مغرب کا چیلنج اور مغرب میں بسنے والے مسلمان

مسلمان مغرب کے سیاسی، عملی و تحقیقی غلبے کی بنیاد پر خود بھی مغرب کے مکمل رنگ میں رنگ جائیں گے اور یہی مغرب کا تقاضا بھی ہے

مغرب مسلمانوں سے کیا چاہتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے سامنے اس صدی کے آغاز سے زیادہ شدت کے ساتھ آرہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی مغرب کی جانب سے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش اور مسلم ممالک میں رجیم چینج کے نام پر اپنے نئے غلاموں کو مسندِ اقتدار پر سرفراز کرنے کی جارحانہ کاوش اور اس کے اثرات ہیں۔ ان 22 سالوں میں اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جوکہ تاحال کسی خاص نقطہ تک پہنچ چکی ہے۔ تاہم معاشروں میں اٹھنے والے سوالات ریاضی کے سوال کی طرح دو جمع دو چار پر ختم نہیں ہوجاتے، بلکہ بدلتے حالات و واقعات کے ساتھ ان سوالات کے جوابات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ آج سے تقریباً 21 سال قبل ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد مسلمانوں کا چہرہ ایک دہشت گرد، اور اسلام کا چہرہ دہشت گرد مذہب کے طور پر مغرب نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ بات یاد رہے کہ اس صدی کے آغاز پر مسلمانوں کی اجتماعی حالت جو بھی ہو لیکن بہرحال ایک سیاسی برتری یا کم از کم اِس ابتری سے مسلمانوں کی حالت بہت بہتر تھی۔ مسلمانوں پر دہشت گرد کا لیبل چسپاں کرنے کے بعد پورے مغرب میں مسلمانوں کو ایک دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کردیا گیا، اور اسلام کا وہ پیغام جو پوری دنیا میں کسی نہ کسی طرح غیر مسلموں کر متاثر کررہا تھا اُس کو ان حربوں سے روک دیا گیا۔ مسلمان اقدامی پوزیشن سے دفاعی پوزیشن پر چلے گئے۔ یہ صورت حال نہ صرف مسلمان ریاستوں کی تھی بلکہ مغرب میں رہنے بسنے والے مسلمانوں کی صورت حال اس سے بھی زیادہ ابتر تھی۔ اسلام اور دہشت گردی کو ہم معنی بنادیا گیا۔ پہلے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، اس کے بعد دنیا کے سب سے بڑے جھوٹ یعنی عراق کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کی جھوٹی خبر کو سچ کے قالب میں ڈھال کر عراق کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، اور مسلمان ریاستوں میں مذہبی شدت پسند اور نام نہاد خلافت کے علَم برداروں نے جو کہ بہت سے مفکرین کے نزدیک مبینہ طور پر ازخود مغرب کی پیداوار تھے، بے گناہ لوگوں کے قتل اور ریاستوں میں خانہ جنگی کے بعد اسلام کو ایک مکمل دہشت گرد مذہب کے روپ میں پیش کردیا۔ اور ان ہی گروہوں کے ذریعے مغرب نے مسلمانوں کی ریاستوں میں خانہ جنگی شروع کروا کر مسلمان ریاستوں کو مزید کمزور کردیا۔ اس تمام خانہ جنگی کے بعد اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی ایک اسلامی مملکت اس قابل نہیں کہ وہ آزادانہ طور پر مغرب کی اس پیش قدمی اور مسلمانوں کی نسل کُشی کو روک سکے۔ اسلامی ممالک خانہ جنگی، خلفشار، سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگئے یا پھر خاموش ہوکر اپنی بقا کی جنگ لڑنے لگے۔

مغرب میں رہنے بسنے والے مسلمان بھی ان ہی حالات کے پیش نظر اپنی حکمت عملی وضع کرکے خاموش ہوگئے۔ اب ان کا کام دنیا بھر میں صرف مالیاتی امداد ہے جس کا دائرہ بتدریج تنگ کیا جارہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی کڑی شرائط میں ریاستوں سے لے کر افراد تک باندھ دیے گئے ہیں، اور اس کا مقصد مسلمانوں، مسلم رفاہی و فلاحی اداروں اور چند ریاستوں کا معاشی بائیکاٹ ہے۔ مغرب میں مسلمان تعداد میں بظاہر بڑھ رہے ہیں لیکن معاشرے میں ان کا اثر بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ اس کی اصل وجہ سیاسی اسلام سے بتدریج دست برداری ہے۔ یہ صورت حال اتنی بھیانک ہے کہ پوری دنیا سے مسلمان مغرب میں آباد تو ضرور ہیں لیکن اپنے خطے میں ہونے والے ریاستی جبر پر بھی وہ کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔ انہوں نے حالات کے جبر میں شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم مالی امداد کے سوا کسی بھی صورت میں ریاستی جبر کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے۔ امریکہ سے لے کر برطانیہ اور پورے مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کی کوئی آواز کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی جبر پر سنائی نہیں دیتی، فلسطین پر بھی اٹھنے والی آوازوں میں وہ قوت نہیں جو اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں پر جبر سے روک سکے۔ اس تمام صورت حال کا اثر یہ ہوا کہ آج مغرب میں رہنے بسنے والا مسلمان بظاہر مساجد بنانے میں تو آزاد ہے لیکن امت کے مفہوم کے ساتھ اقامتِ دین کے مفہوم کو بھی شاید فراموش کرچکا ہے، بقول اقبال

مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

مغرب میں سجدے کی اجازت کے بعد اس سے آگے بڑھ کر امت کا مفہوم کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ سیاسی سطح پر مسلمانوں کی اجتماعی آواز نہیں، علم و تحقیق سے ان کا واسطہ نہیں۔ مغرب کے عقائد و نظریات اب ان کے دین کا جزو بناکر مسلط کیے جارہے ہیں۔ توحید و رسالت کے بنیادی عقائد کو پراگندہ کرنے کی مذموم کوشش تو برصغیر میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کے دور میں ہی شروع کردی گئی تھی، لیکن اب مغرب یہ چاہتا ہے کہ توحید و رسالت پر وہ ضرب جو نہ لگ سکی اب مسلمانوں کے دین میں تحریف کرکے لگائی جائے۔ ہم جنس پرستی اور جنس کی تبدیلی اب اس ایجنڈے کا حصہ ہے اور اس کو بتدریج کائنات کا سب سے بڑا سچ اور اس کے خلاف بات کرنے کو انتہا پسندی قرار دیا جارہا ہے۔ آخر مغرب مسلمانوں کو ہم جنس پرستی میں مبتلا کرنے میں اتنا مصروفِ عمل کیوں ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک بنیادی مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام میں خاندان کا نظام وہ مضبوط ترین ادارہ ہے جوکہ اس گئے گزرے دور میں بھی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا بنیادی جزو ہے۔ اس نظام کو ماضی میں کمزور و ختم کرنے کی تمام تر کوششوں کو وہ کامیابی نہ مل سکی جو کہ شاید اس نظام کو درکار تھی۔ اس کے برعکس خود مسیحیت میں جو حیثیت اس خاندانی نظام کو حاصل تھی وہ آج تقریباً ختم ہوچکی ہے، اور اس کے تحت اب خود مسیحی ممالک میں عیسائیت روبہ زوال ہے۔ یعنی خاندان کے نظام کی تباہی مغرب میں خود مذہب کی تباہی بن کر سامنے آچکی ہے۔ اس لیے مغرب اسلام کے خاندانی نظام کا توڑ کرنے اور اس کو کمزور کرنے کی مختلف کاوشیں کرچکا ہے، لیکن تاحال اس میں کوئی بہت بڑی کامیابی نظر نہ آسکی۔ اگر مسلمانوں نے خود مغرب میں بھی غیر مسلم خواتین سے شادیاں کیں تو بھی ایک بڑی تعداد میں وہ خواتین اسلام کے قریب آئیں اور مسلمان ہوگئیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ افراد جو کہ اپنے ازواج کو اسلام کے قریب نہ لاسکے لیکن ان کی آئندہ نسل کچھ نہ کچھ مسلم ناموں یا روایات کے ساتھ بہرحال موجود ہے اور بہت سے مشاہدات میں کسی ایک ضرب کی وجہ سے وہ خود اسلام کی جانب رجوع کرلیتے ہیں۔ غیر مسلموں میں شادیاں کرنے والوں کو خود ان کے خاندان میں قبولیت حاصل ہوئی جس کے بعد وہ بتدریج اسلام کے قریب آگئے۔ لیکن اب عورت و مرد کے تعلق کو ختم کرکے عورت عورت اور مرد مرد کے تعلق کو قائم کرنے کی کوشش دراصل نظامِ خاندان کی مکمل تباہی ہے اور اسلام اس میں اب تک مستقل مزاحم ہے۔ مسلم معاشروں سے لے کر مغرب میں بسنے والے مسلمان اس بات کو سننے تک کے لیے تیار نہیں کہ ایسا تعلق قائم کیا جائے یا اس کو قابلِ قبول قرار دیا جائے۔ بظاہر کمزور مسلمان اور بہت سے گناہوں میں مبتلا مسلمان بھی مغرب میں اس کو کسی طور پر اسلام کے مطابق ماننے کو تیار نہیں۔ اب اس کے لیے باقاعدہ منظم مہم جوئی کی جارہی ہے اور اس کا مقصد ہم جنس پرستی کو اسلام میں جائز قرار دلوانا ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ کے شہر برمنگھم کے قریب وال سال کے چھوٹے سے شہر میں جہاں مسلمان ایک معقول تعداد میں بستے ہیں، پہلے ایک ہم جنس پرست مسلمان کو اسکول لاکر اس بات کا پرچار کیا گیا کہ اسلام میں ہم جنس پرستی کی اجازت ہے، لیکن اس لیکچر کے دوران ہی طلبہ کی جانب سے ملنے والے ردعمل نے ان کے عزائم کو ناکام بنادیا اور اس پر مسلمانوں کے احتجاج کے بعد حکومت کی جانب سے بھی تحقیقات جاری ہیں۔ ایک اور واقعہ اسی علاقے میں پیش آیا جب سوشل میڈیا پر ایک مسجد و مدرسے کے چھٹیوں کے سرکلر کو ایڈٹ کرکے اس میں ایسا پیغام دیا گیا کہ جس سے اسلام کو چھوڑ کر کسی طالب علم کے ہم جنس پرست بننے کی کوشش کو بیان کیا گیا۔ یہ جھوٹا سرکلر سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا، بعد ازاں مسجد کی جانب سے وضاحت اور اصل سرکلر کے دوبارہ اجراء پر صورت حال واضح ہوئی۔

اسلام مغرب میں آبادی کے لحاظ سے بڑھ رہا ہے اور خود مغرب یا اُس کے مفکرین اس بات سے پریشان ہیں کہ اسلام یا مسلمانوں کی اس پیش قدمی کو کیسے روکا جائے! اس ضمن ایک جانب مسلمانوں کو خوف کا شکار کرکے خود ان کو ان کے بنیادی مطالبات سے دست بردار کردیا گیا، اور دوسری جانب ان پے در پے حملوں سے اسلام کے اصل خاندانی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیونکہ اگر ہم جنس پرستی کو مسلمان قبول کرتے ہیں تو ازخود ان کا خاندانی نظام تہہ و بالا ہوجاتا ہے، ورنہ اس گئے گزرے دور میں بھی بہرحال خاندانی نظام مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ ثابت ہورہا ہے۔

مغرب میں بسنے والے مسلمان ایک جانب اپنی سیاسی جدوجہد سے عملاً دست بردار ہیں تو دوسری جانب تعلیم و تحقیق سے بھی منہ موڑ چکے ہیں، اور مغربی تہذیب کے جواب میں اسلام کا نقطہ نظر پیش کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ مغرب بھی یہی چاہتا ہے کہ مسلمان اس عمل میں حصہ نہ لیں تاکہ عمل و تحقیق کے میدان میں ان کی شکست بتدریج امتِ مسلمہ کی شکست بن جائے۔ مغرب میں اس وقت مسلمانوں کی سیکڑوں کی تعداد میں رفاہی و فلاحی تنظیمیں قائم ہیں لیکن ان کی توجہ نہ تو اسلام کے سیاسی اثرات کو مرتب کرنے پر ہے اور نہ ہی تعلیم و تحقیق پر، جس کا منطقی نتیجہ یہی ہوگا کہ مسلمان مغرب کے سیاسی، عملی و تحقیقی غلبے کی بنیاد پر خود بھی مغرب کے مکمل رنگ میں رنگ جائیں گے اور یہی مغرب کا تقاضا بھی ہے۔

مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو بالخصوص اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو بالعموم یہ سمجھنا چاہیے کہ جس اسلام کی ابتدا ہی اقراء کے پیغام سے ہوئی اور جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر، احد اور احزاب جیسی مہم جوئی کی اس اسلام کو اس کی اصل پر قائم کرنے کا اصل راستہ بھی اقراء سے ہی آگے بڑھے گا، ورنہ مغرب کے سیلابِ بلاخیز کے سامنے مسلمانوں کا سرمایہ بھی کسی کام نہ آسکے گا۔