ما بعد از تصور۔۔۔ تہذیب تصور سے تصویروں کی تہذیب تک

(تعارفی نوٹ: رچرڈ کیئرنی آئرش فلسفی اور دانشور ہیں۔ اُن کی زیر نظر کتاب THE WAKE OF IMAGINATIONمغربی فکر کی تاریخ میں فلسفہ ’’تصور‘‘ کے سفرکابیان ہے۔ مقدمہ اس کتاب کا یہ ہے کہ آدمی کا ’’تصور‘‘ آغاز میں آفاقی تھا، جو بتدریج کائناتی وسعتوں سے سمٹ کرٹی وی اور موبائل اسکرینز کی تصویروں میں ڈھل گیا ہے۔ یہ مغربی انسان کے تصور کے انحطاط کی تاریخ ہے جسے مصنف نے عصرِحاضرکی مابعد جدید صورتِ حال میں انتہائی باریک بینی اورتحقیق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس تصنیف کا مقصد مصنف نے یہ بیان کیا ہے کہ کس طرح آدمی کے تصوراور کائناتی اقدار کی اہمیت اور ضرورت ازسرِ نو زندہ کی جائے، اور جدیدیت کے بعد کی صورتِ حال (مابعد جدیدیت) سے انسانوں کونجات دلائی جائے۔ مترجم)

تعارف (2)
آدمی کے وصف ’’تصور‘‘ کی مغربی تفہیم کے اسلوبِ تحقیق میں تبدیلیاں تصویروں کی ٹوٹ پھوٹ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ مثال کے طورپر ‘Christ the Pantocrator’، ونسنٹ وین ہوہ کی سیلف پورٹریٹ (خود کی تصویر)، اور وین ہوہ کے اسی سیلف پورٹریٹ کا ایک پوسٹر جسے مارٹن شارپ نے تیار کیا۔ یہ تینوں مثالیں مصوری اور تصویرسازی کی تاریخ کے ادوار کی تشریح کرتی ہیں۔ ایک تصویر قرون وسطیٰ کے دور کی ہے، جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خیالی شبیہ بنائی گئی ہے۔ دوسری تصویروین ہوہ کی اپنی تصویرہے، جو دورِ جدید کی عکاسی کرتی ہے۔ تیسری تصویر وین ہوہ کا وہ پوسٹر ہے جسے مارٹن شارپ نے بنایا ہے، یہ مابعد جدید عہد کی ترجمان ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی تصویر ’’نامعلوم فن کار‘‘ نے بنائی ہے، اس نامعلوم فن کار نے اس تصویر میں اپنی شخصیت کے اظہار سے گریز کیا ہے، اور دیکھنے والے کے لیے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہونے دیا کہ یہ فن پارہ کس نے تخلیق کیا؟ یا یہ کہ دیکھنے والا خوشگوار حیرت سے بول اٹھے کہ ’’واہ! کیا فن پارہ ہے‘‘۔ یہ تصویربتاتی ہے کہ بنانے والے کے پیش نظر فقط خدائی تقدس کی عکاسی ہے، اور اس تصویر سے صرف خدا کے بیٹے کی تقدیس ظاہر ہو، یہ واضح کرتی ہے کہ قرون وسطیٰ اور بازنطینی تہذیب میں iconography تصویرکشی کے اصول اور رجحان کیا تھے۔ اس تصویر میں انسانی تاثر سے خالی آنکھیں الوہی اور روحانی نسبت کی توضیح کرتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تویہ تصویر ’مذہب مرکز‘ ہے، یعنی اسے دیکھ کرخدائی تقدس کا احساس ہو، نہ کہ انسانی تعلق محسوس ہو۔ جبکہ وین ہوہ کا سیلف پورٹریٹ (خود کی تصویر) جدیدیت کے آدمی کی ’’انسان کے خود کے اظہار‘‘ کو پیش کرتی ہے۔ یہ ’’انسان مرکز‘‘ رجحان کی عکاس ہے۔ ہوہ کی خود کی تصویر موضوعیت کا جمالیاتی اظہار ہے۔ اس فن پارے میں انسان پرستی نمایاں ہے۔ اطالوی نشاۃ ثانیہ کے عظیم فن پارے اس رجحان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔

مابعد جدید کلیہ میں موضوع کا فطری تفاوت اور تصورِ فن انسان پرستی کے نظریے میں طبعی افتراق پیدا کردیتا ہے۔ وین ہوہ کے پوپ پوسٹر میں، کہ جس میں ’خود کی تصویر‘ ایک طرح کے پاگل پن سے منقش معلوم ہوتی ہے، متفرق ری پراڈکشنز، الٹ پلٹ، اور مسخ عجیب و غریب واہمہ کی سی صورت ہے۔

مغربی تصور ’’تصویر‘‘ میں تاریخی تبدیلیاں مصور یا فن کار کے تصورات میں تبدیلیوں کی وضاحت کرتا ہے۔ یروشلم اورایتھنز کی ماقبل جدید تہذیبوں میں فن کار کا ابتدائی اور ترجیحی رجحان مذہبی اور افلاطونی ہے۔ فن کار کا یہ ’مذہب مرکز‘ تصور قرونِ وسطیٰ میں رائج تھا، کہ جب مصور، ہنرمند، اور نقاش کے کام اور فن پارے کی قدر اُس کی مذہبیت پر معین ہوتی تھی۔

نشاۃ ثانیہ ، رومانویت اور وجودیت کی جدید تحریکوں نے اس ’مذہب مرکز‘ صورتِ حال کو بدل دیا۔ طریقۂ تحقیق اور اسلوبِ استدلال بدل دیا۔ اب نقال اور ہنرمندکی جگہ ’’انسان مرکز فن کار‘‘ کا تخلیقی رجحان رائج ہورہا تھا، خواہ یہ خلاّقیت سائنسی تھی یا صنعتی یا پھر ٹیکنالوجیکل تھی۔ جدید تصورِ جمالیات اس خیال کی تشہیر کررہا تھا کہ فن کارمیں بھرپور خلاّقیت پائی جاتی ہے، اور اسے خود کے اظہار میں اس سے پوری طرح کام لینا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ روایتی اخلاقیات کے بڑے گناہ گار جیسے پرومیتھیس، آدم، لوسیفر جدید ثقافت کے ہیرو سمجھے جاتے ہیں۔ گوئٹے فاؤسٹ کے ابلیسانہ عزائم کی پذیرائی کرتا ہے۔ شیلے اور میلول پرومیتھیس کے باغی پن کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ موزارت اور کیرکیگارڈ ڈون جوان کی ناشکیب توانائیوں سے مسحور ہیں۔ نطشے اور سارتر جدیدیت کے کینوس میں انحراف کے رنگ بھرتے ہیں اوراپنے تصورات کی نئی دنیا تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ ’انسان مرکز‘ رجحان مابعد جدید ثقافت میں تہ و بالا ہوجاتا ہے۔ اب ایک تخلیق کار کا فنی نمونہ اشیاء کی انحرافی صورت گری میں ڈھل گیا، ایک ایسا فرد جومعانی کے ایسے بے ترتیب ٹکڑوں سے کھیلتا ہے کہ جنہیں اُس نے خلق نہیں کیا۔ یہاں اثرانداز ہونے والی مماثلتیں، مابعد صنعتی ٹیکنالوجی (کمپیوٹراور دیگر سماجی ابلاغیات) سے مسلسل مستعار لی جارہی ہیں۔ فن کار علامات کے کھیل کا کھلاڑی بن کررہ گیا ہے۔ یہ الیکٹرونک میڈیا نیٹ ورک کا ’آپریٹر‘ ہے۔ یہ خود کو تصویروں کے بے نام بہاؤ میں بہتا محسوس کرتا ہے، کہ جسے وہ بخوبی بار بار دہرا سکتا ہے۔ ایک مابعد جدید فن کار شور اور روشنیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے کہ کوئی جنسِ تجارت ہاتھ آجائے۔ یہ کوشش کرتا ہے کہ مختلف بیانیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ سکے۔

’’آدمی کے تصور‘‘ کو جو خطرہ ما بعد جدید یت سے ہے، ’’آدمی کی موت(بطورذات کی شناخت)‘‘ پرابھرتے ہوئے مباحث سے عین مطابقت میں ہے۔منتشرعلامتوں کے کھیل کے کلی نفوذ سے ’تصور‘ کے بطورتخلیقی مرکزمعانی فعالیت معطل ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ ایک بغیر حوالہ اوروجہ ،اَن گنت مشتہرنقلوں کی حیثیت اختیارکرگیا ہے، جیسا کہ دریدا کا محاورہ “a mass-produced postcard addressed ‘to whom it may concern”یعنی ایک ایسے پوسٹ کارڈ کی کثرتِ ترسیل کہ جویوں مخاطب کرے :’اُس کے لیے کہ جسے یہ خود سے متعلق لگے‘ ۔

ایک ایسی آوارہ گردی جو ابلاغی نیٹ ورک میں بے مصرف، بے منزل اور تقدیر سے عاری ہو۔ اپنی کتاب پوسٹ کارڈ میں جیکس دریدا تفریحی انداز میں ابلاغی ثقافت کی چھان بین کرتا ہے۔ ایک جگہ وہJoyce’s Finnegans Wake کے ایک متن کی نقل کرتا ہے، جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ جدید قلم کار شاؤن کو اُس کے بھائی (ما بعد جدید) ڈاکیاشیم سے ممیز نہیں کیا جاسکتا۔ اورشیم شاؤن کا یہ عصری ’’الجھاؤ‘‘، کہ جسے دریدا بابلیوں کی میراث کے طور پر شناخت کرتا ہے، یہ اسے ‘dichem-ination’ کی اصطلاح میں واضح کرنے کی سعی کرتا ہے: اظہار کے وہ طریقے کہ جو اصل معانی کی چیر پھاڑ سے ناقابلِ شناخت ہوچکے ہیں، ناقابلِ تقسیم اور آلودہ ہوچکے ہیں۔ معانی کا یہ عصری ’’الجھاؤ‘‘ذرائع ابلاغ کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی وارد ہوا ہے۔ اب کسی مصنف کی کسی قاری سے پیغام رسانی کوئی انوکھی اور دل آویزبات نہیں رہی۔ یہ اب اشاعتِ کثیر اور اشاعتِ نو کا کھیل بن چکا ہے۔ یعنی اب ’’جیسا آپ چاہیں‘‘ کا معاملہ بن چکا ہے۔ اس طرح دریدا کی مابعد جدید ’’ڈاک‘‘ یہ کہتی ہوئی لگتی ہے کہ ’’انسانی تصورات‘‘ ڈاک کی ایسی بے شمار تصویروں میں ڈھل چکے ہیں جنہیں ڈاکیے نے خلق نہیں کیا اور نہ ہی اُن پر اُس کا کسی قسم کا کوئی اختیارہے۔

طریقۂ تحقیق
کچھ وضاحتیں اس تحقیقی کام پرضروری ہیں۔ پہلا نکتہ جس پر میں زور دوں گا، وہ یہ ہے کہ یہاں ہمارا طریقہ زیادہ تر فلسفیانہ ہے۔ تاریخی، سماجی، سیاسی، معاشی، مذہبی اور فنی تنقیدی زاویے بھی گاہے بہ گاہے سامنے آتے رہیں گے۔ ہم تصورِ ’تصور‘‘ کی ابتدائی یونانی اور بابلی تشکیل اور اُس کے فلسفیانہ محرکات کا جائزہ لیں گے۔ پھر قرون وسطیٰ سے جدید اور مابعد جدید ادوار میں داخل ہوں گے۔

دوسری بات… یہ تحقیق مغربی تہذیب تک محدود ہے۔ اگرچہ عالمگیریت، نوآبادیاتی اورملٹی نیشنل ٹیکنالوجی کی صورت حال میں مغرب کی فکر باقی دنیا سے ممیز کرکے دکھانا ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ تاہم کسی متوازی تجزیے اور موازنے کی صورت سے گریز کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی صوفی فلسفیانہ روایت، ابن رشد اور ابن سینا وغیرہ کی فلسفیانہ تشریحات کا مغربی فلسفے کی روایت پر اثر کم رہا ہے۔ مغربی فلسفے کی روایت بیشتر یونانی، یہودی، عیسائی تہذیبوں کی فلسفیانہ روایت سے متاثر ہے۔

مغربی تاریخ میں آدمی کے’تصور‘‘ اور ’’تصویرسازی‘‘ کی اہلیت کو دو مرکزی دھاروں میں سمجھا گیا ہے۔ ایک ایسی ترجمان قوت کے طور پرکہ جو پہلے سے موجود حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ دوسری ایک ایسی تخلیقی قوت کہ اصل ہونے کی دعویدارہو۔ یہی دونوں خیالات عہدِ یونان سے جدید وجودیت پرستوں تک روزمرہ کی سرگرمیاں اور فن ان ہی دو تجربات کی تفصیل ہے۔ ہم ان ہی دو پہلوؤں سے اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔