فرائیڈے اسپیشل 2022ایک نظر میں

(چوتھا حصہ اور آخری حصہ)

اس سے قبل ہم نے 23ستمبر تک کے شماروں کا ذکر کیا تھا۔

30ستمبر کے شمارے میں ”سیلاب میں ڈوبا پاکستان اور منقسم گندی سیاست“میاں منیر احمد، ”دنیا میں تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان… اسباب کیا ہیں؟“ شاہنواز فاروقی، ”امریکہ کے وسط مدتی انتخابات“ مسعود ابدالی، ”عمران خان کی مزاحمتی سیاست“ سلمان عابد، ”کشمیر میں دینی راہنمائوں کا کریک ڈائون“ سید عارف بہار، ”برطانیہ میں ہم جنس پرستوں کا اجتماع“ ڈاکٹر اسامہ شفیق، ”لڑکا۔۔۔لڑکی۔کیا کہیں؟“ کے عنوان سے ڈاکٹر اظہر چغتائی نے لکھا تھا۔

8 اکتوبر: ”سیرتِ طیبہﷺ اور عہدِ حاضر کے چیلنج“ کے عنوان سے شاہنواز فاروقی نے لکھا کہ: ”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو پیغام لے کر آئے،وہ ایک جانب وحدتِ انسانی کی حقیقی بنیادیں فراہم کرتا ہے اور دوسری جانب امتِ مسلمہ کی صورت میں ایک ایسی امت تشکیل دیتا ہے، آفاقیت جس کا خمیر ہے“۔ ”آڈیو لیکس اور تیسری قوت“ میاں منیر احمد، ”کشمیر کی اقتصادی تباہی کا منصوبہ“ سید عارف بہار، ”مفاداتی سیاست کی مضبوط جڑیں“ جلال نورزئی، ”ربیع الاول ماہِ رسولﷺ..جامع مسجد اشاعت اسلام دہلی میں خطبہ…“ ڈاکٹر محی الدین غازی، ”بحیرئہ بلقان میں غیر مرئی ریاستی دہشت گردی“ مسعود ابدالی، ”تم بھی بے تحاشا بھاگے“ احمد حاطب صدیقی، ”ایران دو انتہائوں کے درمیان“ نگار سجاد ظہیر، جبکہ ”علامہ یوسف عبداللہ القرضاوی“ حافظ محمد ادریس کے مضمون کا عنوان تھا۔

14اکتوبر: ”کامران ٹیسوری سندھ کے گورنر.. اسٹیبلشمنٹ کا نیا کھیل کیا ہے؟“ کے عنوان سے اے اے سید، ”پاکستانی معاشرے کی سیاست زدگی‘‘ شاہنواز فاروقی، ”چین اور امریکہ کے بدلتے ہوئے مؤقف؟“ سید عارف بہار، ”تیل کی پیداوار میں کمی“ مسعود ابدالی، ”افغانستان میں استحکام کے خلاف سازشیں“ جلال نورزئی، ”برطانیہ شدید معاشی بحران کی زد میں“ ڈاکٹر اسامہ شفیق کا عنوان تھا۔

21اکتوبر: ”ذرائع ابلاغ کی طاقت“ شاہنواز فاروقی، ”ایران میں ہنگامے“ مسعود ابدالی، ”مغربی دنیا کشمیر پر مائل بہ کرم کیوں؟“ سید عارف بہار، جبکہ ”جماعت اسلامی کی مقبولیت کا خوف: کراچی مسائل کی آماجگاہ“ اے اے سید کا موضوع تھا۔

28اکتوبر: ”پاکستان کے صفِ اوّل کے صحافی ارشد شریف کا درد ناک قتل“ اے اے سید، ”قوم کا اندیشہ: پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟ یہ سوال کیوں اٹھ…“ شاہنواز فاروقی، ”نرگس کیوں روتی ہے؟“ احمد حاطب صدیقی، جبکہ ”فالج کی علامات جانیے“ ڈاکٹر عبدالمالک کے مضمون کاعنوان تھا۔

4نومبر: ”پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کمزور یا طاقت ور؟“ شاہنواز فاروقی، ”فالج لا علاج نہیں ہے“ اے اے سید، ”اقبال اور مسجد قرطبہ“ ڈاکٹر رئوف پاریکھ، ”یوکرین جنگ… تھکن اور دراڑ کے آثار“ مسعود ابدالی، ”ہائے بے چارے شہری غریب“ ابوالحسن اجمیری کا موضوع تھا۔

11نومبر: مسعود ابدالی نے ”اسرائیل کے پانچویں پارلیمانی انتخابات“ کے عنوان سے، جبکہ شاہنواز فاروقی نے ”عمران خان پر قاتلانہ حملہ: پاکستان کی دھماکہ خیز سیاسی صورتِ حال“ کے عنوان سے لکھا۔

18نومبر: ”پارلیمانی بالادستی کی جنگ؟“ سلمان عابد، ”مغربی دنیا اور اس کا ہولناک نظام“ شاہنواز فاروقی، ”امریکہ کے وسط مدتی انتخابات، غیر متوقع نتائج اور منقسم مینڈیٹ“مسعود ابدالی، ”معاشیات کی اسلامائزیشن کے علَم بردار، ڈاکٹر پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی رحلت“ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، ”بچوں کی بیماریاں اور ماحولیاتی تبدیلی“ ڈاکٹر اظہر چغتائی کا عنوان تھا۔

25 نومبر: ”برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی امت پرستی اور اس کے اسباب“ شاہنواز فاروقی کا عنوان تھا۔ 2 دسمبر کے شمارے میں ”پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے“ شاہنواز فاروقی، جبکہ ”قومی معیشت دلدل میں“ میاں منیر احمد کا عنوان تھا۔ اسی طرح اے اے سید کا کیا ہوا ”بڑی شاعری فکریاتی شاعری ہوتی ہے، سحر انصاری کا مفصل انٹرویو“ بھی اس شمارے میں تھا۔ 9 دسمبر: ”معاشرے میں کفر تک لے جانے والی غربت، خودکشی تک لے جانے والا…“ شاہنواز فاروقی، ”مردم شماری کے نتائج: مسیحی ریاست برطانیہ میں مسیحیت سے لاتعلقی“ اسامہ شفیق کا عنوان تھا۔ ”پاکستان کا سیاسی گرداب“ سلمان عابد، ”چینی صدر کا دورئہ سعودی عرب۔۔ نئی عالمی صف بندی؟“ مسعود ابدالی، ”ڈاکٹر محمد ایوب صابر“ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ”مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ: ایک نیک اور فیاض خاتون کا صدقۂ…“ محمد عامل عثمانی کا عنوان تھا۔

23دسمبر: ”قائداعظم کا آدھا پاکستان اور تاریک مستقبل؟“ کے عنوان سے شاہنواز فاروقی، ”برطانوی معیشت شدید مشکلات کا شکار“ کے موضوع پر ڈاکٹر اسامہ شفیق نے لکھا۔

سال کے آخری ہفتے 30 دسمبر کے شمارے میں ”ڈوبتی معیشت، داخلی انتشار، دہشت گردی کی نئی لہر، سیاسی ایمرجنسی کا خطرہ؟“ میاں منیر احمد، ”حق دو گوادر تحریک.. پُرامن دھرنے پر پولیس کا آپریشن“ اے اے سید، ”نئی اسرائیلی حکومت..انتہا پسندوں کا اتحاد“ مسعود ابدالی، ”اردو طنز و مزاح کی اقلیم کے بے تاج بادشاہ سید ضمیرجعفری“نصیر احمد سلیمی کا عنون تھا۔