زندہ قومیں فتح ہی سے نہیں شکست سے بھی بہت کچھ سیکھا کرتی ہیں مگر پاکستان کے اہل اقتدار نے سقوط ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا
(تیسرا اور آخری حصہ)
اس آپریشن کی ایک معمولی سی جھلک ملاحظہ ہو۔
رانا نذر الرحمٰن مرحوم لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک راست گو سیاست دان تھے، وہ ایک وفد کے ساتھ مشرقی پاکستان گئے۔ ان کے مشاہدات درج ذیل ہیں:
قتل ناحق کی وارداتیں
جنرل ٹکا خان کے ساتھ ہمارے وفد کی ملاقات سے پہلے میری ملاقات جماعت اسلامی کے پروفیسر غلام اعظم اور مولانا عبدالرحیم سے ہوئی تھی۔ انہوں نے پاکستانی فوج اور بالخصوص مغربی پاکستان سے وہاں گئی ہوئی پولیس کی درازدستیوں، غیر انسانی و غیر اخلاقی واقعات کا مجھ سے ذکر کیا اور کہا کہ موقع ملے تو آپ ٹکا خان کو اس طرح کے واقعات جوکہ پاکستانی فوج کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، کو ختم کرنے کے لیے کہنا۔ انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ مکتی باہنی والے کسی علاقے میں اگر کوئی واردات کرکے فرار ہوجائیں تو اس کے بعد ہماری فوج کے چھوٹے عہدہ پر فائز لوگ وہاں پر اردگرد کے چند لوگوں کو پکڑ لیتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے یا ان کے کوائف معلوم کیے بغیر گولی کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ اگر ان کے ورثا فوج سے رابطہ کرکے اپنے عزیز و اقارب کے متعلق دریافت کریں تو انہیں جواب دیا جاتا ہے “He has crossed the border” اور اگر کوئی فوجی سے ان کے انجام کے متعلق دریافت کرتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے:”He has been despatched to Bangladesh”یعنی اسے گولی مار دی گئی ہے۔
جنرل ٹکا خان سے ملاقات سے کچھ پہلے ہماری ملاقات جنرل رائو فرمان علی سے ہوئی، انہوں نے ہمیں حالات کے متعلق بریفنگ دی۔ اسی دوران میں ان کو دھان منڈی کے کسی واقعہ کے متعلق کسی فوجی کا ٹیلیفون آیا۔ پہلے تو وہ جھجک محسوس کرتے رہے پھرانہوںنے اس فوجی کو ٹیلیفون پر بتایا کہ
“He has been despatched to Bangladesh.”
میں نے ان سے ایک روز قبل پروفیسر غلام اعظم اور مولانا عبدالرحیم سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیا اور ان کو بتایا کہ کسی مسلمان فوجی سے اس قسم کی واردات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو ’’قتلِ ناحق‘‘ کبھی معاف نہیں کیا۔
جنرل ٹکا خان نے اپنی ملاقات میں کچھ اسی طرح کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی، جس طرح کا تاثر ٹائیگر نیازی کے بڑھک آمیز بیانوں سے پیدا ہوتا تھا۔ (صفحہ ۳۷۸ ’’صبح کرنا شام کا‘‘ رانا نذر الرحمٰن)
مشرقی پاکستان کا المیہ
المیے کی داستان مکمل نہیں ہوتی جب تک مغربی پاکستان سے گئی ہوئی پولیس فورس کی اخلاق سوز، ظالمانہ اور حرص و ہوس کی تشنگی کو دور کرنے کے اقدامات کا تفصیل سے ذکر نہ کیا جائے۔
میں پوری اخلاقی جرأت سے یہ بات کہتا ہوں کہ اگر وہاں اِدھر سے پولیس نہ بھیجی گئی ہوتی تو شاید بنگالی مسلمان اس قدر خوفناک اور خونی ردعمل کا اظہار نہ کرتے۔ میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ نرائن گنج جارہا تھا۔ راستے میں ایک جگہ بیریئر پر ایک انسپکٹر پولیس بیٹھا ہوا تھا، اس کے ساتھ ایک نودس سال کا بنگالی بچہ جسے اس نے تلک وغیرہ لگا کر دلہن کی طرح سجایا ہواتھا، بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے پوچھا: یہ بچہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ فلاں ہے۔ صبح اسے استعمال کرتا ہوں، رات کو اس کی بہن کو! (ایضاً صفحہ)
’’جنرل ٹکا خان نے 24 اور 25 مارچ کی درمیانی رات کو آپریشن ’’سرچ لائٹ‘‘ شروع کیا اور 26 مارچ کی صبح جب پُو پھٹتے ہی مختلف دستوں نے اپنا اپنامشن مکمل کرنے کی رپورٹ دی۔ جنرل ٹکا جو ساری رات لان میں بیٹھے تھے علی الصبح اندر گئے ، جب تھوڑی دیر بعد وہ رومال سے عینک کا شیشہ صاف کرتے ہوئے باہر نکلے تو میں برآمدے میں کھڑا تھا۔ انہوں نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی اور خودکلامی کے لہجے میں فرمایا: ’اخاہ کوئی بھی تو نہیں…‘ میں نے باہر سڑک پر نظر ڈالی، واقعی وہاں بنی نوع انسان کا نام و نشان تک نہ تھا، صرف ایک آوارہ کتا تھا جو دُم دبائے شہر کی طرف بھاگا جارہا تھا۔‘‘ (میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ۸۰)
جنرل نیازی کا کہنا ہے کہ ’’اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے انہوں نے (ٹکا خان) نے قتل و غارت گری، املاک کی تباہی، زمین کو جھلسا ڈالنے اور معصوم عوام کو دہشت زدہ کرنے کی پالیسی جاری رکھی ۔
جنرل ٹکا خان نے جس بہیمانہ طریقے سے قوت کا استعمال کیا، اس نے بنگالیوں کو اتنی دور دھکیل دیا جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی، وہ مغربی پاکستان کے دشمن بن گئے۔ (صفحہ ۱۲، ۱۳ اور ۱۵)
جنرل ٹکا خان کا سرچ آپریشن مشرقی پاکستان میں فوج کی شکست پر مہر تصدیق ثبت کرچکا تھا۔ اس کے بعد خیر کی کوئی امید باقی نہ رہ گئی۔ رہی سہی کسر ان کے بعد ان کے جانشین جنرل نیازی، جو بزعم خود ٹائیگر ہونے کے دعوے دار تھے، نے پوری کردی۔ ان کے کردار کی سیاہی کی داستان توبہت طویل ہے۔ مشتے ازخر روارے کے مصداق سے ان کے 3 نائبین کی زبانی ملاحظہ ہو:
(۱) میجر جنرل خادم حسین راجہ، جو خود اس آپریشن کا حصہ تھے، وہ اپنی کتاب “A Stranger in his own country” میں لکھتے ہیں:
(i) افسران معمول کے مطابق شام 4 بجے ہیڈ کوارٹر کے آپریشن روم میں جمع تھے۔ سب سے آخر میں جنرل نیازی داخل ہوئے، آتے ہی وہ گویا ہوئے کہ انہوں نے مشرقی پاکستان کی کمان سنبھال لی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے معمول کے احکامات جاری کیے۔ اس میٹنگ میں چند بنگالی افسران بھی موجود تھے۔ نیازی صاحب اچانک بدزبانی پر اتر آئے اور کہنے لگے: ’’میں اس حرام زادی قوم کی نسل بدل دوں گا، یہ مجھے کیا سمجھتے ہیں، میں ان کی عورتوں پر اپنے سپاہی چھوڑ دوں گا۔‘‘ کمرہ میں سناٹا چھا گیا۔ افسران حیرت اور افسوس کے ساتھ مبہوت ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اس کے بعد بدمزگی کے احساسات کے ساتھ میٹنگ اختتام کو پہنچی۔ اگلی صبح ہمیں یہ غم ناک اطلاع ملی کہ جنرل نیازی کی بدزبانی اور فرعونیت کے نتیجہ میں ایک بنگالی افسر میجر مشتاق جو جیسور میں میرے ماتحت ایک محنتی اور قابل اعتماد افسر کے طور پر کام کرچکے تھے، نے میٹنگ کے بعد ہیڈ کوارٹر کے غسل خانہ میں جاکر اپنے آپ کو شوٹ کرلیا۔
(ii) جنرل رحیم کو چارج دینے کے بعد مجھے جنرل نیازی کے پاس جانا تھا تاکہ آپریشن سے متعلق ضروری تفصیلات ان کے گوش گزار کرسکوں۔ میں ان سے فون پر کہہ چکا تھا ۔ تفصیلات کے بیان میں نقشہ کی ضرورت ہوگی لہٰذا آپ نقشہ پہلے سے منگا لیجئے گا۔ جب میں ان کے دفتر پہنچا تو انہوں نے بڑے تکلفانہ انداز میں میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔ ’’یار! لڑائی کی فکر نہیں کوئی، وہ تو ہم کرلیں گے، ابھی تو مجھے بنگالی گرل فرینڈز کے فون نمبر دے دو۔‘‘
(۲) جنرل رائو فرمان کہتے ہیں۔ ’’فوج نے اپنے قیدخانے اور عدالتیں بنا رکھی تھیں اورشہریوں کو بغیر کسی معقول وجہ سے اٹھا لیا جاتا تھا، کئی دانشوروں کو میری مداخلت پر رہا کیا گیا۔‘‘
جنرل رائو فرمان کا کمیشن کے روبرو یہ بیان تھا کہ جنرل نیازی نے کہا۔
’’یہ میں کیا سن رہا ہوں کہ راشن کم پڑ گیا ہے۔ کیا سب گائیں بکریاں ختم ہوگئی ہیں۔ یہ دشمن علاقہ ہے جو چاہتے ہو، لے لو۔ ہم برما میں ایسا ہی کرتے تھے۔‘‘
جنرل ابوبکر عثمان مٹھا کہتے ہیں۔ ’’ہمارے خفیہ ادارے مشرقی پاکستان میں جن کو غائب کرتے تھے، ان میں 90 فیصد مسلمان ہوتے تھے، ان حرکتوں کے باعث پاکستان کے حامی بھی ہمارے مخالف بن گئے تھے۔ (ممبئی سے G.H.Qتک)
(۳) بریگیڈیئر صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ میں جنرل نیازی کی پست ہمتی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ صاحب عورتوں کی طرح ٹسوے بہاتے تھے۔
اب آتے ہیں جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے واقعہ کی حقیقت کی طرف۔ 12 دسمبر 1971ء کو جنرل نیازی نے اعلان کیا تھا کہ ڈھاکہ پہنچنے کے لیے دشمن کو میرے سینے پر ٹینک چلانا ہوگا۔ انہوں نے یہ بات ڈھاکہ ایئرپورٹ پر ڈھاکہ سے رخصت ہونے والے صحافیوں سے کہی۔ صحافیوں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے سوال پر نیازی صاحب نے کہا، ہماری فوج عزت کے ساتھ زندہ رہے گی یا اپنے مقصد کے لیے جان دے دے گی۔ پھر چوتھے دن ہتھیار بھی ڈال دیے۔ جنرل نیازی یہ کہتے تھے کہ انہوں نے ہتھیار یحییٰ خان کے کہنے پر ڈالے تھے۔ جنرل یحییٰ نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے Surrender کا حکم نہیں دیا تھا۔ میں نے UNOکے توسط سے سیزفائر کا کہا تھا۔ ان کے الفاظ ہیں کہ ’’ٹرخ گیا بے چارا میاں والی والا‘‘ (ملاحظہ ہو المیہ پاکستان کے پانچ کردار)
انڈین جنرل Lt.Gen.Jacob جو بھارت کی جانب سے جنگ لڑ رہے تھے، انہوں نے اپنی کتاب ‘Surrender at Dacca” میں لکھتے ہیں۔ ’’نیازی کے پاس 30 ہزار فوجی تھے۔نیازی کچھ دن اور مزاحمت کرتا تو شاید اقوام متحدہ جنگ بندی کرا دیتا۔ ہم تو صرف تو کھلنا اور چٹا گانگ پر قبضہ کرنے آئے تھے، 13 دسمبر تک ڈھاکہ ہمارے منصوبے میں شامل نہ تھا لیکن جب نیازی کو یہ کہا گیا کہ اگر تم ہتھیار ڈال دو تو تمہیں مکتی باہنی کے حوالے نہیں کیا جائے گا، تو وہ Surrender کے لیے تیار ہوگئے۔ Surrender کے وقت نیازی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔‘‘ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں بھی یہ لکھا گیا ہے کہ جنرل نیازی کم از کم دو ہفتے مزید ڈھاکہ کا دفاع کرسکتے تھے، وہ سرنڈر کرنے کے بجائے اپنی جان قربان کردیتے تو آئندہ نسلیں انہیں ایک عظیم ہیرو کی طرح یاد رکھتیں۔
کہا جاتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن علیحدگی پسند تھا، وہ مشرقی پاکستان کو ہر صورت علیحدہ کرنا چاہتا ہے ۔ اردو ڈائجسٹ کے الطاف حسن قریشی نے 1969ء میں شیخ مجیب کے چھ نکات پر شدید تنقید کی تھی، ان کی یہ تنقید کتابی شکل میں ’’چھ نکات کی حقیقت‘‘ کے نام سے چھپی تھی۔ 1969ء ہی میں انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کا انٹرویو کیا تھا جو ان کی مطبوعہ کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ میں شامل ہے۔ اس انٹرویو میں مجیب الرحمن نے کہا۔ ’’پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی متحدہ کوششوں کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا اور ان شاء اللہ اس کا پرچم اسی طرح بلند و سرفراز رہے گا۔ میرے بارے میں کہا جاتا ہے کہ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی چاہتا ہوں، یہ سراسر بہتان اور افترا ہے۔ اگر میرا منصوبہ اسے آزاد کرانا ہوتا تو میں 22 فروری 1969ء کو اعلان کرسکتا تھا جب میں جیل سے باہر آیا، تب لاکھوں لوگ میرے گرد جمع تھے، میں ریس کورس میدان میں علیحدگی کا اعلان کرسکتا تھا، اس وقت مجھے روکنے والا کون تھا؟ میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ میں نے پاکستان کی تشکیل میں اپنا خون دیا ہے اور میں وطن کی سلامتی کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا۔
اس جواب پر الطاف قریشی صاحب نے کہا کہ آپ کے 6 نکات تو کچھ اور کہتے ہیں، اس پر مجیب صاحب نے جواب دیا۔
قریشی صاحب! 6 نکات قرآن اور بائبل تو نہیں، ان پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ میں آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ 6 نکات ظالم طبقے کے خلاف مظلوموں کی دل دوز آواز ہے۔ ہمیں مغربی پاکستان کے عوام سے کوئی کد نہیں اور وہاں کی خوش حالی ہماری اپنی خوش حالی ہے۔
ہمیں صرف اس طبقے سے نفرت ہے جس نے کبھی سرکاری افسروں اور کبھی صنعت کاروں کے روپ میں ہمارے حقوق پر ڈاکے ڈالے، بدقسمتی سے ان سب کا تعلق مغربی پاکستان سے ہے۔ مجیب صاحب نے بڑے واضح الفاظ میں وہی بات دہرائی جو رمیض الدین نے جسٹس منیر کو کہی تھی کہ ’’ہم 56 فیصد ہیں، ہم پاکستان ہیں، مغربی پاکستان 44 فیصد ہے۔ مغربی پاکستان علیحدگی کا تصور کرسکتا ہے ہم بالکل نہیں کرسکتے۔
اس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ فوجی آپریشن کا انتہائی غلط فیصلہ بالآخرسقوط مشرقی پاکستان کا باعث بنا۔ اگر جنرل صاحب زادہ یعقوب اور ایڈمرل ایس ایم احسن کی بات مان لی جاتی تو ملک اور فوج دونوں بچ رہتے۔ انقلابی شاعر حبیب جالب چیختا رہ گیا، اس نے بہت درست کہا تھا ۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
پھر وہی ہوا کہ منزل تو کھو دی لیکن گولیوں سے محبت بونے اور خون سے وطن کا چہرہ دھونے والوں میں ایک صاحب ترقی کے مستحق قرار پائے، دوسرے قید سے چھوٹ کر آئے تو سر پر پگڑی باندھ کر تقریریں کرتے رہے اور تیسرے صاحب پورے فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کے مستحق ٹھہرے۔ فاعتبروایا ولی الابصار۔