مثل مشہور ہے ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘۔ اس مثل کا کراچی سے گہرا تعلق ہے، اس لیے کہ کراچی آسمان سے گرتا ہے تو کھجور میں اٹک جاتا ہے۔ اِس بار بھی کراچی کے ساتھ یہی ہوا۔ چار، پانچ بار ملتوی ہونے کے بعد کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو ان انتخابات میں جماعت اسلامی نے تاریخی کامیابی حاصل کی، مگر پیپلزپارٹی نے آر اوز اور ڈی آر اوز کے ساتھ مل کر جماعت اسلامی کی تاریخی کامیابی پر ڈاکہ مار دیا۔ جماعت اسلامی نے 100 سے زیادہ یوسیز جیت لی تھیں اور اس کے پاس اپنی فتوحات کے دستاویزی ثبوت موجود تھے، مگر پیپلزپارٹی نے رات کی تاریکی میں جماعت اسلامی پر شب خون مارا اور جماعت اسلامی کی نشستوں کی تعداد کو گھٹا کر 86 اور خود اپنی نشستوں کی تعداد کو بڑھا کر 93کرلیا۔ تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی کا دعویٰ ہے کہ پیپلزپارٹی ان کی بھی 32 نشستیں ہڑپ کر گئی ہے۔ چنانچہ تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں صرف 40 نشستیں حاصل کرسکی۔ ان انتخابات میں نواز لیگ نے 7، جمعیت علمائے اسلام اور تحریک لبیک نے 3,3 اور آزاد امیدواروں نے 2 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، جب کہ ایک نشست ایم کیو ایم حقیقی کے حصے میں آئی ہے۔
بدقسمتی سے پیپلزپارٹی ہمیشہ سے کراچی دشمن جماعت کا کردار ادا کرتی آرہی ہے اور اسے جب بھی موقع ملتا ہے وہ انتخابات میں دھاندلی کرتی ہے۔ اس سلسلے میں تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈال لینا کافی ہے۔ اردو پورے برصغیر کی زبان ہے، حتیٰ کہ اردو کے فروغ میں ہندوئوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ منشی پریم چند ہندو تھے مگر وہ اردو افسانے کے بنیاد گزار تھے۔ راجندر سنگھ بیدی سکھ تھے مگر وہ اردو افسانے کا سب سے بڑا نام ہیں۔ فراق گورکھ پوری کا اصل نام رگھوپتی سہائے فراق تھا اور وہ ہندو تھے لیکن فراق اردو کے سب سے بڑے تاثراتی نقاد اور جدید اردو غزل کا بڑا نام ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بھٹو اور ان کی پیپلزپارٹی نے 1972ء میں لسانی بل پاس کرا کے پورے برصغیر کی زبان اردو کو صرف مہاجروں کی زبان بنا کر کھڑا کردیا۔ یہ سندھ میں لسانی سیاست کا آغاز تھا۔ اس شرم ناک سیاست کی ابتدا پیپلزپارٹی نے کی۔ اس نے لسانی بل کے ذریعے اردو کو سندھی کے مقابل لا کھڑا کیا۔ پیپلزپارٹی کے ’’عمل‘‘ کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا۔ اس ردعمل کی ایک چھوٹی سی مثال رئیس امروہوی کی نظم ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ تھی۔ نظم یہ تھی:
کیوں جانِ حزیں خطرۂ موہوم سے نکلے
کیوں نالۂ حسرت دلِ مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدۂ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لبِ مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کا غمِ مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شاملِ اربابِ عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میت غم دہلیِ مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اے تاج محل نقش بہ دیوار ہو غم سے
اے قلعۂ شاہی یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے خاکِ اودھ فائدہ کیا شرحِ ستم سے
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
سایہ ہو جب اردو کے جنازے پہ ولیؔ کا
ہوں میرؔ تقی ساتھ تو ہمراہ ہوں سوداؔ
دفنائیں اسے مصحفیؔ و ناسخؔ و انشاؔ
یہ فال ہر اک دفترِ منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
بد ذوق ہے احباب سے گو ذوقؔ ہیں رنجور
اردوئے معلی کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سرِ قبر پڑھیں مومنِؔ مغفور
فریاد دلِ غالبِ مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہیں مرثیہ خواں قوم میں اردو کے بہت کم
کہہ دو کہ انیسؔ اس کا لکھیں مرثیۂ غم
جنت سے دبیرؔ آ کے پڑھیں نوحۂ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے
پہلے کوئی سر سیدؔ اعظم کو خبر دے
وہ مردِ خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کے جنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزادؔ و نذیرؔ و شررؔ و شبلیؔ و حالیؔ
فریاد یہ سب کے دلِ مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اسلام کا ایک تقاضا انصاف ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی نے 1970ء کی دہائی میں سندھ کے شہری علاقوں پر کوٹہ سسٹم کے عنوان سے ایک بہت بڑی ناانصافی مسلط کردی۔ اُس وقت اس ناانصافی کا جواز یہ تھا کہ مہاجر بہت تعلیم یافتہ تھے اور سندھی نوجوان ملازمتوں کے سلسلے میں مہاجر نوجوانوں کا میرٹ پر مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، چنانچہ سندھی نوجوانوں کو دس پندرہ سال کے لیے تحفظ مہیا کرنا ضروری تھا۔ مگر بدقسمتی سے پیپلزپارٹی نے کوٹہ سسٹم کے عارضی بندوبست کو دائمی بنا کر مہاجر نوجوانوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ’’معاشی اندھیرا‘‘ مسلط کردیا۔
یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ پیپلزپارٹی نے 1970ء کے انتخابات کے بعد جمہوریت کو قومی اتحاد کے بجائے قومی تقسیم کا ذریعہ بنا دیا۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوگئی تھی، مگر شیخ مجیب کی اکثریت کو نہ جنرل یحییٰ کی آمریت نے تسلیم کیا، نہ بھٹو نے اسے قبول کیا۔ بھٹو نے اس کے برعکس ’’اِدھر ہم، اُدھر تم‘‘ کا نعرہ لگا دیا اور پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو انتخابی دھاندلی بھی پیپلزپارٹی کے سیاسی خمیر کا حصہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1977ء کے انتخابات میں بھٹو صاحب دھاندلی کے بغیر بھی اکثریت حاصل کرسکتے تھے، مگر اس کے باوجود انہوں نے 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کرائی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد کو جیل میں ٹھونسا اور ان پر تشدد کیا۔ بھٹو نے جماعت اسلامی کے رہنما جان محمد عباسی کو اغوا کرایا اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھٹو کے خلاف پوری حزب اختلاف نے تحریک شروع کردی۔ اس تحریک کے ایک مرحلے پر بھٹو نے حزبِ اختلاف سے مذاکرات کیے اور جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما پروفیسر غفور نے ہمیں خود بتایا کہ بھٹو نے قومی اسمبلی کی تیس سے زیادہ نشستوں پر ہونے والی دھاندلی کو تسلیم کرلیا تھا اور وہ ان پر دوبارہ انتخابات کرانے کے لیے تیار تھے۔ مگر جنرل ضیا الحق نے اس کی نوبت نہ آنے دی اور مارشل لا لگا دیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے جماعت اسلامی کی تاریخی فتح پر جو ڈاکہ مارا ہے وہ اس کے تاریخی کردار کے عین مطابق ہے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ سے کراچی دشمن جماعت رہی ہے۔ کراچی صوبے کی آمدنی کا 95 فیصد مہیا کرتا ہے مگر پیپلزپارٹی نے 1971ء سے آج تک کراچی کو اس کی آمدنی کا 5 فیصد بھی فراہم نہیں کیا۔ جہاں تک بلدیاتی انتخابات کا تعلق ہے پیپلزپارٹی ان انتخابات کو بھی چار بار التوا میں ڈال چکی تھی۔ پہلی مرتبہ اس نے کراچی میں ہونے والی تیز بارش کو التوا کا سبب بنایا۔ پھر اس نے سندھ میں آنے والے سیلاب کی آڑ میں دو بار انتخابات ملتوی کیے۔ اب بھی وہ امن وامان کی صورت حال کے پیچھے چھپنے کے لیے کوشاں تھی مگر الیکشن کمیشن نے اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔
دیکھا جائے تو بلدیاتی انتخابات کا بار بار التوا بھی جمہوری دھاندلی کی ایک صورت تھی۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ پیپلزپارٹی نے بلدیاتی انتخابات سے پہلے جو حلقہ بندیاں کیں وہ بھی سراسر تعصب میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ پیپلزپارٹی نے سندھی آبادی میں 20 ہزار پر ایک حلقہ بنایا تو مہاجروں کی آبادیوں میں 80 ہزار پر ایک حلقہ قائم کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی ساری کامیابی کسی نہ کسی قسم کی دھاندلی کا حاصل ہے۔ یہ امر بھی راز نہیں کہ پیپلزپارٹی عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے سبب اسٹیبلشمنٹ کی چہیتی بن کر ابھری ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے کراچی سمیت پورا سندھ اور بلوچستان پیپلزپارٹی کے حوالے کردیا ہے۔
جہاں تک کراچی میں جماعت اسلامی کی تاریخی انتخابی کامیابی کا تعلق ہے تو اس کا سہرا پوری جماعت اسلامی کراچی بالخصوص جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کے سر ہے۔ 1970ء کی دہائی میں جماعت اسلامی کراچی کی دو بڑی سیاسی قوتوں میں سے ایک تھی اور اُس وقت جماعت اسلامی کے لیے انتخابی کامیابی ایک فطری چیز تھی۔ مگر ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی جرنیلی خصلت نے شہر میں لسانی تعصب کی ایک ایسی فضا پیدا کردی تھی کہ جماعت اسلامی کے لیے انتخابی کامیابی ایک خواب بن کر رہ گئی تھی۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بے مثال جدوجہد سے جماعت اسلامی کی انتخابی کامیابی کو ازسرنو دریافت یا Re-Invent کرکے دکھا دیا ہے۔ یہ کام ناممکن نہیں مگر بہت مشکل ضرور تھا۔ مگر حافظ نعیم الرحمٰن نے جماعت اسلامی کو عوامی تخیل یا Public Imagination کا حصہ بنانے کے لیے دن رات ایک کردیے۔ انہوں نے کراچی کے تین کروڑ لوگوں کو لاحق ایک ایک مسئلے کو اجاگر کیا، اس کے لیے آواز بلند کی۔ کراچی میں مردم شماری ہوئی مگر آبادی کو تین کروڑ کے بجائے صرف ڈیڑھ کروڑ ظاہر کیا گیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن اور جماعت اسلامی نے اس ظلم پر احتجاج کا حق ادا کردیا۔ کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی، کے الیکٹرک کے تاروں سے کوئی ہلاک ہوگیا، حافظ نعیم اور جماعت اسلامی متاثرین کی آواز بن گئے۔ کراچی میں پانی کی قلت کے مسئلے پر جتنی گفتگو حافظ نعیم نے کی، کسی نے نہیں کی۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے پر جتنا زورِ بیان حافظ نعیم نے صَرف کیا، کسی نے نہیں کیا۔ بحریہ ٹائون نے سینکڑوں لوگوں کے ساتھ زیادتی کی تو حافظ نعیم اور جماعت اسلامی نے بحریہ ٹائون کو ظلم کے خاتمے پر مائل کیا۔ نسلہ ٹاور کے متاثرین کی آواز کو حافظ نعیم الرحمٰن نے صدا میں ڈھالا۔ کوٹہ سسٹم پر سب سے زیادہ بیانات حافظ نعیم الرحمٰن نے دیے۔ غرضیکہ حافظ نعیم گزشتہ چند برس میں کراچی کے شعور اور ضمیر کی سب سے توانا آواز بن کر ابھرے۔ یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی ملک کی واحد نظریاتی جماعت ہے، جماعت اسلامی ملک کی واحد جمہوری پارٹی ہے، جماعت اسلامی ملک کا واحد سیاسی گروہ ہے جو بدعنوانی سے پاک ہے۔ مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کو اخبارات میں مناسب جگہ ملتی ہے نہ وہ کہیں ٹی وی کی اسکرین پر نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں حافظ نعیم الرحمٰن کی شخصیت اور جدوجہد کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ’’ابلاغی مجاہد‘‘ بن کر سامنے آئے ہیں۔ ہمیں انگریزی اخبارات پڑھتے ہوئے 42 سال ہو گئے ہیں، مگر ان برسوں میں انگریزی اخبارات میں کبھی جماعت اسلامی کو نمایاں ہوتے نہیں دیکھا، مگر حافظ نعیم الرحمٰن کا کمال یہ ہے کہ وہ اردو اخبارات ہی میں نہیں انگریزی اخبارات میں بھی نمایاں طور پر رپورٹ ہوتے ہیں۔ وہ ٹی وی کی اسکرین پر جماعت اسلامی کا سب سے زیادہ نظر آنے والا چہرہ ہیں۔ انہیں ٹی وی کے پروگراموں میں تواتر سے بلایا جاتا ہے، انہیں یوٹیوبرز تک نے اہمیت دی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حافظ نعیم الرحمٰن کراچی میں گھر گھر زیر بحث آنے والی شخصیت بن گئے ہیں۔ اس کے بغیر جماعت اسلامی کو بلدیاتی انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اپنوں کو گرویدہ بنانا آسان ہوتا ہے جب کہ اپنے سیاسی حریفوں کو گرویدہ بنانا مشکل ہوتا ہے، مگر حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے سیاسی حریفوں کو بھی اپنا گرویدہ بنایا ہے۔ چنانچہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کے ووٹرز نے بھی ووٹ دیے اور ایم کیو ایم سے مایوس اُس کے ووٹرز نے بھی جماعت کے نمائندوں کو ووٹ ڈالے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔
کراچی میں دھاندلی کے خلاف جماعت اسلامی کا ملک بھر میں احتجاج