسی ایک میں خرابی پیدا ہوئی، اس خرابی سے این ٹی ڈی سی کا پورا سسٹم بیٹھ گیا۔ گڈو پاور پلانٹ کا کوئی مستقل سی ای او نہیں ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق بجلی کی بندش کے باعث ٹیکسٹائل سیکٹر کواب تک 7کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے، بجلی بحال نہ ہوئی تو یہ نقصان اربوں ڈالر تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر کے مطابق پورے صوبے کی صنعتیں بند رہیں،پشاور کے حیات آباد انڈسٹریل زون میں 400کارخانے بند رہے، کوہاٹ روڈ پرموجود 165 اسمال انڈسٹریز بھی بند ہوئیں، گڈون اور خطار انڈسٹریل اسٹیٹ میں بھی کارخانے مکمل طورپر بند رہے۔ بریک ڈاؤن کے ڈیڑھ گھنٹے بعد اسلام آباد اور پشاور میں جزوی طور پر دو گھنٹے تک بجلی بحال ہوئی مگر سسٹم پھر بیٹھ گیا۔پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق بجلی کے بریک ڈاؤن کے باعث پیٹرول اور ڈیزل کی مانگ میں اضافہ ہوگیا۔ملک کے مختلف شہروں میں تقریباً 50 فیصد پیٹرول پمپس پر پیٹرول اور ڈیزل ختم ہوگیا،بریک ڈاؤن کی وجہ سے نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا۔