’’عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح پر ایک نظر‘‘

مولانا ابوالحسن علی ندویؒ المعروف بہ مولانا علی میاں نے سید مودودیؒ کی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ پر تنقید بعنوان ’’عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح‘‘ تحریر کی تھی، زیرنظر کتاب ہندوستان کے معروف عالم جناب سید احمد قادریؒ کی جانب سے تنقید کے جواب پر مبنی ہے۔

مولانا علی میاں کی کتاب کی اشاعت کے وقت سید مودودیؒ کی زیربحث کتاب اپنی اشاعت کے 35 سال مکمل کرچکی تھی، اہم اور غور طلب بات یہ ہے کہ اچانک 35 برس بعد مولانا علی میاں نے اپنی کتاب کی تحریر اور اشاعت کا اہتمام ایک ایسے وقت کیوں کیا، جب جماعت اسلامی ہند حکومتی عتاب کا شکار تھی، اس کے ذمہ داران پابندِ سلاسل کیے جاچکے تھے، جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملازمتوں سے نکالا جارہا تھا اور جماعت کی املاک ضبط کی جاچکی تھیں!

جماعت اسلامی کی اس بے بسی اور بے زبانی کے دور میں بعض نام ور علماء کی جانب سے جماعت اسلامی کے خلاف شدید مخالفانہ مہم ایک شرمناک فعل تھا جو اہلِ دین کے دامن پر ایک دھبے کے طور پر ثبت ہوکر رہ گیا۔

پاکستان میں عام انتخابات سے ذرا پہلے شیخ الحدیث ذکریا کاندھلویؒ نے 1951ء میں اپنا تحریر کردہ ایک نجی خط ’’فتنہ مودودیت‘‘ کے عنوان سے چھاپ کر جماعت کی انتخابی مہم پر شب خون مارنے کی کوشش کی۔ یہ خط انہوں نے اپنے مدرسے کے شیخ القرآن حضرت ذکریا قدوسیؒ کے نام تحریر کیا۔ اس خط میں انہوں نے ذکریا قدوسیؒ کو جماعت اسلامی کی حمایت سے دست بردار کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس خط میں سید مودودیؒ کی تحریروں کو کتربیونت، اور سیاق و سباق کے علی الرغم جس طرح پیش کیا گیا ہے، اس نے شیخ الحدیث کی علمی دیانت کو بری طرح مجروح کیا۔ شیخ التفسیر ذکریا قدوسی صاحب فاضل اجل اور بڑے کھرے انسان تھے۔ وہ دلیل کی بنیاد پر اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ شیخ الحدیث جب دلیل کے زور پر شیخ التفسیر کو قائل نہ کرسکے تو انہوں نے جماعت اسلامی کی حمایت کے جرم میں انہیں مدرسے سے نکلوا دیا۔ شیخ التفسیر نے دل پر پتھر رکھ کر مدرسے سے 40 سالہ تعلق توڑنا تو قبول کرلیا لیکن حق اور سچ کی بنیاد پر جماعت اسلامی کی حمایت پر قائم رہے۔ اس واقعے کے تھوڑے ہی عرصے بعد شیخ التفسیر رحلت فرما گئے۔ اوّل تو ایک نجی خط، جس کے مخاطب/مکتوب الیہ کے انتقال کو بھی برسوں بیت چکے ہوں ، 19، 20 سال بعد اچانک اس طرح مشتہر کرنا، اخلاق و دیانت کے اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔ مزید یہ کہ اس خط کو ’’فتنۂ مودودیت‘‘ کا عنوان دینا ایک ایسا فعل ہے جس کی توقع کسی بھلے انسان سے نہیں کی جاسکتی، کجا کہ یہ کارروائی شیخ الحدیث اور شیخ طریقت کی جانب سے کی جائے۔ اس خط کے ناشر، حضرت کے مصاحبِ خاص نے تو حد ہی کر ڈالی، جماعت کی بے بسی اور بے زبانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر ڈالا۔

شیخ الحدیث کے بعد مولانا علی میاں کی جانب سے سید مودودیؒ کی 35 برس سے مسلسل چھپنے والی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ پر تنقید عین اُس وقت منصۂ شہود پر آئی جب ہندوستان کی جماعت اسلامی ابتلا و آزمائش سے گزر رہی تھی۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ایسے وقت میں مولانا علی میاں نے اس کتاب کی ترتیب و اشاعت کا اہتمام آخر کس مقصد کے تحت کیا تھا۔ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کے آغاز ہی میں مولانا علی میاں نے یہ بات بہت زور دے کر کہی ہے کہ یہ کتاب خالصتاً خیرخواہی کے جذبے کے تحت لکھی ہے۔ یہ کیسی خیرخواہی ہے کہ جماعت بدترین ظلم کا شکار ہے اور آپ عین اُسی وقت بجائے غم گساری اور حوصلہ افزائی کے، مخالفت کا فریضہ انجام دینے بیٹھ جائیں!

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

اگر یہ خیرخواہی تھی تو پھر بدخواہی کس شے کا نام ہے؟ اگر یہ کام کرنا لازم ہی تھا تو بعد میں کسی وقت کیا جاسکتا تھا۔

دین کے وارثین کے بالمقابل اب ایک سیکولر رویہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ شاہِ ایران لاڑکانہ میں بھٹو کے مہمان تھے۔ اُس وقت کی مشہور اداکارہ نیلو کو فرمانِ شاہی ملا کہ لاڑکانہ پہنچ کر شاہ ایران کے لیے منعقد کردہ محفلِ رقص و سرود کی رونق دوبالا کرو۔

نیلو کی جانب سے انکار پر سرکاری اہل کاروں نے اس کی والدہ کو اٹھا لیا۔ اس واقعے کے بعد نیلو نے غم و غصے میں خواب آور گولیاں کھا کر خودکشی کرڈالی۔ یہ الگ بات ہے کہ بروقت طبی امداد کے باعث اس کی جان بچ گئی۔ اس واقعے کے خلاف حبیب جالبؔ نے ایک باغیانہ نظم کہی:
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
جسم کی لو سے شمعیں جلانے چلو
غم بھلانے چلو، ورنہ تھانے چلو

اس باغیانہ جسارت کے جرم میں حبیب جالب کو ایک طویل مدت کے لیے جیل کی مشقت سہنی پڑی۔ بھٹو صاحب معزولی کے بعد حوالۂ زنداں تھے، تب ایک جلسے میں لوگوں نے جالبؔ مرحوم سے ’’لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو‘‘ پڑھنے کی فرمائش کی، تو جالبؔ صاحب نے نظم پڑھنے سے صاف انکار کردیا اور کہا ’’بھٹو صاحب اِس وقت جیل میں ہیں، ایسے وقت میں اُن کے خلاف بات کرنا اخلاق و شرافت کے یکسر خلاف ہے۔‘‘

رہی بات اس تنقید کے معیار کی، تو مولانا علی میاں نے اپنے ذہن میں پہلے سے موجود ایک مفروضے کے زیراثر سید مودودیؒ کی کتب کا مطالعہ کیا تھا اور اس کا وہی نتیجہ مرتب ہونا تھا جو اُن کی تحریر سے عیاں ہے۔ اگر مولانا علی میاں خالی الذہن ہوکر سید مودودیؒ کی کتب کا بغور مطالعہ کرتے تو نتیجہ بالکل مختلف ہوتا۔ انہوں نے مطالعے کے بغیر یہ تنقید مرتب کی ہے۔ اگر وہ دستورِ جماعت میں ’لا الٰہ الا اللہ‘ کی تشریح کا مطالعہ کرلیتے تو اللہ کی حاکمیت پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کا اُن کا اعتراض ازخود رفع ہوجاتا۔ اسی طرح دستورِ جماعت میں نصب العین کی تشریح میں ’’اقامتِ دین‘‘ کا مکمل مفہوم بغور پڑھ لیتے تو جماعت پر اقامتِ دین کے محدود سیاسی مفہوم کا الزام لگانے سے باز رہتے۔ ’’خطبات‘‘ کا بغور مطالعہ ان پر یہ واضح کردیتا کہ سید مودودیؒ دین میں عبادات کو اس سے زیادہ بلند مقام دیتے ہیں جتنا ہمارے ہاں عام علماء دیتے ہیں۔ اور اسی نہج پر اگر وہ ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ کا مطالعہ کرتے تو انہیں اس تصنیف کی زحمت ہی نہ اٹھانی پڑتی۔

’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ میں سید مودودیؒ نے (1) رب، (2) دین، (3) الٰہ، اور (4)عبادت کے بیان میں پہلے ہر ہر اصطلاح کے لغوی معنی بیان کرتے ہوئے ان اصطلاحات کا مفہوم واضح کیا ہے۔ لغوی تفصیل کے بعد اس مفہوم کی تائید میں بیسیوں قرآنی آیات مع ترجمہ پیش کرکے مفہوم کو مدلل کیا ہے۔

ایک طرف تو مولانا علی میاں سید مودودی پر یہ کریہہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ان اصطلاحات کے مفہوم میں تحریف کرکے دین کو بدلنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی ہے۔ دوسری جانب اپنی تنقید کو ایک خیرخواہانہ اور ’’علمی و اصولی ، تبصرہ و جائزہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ علمی و اصولی جائزے کا لازمی تقاضا یہ تھا کہ وہ سید مودودیؒ کے بیان کردہ لغوی مباحث میں موجود غلطی کی واضح نشان دہی کرتے اور قرآنی استدلال کے باب میں تفسیر و حدیث اور علمائے سلف کے حوالے سے انحراف کو بھی متعین کرتے۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس اعتبار سے ان کی تنقید بالکل خالی ہے۔

اس کتاب کا عربی ترجمہ بعنوان ’’التفسیر السیاسی الاسلام‘‘ (اسلام کی سیاسی تفسیر) نور عالم خلیل امینی نے کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد علامہ یوسف القرضاویؒ نے مولانا علی میاں سے عرض کیا تھا کہ:

’’ہم پورے دین کے داعی اور عرب ملکوں میں اسلام کو غالب اور حکمران دیکھنے کے آرزومند ہیں۔ دنیائے عرب اور دنیائے اسلام میں جب ہم اس کی کوشش کرتے ہیں تو ہر جگہ حکمرانوں کی جانب سے ہم پر یہی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ہم دینِ اسلام کی سیاسی تشریح اور تعبیرکرتے ہیں۔ آپ کی اس کتاب سے ایسے حکمرانوں کو تائید اور حمایت حاصل ہوئی ہے‘‘۔ علی میاں نے سن کر کہا کہ اس پہلو کی طرف ہمارا دھیان نہیں گیا ورنہ اس کتاب کا یہ نام ہرگز نہ رکھتا۔

اللہ تعالیٰ سید احمد قادریؒ سے راضی ہوجائے۔ انہوں نے بڑے مدلل طریقے سے مولانا علی میاں کی تنقید کی اصلیت کو عیاں کیا ہے۔

یہ کتاب ہندوستان میں طبع ہوئی، اس کے بعد پاکستان میں بھی چھپی تھی، لیکن اِدھر ایک عرصے سے یہ کتاب ناپید تھی۔ مکتبہ تعمیر انسانیت نے اسے دوبارہ چھاپ کر ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ کراچی میں یہ کتاب مکتبہ علوم اسلامیہ برنس روڈ (فون نمبر0213-2213245) پر دستیاب ہے۔