آپ اپنے گھر میں اپنے بچے کو چاہے یہ عقیدہ سکھا دیں کہ خدا ایک ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی تھے، اور چاہے آپ اس کے ذہن میں یہ بٹھا دیں کہ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے… بہت سے لوگوں نے یہ کام بھی چھوڑ دیا ہے اور اپنے بچوں کو وہ مشنریوں کے حوالے کردیتے ہیں تاکہ وہ جو عقیدہ چاہیں، ان کے ذہنوں میں اتار دیں… لیکن وہ بچے جب کالجوں میں جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے یہ صورت آتی ہے کہ تمام علوم جو وہ پڑھ رہے ہیں، ان کے اندر ’’خدا‘‘ کہیں بیچ میں آتا ہی نہیں۔ وہ سائنس پڑھ رہے ہوں یا علومِ عمرانی، کبھی ان کو یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس کائنات کے اندر خدا کا بھی کوئی کام ہے، وہ بھی کچھ کررہا ہے۔ ان کے سامنے یہ آتا ہی نہیں کہ رسولوں نے بھی کوئی علم الاقتصاد دیا ہے، رسولوں نے بھی کوئی فلسفۂ قانون دیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ایک ایک علم جو وہ پڑھتے ہیں، وہ ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ اسلام نے (معاذ اللہ) بہت سارے غلط کام کر ڈالے ہیں۔ مثلاً اس نے سود کو حرام کیا، گویا نعوذ باللہ ایک بڑا فضول کام کیا، کیوں کہ سود کے بغیر دنیا کا کوئی معاشی نظام نہیں چل سکتا اور کوئی Financial system کھڑا نہیں ہوسکتا۔ ان کے سامنے یہ بات آتی ہے کہ اسلام نے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا قرار دیا، گویا (معاذ اللہ) بڑا وحشیانہ کام کیا۔ پھر اس نے زنا جیسی ’’پُرلطف اور تفریحی‘‘ چیز پر خوامخواہ اتنی سخت سزا تجویز کی کہ کوڑے مار مار کر کسی کی پیٹھ کی کھال ادھیڑ دی جائے۔ یہ بھی جیسے بہت وحشیانہ کام کیا۔
ذرا سوچیے! اس طرح کا طرزِ فکر جب ان کے سامنے آئے گا تو کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ اسلامی تہذیب کے سچے دل سے قائل اور اس کے پیرو کبھی ہوسکتے ہیں؟ اور پھر وہی لوگ جو ان کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں، وہی آپ کے ملک کا نظام چلاتے ہیں، وہی آپ کے ملک کے سول سرونٹ بنتے ہیں، وہی جنرل بنتے ہیں، وہی عدلیہ و مقننہ کے اعلیٰ مدارج تک پہنچتے ہیں، وہی آپ کی حکومت کے کار پرداز بنتے ہیں۔ ان کے دماغ میں یہ بات کیسے اترسکتی ہے کہ یہ اسلام چلنے کے قابل ہے اور چلانے کے قابل ہے؟ چنانچہ آپ تعلیم یافتہ لوگوں کے ایک بڑے گروہ سے بات کرکے دیکھ لیں، آپ کو تھوڑی ہی دیر میں یہ محسوس ہوجائے گا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اِس زمانے میں چلنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سارے علوم انہوں نے جس انداز سے پڑھے ہیں اس کی وجہ سے ان کی سمجھ میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی کہ کوئی طرزِ زندگی یا نظام حیات، مغربی نظام زندگی سے بہتر ہوسکتا ہے اور وہ چل بھی سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قابل عمل صورت وہی ہے جو مغربی طرزِ زندگی کی ہے۔ کیونکہ ایک چیز چل رہی ہے اور کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے، جب کہ دوسری چیز معطل ہے اور اس کا کوئی اثر ان علوم و فنون پر نہیں ہے، جن کو وہ پڑھ رہے ہیں۔
لہٰذا تنقید کے کام کے ساتھ ساتھ دوسرا تعمیری کام جوناگزیر ہے اور جسے کرنے کی شدید ضرورت پیدا ہوگئی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام علوم کو اسلام کے نقطہ نظر سے مرتب کیا جائے تاکہ ہماری نئی نسلیں اسلام کے برحق ہونے پر واقعی مطمئن ہوسکیں اور ان کو یہ اطمینان ہو کہ یہ چیز چلنے کے قابل ہے اور ان کے اندر یہ ارادہ بھی پیدا ہو کہ اس کو چلانا چاہیے۔
(سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ… بحوالہ:’’ تہذیبی کشمکش میں علم و تحقیق کا کردار‘‘)
مجلس اقبال
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
علامہ بسا اوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیںتو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔