عبوری حکومت یا ’’ماہرین‘‘ کی حکومت مسئلے حل نہیں ہے
پنجاب اور خیبر پختون خوا میں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ملک میں ایک بارا پھر فوری عام انتخابات کی بحث چھڑ گئی ہے۔ البتہ ابھی تک موجودہ حکمرانوں کا مؤقف یہی ہے کہ وہ عام انتخابات کے بجائے دو صوبوں میں ہی انتخاب کروانے کی حکمتِ عملی اختیار کریں گے۔ ان کے بقول وہ کسی بھی صورت میں عمران خان کی بلیک میلنگ یا اُن کے دبائو میں آنے کے بجائے مزاحمت کریں گے۔ عمران خان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر مزید دبائو بڑھانے کے لیے آنے والے چند دنوں میں قومی اسمبلی میں اسپیکر کے سامنے انفرادی طور پر پیش ہوکر استعفے دینے، اسی طرح سندھ اسمبلی سے استعفوں کا آپشن اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے 65 فیصد نشستیں خالی ہوجائیں گی تو عام انتخابات کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ حکمران اتحاد اور اُن کے سیاسی دانشوروں کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ چودھری پرویزالٰہی کسی بھی صورت میں عمران خان کی ہدایت پر پنجاب اسمبلی نہیں توڑیں گے۔ لیکن چودھری پرویزالٰہی نے واقعی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے کا وعدہ نبھایا اور وہی کچھ کیا جو عمران خان چاہتے تھے۔
اگرچہ ہمارا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صوبائی انتخابات ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ حکومت عام انتخابات کے بجائے صوبائی انتخابات کی حکمت عملی اختیار کرے گی۔ لیکن مسئلہ آئینی یا قانونی نہیں بلکہ سیاسی اورانتظامی نوعیت کے مسائل ہیں:
(1) کیا قومی اسمبلی یا وفاقی حکومت کی موجودگی میں دو صوبائی اسمبلیوں کی سطح پر شفاف انتخابات ہوسکتے ہیں؟کیا وفاقی حکومت ان دوصوبائی انتخابات میں خود کو غیر جانب دار رکھ سکتی ہے؟
(2) ان دو صوبوں میں انتخابات کے نتائج کے بعد جو بھی نئی حکومتیں بنیں گی اُن کے بعد آٹھ ماہ بعد قومی اسمبلی کے انتخابات کی سیاسی حیثیت کیا ہوگی؟ اور اس وقت کی دو صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں شفافیت کا سوال اٹھے گا، کیونکہ پھر قومی اسمبلی کے انتخابات کسی نگران حکومت کی نگرانی میں نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہوں گے۔
(3) ہمارے ہاں انتخابات پینل کی بنیاد پر ہوتے ہیں جن میں قومی اسمبلی کے ممبر کے نیچے دو ممبر صوبائی نشستوں کے ہوتے ہیں۔ کیا محض دو صوبائی نشستوں کے انتخابات کو قومی اسمبلی کا ممبر سیاسی سطح پر قبول کرسکتا ہے؟
(4) ایک ایسے موقع پر جب پنجاب اور خیبر پختون خوا میں عمران خان کی مقبولیت بہت زیادہ ہے اور اس کا اشارہ مختلف سروے نتائج میں بھی سامنے آیا ہے، حکومت ان دو صوبوں تک انتخابات کی حکمت عملی اختیار کرکے اپنے لیے زیادہ سیاسی و انتخابی مشکلات پیدا کرے گی۔
(5) کیا ہم انتظامی، مالیاتی اور ریاستی سطح پر پہلے صوبائی اور پھر قومی انتخابات کے متحمل ہوسکیں گے؟
(6) اگر پہلے صوبائی انتخابات ہوں گے تو وفاقی حکومت اور وزیراعظم سمیت اہم وزرا کیسے دو صوبوں کی انتخابی مہم میں حصہ لے سکیں گے؟ کیونکہ قانون کے مطابق وہ انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے۔
یہ تمام سوالات اہم ہیں اور انہی کو بنیاد بناکر انتخابات کا حتمی فیصلہ ہوگا۔
موجودہ صورتِ حال میں مسلم لیگ (ن) میں زیادہ مایوسی پائی جاتی ہے۔ نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی سمیت کچھ لوگ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فوراً بعد عام انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ ان کے بقول انتخابات میں تاخیر کے فیصلے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا کہ پرویزالٰہی کسی بھی صورت میں پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرکے کوئی بڑا سیاسی بحران پیدا نہیں کریں گے۔ اب بھی حکمران اتحاد کے پاس دو ہی آپشن ہیں، وہ یا تو صوبائی انتخابات تک خود کو محدود کرے، یا حالات کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے عام انتخابات کا راستہ اختیار کرے۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں میں فوری عام انتخابات یا محض صوبائی انتخابات کے معاملے پر تقسیم موجود ہے۔ عمران خان اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہ فوری عام انتخابات کی حکمت عملی میں اسی صورت میں کامیاب ہوں گے جب اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر مسلسل دبائو برقرار رکھیں گے۔ عمران خان کو بخوبی اندازہ ہے کہ فوری انتخابات کا فیصلہ حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی سے مشروط ہے۔ اسی کو بنیاد بناکر اسٹیبلشمنٹ سے عمران خان کا بنیادی مطالبہ بھی فوری انتخابات کا ہی ہے۔ عمران خان کی ایک حکمت عملی یہ بھی ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو اس نکتہ پر لاسکیں کہ وہ وفاقی حکومت کی حمایت سے دست بردار ہو، اور اسی بنیاد پر صدرِ مملکت وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ لینے کی درخواست کریں، اور اعتماد کے ووٹ کی ناکامی کے بعد قومی اسمبلی بھی تحلیل ہو، یا مسلم لیگ (ن) کے کچھ لوگ اپنا ووٹ وزیراعظم کے حق میں نہیں دیں گے اور کوشش کریں گے کہ اس کے صلے میں ان کو اگلا ٹکٹ پی ٹی آئی کا ملے۔ دوسری جانب چاہے صوبائی انتخابات ہوں یا قومی انتخابات… مسلم لیگ (ن) کی سرکردہ قیادت تواتر سے نوازشریف سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں فوری طور پر وطن واپسی کا اعلان کریں۔ ان کے بقول نوازشریف کی واپسی کے بغیر مسلم لیگ (ن) کی انتخابی سیاست میں بحالی ممکن نہیں۔ لیکن نوازشریف مسلسل انکاری ہیں اور اُن کے بقول جب وہ محسوس کریں گے کہ حالات بہتر ہیں تو وہ ضرور واپس آنے کو ہی ترجیح دیں گے۔ ابتدائی طور پر انہوں نے مریم نواز کی واپسی کا اعلان کیا ہے اورکہا ہے کہ وہ آکر پاکستان میں انتخابی مہم کی نگرانی و قیادت کریں گی اور وہ ہی تجویز کریں گی کہ ان کو کب واپس آنا ہے۔ حالانکہ اس وقت شہبازشریف کی حکومت ہے اور خود عمران خان سمیت ان کے مخالفین کو نوازشریف کی آمد پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن نوازشریف گھاگ سیاست دان ہیں، جب تک ان کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے تمام یقین دہانیاں نہیں کرائی جائیں گی وہ واپس نہیں آئیں گے۔ مسلم لیگ (ن) رجیم چینج کے بعد وہ جماعت ہے جو سیاسی طور پر سب سے زیادہ نقصان میں رہی ہے۔ اب نوازشریف اینڈ کمپنی اس سارے بحران کا ملبہ شہبازشریف پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے، حالانکہ خود نوازشریف بھی اس پارٹی بحران کے ذمہ دار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو گلہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کا راستہ روکنے کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے جو وہ چاہتے تھے جس میں عمران خان کی گرفتاری اورنااہلی بھی شامل ہے۔ نوازشریف پنجاب میں چودھری پرویزالٰہی کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے اور اسمبلی کی تحلیل پر بھی اپنی پارٹی سے سخت ناراض ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی کی قیادت نے وہ کچھ نہیں کیا جو کیا جانا چاہیے تھا، یا اُن کے بقول انہیں اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ نوازشریف کو معلوم ہے کہ اصل جنگ پنجاب میں ہے، اور وہ پنجاب میں اپنی سیاسی طاقت کی بحالی کو ہی ترجیح سمجھتے ہیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ یہ برتری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کا ایک دکھ یہ بھی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی جن کے اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات ہیں اُن کا عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنا عمران خان کے حق میں اور ان کی مخالفت میں ہے۔ نوازشریف کو یہ بھی ڈر ہے کہ چودھری پرویزالٰہی عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے جو ان کے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ یہ جو سیاسی پنڈت بہت عرصے سے عبوری حکومت یا معاشی ماہرین پر مشتمل ٹیکنوکریٹس کی حکومت یا معاشی ایمرجنسی کی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر کی باتیں کررہے ہیں وہ غلطی پر ہیں، کیونکہ یہ بھی مسئلے کا حل نہیں۔ کچھ لوگ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کو مہم جوئی کے مشورے دے رہے ہیں، لیکن اس سے مزید سیاسی اور معاشی مشکلات پیدا ہوں گی۔ سب سے اہم بات موجودہ سیاسی اور معاشی بحران نے ملک کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی صورت حال پیدا کردی ہے، اس لئے غیر یقینی صورتِ حال کے خاتمے کی ایک بنیاد نئے انتخابات اور پانچ برس پر کے لئے نئی منتخب حکومت کا قیام ہے۔ نئی منتخب حکومت ہی سیاسی اور معاشی استحکام لاسکتی ہے اور عالمی برادری یا عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ غیر یقینی، محاذ آرائی اور ٹکرائو کی سیاست کے ماحول میں کوئی بھی عالمی مالیاتی ادارہ ہمارے ساتھ مضبوط بنیادوں پر چلنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ اسی طرح قومی انتخابات کے مقابلے میں محض دو صوبائی انتخابات، یا قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کے متوقع ضمنی انتخاب سے بھی قومی سیاسی بحران کم نہیں ہوگا بلکہ مزید بڑھے گا۔
اس صورتِ حال میں بہتر حکمتِ عملی تو یہی ہے کہ سیاسی قیادتیں چاہے اُن کا تعلق حکومت سے ہو، حزبِ اختلاف سے ہو یا اسٹیبلیشمنٹ سے جو عملًا خود کو غیر سیاسی رکھنا چاہتی ہے یا سیاسی عمل میں مداخلت اب اس کی پالیسی کا حصہ نہیں، ان سب کو بیٹھ کر عام انتخابات اور وہ بھی شفاف اور منصفانہ انتخابات پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہیے۔کیونکہ جو ہمارا داخلی عدم استحکام ہے اس مسئلے کا حل نئے انتخابات سے ہی جڑا نظر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عام انتخابات کے بعد فوری طور پر ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے، لیکن ہم مسائل کے حل کی ابتدا کرسکتے ہیں۔ اس کی شرط یہی ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات کو بنیاد بناکر اقتدار منتقل کیا جائے، اور سیاسی جماعتوں میں یہ اتفاق بھی پیدا ہو کہ انتخابات کے نتائج کو ہر سطح پر قبول کیا جائے گا۔ انتخابات کے نتائج کو متنازع بنانے کی مشق ہمارے قومی مفاد میں نہیں۔ سب کو مشترکہ طور پر انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ ملک عملی طور پر بحرانوں کی کیفیت سے باہر نکل سکے۔ بہتر ہوگا اگر حکومت اور حزبِ اختلاف خود مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں، اور اگر عدم اعتماد یا ٹکرائو کے ماحول میں یہ ممکن نہیں تو خود اسٹیبلشمنٹ کو ایک مثبت سوچ اور فکر کے ساتھ مفاہمت کے عمل میں اپنا کردار جس حد تک ممکن ہو، ادا کرنا چاہیے۔ اگر ہمیں مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تو پھر کچھ معاملات کوOut of Box جاکر تلاش کرنا ہوگا۔ جب تک ملک میں نئے عام انتخابات نہیں ہوں گے، ٹکرائو اور محاذ آرائی کا تسلسل جاری رہے گا،کیونکہ سیاسی قوتوں کے سامنے ریاستی مفاد کم اور اپنے ذاتی سیاسی مفادات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اسی بنیاد پر ہماری سیاسی قیادتیں وہ کچھ نہیں کرسکیں جو اُن کو موجودہ حالات میں کرنا چاہیے تھا۔ اگر سیاسی جماعتوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا اور آپس میں ٹکرائو یا عدم اعتماد کو جاری رکھا تو اس کا فائدہ سیاسی اور جمہوری قوتوں کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتوں کو ہوگا۔