فرائیڈے اسپیشل 2022ایک نظر میں (تیسرا حصہ)

یکم جولائی کے شمارے میں ”حکمرانوں کی قوم سے غداری کی شرمناک تاریخ، قوم معاشی پھانسی گھاٹ….“ کے عنوان سے شاہنواز فاروقی نے لکھا کہ ”پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو 60 سال سے امریکہ کی کالونی بنایا ہوا ہے۔ امریکہ کی خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطوں میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتارہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب امریکیوں کو آگاہ کررہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب کی یہ حرکت امریکہ کے جوتے چاٹنے کے مترادف تھی۔ بدقسمتی سے جنرل ایوب نے پاکستان کی سیاست، دفاع اور معیشت کو ایسا ’’امریکہ مرکز‘‘ یا American Centric بنادیا کہ آج تک ہمیں امریکہ سے نجات نہیں مل سکی“۔ جبکہ ”اسٹیٹ بینک اور 4 نجی بینکوں کا اعلانِ جنگ، شرعی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج“ میاں منیر احمد، ”بلوچستان: قبائلی انتقام کی سیاست“ امان اللہ شادیزئی، ”احتساب کے بغیر جمہوری نظام“ سلمان عابد، ”روس، یوکرین جنگ اور دنیا کا مستقبل“ مسعود ابدالی، ”کشمیر میں فلسطین ماڈل پر عمل درآمد جاری“ سید عارف بہار، ”قربان جانے والے کے قربان جائیے“احمد حاطب صدیقی، ”برطانوی معاشرہ اور کلیسا کا کردار“ ڈاکٹر اسامہ شفیق، ”کراچی: بجلی کا بدترین بحران…عوام سراپا احتجاج“ اے اے سید کے مضامین کےموضوعات تھے۔ حافظ محمد ادریس نے ”سید منور حسن ؒ کی معطر یادیں“ میں لکھا کہ ”عالمی شہرت رکھنے والی اس شخصیت نے دنیا کو کبھی اپنے دل میں بسنے نہیں دیا۔ وہ دنیا کا راکب تھا، مرکب نہیں۔“

8جولائی کے شمارے میں ”معاشی بحران کا خاتمہ کیسے ہو؟“ میاں منیر احمد، ”ساری دنیا مسلمانوں سے نفرت کیوں کرتی ہے؟“ شاہنواز فاروقی، ”G-7… دنیا کے سات بڑوں کا اجلاس“ مسعود ابدالی، ”پنجاب میں اقتدار کا سیاسی دنگل“ سلمان عابد، ”لالہ صحرائی کی نعت گوئی“ ڈاکٹر ریاض مجید، ”اسلام آباد میں اُردو“ احمد حاطب صدیقی، ”تاریخ کا تسلسل اور تہذیبوں کی ہم آہنگی“ ڈاکٹر جاوید ظفر، ”تھائیرائیڈہارمون اور بچے کی ذہنی صلاحیت“ ڈاکٹر اظہر چغتائی، ”عیدالاضحی، جذبہ قربانی کی آبیاری“ لئیق اللہ خاں منصوری کے موضوعات کے عنوان تھے۔ اس شمارے میں اداریہ ”پیپلز پارٹی اور جمہوریت دشمنی کی طویل داستان“ حامد ریاض ڈوگر نے لکھا تھا۔

15جولائی کے شمارے میں ”کراچی پھر ڈوب گیا“ کے عنوان سے اے اے سید نے لکھا۔ ”کراچی کی حکمرانی کی حق دار صرف جماعت اسلامی“ شاہنواز فاروقی کا عنوان تھا جس میں انہوں نے لکھا: ”نواز لیگ ہو یا پیپلزپارٹی… تحریکِ انصاف ہو یا ایم کیو ایم… یہ تمام جماعتیں اقتدار میں آئے بغیر قوم کی خدمت کا کوئی تصور نہیں رکھتیں۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی کی تاریخ یہ ہے کہ وہ اقتدار میں آئے بغیر قوم کی خدمت کرتی ہے“۔ اسی طرح ”ملک میں سیلاب کی صورت حال“میاں منیر احمد، ”یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں“ احمد حاطب صدیقی، ”پراپرٹی میں سرمایہ کاری کے معیشت پر اثرات“ سید بہرام فرخ کاظمی، ”جاپان کے سابق وزیراعظم کا قتل“ مسعود ابدالی، ”بارش اور ملیریا“ ڈاکٹر اظہر چغتائی، ’’جڑنے کی بات کبھی نہیں کی!‘‘اسامہ تنولی، ”ترکی میں اسلامی تحریک کی پیش قدمی اور کامیابیاں“ شاہد شیخ، ”سفرِ اردن: آثار اصحاب کہف کا دورہ“ محمد عامل عثمانی، ”تعلیم کیا ہے؟“ سلیم منصور خالد کے مضامین کے عنوانات تھے۔

22جولائی کے شمارے میں جلال نورزئی نے ”بلوچستان: برساتی سیلاب کی تباہ کاری“، شاہنواز فاروقی نے ”گھر کے بھیدی کی گواہی، حکومتوں کی تبدیلی اور امریکی کردار“ ، اے اے سید نے ”کراچی: لاوارث شہر کی تباہی، ذمہ دار کون…؟“،میاں منیر احمد نے ”اتحادی حکومت مشکل میں“، مسعود ابدالی نے ”یوٹرن سے آراستہ ”صفر“…بائیڈن کا پہلا دورئہ مشرق وسطیٰ“، ابوالحسن اجمیری نے ”مصنوعی ذہانت کی حکمرانی: اُف یہ تیس سیکنڈ کا انہماک“، اسامہ تنولی نے ”حیدرآباد واقعہ: پولیس خاموش تماشائی، حکومتی اداروں کی بے حسی“ کے عنوان سے لکھا۔ ”ڈاؤن سنڈروم بچوں کا پیدائشی مرض اور اس کے مسائل“ ڈاکٹر اظہر چغتائی کا عنوان تھا، جب کہ شمس الرحمٰن فاروقی اور ان کا ناول ”کئی چاند تھے…“ پرمحمود عالم صدیقی نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ”شمس الرحمٰن فاروقی دنیائے ادب کی ایسی عہد ساز شخصیت ہیں جن کے تخلیقی کام اور امتیازات کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا،یہ ناول انیسویں صدی میں ہند کی اسلامی دنیا اور خصوصاً دلی کی دنیا کا ثقافتی، تاریخی اور وجودی بیانیہ ہے جس نے اس ناول کو ایک یادگار شاہکار ناول بنادیا ہے، یہ ناول قاری کو گزرے ہوئے اجداد کے زمانے میں پہنچا دیتا ہے۔ عہد مغلیہ کے اواخر کے ہندوستان کی لفظی تصویر ہے۔ یہ صرف یوسف سادہ کار کی تیسری بیٹی اور نواب مرزا داغ دہلوی کی والدہ وزیر بیگم کی داستانِ حیات ہی نہیں ہے بلکہ اس ناول میں اس عہد کی پوری تہذیب کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ ناول کی سحر آفریں زبان اور جزئیات نگاری سے قاری اس دنیا میں پہنچ جاتا ہے جس سے وہ باہر نہیں آپاتا اور خودبخود آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس ضخیم ناول کو ختم کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔“

29جولائی کے شمارے میں  ”پاکستانی سیاست کا بحران… اسباب کیا ہیں؟“ میں شاہنواز فاروقی نے لکھا کہ ”پاکستان کی سیاست کو کولہو کا بیل بنا کر کھڑا کردیا۔ کولہو کا بیل صبح سے شام تک چلتا رہتا ہے مگر کہیں بھی نہیں پہنچ پاتا“۔ ”کرنل لئیق کا اغوا اور قتل“ جلال نورزئی، ”بائیڈن کا دورئہ سعودی عرب: تیل کی سیاست اور زیر زمین…“ مسعود ابدالی، ”پاکستان کے پہلو میں ڈوبتا فلسطین اور اُبھرتا اسرائیل“سید عارف بہار، ”آئینی تبدیلیوں کے حوالے سے ایران طالبان کے لیے ایک بہترین…“ امان اللہ شادیزئی، ”سفر پھر سفر ہے“ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ”صحت اور فاسٹ فوڈ کا بڑھتا رجحان“ ابوالحسن اجمیری، ”ہم امارتِ اسلامی افغانستان کے ساتھ ہیں“ عالمگیر آفریدی اور ”جگر“ حکیم سید مجاہد محمود برکاتی کے موضوعات تھے۔

5اگست کے شمارے میں ”انسانی تاریخ میں فرد کا انقلابی کردار“ شاہنواز فاروقی، ”پندرہویں ترمیم یا سقوطِ آزادکشمیر؟“ سید عارف بہار، ”روشنیوں کا شہر کراچی: کھنڈر اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل، عوام اور تاجر سراپا…“ اے اے سید، ”ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ: تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہے؟“ میاں منیر احمد، ”روس یوکرین جنگ چھٹے ماہ میں! ترکیہ کی گندم سفارت کاری“ مسعود ابدالی، ”قومی سیاست میں موجودہ تقسیم، سیاسی مکالمہ ممکن ہے؟“ سلمان عابد، ”افغان طالبان: میدان جنگ سے حکومت و سیاست کے میدان میں“ امان اللہ شادیزئی، ”بھارت: اسلاموفوبیا کی نئی لہر، مولانا مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی کی…“ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، ”خلافت سے ملوکیت میں تبدیلی اور شہادتِ حسینؓ“ حافظ ادریس، اور ”ہے یہ دل کا معاملہ! نومولود بچوں میں خرابیِ دل کی…“ ڈاکٹر اظہر چغتائی کے موضوعات تھے۔

12گست کے شمارے میں میاں منیر احمد نے ”پاکستان سیاسی و معاشی گرداب میں“، شاہنواز فاروقی نے ”پاکستان آزادی کے 75سال بعد کتنا آزاد ہے؟“، سلمان عابد نے ”ممنوعہ فنڈنگ کیس: ہدف عمران خان یا تحریک انصاف“، مسعود ابدالی نے ”غزہ میں انسانوں کا ذبیحہ“، سید تاثیر مصطفیٰ نے ”درویش منش انسان سید اطہرعلی ہاشمی(مرحوم)“، جلال نورزئی نے ”رائے عامہ اور سماجی معیارات کی تشکیل میں ذرائع ابلاغ اور…“، عارف حسن نے ”کراچی:مردم شماری کے اعدادو شمار کیا کہتے ہیں؟“، شاہد شیخ نے ”بلوچستان میں طوفانی بارشیں“، جبکہ ڈاکٹر اسامہ شفیق نے ”مغرب نئے معاشی بحران کی زد میں“ کے عنوان سے لکھا۔

19اگست کےشمارے میں ”آزادی کے 75 برس“ میاں منیر احمد، ”پاکستانی ایک قوم کیوں نہیں بن سکے؟“ شاہنواز فاروقی، ”سلمان رشدی پر نیویارک میں حملہ“ مسعود ابدالی، ”الخدمت آغوش: یوم آزادی کی خصوصی تقریبات کا اہتمام“ شاہد شیخ، ”بارشوں کا سلسلہ: ضلع لسبیلہ سیلاب میں ڈوب گیا“ جلال نورزئی، ”کراچی: مردم شماری کے اعدادو شمار کیا کہتے ہیں؟“ ابوالحسن اجمیری، ”مسئلہ کشمیر: کچھ نئی جہتیں“ سید عارف بہار، ”خیبرپختون خوا: بدامنی کے واقعات میں تیزی“ عالمگیر آفریدی، ”مہترانی ہو کہ رانی، گنگنائے گی ضرور“ احمد حاطب صدیقی، ”مغرب اور آزادیِ اظہارِرائے کا ڈھنڈورا.. حقیقت کیا ہے؟“ ڈاکٹر اسامہ شفیق، ”الحاج سید شجاعت علی صدیقی“ اسرار ایوبی، ”آدھے سر کا درد“ حکیم سید مجاہد محمود برکاتی، جبکہ ”کیا کثرتِ مطالعہ، کثرتِ عمر کا باعث بھی ہوسکتا ہے؟“ غلام جیلانی خان کے عنوانات تھے۔

شمارہ 26اگست: ”پاکستانی قوم نے 75 سال میں کیا کھویا، کیا پایا؟“ شاہنواز فاروقی، ”یوکرین جنگ…خوفناک جوہری حادثے کا خطرہ“ مسعود ابدالی، ”کراچی ائیرپورٹ پر بھارتی جہازوں کی آمد“ سید عارف بہار، ”جماعت اسلامی کا یوم تاسیس.. تجدیدِ عہد کا دن“ سراج الحق، ”موسم برسات، سیلاب اور انسانی المیہ“ میاں منیر احمد، ”سیاسی و ریاستی بحران“ سلمان عابد، ”حق دو ’حق‘کو“ احمد حاطب صدیقی، جبکہ ”کراچی دوراہے پر!“ ڈاکٹر طاہر مسعود کا عنوان تھا۔

2ستمبر کے شمارے میں شاہنواز فاروقی نے ”بلدیاتی انتخابات کا التوا“ کے عنوان سے لکھا: ”یہ کراچی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سہولت کاروں کی سازش ہے“۔ انہوں نے مزید لکھا ”اور آج بھی کم و بیش وہی صورت حال ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ فضا میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی میں سے کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابلِ قبول نظر نہیں آتی۔ کراچی کی انتخابی فضا میں مذکورہ بالا تبدیلی اتفاقی امر نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں عوامی مسائل کے حل کے لیے انتھک جدوجہد کی ہے۔ جماعت اسلامی نے کراچی کے ایک ایک مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔ جہاں احتجاج کی ضرورت تھی وہاں احتجاج کیا، جہاں دھرنا درکار تھا وہاں دھرنا پیش کیا، جہاں نیوز کانفرنس کی ضرورت تھی وہاں نیوز کانفرنس سے کام لیا۔“ اسی طرح ”سیلاب میں ڈوبا پاکستان“ میاں منیر احمد، ”ڈونلڈٹرمپ کے گھر سے امریکی خفیہ دستاویزات برآمد“ مسعود ابدالی، ”میرواعظ کی نظر بندی اور بھارت کا جھوٹ“ سید عارف بہار، ”غلطی ہائے مضامین“ کے سلسلے میں ”ہوا میں معلّق قومی ادارے“ احمد حاطب صدیقی، ”مولانا سید جلال الدین عمری کی رحلت ملّتِ اسلامیہ کا…“ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، ”مکہ کلاک ٹاور“ محمود عالم صدیقی، ”فیڈر سے دودھ کیوں نہیں؟“ڈاکٹر اظہر چغتائی کے مضامین کے عنوانات تھے۔

شمارہ 9 ستمبر: ”غربت اور اس کی ہولناکیاں“ شاہنواز فاروقی، ”چین کے اویغور مسلمان… انسانیت سوز برتائو کا شکار“ مسعود ابدالی، ”کراچی میں پھر ڈاکو راج“ اے اے سید، ”ملک نواز احمد اعوان ایک فیض رساں شخصیت“ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ”اچھی اُردو کیسے سیکھی؟“ احمد حاطب صدیقی، ”ملک نوازاحمد اعوان، ایک کتاب دوست اور صاحب ِخیر انسان کی…“ عبدالمتین منیری، ”مسلم اندلس کے دنیا پر احسانات“ محمود عالم صدیقی، ’’کامیابی کا دھوکا“ابوالحسن اجمیری، ”ڈینگی سے کیسے بچا جائے؟“ ڈاکٹر اظہر چغتائی، جبکہ ”جہاد کہانی“حافظ غلام سرور کا عنوان تھا۔

شمارہ16ستمبر: ”سیلابی تباہ کاری: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس کا دورۂ…“ میاں منیر احمد، ”پاکستانی سیاست سر سے پائوں تک بیمار کیوں ہے؟“ شاہنواز فاروقی، ”پاکستان کے مسائل… چند بڑے سوالات“ سلمان عابد، ”برطانیہ: ملکہ کا انتقال، نئے فرمانروا، نئی وزیراعظم“ مسعود ابدالی، ”ڈاکٹر اورنگزیب شہزاد مرحوم.. جسمانی معذور مجاہدِ اسلام“محمد کلیم اکبر صدیقی، ”نثار عثمانی.. صحافیوں کی ٹریڈ یونین کے جرأت مند رہنما“ تاثیر مصطفیٰ، ”پاکستان میڈیکل کمیشن کی راکھ پر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل“ عالمگیر آفریدی کے عنوانات تھے۔

شمارہ 23 ستمبر: ”عالمی یومِ یادداشت.. ڈیمنشیا، الزائمر… یادداشت کی…“ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک، ’’آہ! ملک نواز احمد اعوان مرحوم‘‘پروفیسر طارق تنولی، ”پاکستانی ذرائع ابلاغ یا پورس کا ہاتھی؟“ شاہنواز فاروقی، ”شنگھائی تعاونی تنظیم کا سمرقند چوٹی اجلاس“ مسعود ابدالی، ”شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس.. پاکستان کی مبہم خارجہ پالیسی“ میاں منیر احمد، ”لیسٹر میں ہندو مسلم فسادات“ ڈاکٹر اسامہ شفیق، ”سیاسی اور معاشی بحران کی شدت“ سلمان عابد، ”کراچی: بجلی بلوں کے ساتھ میونسپل ٹیکس کی وصولی“ اے اے سید، ”شہرِ ناپُرساں“ ڈاکٹر طاہر مسعود، ”چومکھی لڑائی: تبدیلی جنس کے قانون کی تحریک کا فکری پس منظر“ حمزہ قریشی کے مضامین کے عنوان تھے، اور ”سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلو پیڈیا“پر ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق نے تبصرہ کیا تھا۔