ریپبلکن پارٹی کی چپقلش صدر بائیڈن کے لیے سخت مشکلات کا سبب بن سکتی ہے
قارئین کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ دنیا کا سب سے خوشحال و دولت مند اور بزعم خود طاقتور ترین ملک کا سب سے طاقتور و موثر ادارہ، کانگریس (پارلیمان) 4 دن معطل رہا۔ امریکہ آزاد و خودمختار پچاس ریاستوں پر مشتمل وفاق اور پانچ کالونیوں گوام، ورجن آئی لینڈ، شمالی جزائر ماریانہ، سمووا اور پورٹو ریکو کے مجموعے کا نام ہے۔ یہاں نظام حکمرانی کچھ اس طرح وضع کیا گیا ہے کہ صدر کا انتخاب وفاق کی سطح پر ہوتا ہے اور مقننہ ریاستیں منتخب کرتی ہیں۔
امریکی کانگریس (مقننہ) ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ پر مشتمل ہے۔ سینیٹ میں تمام ریاستوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہے۔ ایوانِ بالا میں کالونیوں کو نمائندگی نہیں دی گئی اور ہر ریاست سے 2 سینیٹر منتخب کیے جاتے ہیں۔ یعنی امریکی سینیٹ 100 ارکان پر مشتمل ہے جو 6 سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔
ایوانِ نمائندگان کی کُل نشستیں 435 ہیں جو آبادی کے اعتبار سے تمام ریاستوں میں حلقوں کی بنیاد پر تقسیم کی گئی ہیں۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹں ڈی سی اور پانچوں کالونیوں سے ایک ایک نمائندے کا انتخاب ہوتا ہے، تاہم یہ تمام صرف مبصر ہیں اور انھیں رائے شماری میں حصہ لینے کا حق نہیں۔ ایوان نمائندگان کی مدت دوسال ہے۔
ہر جفت (even) سال میں نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے انتخابات ہوتے ہیں۔ سینیٹ کی تشکیل اس طرح کی گئی ہے کہ ہر دوسال بعد اس کے ایک تہائی ارکان کی مدت پوری ہوجاتی ہے۔ انتخابات کے بعد 3 جنوری کو کانگریس کے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے اور ایجنڈے کا پہلا نکتہ اسپیکر کا انتخاب ہے۔
نومبر کے انتخابات میں ریپبلکن پارٹی نے ایوانِ نمائندگان کی 435 میں سے 222 نشستیں جیت کر برتری حاصل کرلی، اس کے مقابلے میں صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کو 213 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ ریاست ورجینیا کے حلقہ 4 سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک رکن ڈونلڈ مک ایشن (Donald McEachin))حلف اٹھانے سے پہلے 28 نومبر کو انتقال کرگئے۔ اس نشست پر 21 فروری کو ضمنی انتخاب ہوگا۔ چنانچہ اِس وقت ایوانِ نمائندگان کی 212 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہیں۔
روایت کے مطابق پارلیمانی سال کے آغاز پر 3 جنوری کو اسپیکر کا انتخاب ہوا۔ کیلی فورنیا سے ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس کیون میک کارتھی (Kevin McCarthy) سامنے آئے۔ ستاون سالہ میک کارتھی 2006ء سے ایوانِ نمائندگان کے رکن منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اسپیکر کے لیے 435 رکنی ایوان میں کم ازکم 218 ارکان کی حمایت ضروری ہے۔ اسپیکر کے انتخاب کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں کیے جاتے اور جماعت اسلامی میں ہونے والے انتخاب کی طرح کسی بھی رکن کو ووٹ دیا جاسکتا ہے۔
چند دن پہلے سے ریپبلکن پارٹی میں بے چینی کے آثار تھے۔ قدامت پسند ارکان کے گروپ Freedom Caucus کا خیال ہے کہ میک کارتھی نظریاتی قدامت پسند نہیں، اور وہ مقبولیت کے ہونکے میں لبرل و آزاد خیال عناصر سے مفاہمت کو برا نہیں سمجھتے۔ اگرچہ کہ سابق صدر ٹرمپ نے جناب میک کارتھی کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن فریڈم کاکس کا خیال ہے کہ ٓ کانگریس میں سابق صدر کے خلاف مواخدے کی تحریکوں کا قائد حزب اختلاف (minority leader)کی حیثیت سے جناب میک کارتھی نے موثر مقابلہ نہیں کیا۔ ریپبلکن پارٹی کے فریڈم کاکس کے ارکان کی تعداد 20 ہے۔
جب 3جنوری کو پہلی رائے شماری ہوئی تو 203 ارکان نے میک کارتھی کے حق میں ووٹ دیا۔ تمام کے تمام 212 ڈیموکریٹس ارکان اپنے قائد حکیم جیفریز کی پشت پر کھڑے نظر آئے، جبکہ 17 ریپبلکن نے مختلف افراد کے حق میں رائے دی۔ یعنی کسی کو بھی مطلوبہ اور فیصلہ کن 218 ووٹ نہ مل سکے۔ جب دوسری بار رائے شماری ہوئی تو میک کارتھی نے ایک بار پھر 203 ووٹ حاصل کیے، ڈیموکریٹس کے تمام 212 ووٹ حسبِ سابق اپبے قائد حکیم کے حق میں پڑے، 19 ریپبلکن نے ایک قدامت پسند رکن جم جورڈن کے حق میں رائے دی۔ شام کو تاخیر سے تیسری بار رائے شماری ہوئی تو مک کارتھی صاحب کا ایک ووٹ اور کم ہوگیا۔ اس بار ریپبلکن پارٹی کے 202 ارکان نے کیون میک کارتھی کی حمایت کی اور 20ارکان نے پارٹی کے سیاہ فام رکن بائرن ڈونلڈز کے حق میں رائے دی۔ یہی مشق 6 جنوری تک جاری رہی اور 14 رائے شماریوں میں فیصلہ نہ ہوسکا۔
دنیا کی اکثر قانون ساز اداروں اور پارلیمانوں میں پہلے ارکان حلف اٹھاتے ہیں، جس کے بعد اسپیکر کا انتخاب ہوتا ہے۔ لیکن امریکہ میں کانگریس کے نگہبان (custodian) کی حیثیت سے پہلے اسپیکر کا تقرر ہوتا ہے جس کے بعد اسپیکر نئے ارکان سے حلف لیتے ہیں۔
3 جنوری کو پرانا ایوان مدت مکمل ہونے پر تحلیل ہوگیا اور نئے اسپیکر کی تقرری میں تعطل کی وجہ سے نیا ایوان تشکیل نہ پاسکا۔ امریکی آئین کے تحت قومی خزانے کی کنجی کانگریس کے پاس ہے، چنانچہ نئے مطالبہ زر کی منظوری بھی ممکن نہ رہی۔ جانشینی کے اعتبار سے اسپیکر کا تیسرا نمبر ہے، یعنی اگر صدر اور نائب صدر معذوری، موت یا مواخذے کی وجہ سے اپنی ذمہ ادا کرنے سے قاصر ہوں تو شمعِ صدارت اسپیکر کے سامنے کردی جاتی ہے۔
ٹھیک ایک سو سال پہلے 1923ء میں بھی اسپیکر کے انتخاب میں اسی نوعیت کا تعطل آیا تھا، لیکن ریپبلکن پارٹی کے فریڈرک گلیٹ(Frederick Gillett)نویں رائے شماری کے بعد واضح اکثریت لینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ طوالت کے اعتبار سے موجودہ بحران امریکی تاریخ میں کانگریس کا دوسرا بڑا تعطل ہے۔ تقریباً 167 برس پہلے دسمبر 1855ء میں جب اسپیکر کا مرحلہ آیا تو غلامی کے خاتمے اور امیگریشن کے معاملے پر امریکہ میں شدید خلفشار تھا۔ اُس زمانے میں امریکہ 31 ریاستوں پر مشتمل تھا اور امریکی ایوانِ نمائندگان میں نشستوں کی تعداد 234 تھی۔ اُس بار 18 ریاستوں میں انتخابات 4 اگست 1854ء کو ہوئے اور باقی 13 ریاستوں میں پندرہ ماہ بعد 6 نومبر 1855ء میں ووٹ ڈالے گئے۔
سیاسی خلفشار سیاسی جماعتوں میں شکست و ریخت کا سبب بنا۔ اس سے پہلے تک امریکہ میں Whig اور ریپبلکن پارٹی کے درمیان مقابلہ رہتا تھا لیکن انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے Native American Partyتشکیل دی گئی۔ انگریزوں نے اپنے روایتی تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں جاہل کہنا شروع کردیا۔ اُن زندہ دلوں نے طعنے کو مذاق میں اڑاتے ہوئے اپنی جماعت کو خود ہی Know Nothingپارٹی کہنا شروع کردیا۔ غلامی برقرار رکھنے کے حامیوں نے غلامی ختم کرنے کے قانون نیبراسکا ایکٹ کے حوالے سے اینٹی نیبراسکا پارٹی بنالی۔ ڈیموکریٹک اور Whigپارٹی کے ناراض ارکان پیپلز پارٹی کے نام سے سامنے آئے۔ قوم پرستوں نےFree Soilپارٹی بنالی۔ گویا ان انتخابات میں 6 جماعتیں مقابلے میں اتریں۔
اسپیکر کے انتخاب کے لیے 20 امیدوار سامنے آئے، 234 رکنی ایوان میں واضح اکثریت کے لیے 118 ارکان کی حمایت درکار تھی۔ تقسیم در تقسیم کی بناپر مفاہمت ناممکن حد مشکل تھی۔ چنانچہ دوماہ تک معرکہ جاری رہا، 133 ویں رائے شماری فیصلہ کن ثابت ہوئی اور Know Nothingپارٹی کے Nathaniel Prentice Banks اسپیکر منتخب ہوگئے۔
ماضی کے اس ذکر کے بعد ہم حالیہ بحران کی طرف واپس آتے ہیں۔ گیارہ بار ناکامی کے بعد بات چیت کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ قدامت پسند ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور مجالسِ قائمہ میں نامزدگیوں پر فریڈم کاکس اور جناب میک کارتھی ہم آہنگ نہ تھے۔ 20 رکنی کیون میک کارتھی مخالف جتھے کے قائد میٹ گیٹس (Maet Gates) اور محترمہ لارین بوبرٹ (Lauren Boebert) کا مطالبہ تھا کہ عسکری خدمات کمیٹی کی سربراہی فریڈم کاکس کو دی جائے۔ میک کارتھی کا کہنا تھا کہ وہ اسپیکر کا حلف اٹھانے کے بعد ساتھیوں کے مشورے سے ذیلی کمیٹیوں کا فیصلہ کریں گے۔
ایک اور معاملہ وفاقی حکومت کے قرض کی حد بڑھانے کے بارے میں تھا۔ امریکہ میں کانگریس وفاقی حکومت کے لیے قرض لینے کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرتی ہے اور سرکار اس سے زیادہ قرض نہیں لے سکتی۔ جب قرض کا حجم اس نشان کے قریب پہنچ جائے تو وفاق قرض کی حد میں اضافے کی درخواست کرتا ہے اور کانگریس سے منظوری کے بعد ہی مزید قرض لیا جاسکتا ہے۔ اس وقت قرض کی حد 31ہزار ارب (31Trillion)ڈالر ہے۔ خیال ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں بائیڈن انتظامیہ قرض کی حد کو بڑھانے کی درخواست کرے گی۔ قدامت پسند اراکین جناب میک کارتھی سے یہ ضمانت چاہتے تھے کہ وہ نہ صرف قرض کی حد میں کسی بھی اضافے کی تجویز کو مسترد کردیں گے بلکہ اگر حکومت ٹیکسوں میں مزید اضافہ تجویز کرے تو اس کی بھی ڈٹ کر مخالفت کی جائے گی۔ فریڈم کاکس ایک قانون منظور کرنا چاہتی ہے جس کے تحت ٹیکس میں اضافہ سادہ اکثریت کے بجائے3/5ارکان کی حمایت سے مشروط کردیا جائے۔
ان امور پر بھی جناب میک کارتھی کا وہی موقف تھا کہ دونوں طرف کے ارکان سے مشورہ کرکے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ طویل بات چیت اور مول تول کے بعد میک کارتھی صاحب 14 قدامت پسندوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے۔ اور جمعہ (6جنوری) کو رات آٹھ بجے ہونے والی چودھویں رائے شماری میں انھوں نے 216 ووٹ حاصل کیے جو کامیابی کے نشان سے اب بھی دو کم تھے۔ اس بار 6 مخالفین کسی اور کو ووٹ دینے کے بجائے ایوان سے چلے گئے۔ اس دوران کیون میک کارتھی کی رکن کانگریس میٹ گیٹس سے شدید تلخ کلامی بھی ہوئی۔
مزید کشیدگی اُس وقت ہوئی جب چودھویں ناکامی کے بعد کیون میک کارتھی نے رائے شماری کا سلسلہ 9 جنوری تک ملتوی کرنے کی تجویز دی جسے ایوان نے مسترد کرتے ہوئے رات بارہ بجے پندرھویں بار ووٹنگ کی تحریک منظور کرلی۔ فریڈم کاکس کے تمام ارکان نے التوا کی مخالفت کی۔ میک کارتھی اور میٹ گیٹس کے درمیان بیچ بچائو کرانے والوں نے بحران کے خاتمے کی ایک اور کوشش کی۔ جناب میک کارتھی نے قدامت پسندوں کو یقین دلایا کہ وہ خود بھی نظریاتی اعتبار سے دائیں بازو کے ہیں۔ حکومتی اخراجات میں کمی، متوازن بجٹ اور ٹیکس کے معاملے میں وہ فریڈم کاکس کے منشور کے دل و جان سے حامی ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ نے بھی تمام ریپبلکن ارکان سے میکارتھی کو ووٹ دینے کی درخواست کی۔
صدر ٹرمپ کی درخواست کے باوجود 6ناراض ارکان میٹ گیٹس، لارن بوبرٹ، علیجاہ کرین، اینڈی بگس، باب گُڈ اور میٹ روزینڈیل کا جناب میک کارتھی کی زبانی یاددہانی پر دل نہ پسیجا اور تحریری ضمانت کا مطالبہ جاری رہا۔ اس دوران مصالحت کاروں نے یقین دلایا کہ اگر اسپیکر منتخب ہونے کے بعد کیون میک کارتھی نے لبرل روش اختیار کی تو اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے گی جس کی مصالحت کنندگان بھی حمایت کریں گے۔ اس مرحلے پر اسپیکر کے ٓخلاف عدم اعتماد کی تحریک کو آسان بنانے کی تجویز پیش کی گئی جس کے تحت اکثریتی پارٹی کے صرف ایک رکن کی درخواست پر رائے شماری ہوگی اور سادہ اکثریت سے اسپیکر کو گھر بھیجا جاسکے گا۔
جناب میک کارتھی عدم اعتماد کے لیے طریقہ کار میں تبدیلی پر آمادہ ہوگئے، اور جب پندرھویں رائے شماری کا آغاز ہوا تو ان تمام 6 ارکان نے رائے شماری کے دوران خود کو Presentلکھوایا لیکن کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ گنتی پر ڈیموکریٹک کے 212 کے مقابلے میں جناب میک کارتھی کو 216 ووٹ ملے۔ ان 6 ارکان کے ”حاضر جناب“ لکھوانے کی قانونی تشریح یہ تھی کہ ایوان کے تمام ارکان نے رائے شماری میں حصہ لیا، چنانچہ 216 ووٹوں کی بیناد پر میک کارتھی اسپیکر منتخب ہوگئے۔ دوسری صورت میں کامیابی کے لیے 218 ووٹ ضروری تھے۔
بظاہر جناب کیون میک کارتھی پلِ صرط پار کر گئے اور انھوں نے اسپیکر کی ذمہ داری سنبھال کر ارکان سے حلف بھی لے لیا، لیکن نیا ایوان آغاز سے ہی کمزور نظر آرہا ہے، 222 میں سے 20 ارکان اسپیکر کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے، جن میں سے 6 ان کے شدید مخالف ہیں۔
ریپبلکن پارٹی کی چپقلش صدر بائیڈن کے لیے سخت مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ اسپیکر صاحب قدامت پسندوں کی جانب سے شدید دبائو میں ہیں اور ان کے لیے صدر بائیڈن سے مفاہمت کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ کچھ اسی قسم کا معاملہ صدر اوباما کے دور میں پیش آچکا ہے۔ فریڈم کاکس کے انتہاپسند ارکان جہاں صدر اوباما کے قومی صحت بیمہ المعروف Obama Careکے سخت مخالف تھے، وہیں انھیں اپنے ریپبلکن اسپیکر جان بونر (John Boehner)کے رویّے سے بھی مایوسی تھی۔ چنانچہ عدم اعتماد کی دھمکی دے کر بونر صاحب استعفے پر مجبور کردیے گئے۔
دیکھنا ہے کہ قدامت پسند ساتھیوں کے دبائو میں آئے اسپیکر اور لبرل امریکی صدر بڑھتی ہوئی مہنگائی، کساد بازاری اور سرد جنگ کے خطرات سے کیسے نبٹتے ہیں۔
………………….
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔