کراچی اور قائداعظم

14اگست 1947ء کو کراچی اِسی سرزمین کے ایک مایہ ناز سپوت محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت کے نتیجے میں قائم ہونے والی آزاد اسلامی مملکت پاکستان کا دارالحکومت قرار پایا۔

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد 25 اگست 1947ء کو قائداعظم محمد علی جناح نے کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیے گئے ایک استقبالیے میں خطاب کرتے ہوئے کراچی شہر کو اس طرح خراجِ عقیدت پیش کیا تھا:

’’میں کراچی میں پیدا ہوا، اس سرزمین پر اپنا بچپن گزارا، اور میں نے یہیں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ بے شک میرے دل میں اس خوبصورت شہر کی بے حد قدر و منزلت ہے، مگر یہ اس لیے نہیں کہ اِس شہر سے میری پرانی یادیں وابستہ ہیں یا چونکہ میں یہاں پیدا ہوا.. بلکہ میں اس شہر کا اس لیے احترام کرتا ہوں کہ یہ ایک آزاد، خودمختار اور نوزائیدہ مملکت پاکستان کی جائے پیدائش بن گیا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے یہ شہر تمام آزادی پسند اقوام کی صرف توجہ کا مرکز ہی نہیں بن گیا ہے بلکہ تاریخ میں ایک خاص مقام حآصل کرچکا ہے جس کی مثال دنیا کا کوئی اور شہر مشکل سے ہی پیش کرسکے گا۔ یہ شہر کوئی معمولی شہر نہیں ہے۔ اسے قدرت نے بے شمار نعمتوں اور خوبیوں سے نوازا ہے۔ اور اپنی ان گوناگوں خوبیوں کی بدولت یہ ایک معمولی سے قصبے سے ایک عظیم شہر بن کر اُبھرا ہے۔ اور آج موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی تمام تر اہلیت رکھتا ہے۔ میں یہ بات آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ اس شہر کا مستقبل تابناک ہے۔ اس کی بندرگاہ یا ہوائی اڈہ ہی نہیں بلکہ مستقبل میں پورا شہر لاثانی ہوگا۔ کراچی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس وقت جب کہ دنیا کے تمام بڑے شہر اونچی اونچی عمارتوں سے گھِر گئے ہیں، کراچی میں آج بھی کھلی فضا اور وافر تازہ ہوا موجود ہے۔ یہاں کی کھلی فضا، معتدل موسم اور سمندر کی جانب سے چلنے والی ٹھنڈی اور خوشگوار ہوائیں نہ صرف سیاحوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ حقیقی سکون، چین اور فرحت بخشتی ہیں‘‘۔

یہ تھے کراچی کی مدح میں بابائے قوم کے ارشاد کردہ تاریخی الفاظ… اور حقیقت یہ ہے کہ تقسیم سے قبل یہ شہر صفائی ستھرائی میں پورے برصغیر میں اپنی مثال آپ تھا۔ اُس وقت کراچی شہر کی سڑکوں کو کچرے اور گرد و غبار سے صاف رکھنے کے لیے دن میں دو مرتبہ خاکروب جھاڑو دیتے تھے اور آدھی رات کو تمام سڑکوں کو پانی سے دھویا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1930ء میں کراچی میں منعقد ہونے والی آل انڈیا میئرز کانفرنس میں اس شہر کو برصغیر کا سب سے صاف ستھرا شہر قرار دیا گیا تھا۔ تصنیف “Kurrachee Past Present and Future” کا مصنف الیگزینڈر ایف بیلی لکھتا ہے کہ کراچی کو برطانوی دور میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ وائسرائے ہند اکثر کراچی کے دورے پر آتا رہتا تھا۔ جب وائسرائے ہند پہلی مرتبہ کراچی کے دورے پر آیا تو اہلِ کراچی نے شہر کو ہندوستان کا دارالحکومت بنانے کا پُرزور مطالبہ کیا تھا۔ اُس وقت تک دراصل دہلی کو ہندوستان کا دارالحکومت قرار نہیں دیا گیا تھا اور انگریز سرکار ہندوستان کے پانچ شہروں میں سے کسی ایک کو دارالحکومت قرار دینے پر غور کررہی تھی۔ ان شہروں میں کلکتہ، شملہ، دہلی، ساگر (سی پی) کے علاوہ کراچی کا نام بھی شامل تھا

مجلس اقبال
یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نِگہ بے باک

اس شعر میں علامہ نے جدید تہذیب کی حقیقت سے آگاہ بھی کیا ہے اور اسے شدید طنز کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی تہذیب کے پیروکار اپنے آپ کو بہت روشن دماغ قرار دیتے ہیں، مگر پوری بات نہیں کرتے، یعنی ان کی سوچ کے بارے میں روشن ہونے کا دعویٰ تو کر ڈالتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ ان کے دل اتنے تاریک ہیں اور ان کی نظریں کس قدر بے شرمی اور بے حیائی سے بھرپور ہیں، یعنی دل کی دنیا تاریک تر اور نگاہیں بصارت سے محروم ہیں تو ایسی روشن دماغی انسان کے کس کام کی! علامہ کا مستقل فلسفہ ہے کہ جب تک انسان کے دل کی دنیا روشن نہ ہو اور اس کی نگاہیں بصارت و بصیرت سے مالا مال نہ ہوں، وہ حقیقی طور پر انسانیت کے مقامِ بلند سے محروم رہتا ہے۔