عقیدت کے پھول

’عقیدت کے پھول‘ شکیل فاروقی کا پہلا اُردو نعتیہ مجموعہ ہے جس میں 10 حمد، 33نعتیں ہیں۔ یہ 86صفحات پر مشتمل مجلّد خوب صورت اشاعت ہے جسے مصنف نے والدین اور بزرگوں کے نام منسوب کیا ہے۔اللہ کی تعریف میں کہی جانے والی نظم حمد، اور اللہ کے رسولؐ کی تعریف، مدحت نظمی اندازِ بیاں میں کرنا نعت گوئی ہے۔ اردو میں لفظ ”نعت“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ستائش و ثنا کے لیے مخصوص ہے۔

اسلام کے ابتدائی سالوں میں ہی کئی صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں۔ حضرت حسان بن ثابتؓ، کعب بن مالکؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ کا شمار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شعراء میں ہوتا تھا، اور اس طرح تسلسل کے ساتھ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ حمد و نعت کے موضوع سے عہدہ برا ہونا آسان نہیں ہے، اور نعت گوئی کا راستہ پلِ صراط سے کم نہیں ہے۔ اس کے طرزِ اظہار و بیان میں شائستگی اور خوش سلیقگی کا ایسا انداز ہونا چاہیے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کا مظہر ہو۔ مولانا مودودیؒ نے خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ”آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل و محاسن بیان کرتے ہوئے وقار و متانت اور تعظیم و تقدیس کی روش اختیار کرنی چاہیے۔“ صاحب ِتصنیف نے اس کتاب میں بڑے عمدہ اسلوب اور حزم و احتیاط سے حمدیں و نعتیں لکھی ہیں۔

شکیل فاروقی خود حمد میں اظہار کرتے ہیں کہ:

حمدِ باری ہے بس خدا کے لیے
نعت محبوبِ دوسَراؐ کے لیے
نعت محبوبِ دوسَرا کے لیے
نعت میں احتیاط لازم ہے
ہے ادب شرط مصطفیٰؐ کے لیے

شکیل فاروقی بنیادی طور پر کالم نگار ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس میں آپ کے ہزار سے زائد کالم متنوع موضوعات پر شائع ہوچکے ہیں۔ آپ کی پیدائش یوپی کی ہے۔ دہلی کالج دہلی سے بی اے ایڈوانس اسٹدی، آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ادیب کامل، اور ایم اے جرنلزم جامعہ کراچی سے کیا۔ آپ جون 1965ء میں پاکستان آئے تھے اور کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ آپ کے پاک و ہند کے موقر اُردو، ہندی اور انگریزی جرائد، رسائل اور روزناموں میں مضامین اور بچوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں شائع ہوتی رہی ہیں۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کے تاحیات ممبر ہیں۔ ریڈیو پاکستان کی اردو اور ہندی زبانوں میں نشریات، بحیثیت اسٹیشن ڈائریکٹر کراچی ایف ایم 101 کا آغاز، اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان حیدرآباد، کوئٹہ اور کراچی، ریڈیو پاکستان کے مختلف اسٹیشنز پر مشاعروں کا اہتمام، پاک و ہند کے نامور ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور کھلاڑیوں کے ریڈیو انٹرویوز آپ کی دیگر ادبی سرگرمیوں میں شامل رہے۔ کتاب میں ”اعتراف“ کے عنوان سے لکھتے ہیں: ”عقیدت کے پھول کی پیشکس رب کریم کی عطا اور حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے“۔ اسی ”اعتراف“ سے معلوم ہوا کہ آپ کے دائیں ہاتھ میں رعشہ ہوگیا ہے اور پھر بینائی سے بھی بالکل محروم ہوجانے کی وجہ سے لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں۔ ”عقیدت کے پھول“ کی اشاعت کا سہرا اپنی بیٹی مہ وش فاروقی کے سر کرتے ہیں جنہوں نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے۔ شکیل فاروقی کی ایک نعت مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے:

اُنؐ کے در کا فقیر ہوجائوں
کاش میں بھی امیر ہوجائوں

یعنی ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی دولت اللہ کے رسولؐ کی غلامی ہے، وہ مل جائے تو اُس سے زیادہ امیر کوئی ہوہی نہیں سکتا۔

ڈاکٹر عزیز احسن نے ”شکیل فاروقی کی نعتیہ شاعری“ سے متعلق لکھا ہے کہ ”ان کی نعتیہ شاعری میں ذاتی احساسِ ندامت، حُبِّ نبویؐ کی تپش، بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے کی آرزو، اور اتباعِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب شامل ہے، اور انہوں نے بڑی سادگی سے اپنے جذبات اور احساسات کا عکس قرطاس پر اتارا ہے۔“

صبیح رحمانی جو خود نعت گو شاعر ہیں  اور جن کی آواز میں بلا کی اثر انگیزی ہے، وہ ”عقیدت کے پھول“ میں لکھتے ہیں:
”حمدیہ کلام میں شکیل فاروقی سراپا بندگی اور تسلیم و رضا کے پیکر نظر آتے ہیں۔ ربِ کائنات کی خلاقی، قدرت کی بے کراں وسعتوں اور جلووں کی فراوانی کو انہوں نے روانی، سلیقے اور سلاست سے جزوِ کلام کیا ہے۔ ان کی شخصیت اور کلام سے مترشح ہے کہ خیالِ محمدؐ ان کے لیے کس قدر حیات آفریں ہے۔ احساس کی اس پختہ بنیاد کے باعث سہلِ ممتنع کے عمدہ نمونے ان کے نعتیہ کلام میں ملتے ہیں۔ پھر حضورؐ سے تخاطب کے وقت ان کے لہجے میں مان کا جو ایک رنگ ابھرتا ہے، وہ حضورؐ کی ذاتِ گرامی سے اُن کے گہرے جذبی رشتے کا مظہر ہے۔ شکیل فاروقی کی نعتوں میں یہ پیغام بڑے اعتماد سے جلوہ گر ہے کہ نامِ محمدؐ اور پیامِ محمدؐ سے پیوستگی ہی واحد ذریعہ فلاح و نجات ہے۔ وہ یوں نہیں کہتے کہ یہ تعلق دیگر کے مقابل بہتر ہے، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ صرف یہی تعلق، بس یہی تعلق بہترین ہے مگر قدم قدم پر احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔ نبی کریمؐ کی نسبت سے مدینہ پاک کی فضاؤں سے والہانہ محبت اور لطف و انبساط کا اظہار بھی ان نعتوں کا حصہ ہے۔ جا بجا چمکتے ہوئے الفاظ و مرکبات بتاتے ہیں کہ شکیل فاروقی نعت کے تخلیقی دائرے میں جذبہ و احساس کے رنگ اپنی وارفتگی کے ساتھ ابھارتے ہیں، اور یہی ان کے حرفِ نعت کی اصل شناخت ہے۔ انہی کے بقول: یہ خوش کلامی مدحتِ آقاؐ کا صدقہ ہے۔“

حمد و نعت کے چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:

کیسے کروں تری ثناء
فہم سے بالاتر ہے تُو

۔۔۔۔۔
تیری تعریف ماورائے بیاں

تُو ہی مجھ بے زباں کا مالک ہے
۔۔۔۔۔
مجھے چھو نہ پائے گا اب روگ کوئی
کہ پی لی ہے میں نے دوائے محمدؐ
۔۔۔۔۔
فکرِ دنیا کی بیڑیاں ٹوٹیں
گر میں اُنؐ کا اسیر ہو جائوں
موت تک سنتِ نبیؐ پہ چلوں
رشکِ منکر نکیر ہو جائوں