انتخابات کے موسم کا ’’ آغاز‘‘

قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا

قدرتی موسم تو سرد ہے تاہم سیاسی موسم شدید گرم ہے۔ ملک میں جاری سیاسی بحران کی شدت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے فیصلے نے گرما گرمی بڑھادی ہے، خیبر پختون خوا اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد ملک میں سیاسی بحران ایک نئی انتہا تک پہنچ سکتاہے۔ یہ بحران ایک ایسے وقت میں آیا جب ملکی معیشت غیر مستحکم ہے۔ قومی اسمبلی کی آئینی مدت اگست تک ہے، اس کے بعد ملک میں عام انتخابات ہونے ہیں، مگر چند ماہ پہلے ملک کی مجموعی آبادی کے تقریباً دو تہائی پر مشتمل دو صوبوں کی اسمبلیوں کا ٹوٹ جانا ملک میں سیاسی ہلچل اور بے یقینی کی فضا کا سبب بن گیا ہے۔ یہ سیاسی عدم استحکام کیوں پیدا ہوا، اس کی وجہ بہت واضح ہے۔ تقریباً دس ماہ قبل وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت عدم اعتماد کی تحریک کے تختۂ دار پر چڑھائی گئی۔ یہ ایک قطعی آئینی عمل تھا، لیکن تحریک انصاف نے اس کے خلاف منفی ردعمل دیا اور قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ سیاسی جماعت ملکی سیاست میں یورپ کے جمہوری نظام کا بہت حوالہ دیتی ہے مگر جب وقت آیا تو اس کا وزن تنکے کی مانند بہہ گیا۔ اقتدار سے محروم ہونے پر پہلے غیر ملکی سازش کا بیانیہ گھڑا، پھر اس سے رجوع کرلیا۔ جو اسے اقتدار میں لائے تھے انہیں جانور، میر جعفر اور میر صادق کہا۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ عمران خان کو اندر سے منظم یا غیر منظم خاموش حمایت حاصل ہے اور تھی۔ عمران خان کی جارحانہ سیاسی حکمت عملی بتارہی ہے کہ یہ حمایت ابھی تک انہیں میسر ہے، اسی لیے تو سیاسی اہداف کے لیے پھر سے رجوع بھی کیا جارہا ہے۔ اب ایک بار پھر طاقت ور حلقوں سے تعلقات بنائے جارہے ہیں اور ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ ہے جس کے لیے وفاقی دارالحکومت میں ایک بار پھر سے لائو لشکر لانے کی تیاری کی جارہی ہے، مگر اس سے پہلے دو صوبوں کی اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے کے خلاف حکومت کا ردعمل دیکھا جارہا ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایک بار پھر سیاسی تنازعات کے حل کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔ عمران خان کے نزدیک اسمبلیاں توڑنے کا مقصد بہرحال یہ ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے ذریعے حکومت کو جلد انتخابات پر مجبور کیا جائے۔ تحلیل ہونے والی اسمبلیوں کے انتخابات آئین کے مطابق تین ماہ میں کرانے کی تو پابندی ہے لیکن حکومت قومی اسمبلی اور باقی دوصوبوں کے انتخابات اپنے وقت پر یعنی امکانی طور پر آئندہ اکتوبر ہی میں کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ صدر مملکت نے بھی انتخابات دو چار ماہ پہلے یا بعد میں کرانے کے لیے بات چیت کی میز سجانے کی تجویز دی ہے۔ اگر بات چیت شروع ہوئی تو مسائل کا حل نکل آئے گا۔ بہرحال یہ حکومت اور اپوزیشن سمیت پوری سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کی بصیرت اور تدبر و فراست کا امتحان ہے۔ تحریک انصاف سوچ رہی ہے کہ ہم نے لوہا گرم کررکھا ہے لہٰذا ضرب لگانا اب ضروری ہوگیا ہے، ضرب لگانے میں تاخیر کی تو تحریک انصاف کو نقصان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان عدم اعتماد کے بعد سے ایک لمحہ بھی چین سے نہیں بیٹھے، انہوں نے سیاست کے ماحول کو گرم کیے رکھا ہے، جہاں بھی ضرورت پڑی، ضرب لگاتے رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے آصف علی زرداری کی خفیہ ملاقاتوں اور خواہش کی پسلی سے جنم لیا تھا، لیکن ناکامی کا سارا نزلہ مسلم لیگ(ن) کے سر آگرا ہے اور یہ گناہِ بے لذت کا بوجھ جھیل رہی ہے، اور عوام کو تسلی دے رہی ہے کہ حکومت اس فکر میں ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہ ہو۔ لیکن عمران خان اس کی پروا کیے بغیر اپنی مرضی کی سیاسی بساط بچھانے کی منصوبہ بندی پر عمل چاہتے ہیں، ملکی معیشت کہاں کھڑی ہے، کیوں کھڑی ہے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ جارحانہ سیاست اس لیے بھی کررہے ہیں کہ ان کا ووٹ بینک ان کے ساتھ رہے، جس میں وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف سیاسی لیڈر کے طور پر اُبھر نہ سکے، رہی سہی کسر پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی نے اعتماد کا ووٹ لے کر پوری کردی ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی سٹی گم کردی ہے۔ عمران خان نے تو بتادیا کہ وہ سیاسی حریفوں کے خلاف کہاں تک جاسکتے ہیں، اس کا جواب نوازشریف اور مریم نواز کے پاس ہے تو ملک میں واپس آئیں ورنہ عزت بچاکر لندن میں بیٹھے رہنے کو ترجیح دیں، شہبازشریف اور ان کی ٹیم جس طرح ناک آئوٹ ہوئی ہے، اس کا خمیازہ بھی انہیں ہی بھگتنے دیں۔ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ نومبر کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہی پرانی پالیسی جاری ہے۔ عمران خان خود کو قبول بنانے کے لیے اندر کی خاموش حمایت کے بل پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ عمران خان نے جلد انتخابات کروانے کے لیے اسمبلیاں توڑ کر ایک جوا کھیلا ہے اور سیاست میں پارلیمانی خلا پیدا بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اگلے 90 دنوں میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں نئے انتخابات ہوں گے اور قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اگست میں ان اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کے بعد منعقد ہوسکیں گے، یا پھر تمام فریق کسی سمجھوتے پر پہنچ سکیں گے؟آئینی طور پر تو دو مرحلوں میں عام انتخابات کے انعقاد کی کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن دو اسمبلیوں کو برخواست کرکے عمران خان سیاسی بحران کو آخری حد تک لے گئے ہیں تاکہ حکومت مفلوج ہوجائے اور عالمی برادری اس پر اعتبار نہ کرے۔ عمران خان مسلسل وار کرتے چلے جائیں گے۔ عمران خان خراب معاشی اور سیاسی صورتِ حال میں برابر کے شریک ہیں بلکہ بہت بڑے فریق ہیں۔ اُس وقت بھی کرائسز تھے، اب مزید بڑھ گئے ہیں۔ جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے اُس وقت معاشی مشکلات نہیں تھیں، عمران خان کے دور میں ہی معاشی کرائسز بڑھے ہیں۔ عمران خان کو ہٹانے کی مختلف وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ معاشی صورت حال کی خرابی تھی۔ انہیں اس کی قطعی کوئی پروا نہیں ہے کہ سیاسی بحران میں تعطل بڑھا، یا وفاقی حکومت متزلزل ہوگئی تو عالمی برادری اور عالمی ادارے پاکستان میں کس سے رجوع کریں گے؟ یا پھر ہفتوں میں گھر جانے والی حکومت کیوں آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا بھاری پتھر اپنے سر پہ لادے گی؟ اگر وفاق میں بھی صدرِ مملکت نے وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کردیا تو یہ بحران حکومت کی حفاظتی فصیل توڑ دے گا۔ دو ووٹوں پہ اٹکی وفاقی حکومت تحلیل ہوسکتی ہے۔

آخر عمران خان اتنی جلدی میں کیوں ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو یہ خدشہ ہے کہ انہیں سیاست سے نااہل کردیا جائے گا، اور ان کا دوسرا خدشہ ہے کہ ان کی مقبولیت کی لہر شاید زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے۔ لہٰذا وہ ہر صورت ہر رکاوٹ اور ہر ریڈ لائن کو کراس کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اب گیند وفاقی حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ کیسے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات کو اگست سے آگے لے جاتی ہے۔ وہ معاشی ایمرجنسی اور پنجاب اور خیبر پختون خوا میں گورنر راج لگاسکتی ہے۔ وہ اس بات کو بھی جواز بناسکتی ہے کہ اپریل میں نئی مردم شماری کے نتائج شائع ہونے پر اس کے مطابق حلقہ بندیوں کی تشکیلِ نو جولائی یا اگست تک ہوجائے گی لہٰذا انتخابات اپنے وقت یعنی اکتوبر ہی میں منعقد ہوسکیں گے۔ ممکن ہے یہی آئینی پوزیشن الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہو۔ انتخابات تو دو مرحلوں میں بھی ہوسکتے ہیں، لیکن اگر سیاسی قوتوں میں انتخابات کی شفافیت اور آزادانہ نوعیت پر سمجھوتا نہ ہوسکا تو پھر اگلے انتخابات بھی متنازع ہوجائیں گے اور سیاسی بحران جاری رہے گا۔ ملک کی سیاسی قوتوںکو سوچنا چاہیے کہ وہ جمہوریت کی گورکن بننے جارہی ہیں یا پھر کچھ اور؟ مسلم لیگ(ن) نے ووٹ کو عزت دو کا جو نعرہ لگایا تھا، یہ نعرہ تو اچک لیا گیا ہے۔ قوم معیشت کی بربادی، مہنگائی، سیلاب کی تباہی، لاقانونیت، بجلی،گیس کے بحران، ڈالر کی اُڑان اور حکومت کی مایوس کن کارکردگی کے باعث پریشان ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور نئے چیف آف آرمی اسٹاف بھی سیاست سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ مفتاح اسماعیل مسلسل گواہی دے رہے ہیں کہ حکومت معیشت کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ حکومت تاجروں کو رات آٹھ بجے دکانیں، اور شادی ہال رات 10بجے تک بند کرنے کے فوائد بتا رہی ہے اور ساتھ ساتھ دھمکا بھی رہی ہے کہ سختی سے نمٹا جائے گا۔ گیس، بجلی اور ڈالرکے علاوہ سب کھانے پینے کی اشیاء بھی غائب ہیں، قوم لائنوں میں لگ کر آٹا، دال، چینی خرید رہی ہے۔ حکومت نے قوم کو مایوسی کے سمندر میں ڈال رکھا ہے اور قوم اتنے ظلم برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ حکومت ہر روز کہتی ہے کہ آئی ایم ایف والے سبسڈی ختم کرنے کو کہہ رہے ہیں، مگر وزراء، سفراء، مشیران کی تعداد آئی ایم ایف والوں کو نظر نہیں آتی جو اربوں روپے کا پیٹرول ضائع کررہے ہیں؟ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور شاید قوم کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا ہے۔ اگر مستقبل میں اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار رہی تو ملک کا سیاسی میدان تحریک انصاف کے ہاتھ ہی رہے گا، پنجاب نے منظرکشی کردی ہے۔ اس صوبے کی سیاست پورے پاکستان کی سیاست پر اثر ڈالتی ہے، جدھر اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے اُدھر پنجاب کھڑا ہوتا ہے، پنجاب کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ پنجاب میں اعتماد کے ووٹ کی کہانی بہت پراسرار ہے، اس کہانی میں نئے کردار شامل ہوگئے ہیں۔ نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا۔ پنجاب میں اقتدار کی رسّاکشی اصل واردات اور کسی بڑے سیاسی کھیل کا ثانوی اور ضمنی عمل ہے۔ عمران خان کی اب تک کی سیاست کے تین باب ہیں: پہلا باب یہ کہ جب وہ لوٹے نہیں لے رہے تھے، دوسرا باب جب پرویزمشرف کی پیش کش ٹھکرائی، تیسرا باب جب تمام سیاسی جماعتوں کے لوٹے ایک طاقت ور اشارے پر قبول کیے، اس کے بعد وہ بے پیندہ معلوم ہوتے ہیں۔

پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کی تحلیل اور صوبہ سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کے انعقاد سے ملک بھر میں انتخابات کے موسم کا آغاز ہوگیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے لیے12 اپریل کی تاریخ متوقع ہے۔ خیبر پختون خوا اسمبلی کی تحلیل کی کارروائی کسی بھی لمحے شروع ہوسکتی ہے جس کے بعد اس صوبے میں بھی تین ماہ کی مدت میں انتخابات کا انعقاد ضروری ہوگا۔ تحریک انصاف کی قیادت نے دو صوبوں میں اپنے اقتدار کے خاتمے کا فیصلہ واضح طور پر پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کو اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے پہلے ہی وفاق سمیت ملک بھر میں عام انتخابات پر مجبور کرنے کے لیے کیا ہے۔ عمران خان نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اب وزیراعظم کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا۔ اس وقت وفاق میں برائے نام اکثریت کی بنیاد پر کثیرالجماعتی حکومت قائم ہے اور کسی بھی اتحادی کی جانب سے ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ اس کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔

اگر اعتماد کا ووٹ لینے کے مطالبے کے بعد وزیراعظم اس میں کامیاب نہیں ہوتے تو عام انتخابات بھی وقت سے پہلے ہوسکتے ہیں۔ انتخابی عمل کا تسلسل جمہوری نظام کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے، انتخابات مسائل کے حل کا ذریعہ ہیں تاہم پی ڈی ایم کچھ وقت چاہتی ہے، مگر عمران خان نے اس وقت ملکی سیاست کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اُن کے مخالفین کی ساری تدبیریں ناکام ہوگئی ہیں، وہ حالات کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ قومی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کی خالی کردہ نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرا لیے جائیں گے جبکہ ملک میں عام انتخابات مقررہ وقت پرہی ہوں گے، یہ کیسے ممکن ہے؟ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں سے کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہو گا۔ وہ اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے کہ سنگین معاشی بحران کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑا سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ جب بطور وزیراعظم عمران خان کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی اور عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی تھی، اُس وقت سے کہا جارہا ہے کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی قیادت نادیدہ قوتوں سے دھوکہ کھا گئی ہے کیونکہ بدترین معاشی بحران میں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نہیں چل رہی اور عمران خان دوبارہ مقبولیت حاصل کرکے پھر ملکی سیاست کو کنٹرول کریں گے۔ اس رائے کو، اس سارے کھیل کو اسکرپٹ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ واقعی کوئی اسکرپٹ ہے یا نہیں، لیکن ہوا یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 11 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی کو اعتماد کا ووٹ حیرت انگیز اور ڈرامائی طور پر ملا۔ پی ڈی ایم اس کی توقع نہیں کررہی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ اسی اسکرپٹ کے تحت ہوا۔ حکمران اتحاد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے پاس بھی عام انتخابات کی طرف جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ قبل از وقت انتخابات کے لیے بھی عمران خان سے بات کرلی جائے اور ملک کو مزید سیاسی بحران سے بچایا جائے۔