پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر چیف مارشل (ر) سہیل امان کا حوصلہ افزا خطاب
’’میں ایک نکما طالب علم تھا، کمرۂ جماعت میں آخری قطار میں بیٹھنے والا۔ مگر سقوطِ مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد اپنے والد کو آنسو بہاتے دیکھا تو میری زندگی بدل گئی۔ میں نے ایک لمحے میں فیصلہ کیا کہ ’’میں یہ دوبارہ نہیں ہونے دوں گا‘‘۔ میں نے روزانہ بیس گھنٹے کام کیا۔ منزل سامنے ہو تو تھکاوٹ قریب نہیں آتی۔ قائداعظم کی شخصیت ایک روشن مشعل کی طرح گزشتہ پچاس برس کے دوران میری رہنمائی کرتی رہی جن کی زندگی میں چھٹی کا کوئی دن نہیں تھا‘‘۔ ان خیالات کا اظہار پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر چیف مارشل (ر) سہیل امان نے ’ایوان کارکنانِ تحریک پاکستان‘ لاہور میں قائداعظم محمد علی جناحؒ لیڈرشپ لیکچرز کے سلسلے میں منعقدہ افتتاحی لیکچر کے دوران بطور مہمانِ خاص اپنے خطاب میں کیا۔ اس لیکچر کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا جس کی صدارت نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سینئر وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف نے کی۔ اس موقع پر سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین اور وائس چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ سینیٹر مشاہد حسین سید، ممتاز سیاسی و سماجی رہنما بیگم مہناز رفیع، جنرل(ر) صابر عزیز، ڈائریکٹر جنرل یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر عابد شیروانی، معروف دانشور قیوم نظامی، روبینہ منصور، چیئرمین مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ خالد محمود، نوجوان دانشور میاں سلمان فاروق، مجاہد حسین سید،معروف صنعت کار مہر محمد کاشف یونس، قمر اسلام، ڈاکٹر غزالہ شاہین وائیں، بیگم صفیہ اسحاق، بیگم خالدہ جمیل، میاں عبدالستار، پروفیسر یوسف عرفان، سیکرٹری نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ناہید عمران گل، اساتذہ کرام، طلبہ وطالبات سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک، نعتِ رسولؐ اور قومی ترانے سے ہوا۔ قاری محمد دائود نقشبندی نے تلاوت جبکہ نورالحسن نے نعتِ رسولؐ سنانے کی سعادت حاصل کی۔ نظامت کے فرائض محمد سیف اللہ چودھری نے انجام دیے۔ سابق چیف آف ایئر اسٹاف ایئر چیف مارشل (ر) سہیل امان نے اپنے خطاب میں کہا کہ بانیِ پاکستان قائداعظمؒ کے متعلق بات کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ قائداعظمؒ کی زندگی جہدِ مسلسل کی عملی مثال ہے ۔ وہ ’’کام، کام اور کام‘‘ پر یقین رکھتے تھے۔ بانیِ پاکستان کا وژن بہت زبردست تھا اور آپ نے سرکاری خزانے کا کبھی غلط استعمال نہیں کیا۔آپ کے کردار پر مخالفین بھی کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے۔ قائداعظمؒ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ سے والہانہ عشق تھا اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک مرتبہ آپ سے سوال کیا گیا کہ پاکستان میں کون سا نظام نافذ ہوگا؟ تو آپ نے جواب دیا ’’ہمیں کسی نئے نظام کی ضرورت نہیں، ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چودہ سو برس قبل دیا گیا کامیاب نظام موجود ہے‘‘۔ بانیِ پاکستان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ان کے فرمودات پر عمل کرنا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی ملک وقوم کے لیے وقف کر رکھی تھی اور وفات کے بعد ساری جائداد تعلیمی اداروں کو دینے کی وصیت کی۔ یہ ان کی پاکستان اور اپنی قوم کے ساتھ لازوال کمٹمنٹ کی انمول مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور ہمیں اپنی اقدار و روایات میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو اس سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ پاکستان عطیۂ خداوندی اور ایک نظریے کا نام ہے، ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی زندگی میں بڑے چیلنجز آپ کو بڑے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ میرا لاہور کے علاقے رحمان پورہ کی گلیوں میں کھیلنے سے ائیر چیف مارشل کے عہدے تک کا سفر آسان نہیں تھا۔ اپنی منزل کا تعین کرکے محنت اور لگن سے دیوانہ وار کام کریں تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ اپنے اوپر اعتماد رکھیں اور اپنی صلاحیتوں کا مثبت استعمال کریں۔ تحقیق اور جستجو کی عادت اپنائیں۔ علم کا مقصد محض ملازمت کا حصول نہیں بلکہ اچھا انسان بننا ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج کا شمار دنیاکی بہادر افواج میں ہوتا ہے۔ پاک فضائیہ انتہائی پروفیشنل اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے، اس کی ایک حالیہ مثال فروری 2019ء میں بھی دیکھی گئی جب پاک فضائیہ کے شاہینوں نے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا۔ پاک فضائیہ جدید طیاروں اور اسلحہ سے لیس ہے اور دنیا اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتی ہے۔
سینئر وائس چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ میاں فاروق الطاف نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہم سینیٹر مشاہد حسین سید اور ایئر چیف مارشل (ر) سہیل امان کے انتہائی ممنون ہیں جنہوں نے سحر انگیز اور معلومات افزا گفتگو کی۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ پاک فضائیہ نے ہمیشہ جرأت وبہادری کی یادگار مثالیں قائم کی ہیں۔ ولولہ، جوش اور ایمان کے جو جذبات تحریکِ پاکستان کے دوران تھے ہمارے شاہینوں نے ابھی تک قائم و دائم رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظمؒ مخلص اور مضبوط اعصاب کے مالک انسان تھے۔ انہوں نے اپنا تن من دھن پاکستان کے لیے قربان کردیا اور ہمیں پاکستان لے کر دیا، لیکن ہم اس ملک کی قدر (باقی صفحہ33پر)
نہ کرسکے۔ تاہم میں پُرامید ہوں کہ یہ ملک بہت جلد دنیا کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے گا۔ ہمیں اپنے دشمن کو پہچاننا، اور اس کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جھوٹ، منافقت اور کرپشن ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور ہمیں ان برائیوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے خطاب میں کہاکہ قائداعظمؒ نے آرمی، اسٹیبلشمنٹ اور عالمی طاقتوں کی حمایت کے برعکس اپنی قوتِ ایمانی، اچھے کردار اور اعلیٰ قیادت کی بدولت پاکستان بنایا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جاری اس جدوجہد میں مسلمانانِ برصغیر نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ قائداعظمؒ نے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کیا اور عوامی طاقت کی بدولت پاکستان بنا کر دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم بڑی باصلاحیت لیکن قیادت کمزور ہے۔ قائداعظمؒ لیکچر سیریز کے انعقاد کا مقصد قوم کو امید اور حوصلے کا پیغام دینا ہے، ہم اس پلیٹ فارم سے ایسے لوگوں کو سامنے لائیں گے جنہوں نے وطنِ عزیز کی خاطر منفرد کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ انہوں نے کہا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ایک قومی اثاثہ ہے اور یہ واحد ادارہ ہے جو پاکستان میں قائداعظمؒ، علامہ محمد اقبالؒ، مادرِملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ اور دیگر مشاہیرِ تحریکِ پاکستان کے نظریاتی ورثے کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ افکارِ قائداعظمؒ آج بھی ہماری رہنمائی کررہے ہیں۔
سیکرٹری نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ناہید عمران گل نے کہا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ایک قومی، فکری، نظریاتی ادارہ ہے جس کے قیام کا مقصد علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فکر و عمل کے مطابق پاکستان کو ایک جدید اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج اس قومی نظریاتی ادارے کی سرگرمیوں میں ’’قائداعظمؒ لیڈرشپ لیکچر سیریز‘‘ کی صورت میں ایک نئی سرگرمی کا اضافہ ہورہا ہے۔
پروگرام کے دوران ایئر چیف مارشل(ر) سہیل امان کو میاں فاروق الطاف اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے یادگاری شیلڈ پیش کی۔ حسنین علی نے نظم ’’ملّت کا پاسباں ہے محمد علی جناحؒ‘‘ سنائی۔ آخر میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام تقریباتِ یوم قائداعظمؒ کے سلسلے میں منعقدہ مقابلۂ آل پاکستان مضمون نویسی میں حصہ لینے والے طلبہ میں انعامات تقسیم کیے گئے۔