حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
” اس وقت تک مجھ سے حدیث بیان نہ کرو جب تک تمہیں صحیح علم نہ ہو۔ (یاد رکھو)
جس آدمی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنالے“۔
(ترمذی)
ایمان محض ایک مابعد الطبیعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رُو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے اور اس کے معاوضے میں خدا کی طرف سے اس وعدے کو قبول کرلیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ اس اہم مضمون کے تَضَمُّنات [جزئیات] کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع [معاہدہ] کی حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔
معاہدے کی نوعیت
جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیوںکہ وہی اس کا اور اُن ساری چیزوں کا خالق ہے جو اس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کررہا ہے۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید وفروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اسے بیچے، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے خارج ہے کہ وہ اسے خریدے۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کلیتاً اس کے حوالے کردیا ہے، اور وہ ہے اس کا اختیار، یعنی اس کا اپنے انتخاب و ارادے میں آزاد ہونا۔ اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خودمختاری حاصل ہوجاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کردے۔ بالفاظِ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا، اور اُن اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں، مالک ہوگیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں کو جس طرح چاہے استعمال کرے، بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود ہی اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خدا کے حقوقِ مالکانہ کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہوکر اپنے حدودِ اختیار میں اپنے حسبِ منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے۔
دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے، بلکہ اس معاملے کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جو چیز خدا کی ہے، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تُو برضا و رغبت (نہ کہ بہ مجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے، اور زندگی بھر اس میں خودمختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کرلے، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خودبخود دست بردار ہوجا۔ اس طرح اگر دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو (جو تیری حاصل کردہ نہیں بلکہ میری عطا کردہ ہے) میرے ہاتھ فروخت کردے گا تو میں تجھے بعد کی جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورتِ جنت ادا کروں گا۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کرلے وہ مومن ہے، اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے، اور جو شخص اس سے انکار کردے، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویّہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جاسکتا ہے، وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے۔
اللہ سے معاہدے کے تقاضے
بیع کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تَضَمُّنات کا تجزیہ کیجیے:
1- اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمائشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمائش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اُتر آئے۔ دوسری آزمائش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہوجائے۔
2- دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اس کی رُو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضی شرع کسی کے غیرمومن یا خارج از ملّت ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اس کے حق میں اپنے ادعائے ملکیت سے کلیتاً دست بردار ہوجائے۔ پس اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا، اپنے دل و دماغ اور بدن کی قوتوں کا، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو، اور ان میں اپنے حسبِ منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو، تو ہوسکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے مگر خدا کے ہاں یقیناً وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا، کیوںکہ اس نے خدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآن کی رُو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں خدا کی مرضی ہو، وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا، اور جہاں اس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا، یہ دونوں طرزِعمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کردیتے ہیں کہ مدعیِ ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے، یا بیع کا معاہدہ کرلینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے۔
3- ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویۂ زندگی اور کافرانہ رویۂ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو، اپنی زندگی کے ہرشعبے میں خدا کی مرضی کے تابع بن کر کام کرتا ہے اور اس کے رویّے میں کسی جگہ بھی خودمختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا۔ اِلاّ یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہوجائے اور وہ خدا کے ساتھ اپنے معاہدۂ بیع کو بھول کر کوئی خودمختارانہ حرکت کربیٹھے۔ اسی طرح جو
گروہ، اہلِ ایمان سے مرکب ہو، وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی، کوئی سیاست، کوئی طرزِ تمدن و تہذیب، کوئی طریق معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویہ خدا کی مرضی اور اس کے قانونِ شرعی کی پابندی سے آزاد ہوکر اختیار نہیں کرسکتا، اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبُّہ ہوگا اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویّے کی طرف پلٹ آئے گا۔ خدا سے آزاد ہوکر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقاتِ نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں، بہرحال ایک کافرانہ رویۂ زندگی ہے، خواہ اس پر چلنے والے لوگ ’مسلمان‘ کے نام سے موسوم ہوں یا ’غیرمسلم‘ کے نام سے۔
4- اس بیع کی رُو سے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا خود بتائے۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرالینا، اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے، اور یہ معاہدۂ بیع کے قطعی خلاف ہے۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدئہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا پورا رویۂ زندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبرؐ کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو۔
یہ اس بیع کے تضمنات ہیں، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خودبخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس خریدوفروخت کے معاملے میں بھی قیمت (یعنی جنت) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر کیوں مؤخر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ’’بائع نے اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا‘‘، بلکہ وہ اس عمل کا معاوضہ ہے کہ ’’بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خود مختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے‘‘۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اُس وقت ہوگی، جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہوجائے اور فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدئہ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحے تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ازروئے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ (تفہیم القرآن، ج2،ص 235-237)