ہم بحرانوں کی ماری ہوئی قوم ہیں۔ ابھی ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سر اٹھا لیتا ہے۔ تمام تر قدرتی وسائل اور ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود آج اہلِ وطن بنیادی استعمال کی اشیائے ضرورت کے حصول کے لیے بھی پریشان اور سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری معیشت تک آج ہم پر بے حد تنگ ہوچکی ہے، کیوں کہ فرمانِ الٰہی کے ایک مفہوم کے مطابق ہم نے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر احکاماتِ الٰہی پر عمل پیرا ہونے سے انحراف کی روش اپنا لی ہے اور ذکرِ الٰہی سے منہ موڑلیا ہے۔ ترجیحات کا تعین کرکے لائحہ عمل بنانا ہر حکومتِ وقت کا فرضِ اوّلین ہوا کرتا ہے، لیکن بدقسمتی سے آج تک ہماری کسی حکومت نے بھی اپنے ملک کے معروضی حالات اور حقائق کی روشنی میں کبھی اپنی کوئی پالیسی تشکیل دی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا نظام سنجیدگی کے ساتھ وضع کیا ہے جس سے ملک اور قوم کے حالات بہتر ہوں، اور ہمارے ہاں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح امن اور خوش حالی کا دور دورہ ہوسکے، عام افراد آرام اور سکون سے رہ سکیں اور انہیں اپنے مستقبل کے حوالے سے ڈرائونے خواب نہ ستا سکیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ہر دورِ حکومت میں ہی ہر سمت ظلم و ناانصافی، مہنگائی، بدامنی اور بے روزگاری کا راج ہوتا دکھائی دیا ہے۔ اب بھی حالات انتہائی دگرگوں ہیں۔ مجھے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے اِس دور میں بھی پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات، رسائل و جرائد اور کتابیں پڑھنے کی جو پرانی عادت ہے وہ چین سے اُس وقت تک بیٹھنے نہیں دیتی جب تک میں صبح ناشتے کے ساتھ ہاکر کے دیے گئے کئی اخبارات کا مطالعہ کا نہ کرلوں۔ اگر کسی روز میں اپنے اس معمول پر عمل کسی وجہ سے نہ کرپائوں تو دن بھر تشنگی کا احساس رہتا ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ لطفِ زیست ہی جاتا رہتا ہے۔ ہاکر مجھے صبح سویرے کئی اخبارات دے جاتا ہے۔ ابھی ابھی ہاکر حسبِ معمول اخبارات کا ایک پلندہ دے گیا ہے۔ کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے صفحۂ اوّل پر مع ایک خوں رنگ تصویر کے چھپنے والی یہ خبر کس قدر الم ناک اور دل دوز ہے، جس کے مطابق 2019ء میں ٹھل جیکب آباد میں ایک نوجواں وقار کھوسوکا بہیمانہ انداز میں قتل ہوا تھا۔ قاتلوں کی اتنے عرصے میں تاحال عدم گرفتاری کے خلاف اس کے ضعیف العمر والدین مسلسل ہر جگہ یعنی مقامی ایم این اے، ایم پی اے کی رہائش گاہوں اور مقامی پریس کلب کے سامنے اپنے ہاتھوں میں قرآن پاک لیے احتجاج کرتے دکھائی دیا کرتے تھے۔ مقتول نوجوان کے قاتل تو کیا گرفتار ہوتے، گزشتہ شب اُن کے گوٹھ میں نامعلوم قاتلوں نے والد شاہ ڈنو کھوسو اور مقتول نوجوان کی والدہ خورشید خاتون کو بھی اپنے بیٹے کے خونِ ناحق کا انصاف مانگنے کی پاداش میں بڑی بے دردی کے ساتھ فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ اس طرح سے دو مزید خونِ خاک نشیناں رزقِ خاک ہوگئے۔
میں نے جلدی سے اخبار گھبراہٹ کے عالم میں نیچے میز پر رکھ دیا۔ نرم طبع اور حساس ہونا اگر ایک طرف اللہ کی رحمت اور نعمت ہے تو دوسری جانب کسی قیامت سے کم بھی ہرگز نہیں ہے۔ یہ خبر پڑھ کر میں بے اختیار دو برس پیشتر ٹھٹہ کے نواحی گوٹھ میں مبینہ طور پر پی پی کے ایم این اے جام عبدالکریم بجار اور ایم پی اے جام اویس گہرام کے ایما پر قتل ہونے والے شہیدِ ماحولیات نوجوان ناظم جوکھیو، اور دادو کی باہمت لڑکی اُم رباب چانڈیو کے والد، چچا اور بھائی کے قتل میں نامزد چانڈیو قبیلے کے بااثر سرداروں کے بارے میں سوچنے لگ جاتا ہوں۔ قتل کے یہ دونوں کیس بے حد ہائی پروفائل ہونے کے باوصف تاحال مقتولین کے ورثا انصاف سے محروم ہیں اور انتہائی بااثر ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں۔ آخر ان سب مقتولین کے قاتل کب اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے؟ بظاہر تو اس کا دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ حضرت علیؓ کا یہ معروف قول ذہن میں گونجنے لگتا ہے ’’کفر کے نظام پر مبنی حکومت تو چل سکتی ہے لیکن ناانصافی کی حامل حکومت نہیں‘‘۔ یااللہ! آخر ہم کدھر اور کہاں جارہے ہیں؟ کیا ہمارے ملک کے موجودہ ابتر اور ناگفتہ بہ حالات اس بات کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہیں کہ احکاماتِ الٰہی سے انحراف اور ظلم و ناانصافی کے مروجہ نظام نے ہمیں خاکم بدہن، خدانخواستہ دیوالیہ اور نادہندہ ہونے کے قریب تر کردیا ہے!
اب میں ایک کثیر الاشاعت سندھی اخبار روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدرآباد کو اس امید پر پڑھنے کے لیے میز سے اٹھاتا ہوں کہ شاید اس میں کوئی خوش کن خبر پڑھنے کو مل جائے، لیکن توبہ ہی بھلی! اس کا بھی پہلا صفحہ ہول ناک اور الم ناک خبروں سے معمور ہے۔ ایک خبر کے مطابق جو بڑی دردناک ہے ’’نوجوان شاہین بوہر اپنے گوٹھ دوداپور سے دوپہر کے وقت اپنی نئی موٹر سائیکل پر جیکب آباد شہر کسی کام سے جارہا تھا کہ اسے راستے میں کھڑے چار نامعلوم ڈاکوئوں نے روک لیا اور نئی موٹر سائیکل چھیننے کی کوشش کی۔ مزاحمت کرنے پر نوجوان کو بے رحمی سے گولیاں مار کر قتل کردیا اور فرار ہوگئے۔‘‘
سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع تاریخی شہر طویل عرصے سے بدامنی کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ ڈاکا زنی، اغوا برائے تاوان اور کار، موٹر سائیکل چھیننا تو معمول بن چکا ہے۔ گزشتہ ماہ سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد پروفیسر محمد ایاز سومرو کی گھر کے سامنے کھڑی نئی موٹر سائیکل سمیت شہر سے ایک درجن سے زائد چوری شدہ اور چھینی گئی موٹر سائیکلیں پولیس تاحال برآمد نہیں کرسکی ہے۔ میں نے ایک اور کثیر الاشاعت کے حامل سندھی اخبار روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی پڑھنے کے لیے میز پر سے اٹھایا تو اس میں سب سے پہلے میری نگاہ امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق کے دورۂ ٹھٹہ اور گھارو سے متعلق خبرپر پڑی جس میں درج تفصیل کے مطابق انہوں نے ٹھٹہ میں منعقدہ ایک بڑے جلسۂ عام سے دورانِ خطاب کہا کہ ’’سارا سندھ اس وقت ڈاکوئوں کے شکنجے میں ہے، اور ظالم وڈیروں کا پی پی سے وابستہ ٹولہ عوام کو آرام سے جینے بھی نہیں دے رہا ہے۔ مہنگائی کے خلاف مارچ کرنے والے بلاول بھٹو بتائیں کہ اُن کی حکومت میں آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی کیوں ہے؟ سیلاب کو عرصہ 4 ماہ گزر چکے ہیں، اب بھی لاکھوں متاثرہ افراد دربہ در ہیں۔ جماعت اسلامی نے ملک بھر میں الخدمت کے پلیٹ فارم سے کروڑوں متاثرین کو بلاتخصیص راشن اور خیموں سمیت علاج ومعالجہ کی سہولت دی ہے، سیکڑوں گھر بھی بنواکر دیے ہیں‘‘۔
میں نے ایک اور روزنامہ ’’جیجل‘‘ حیدرآباد اٹھایا تو اس کے پہلے صفحے پر شائع ہونے والی اس خبر نے بھی دل دہلاکر رکھ دیا کہ ’’سنجھورو (ضلع سانگھڑ) سے دیا بھیل نامی خاتون کی لاش اس حالت میں پولیس کو ہاتھ آئی ہے کہ اس کے جسم کی ساری کھال اتری ہوئی ہے اور گردن اور دھڑکو الگ کردیا گیا ہے‘‘۔ یعنی شقاوتِ قلبی کی انتہا ہے۔
سندھی کثیر الاشاعت اخبار ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد کے صفحۂ اوّل پر یہ دکھ بھری خبر پڑھنے کو ملی کہ ضلع سانگھڑ میں جو معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے، گزشتہ تھوڑے ہی عرصے میں حالات سے دل برداشتہ ہوکر 73 افراد خودکشی کا ارتکاب کرچکے ہیں۔ کئی ایسے کسانوں نے بھی خودکشی کی ہے جن کی فصلیں سیلاب سے تباہ ہوگئی تھیں اور وہ بے حد مقروض ہوگئے تھے۔ خودکشی کرنے والوں میں خاصی تعداد اقلیتی ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی اخبار میں ایک اور چھپنے والی خبر کے مطابق سندھ بھر میں لاکھوں سیلاب متاثرین اپنے خیموں میں ناگفتہ بہ حالت
میں رہنے پر مجبور ہیں۔ رات کو پڑنے والی سخت سردی کی وجہ سے بچے بڑی تعداد میں بیماریوں خصوصاً نمونیا میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔
اب میں ایک اور سندھی اخبار روزنامہ ’’عوامی آواز‘‘ حیدرآباد بہ غرضِ مطالعہ اٹھاتا ہوں جس کی شہ سرخی اور ذیلی سرخیوں پر میری نظر ٹک جاتی ہے کہ سندھ بھر میں آٹے کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔ شہر شہر آٹے کی قلّت اور مہنگا آٹا فروخت کیے جانے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ زور پکڑ گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں ناقص حکومتی پالیسی کی وجہ سے آٹا 130 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ عام لوگ دُہائی دے رہے ہیں کہ آٹا خریدنا ان کی پہنچ سے باہر ہوچکا ہے۔ لوگ بغیر کسی تنظیم کے اپنے طور پر ہی احتجاج کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ حکومت ِسندھ نے سستے آٹے کی فراہمی کے لیے جن اسٹالز کے قیام کا اعلان کیا تھا وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ خدا نہ کرے یہ صورتِ حال ہمیں کسی انتشار اور انارکی کی طرف نہ دھکیل دے۔ میں دل ہی دل میں اللہ سے خیر وعافیت کی دعا مانگنے لگ جاتا ہوں۔ میرے اندر اب مزید اخبارات پڑھنے کی تاب اور طاقت نہیں رہی۔