ولی ابنِ ولی! میاں حسن فاروقؒ

(1953ء-2022ء)

پیارے دوست میاں حسن فاروق ابنِ میاں طفیل محمدؒ کئی سالوں سے مختلف بیماریوں کا مقابلہ کررہے تھے۔ صاحبِ عزم تھے، اس لیے کبھی شکوہ نہیں کرتے تھے۔ کچھ دنوں سے تو جسم میں زیادہ ہی نقاہت آگئی تھی۔ آخر یہ مردِ درویش 20نومبر2022ء کو دارِفانی سے خلدِ بریں کو کوچ کرگیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! گلستانِ طفیل کا یہ منفرد پھول تھا۔ اس کے اندر اپنے عظیم والدین کی بے نظیر صفات کی مکمل جھلک نظر آتی تھی۔ یہی پھول اپنی بھرپور مہک اور خوشبو کے ساتھ سب سے پہلے اپنے والدین کے پاس جا پہنچا۔ سابق امرائے جماعت اسلامی پاکستان کی اولاد میں سے حسن فاروق پہلے شخص ہیں جو دنیا کی تنگنائیوں سے آخرت کی وسعتوں میں چلے گئے ہیں۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔

خاندان: حسن فاروق نے ایک مثالی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ مرحوم کے والد، ہمارے دور کے عظیم رہنما اور ولی اللہ میاں طفیل محمدؒ کی شانِ بے نیازی ان کے سب ساتھیوں نے دیکھی تھی۔ ابھرتے ہوئے، قابل اور ذہین وکیل کی حیثیت سے ایک پُرکشش مستقبل اور دلربا معیارِ زندگی کے خوابوں کو ٹھوکر مار کر وہ قافلۂ سخت جاں میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کی عمر اُس وقت 27سال تھی۔ اس قافلے میں شامل ہونے کے بعد پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ داخلی و خارجی ہر قسم کی مشکلات کو برداشت کیا، مگر اللہ گواہ ہے کہ اس مردِ حق کے پائوں کبھی نہ ڈگمگائے۔ میاں صاحب کے ساتھ آپ کی اہلیہ مرحومہ نے بھی بڑے حوصلے کے ساتھ ان ساری منازل میں صبرواستقامت اور اعلیٰ درجے کی قناعت کے ساتھ زندگی گزاری۔ اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو نعمت کے طور پر چار بیٹے اور رحمت کے طور پر آٹھ بیٹیاں عطا فرمائیں۔

طفیل قبیلہ: میاں صاحب کی اولاد میں ہماری محترمہ بہنیں طاہرہ اور طیبہ سب سے بڑی ہیں۔ ان کے بعد بیٹوں میں میاں احسن فاروق سب سے بڑے، ان کے بعد میاں محسن فاروق اور تیسرے نمبر پر میاں حسن فاروق تھے۔ میاں حسن کے بعد دو بہنیں راشدہ اور شاہدہ ہیں۔ ان کے بعد سب سے چھوٹے بیٹے میاں زبیر فاروق ہیں۔ زبیر فاروق سے چھوٹی چار بہنیں ہیں سلمیٰ، نجمیٰ، سمیّہ اور عظمیٰ۔ چاروں بھائیوں بلکہ میاں طفیل محمد صاحب کے پورے گلستان میں (جسے مرحوم کے داماد میاں محمد اسلم جمال نے طفیل قبیلہ کے نام سے اپنی کتاب میں متعارف کرایا ہے) حسن ایک منفرد پھول تھے۔ ہم نے اس مردِ درویش کو نصف صدی سے بھی زائد عرصہ بہت قریب سے دیکھا۔ خدا گواہ ہے کہ اسے کبھی غصے میں یا جھنجلاہٹ میں نہیں دیکھا گیا۔ مرحوم کے چہرے پر ہمیشہ یک گونہ اطمینان اور حسین مسکراہٹ نظر آتی تھی۔ جب بات کرتے تو نہایت دھیمے انداز میں، اور کسی معاملے میں کسی شخص کے کسی بھی اعتراض پر مشتعل ہونے کے بجائے بڑے ٹھنڈے دل سے اعتراض سنتے اور اس کا جواب دیتے۔

کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں
دنیا کو سنانے کے قابل
کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں
بس دل میں ’’بسانے‘‘ کے قابل

سعودی عرب سے ڈپلومہ: حسن مرحوم کے بچپن اور جوانی کے ساتھیوں کی گواہی ہے کہ دورِ طالب علمی میں بھی انھوں نے کبھی اپنے کسی ہم جماعت سے تلخی اور غصے کا اظہار نہیں کیا تھا۔ میاں حسن فاروق نے ابتدائی تعلیم نیا مدرسہ، اچھرہ میں حاصل کی۔ ایف اے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی، اور پھر سعودی عرب کی یونیورسٹی جامعۃ الملک سعود، ریاض میں دو سال کا عربی زبان میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ مرحوم وہاں بھی بہت اچھی روایات قائم کرکے آئے۔ آپ کے ساتھ پاکستان سے مولانا فتح محمد صاحب کے بیٹے حافظ عبدالوحید، میاں عبدالشکور، مولوی محمد امین حلیم، اقبال نکیانہ اور کئی دیگر طلبہ نے بھی اسی یونیورسٹی میں ایک ساتھ داخلہ لیا تھا۔ میاں طفیل محمدؒ اور مولانا خلیل حامدیؒ جب سعودی عرب کے دوروں پر جاتے اور ان سے حسن فاروق کے کوئی عرب استاد یا کلاس فیلو ملتے اور حسن فاروق کا تذکرہ ہوتا تو وہ ہمیشہ ان کی تحسین کرتے۔

ہر جانب حسین یادیں:دو تین مرتبہ مولانا خلیل حامدی صاحب کے ساتھ مجھے بھی سعودی عرب کے مختلف شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک آدھ جگہ پر کسی مجلس میں پاکستان سے جماعت اسلامی کی طرف سے بھیجے گئے طلبہ کا تذکرہ ہوا تو بڑی خوشی ہوئی کہ حسن کی حسین و معطر یادیں وہاں کی محفلوں میں زندہ وموجود تھیں۔ بلاشبہ ان کے تعارف میں میاں طفیل محمدؒ کا صاحبزادہ ہونا بھی ایک مثبت نقطہ (Plus Point) تھا۔ میاں حسن فاروق کو تعلیم کے بعد سعودی عرب میں ملازمت کے مواقع حاصل تھے، مگر آپ نے مولانا خلیل حامدیؒ کی ہدایات کے مطابق سعودی عرب میں قیام کے بجائے جماعت کے مرکز میں اپنی خدمات پیش کردیں۔ حسن فاروق سے مولانا حامدی صاحب نے پوچھا کہ ان کا کیا معاوضہ مقرر کیا جائے؟ تو انھوں نے کہا کہ میں معاوضے کے لیے یہاں نہیں آیا، جماعت جو بھی اعزازیہ طے کرے گی، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ جو اعزازیہ مقرر ہوا، اس پر مرحوم نے کام شروع کردیا اور کبھی کوئی مطالبہ نہ کیا۔ آپ کو مختلف شعبوں میں ذمہ داریاں سونپی گئیں جن کو آپ نے پوری توجہ اور یک سوئی کے ساتھ انجام دیا۔

قابلِ قدر خدمات:بھلے وقتوں اور بیتے سالوں میں مرکزِ جماعت اسلامی کے تحت مختلف شعبے قائم کیے گئے تھے جو الحمدللہ اب بھی بھرپور طریقے سے اپنا کام کررہے ہیں۔ شعبہ یتامیٰ کے لیے اندرون و بیرونِ ملک سے فنڈز اکٹھے کیے جاتے تھے اور بڑی جزرسی اور ذمہ داری کے ساتھ یہ مستحقین تک پہنچائے جاتے تھے۔ مرکزی مالیات اور شعبے کے دفتر میں ان کا پورا ریکارڈ بھی رکھا جاتا تھا۔ بے شمار یتیم بچوں، بچیوں اور ان کی بیوہ مائوں کو ہر ماہ امداد دی جاتی تھی۔ اسی طرح شعبہ مساجد و مدارس بھی خاصا متحرک تھا۔ اس کے تحت ملک کے کئی دور دراز علاقوں میں مساجد و مدارس قائم کیے گئے۔ ان کی تعمیر کے بعد اس شعبے کے تحت مخیر حضرات کی مالی معاونت سے ان میں سے کئی اداروں کو ان کے مالی بجٹ کے لیے سالانہ مالی معاونت فراہم کی جاتی۔ ان کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جاتا۔

تحریکی سوچ:حسن فاروق ان شعبوں کے نگران وذمہ دار رہے اور طویل عرصے تک بڑی محنت سے اپنے فرائض ادا کرتے رہے۔ حسن فاروق صاحب کے ساتھ ان کے دفتر میں ان کے رفیقِ کار جناب صلاح الدین حنیف نے ان کی وفات کے بعد ان کے بہت سے ایسے واقعات بیان کیے جس سے ان کی شخصیت کی عظمت دوبالا ہوجاتی ہے۔ سیکڑوں مساجد جو مرحوم نے مخیر حضرات کے تعاون سے تعمیر کرائیں، ان سب کا ریکارڈ ان کے پاس محفوظ تھا۔ کئی مقامات پر وہ صلاح الدین صاحب کو اپنے ساتھ لے کر مساجد اور مدارس کا معائنہ کرنے نیز ماہِ رمضان میں مخیر حضرات کی طرف سے افطاری پروگراموں کی نگرانی کرنے کے لیے تشریف لے جاتے۔ ہر جگہ وہ متعلقہ لوگوں سے یہی سوال کرتے کہ اس پروجیکٹ کی وجہ سے جماعت اسلامی کو کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں، کتنے لوگ جماعت کے ساتھ وابستہ ہوئے ہیں اور ان میں سے کتنے رکن بنے ہیں؟ یہ ہے اصل تحریکی سوچ اور فکر!

قرآنی حکم پر عمل:صلاح الدین حنیف صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جن یتامیٰ کے وظائف لگے ہوئے تھے، حسن بھائی خود انھیں مرکزی مالیات سے ادائیگیاں کرواتے، اور جن کے وظائف کسی وجہ سے مرکز سے بند ہوجاتے ان کے لیے مختلف مخیر حضرات سے رابطے کرکے ذاتی طور پر ان کی مدد کرتے۔ جب کوئی یتیم یا بیوہ ان کے پاس مطالبہ لے کر آجاتے اور امداد کے لیے کوئی صورت نہ بن سکتی تو ان سے بہت دھیمے انداز اور پیار بھرے لہجے میں معذرت کرتے۔ بقول صلاح الدین صاحب: جب وہ درخواست گزار بار بار اصرار کرنے لگتے تو مجھے کہتے کہ آپ ان کو سمجھائیں۔ خود ان کا ہمیشہ یہ رویہ رہا کہ قرآن کے اس حکم پر پوری طرح عمل کرتے۔ فَأَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْOوَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَر۔(سورہ والضحیٰ آیت9-10) یعنی ’’پس یتیم پر سختی کبھی نہ کرو اور نہ سائل کو کبھی جھڑکو۔‘‘

بے سہاروں کا غم خوار:منصورہ میں مرکزی دفاتر اور جماعتی فلیٹس، نیز عام گھروں میں رنگ روغن کا کام ایک ہنرمند پینٹر بابا قربان علی اور ان کے معاون اختر شاہ کیا کرتے تھے۔ قربان علی کے تو بیوی بچے نہیں تھے، مگر اختر شاہ کے بیوی بچے تھے۔ وہ بے چارہ ایک روز منصورہ میں اپنے کام سے فارغ ہوکر گھر پہنچا تو روزہ افطار کرنے کے بعد طبیعت بہت خراب ہوگئی اور کچھ ہی دیر میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اس کی اہلیہ ہمیشہ اس سے کہتی تھی کہ اگر خدانخواستہ آپ کو کچھ ہوگیا تو ہم کیا کریں گے؟ کوئی جمع پونجی یا وسیلہ و ذریعہ آمدنی نہیں ہے، میرا اور میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ وہ جواب میں کہتا ’’اگر مجھے کچھ ہوگیا تو منصورہ میں میاں حسن فاروق ہے۔ وہ تمھاری مدد کرے گا۔‘‘

اس مزدور کی وفات کے بعد جب بیوہ کی عدت کے ایام پورے ہوئے تو یہ خاتون منصورہ میں آئی اور حسن فاروق صاحب سے ان کے دفتر میں ملی۔ اس نے جب اپنے میاں کی بات بتائی تو دفتر کے سب ساتھیوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حسن صاحب نے اس خاندان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ صلاح الدین حنیف صاحب نے جب یہ واقعہ مجھے سنایا تو اس وقت بھی وہ بے ساختہ رونے لگے۔

کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں
کچھ لوگ کنارہ ہوتے ہیں
کچھ ڈوبنے والی جانوں کو
تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں

تحریک کے دامن میں:میاں طفیل محمد صاحب کے چاروں بیٹوں میں سے حسن فاروق سب سے پہلے 16 اپریل1986ء کو جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ جب کہ میاں محسن فاروق چند سال قبل جماعت کے رکن بنے۔ برادر محترم احسن فاروق صاحب بقول ایمن ابن زبیر صاحب چند ماہ قبل رکن بن گئے ہیں۔ زبیر فاروق صاحب کو رکن بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ میں نے ان سے کئی مرتبہ درخواست کی ہے کہ پیش قدمی فرمائیں۔ اللہ کرے وہ اپنے بیٹوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جماعت کی رکنیت اختیار کرلیں۔ ان کے بیٹے اسلامی جمعیت طلبہ میں رکن و ذمہ دار رہے ہیں اور اب ایک بیٹا ابراہیم جماعت کا رکن ہے اور دوسرا بیٹا ایمن امیدوارِ رکنیت ہے۔ ابراہیم نے میرے سوال پر جواب دیا کہ وہ بھی والد صاحب کو بار بار ترغیب دے رہا ہے کہ جماعت اسلامی کے رکن بن جائیں۔

انمول تحفے:حسن فاروق مرحوم کا بیٹا عبداللہ حسن طفیل جمعیت کا بھی رکن تھا اور اب الحمدللہ جماعت اسلامی کا رکن ہے۔ دوسرے دونوں بیٹے اسید اور اسامہ بھی جو جڑواں بھائی ہیں، تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ دونوں سعادت مند بھائی بھی اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے ذاتی کاموں کو جاری رکھنے کے ساتھ اپنی جوانیاں جماعت کے لیے وقف کردیں گے۔ حسن فاروق کے چہرے پر جو سادگی اور انکسارجلوہ افروز رہتا تھا، ان کے تینوں بیٹوں کے چہروں پر بھی الحمدللہ ویسے ہی خوب صورت تاثرات نظر آتے ہیں۔ ایک نظر دیکھنے سے آدمی فیصلہ کرسکتا ہے کہ ان نوجوانوںکے اندر کس قدر خیر ہے۔ خوش اخلاقی، حلم و رفق، بردباری اور رحم دلی اللہ کے انمول تحفے ہیں، وہ جس بندے کو ان اوصاف سے نوازے، اس پر رشک آتا ہے۔

بچوں کا گلدستہ:حسن فاروق کی شادی 1984ء میں سرگودھا میں اپنی خالہ کی بیٹی محترمہ عظمت سے ہوئی۔ ’’طفیل قبیلہ‘‘ میں حسن بھائی کے بڑے بہنوئی میاں اسلم جمال نے لکھا ہے کہ میاں طفیل محمدؒ اور حسن فاروق کے سسر چودھری محمد شفیع کی باراتیں ایک ہی دن ان کے سسرالی گائوں تلونڈی، کپورتھلہ میں چودھری فتح محمد کے ہاں گئی تھیں اور دونوں بہنوں کی اسی روز شادی اور رخصتی ہوئی تھی۔ یوں یہ میاں بیوی خالہ زاد ہونے کے ساتھ اس آبائی اعزاز کے بھی حامل ہیں۔ میاں حسن فاروق کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے عطا فرمائے۔ بڑا بیٹا عزیزم عبداللہ (پ 1989ء)شادی شدہ ہے، اور اس سے چھوٹے دونوں جڑواں بھائی اسید اور اسامہ (پ 1995ء) ابھی تک کنوارے ہیں۔ ہر بزرگ کی طرح حسن فاروق صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنے پوتے اورپوتیوں کے درمیان بیٹھتے اور ان کو کھیلتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتے۔ عبداللہ کے ہاں تو ابھی کوئی پھول اور کلی نہیں کھلی، اللہ تعالیٰ اسے اولادِ صالح سے نوازے۔ میاں زبیر فاروق کے بیٹے ایمن کو اللہ نے بیٹی دی جس کا نام یمنیٰ ہے۔ حسن صاحب اس پیاری بچی کے ساتھ بہت زیادہ محبت کرتے اور وہ بھی ان کے پاس کھیلتی اور معصوم باتوں اور حرکتوں سے ان کو محظوظ کرتی۔ وفات سے قبل دن اور رات حسن صاحب (بڑے دادا ابو) کے ساتھ خاصی دیر تک کھیلتی اور ان کا دل لبھاتی رہی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس عمر کے بچے بچیاں گھروں کی اصل زینت، رونق اور روحانی سکون کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ زبیر صاحب کی نواسی امل جب ننھیال میں آتی تو پھر یہ دونوں کلیاں حسن صاحب کے دل میں خوشیوں کے گجرے بھر دیتیں۔

نماز کا اہتمام:حسن فاروق اور زبیر فاروق دونوں بھائی میاں طفیل محمد مرحوم کے ساتھ مکان نمبر 1 ، بلاک A منصورہ میں رہائش پذیر تھے۔ میاں طفیل محمد صاحب کا معمول تھا کہ فجر کی نماز سے پہلے سب گھر والوں کو آواز دیتے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے، سب اٹھو، وضو کرو اور نماز ادا کرو۔ حسن فاروق کے بیٹے عبداللہ کے مطابق حسن صاحب کا بھی یہی معمول تھا۔ صبح فجر کی نماز کے لیے سب گھر والوں کو جگاتے۔ میاں طفیل محمد صاحب زندگی کے آخری برسوں میں پیرانہ سالی کی وجہ سے خاصے کمزور ہوگئے تھے، نظر بالکل بند ہوگئی تھی، کئی برسوں سے شوگر بھی تھی اس کے باوجود آخری دم تک ہر نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتے رہے۔ رمضان المبارک میں پوری تراویح کھڑے ہوکر پڑھتے اور پھر خلاصہ مضامینِ قرآن سن کر گھر جاتے تھے۔

فرماں بردار اولاد، شکرگزار بزرگ:میاں صاحب کی نظر مکمل بند ہوجانے کے بعد مسجد آنے جانے کا اہتمام بنیادی طور پر میاں حسن فاروق کی ذمہ داری تھی۔ آپ میاں صاحب کا ہاتھ پکڑ کر انھیں مسجد لاتے اور نماز کے بعد گھر لے جاتے۔ اگر خود کبھی آگے پیچھے جانا ہوتا تو اپنے بیٹوں عبداللہ، اسید، اسامہ یا اپنے بھتیجوں ایمن بن زبیر اور ابراہیم بن زبیر کو یہ ذمہ داری سونپ دیتے۔ ان پیارے، سعادت مند بچوں نے میاں صاحب کی تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت میں کبھی خلل نہیں پڑنے دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ میاں صاحب ان کے لیے سراپا دعا رہتے تھے۔ جب تحسین کے طور پر ان کا شکریہ ادا کرتے تو یہ عرض کرتے ’’ابا جی! ہمارا کس بات پر شکریہ؟ ہمارے لیے تو یہ اعزاز ہے کہ ہم آپ کے ساتھ مسجد جاتے اور آتے ہیں۔‘‘ میاں صاحب فرماتے کہ ’’بیٹا جو کوئی بھی کسی کے ساتھ نیکی کرے اس کا شکریہ ادا کرنا اسلامی آداب کا حصہ ہے‘‘۔ کس قدر خوش نصیب تھے یہ بزرگ اور کتنی سعادت مند ہے ان کی اولاد!

حسن بھائی کی سماعت خاصی متاثر تھی، خود تو دھیمے انداز میں بولتے تھے، مگر کسی دوست کی بات سننا اُس وقت تک ممکن نہ ہوتا تھا جب تک وہ بلند آواز میں بات نہ کہے۔ صحت دن بدن گرتی جارہی تھی، وزن بہت کم ہوگیا تھا، مگر مسجد میں باقاعدہ آتے تھے۔ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے اور نماز کے بعد مختلف دوستوں سے اپنی دائمی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ملاتے اور سب کا حال احوال پوچھتے۔ آخری کچھ مہینوں میں انھیں بار بار اپنے معالج کے پاس جانا پڑتا اور پھر کچھ دن ہسپتال میں بھی گزارنے پڑتے۔

سفرِ آخرت:میاں حسن فاروق کو چند سال قبل کئی عارضے لاحق ہوگئے، شوگر بھی تھی اور دل کا بائی پاس بھی 2017ء میں ہوا تھا۔ دن بدن کمزور ہوتے جارہے تھے۔ پیشاب کی نالی میں ایک رسولی تھی جس کے بار بار معائنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں کینسر ہے۔ شعاعوں (لیزر) کے ذریعے اس مرض کا علاج وفات سے کچھ عرصہ قبل مڈسٹی ہسپتال لاہور میں ہوا۔ انمول ہسپتال کے ڈاکٹروں سے بھی مشورہ ہوا۔ سب کی رائے تھی کہ علاج کامیاب ہے اور اب خطرے کی کوئی بات نہیں، مرض کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے۔ تاہم اس کے بعد جسم کی نقاہت مزید بڑھتی چلی گئی۔اس دوران گھر میں اپنے تینوں بچوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتے۔ بچوں کی بھی یہ خواہش ہوتی تھی کہ والد صاحب کی کوئی نماز بلاجماعت نہ ہو، بلکہ ہر نماز وہ جماعت کے ساتھ پڑھیں کیونکہ یہ ان کا عمر بھر کا معمول تھا۔گھر کی اوپر والی منزل کے صحن میں کچھ دیر واک بھی کرتے تھے۔ یہاں تک کہ 19اور 20نومبر کی درمیانی رات زیادہ کمزور ہوگئے۔ 20نومبر کو تمام گھروالوں کو نماز کے لیے جگایا اور وضو کرکے نماز فجر ادا کی۔

اسی دن منصورہ ہسپتال میں وقت پہلے سے لیا ہوا تھا۔ ظہر کا وقت ہوچکا تھا تو فرمانے لگے کہ ہسپتال میں ہمیں دیر ہوجائے گی تو مجھے نماز کے لیے تیمم کروا دیں، میں وقت پر نماز ادا کرلوں۔ اس وقت آبِ زم زم بھی استعمال کیا۔ بہرحال ظہر کی نماز مکمل ادا کی اور بعد کے نفل بھی ادا کیے اور پھر کہنے لگے کہ چلیں۔ جب جائے نماز سے اٹھے تو دائیں اور بائیں دونوں بیٹے اسامہ حسن طفیل اور ڈاکٹر اسید حسن طفیل موجود تھے اور ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ چند قدم چلے تھے کہ ساتواں یا آٹھواں قدم نہ اٹھ سکا اور بچوں نے محسوس کیا کہ سانس بند ہوچکی ہے۔ ہسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ چند منٹ قبل روح جسم سے پرواز کر گئی ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ خیال و قیاس اور امکان یہی ہے کہ دل کا دورہ پڑا، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ عارضی مہلت ختم ہوگئی تھی، بہانہ جو بھی ہے تقدیر کے فیصلے تو پہلے ہی سے ہوچکے ہیں۔ عزیزم عبداللہ حسن طفیل نے بتایا کہ بے ہوش ہونے سے قبل اللہ کا ذکر اور کلمہ طیبہ زبان پر رہا۔

مثالی صبر:کسی دوست کا 20نومبر2022ء کی صبح پیغام ملا کہ میاں حسن فاروق داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔ ان کی وفات کی خبر سنتے ہی بہت سے احباب ان کے گھر پہنچے۔ جب میں مرحوم کے گھر پر حاضر ہوا تو ابھی تک مرحوم کی میت ہسپتال سے گھر نہیں پہنچی تھی۔ مرحوم کی بہنیں، بھانجیاں، اہلیہ اور بھابھیاں، بھتیجیاں، دیگر بہت سی خواتین کے درمیان گھرکے اندر غم زدہ بیٹھی تھیں، مگر اللہ گواہ سے کہ کوئی چیخ وپکار یا کسی قسم کے بین اور نوحے کی آواز نہیں آرہی تھی۔ میت گھر پہنچنے پر بھی صبر کا دامن نہ چھوٹا۔ یہ صبر واقعتاً میاں طفیل محمدؒ کی تربیت اور عملی نمونے کا ثمرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری ان سب بہنوں بیٹیوں کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اس مثالی صبر پر بہترین اجر سے نوازے۔

الوداع:جنازے کا وقت عشا کی نماز کے بعد طے ہوا۔ مرحوم کے ورثا نے مجھ سے فرمائش کی کہ ان کی نماز جنازہ پڑھائوں۔ جنازے میں حسن فاروق صاحب کے عزیز و اقارب اور احباب، جماعت اسلامی کی پوری قیادت اور منصورہ مرکز و لاہور کے کارکنان کے علاوہ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین، صحافی، ادیب اور عام شہری بڑی تعداد میں شریک تھے۔ اس موقع پر راقم الحروف نے میاں حسن فاروق صاحب کے بارے میں مختصر الفاظ میں اپنے قلبی جذبات کا اظہار کیا، پھر شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا عبدالمالک صاحب اور امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق صاحب نے تذکیر فرمائی۔

ولی ابنِ ولی:جب ہم جنازہ پڑھ رہے تھے تو سچی بات یہ ہے کہ دل کی عجیب کیفیت تھی۔ جانے والا ولی ابنِ ولی تھا۔ کئی سال قبل میاں طفیل محمد صاحب کے چہرے پر آخری زیارت کے وقت جو طمانیت دیکھی تھی، آج اُن کے اس عظیم بیٹے کے چہرے پر بھی بالکل ویسی ہی کیفیت تھی۔ اللہ ہمارے مرحوم بھائی کے درجات بلند فرمائے اور ان کے تمام پسماندگان کو صبرِ جمیل و اجرِ جزیل کا انعام بخشے۔ شاعر نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے ؎

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے، وہ لوگ
تم نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں!