نئے انتخابات یا عبوری سیٹ اپ

سوال یہ ہے کہ سیاست، جمہوریت یا انتخابات کو پسِ پشت ڈال کر معیشت کی بحالی کا جو ایجنڈا ترتیب دیا جارہا ہے یا جس پر سوچ بچار جاری ہے اُس کے پیچھے کون ہے؟

پاکستان کے موجودہ سیاسی، معاشی، انتظامی، قانونی اور ریاستی بحران کو سمجھنا ہے تو پہلے ان پانچ بیانات پر غور کریں تاکہ مسئلے کی حساسیت کو بہتر طور پر سمجھ سکیں:

(1) نئے آرمی چیف نے سیاسی قیادت کو متنبہ کیا ہے کہ موجودہ معاشی اور سیکورٹی صورت حال میں سیاسی جماعتوں بشمول حکومت اور حزبِ اختلاف کو مل بیٹھ کر مسئلے کی حساسیت کو سمجھ کر مسائل کا حل اتفاقِ رائے کی بنیاد پر تلاش کرنا چاہیے۔ کیونکہ اُن کے بقول اس وقت قوم کو مفاہمت کی ضرورت ہے۔

(2) چیف جسٹس آف پاکستان نے سیاسی قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سیاسی معاملات سیاسی پلیٹ فارم پر حل کریں اور بلاوجہ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں نہ لے کر آئیں، اس سے نہ صرف عدالتوں پر بوجھ پڑتا ہے بلکہ عدالتوں کو بھی سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے۔

(3) وزیراعظم شہبازشریف نے تسلیم کیا ہے کہ ملک کے موجودہ معاشی حالات خطرناک ہیں اور ہمارے پاس اس وقت عالمی حمایت یا آئی ایم ایف کی مدد کے سواکوئی آپشن نہیں۔ اُن کے بقول ہمارے پاس سوائے مانگنے کے کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔

(4) آرمی چیف کا دورۂ سعودی عرب اور اس بات کا عندیہ کہ سعودی عرب موجودہ حالات میں پاکستان کی مالی مدد کرے گا، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر معاشی حالات سے نمٹنے کی ذمہ داری یا اس میں کردار آرمی چیف کا ہے تو ہماری سیاسی قیادت یا حکومت کا کیا سیاسی اور اخلاقی جواز باقی رہ جاتا ہے؟

(5) عمران خان نے نئی فوجی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خود کو سیاسی معاملات سے علیحدہ رکھیں اور اس تاثر کی نفی کریں کہ وہ سیاسی عمل، سیاسی مداخلت یا سیاسی انجینئرنگ کے کھیل میں ملوث ہیں۔ اُن کے بقول ہمیں نئی فوجی قیادت کی طرف سے بھی یہ اشارے مل رہے ہیں کہ وہ ہمارے خلاف سیاسی کھیل میں کسی نہ کسی شکل میں ملوث ہیں۔

ان پانچوں نکات کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے کہاں کھڑے ہیں، اور کیا ہم واقعی ایسی کوئی حکمتِ عملی رکھتے ہیں جو ہمیں موجودہ سیاسی یا ریاستی بحران سے باہر نکلنے میں مدد دے سکے! اگرچہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا واضح پیغام یہ ہے کہ وہ کسی بھی طور پر سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، لیکن پچھلے چند دنوں کے اہم واقعات کو مدنظر رکھا جائے تو بہت سے سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر گورنر سندھ کامران ٹیسوری کس کے اشارے یا کس کی مدد کے ساتھ کراچی کی سیاست میں سرگرم ہوئے؟ یہ ایجنڈا کس کا ہے اورکون اس میں رنگ بھررہا ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام گروپوں کو متحد کیا جائے اور اگلے انتخابات میں متحدہ کو ایک متحد جماعت کے طور پر سیاسی میدان میں اتارا جائے؟ جس انداز سے گورنر سندھ متحرک ہوئے اس سے بلاوجہ شکوک وشبہات پیدا ہوئے ہیں کہ یہ کھیل ماضی کے کھیل کا تسلسل تو نہیں کہ کسی کی حمایت یا مخالفت میں کسی بھی فریق کو دوبارہ سیاسی طور پر ایک یا زندہ کیا جائے؟ دوسری جانب پنجاب میں سابق گورنر چودھری محمد سرور، جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان کو کون متحرک کررہا ہے اور کون یہ کہہ رہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں وہاں ایک نئی کنگز پارٹی کی ضرورت ہے؟ پی ٹی آئی کے ارکان کو توڑنے کے کھیل میں کون شامل ہے اورکون کہہ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے عمران خان قبول نہیں اور آپ اب متبادل سیاسی راستہ اختیار کریں؟

یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ کی کوشش ہورہی ہے اور اس کے اہم لوگوں کو جو انتخابات لڑنا چاہتے ہیں یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ عمران خان اگلی بار اقتدار کی سیاست کا حصہ نہیں، اس لیے طاقت ور سیاسی خاندان اپنا متبادل سیاسی بندوبست کریں۔ چودھری سرور کی پیپلزپارٹی کے احمد محمود اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ملاقاتیں بھی اسی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہیں۔ عمران خان جو پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں، اس میں کیا محض چودھری پرویزالٰہی ہی رکاوٹ ہیں، یا کوئی پیچھے بیٹھ کر بھی یہی چاہتا ہے کہ اسمبلیوں کو تحلیل نہ کیا جائے؟ یہی وجہ ہے کہ پرویزالٰہی وکٹ کے دونوں طرف میں کھیل رہے ہیں۔ عمران خان نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ ان ہی کی جماعت کے ایم پی ایز پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ پرویزالٰہی کو اعتماد کا ووٹ نہ دیں تاکہ اسمبلی کی تحلیل کو روکا جاسکے۔ اب عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوتی تو ان کی جماعت پنجاب اسمبلی سے اجتماعی طور پر استعفے دے دے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ سمیت بہت سے حکومتی وزرا یہ منطق بھی پیش کررہے ہیں کہ حکمران اتحاد سمیت ادارے بھی عمران خان کی سیاست کے خلاف متحد ہیں اوران کا لازمی طور پر سیاسی بندوبست کیا جائے گا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے تو ایک انٹرویو میں صاف کہہ دیا ہے کہ وہ عمران خان کو سیاسی یا انتخابی طور پر نااہل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی خاموشی معنی خیز ہے، اور حکمران اتحاد میں موجود لوگ جو اداروں کے ترجمان کی حیثیت سے عمران خان مخالف بیانات دے رہے ہیں اُن کی تردید کسی بھی سطح پر نہیں کی جارہی۔

ایک طرف عمران خان مخالف سیاسی جماعتیں ہیں، تو دوسری طرف میڈیا میں عمران خان مخالف افراد ہیں جو تواتر سے یہ تجزیہ یا خبریں پیش کررہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت میں عمران خان پر مزید اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ طبقہ مسلسل اس پیغام کو عام کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اگلے انتخابات میں عمران خان کسی بھی صورت میں اقتدار کا حصہ دار نہیں ہوں گے۔ عمران خان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی حمایت میں بہت سے لوگ زمین آسمان کے قلابے ملارہے ہیں۔ ایک تھیوری یہ بھی میڈیا میں پیش کی جارہی ہے کہ فیصلہ ہوگیا ہے کہ یہ مرکز اور سندھ میں پیپلزپارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی اور بلوچستان میں قوم پرستوں کی حکومت بنانے کا کھیل ہے۔ اسی طرح ان خبروں کو بھی میڈیا ہی کی مدد سے آگے بڑھایا جارہا ہے کہ عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ یہ فیصلہ کس نے کیا ہے اورکیوں کیا جارہا ہے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے یہ سارے بیانات محض میڈیا تک محدود ہوں، یا اس میں تجزیے سے زیادہ خواہش کا پہلو نمایاں ہو… مگر ان ساری خبروں کو بھی ہمیں کسی سیاسی تنہائی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ لوگ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ مستقبل میں مقررہ وقت میں بھی انتخابات نہیں دیکھ رہے، اور اُن کے بقول مسئلے کا حل انتخابات نہیں بلکہ معاشی ماہرین پر مشتمل عبوری حکومت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں معاشی ماہرین پر مشتمل عبوری حکومت کی بازگشت بھی سننے کو مل رہی ہے۔ سکہ بند دانشور یہی رائے بنارہے ہیں کہ مسئلہ سیاست اور جمہوریت کے مقابلے میں معیشت کا ہے اور ہمیں کچھ عرصے کے لیے سیاست کو پسِ پشت ڈال کر ملکی معیشت پر ساری توجہ دینی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ سیاست، جمہوریت یا انتخابات کو پسِ پشت ڈال کر معیشت کی بحالی کا جو ایجنڈا ترتیب دیا جارہا ہے یا جس پر سوچ بچار جاری ہے اُس کے پیچھے کون ہے؟ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں حکمران اتحاد کو کسی بھی طور پر نئے انتخابات سودمند نہیں لگتے، اور ان کو لگتا ہے کہ اس کا براہِ راست فائدہ عمران خان کو ہی ہوگا۔ سیاسی لوگوں کی مجبوریاں اپنی جگہ، مگر ملکی سطح پر فیصلہ ساز ادارے بھی اگر اسی طرح سوچ بچار کررہے ہیں تو مزید بگاڑ پیدا ہوگا۔حکومت کے اندر بھی یہ سوچ موجود ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے انتخابات میں ایک برس کی تاخیر کرکے اپنے اقتدار کو آگے بڑھاسکتے ہے۔

اس ساری بات کا مقصد یہ ہے کہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں، حکمران اور طاقت ور طبقات نے ماضی کی سیاسی یا دیگر غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ سیاسی ایڈونچر یا سیاسی مہم جوئی کے نتائج نہ پہلے کبھی درست نکلے اور نہ ہی اب نکل سکیں گے۔ یہ تجربات کرتے کرتے ہم کئی دہائیاں گزار چکے مگر نتیجہ حق میں نہیں نکلا۔ سیاسی نظام کے مقابلے میں غیر سیاسی نظام، عبوری سیٹ اپ یا ٹیکنو کریٹ پر مشتمل معاشی ماہرین کی حکومت، یا براہِ راست فوجی مداخلت… یہ سب تجربے ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم ان سب سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ وجہ صاف ہے کہ ہم کبھی کسی کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں اورکبھی کسی کی مخالفت میں۔ یہی وہ رویہ ہے جو اس ملک میں سیاست اور جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ مسئلے کا حل نئے انتخابات ہیں چاہے وہ اپنے مقررہ وقت پر ہی کیوں نا ہو۔ اس فیصلے سے انحراف کسی بھی صورت میں ملک کے مفاد میں نہیں ،اورجو لوگ بھی انتخابات سے گریز یا فرارکا راستہ دکھارہے ہیں وہ ملک کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ یاد رکھیں معیشت یا سیکورٹی کا سوال بھی براہِ راست ملکی سیاست کے استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ سمجھنا کہ ہم کسی کوبھی نااہل کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرلیں گے،بہت بڑی غلطی ہوگی۔ جب سیاست میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی ہی بات کی جارہی ہے تو اس میں کسی کو باہر بٹھا کر مسئلے کا حل بھی درست حکمت عملی نہیں۔ اس وقت جو حکومت ہے وہ جتنی بھی کوشش کرلے، عملاً ملک سے سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورت حال کو ختم نہیں کرسکے گی۔ جو سنگین معاشی حالات ہیں ان میں حکومت کیسے لوگوں کو معاشی سطح پر کوئی بڑا ریلیف دے سکے گی، اس پر بھی کئی سوالیہ نشان ہیں۔ ایک بات سمجھنی ہوگی کہ آج کی دنیا سوشل میڈیا کی دنیا ہے جہاں لوگوں کے اپنے ہاتھ میں رائے عامہ بنانے کی مشین ہے۔ اس لیے لوگ بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور ان کو بھی احساس ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کا کھیل بدستور جاری ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہماری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ان تمام لوگوں کو واضح پیغام جانا چاہیے جو بلاوجہ اس کو سیاسی معاملات میں دھکیل رہے ہیں۔ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے خلاف سوچ کر اپنی حکمت عملی ترتیب دے رہی ہے۔ کیونکہ ملک کے جو موجودہ حالات ہیں ان میں اسٹیبلشمنٹ کو بہت زیادہ محتاط ہوکر آگے بڑھنا ہوگا۔ وہ اپنے آپ کو جہاں نیوٹرل رکھے، وہیں سیاسی جماعتوں پر دبائو بھی ڈالے کہ وہ خود ہی اپنے سیاسی فیصلوں کے تحت مفاہمت کا راستہ اختیا رکریں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محض سیاسی جماعتیں خود ہی مل بیٹھ کر مفاہمت کا راستہ تلاش کرلیں گی، وہ غلطی پر ہیں۔ مفاہمت بہت دور کی بات ہے وہ تو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ کیونکہ دونوں فریق یہ سمجھتے ہیںکہ مل بیٹھنے سے ہم ایک دوسرے کی سیاسی ساکھ کو قبول کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں سنگین حد تک بداعتمادی بڑھ گئی ہے اور اسی بنیاد پر مفاہمت کا کھیل پس پشت چلا گیا ہے۔ بظاہر اس وقت جو سیاست ہورہی ہے وہ محض ٹکرائو اور اقتدار کے کھیل کی جنگ ہے۔ کسی کے سامنے بڑے اہداف نہیں، بلکہ اپنے اپنے سیاسی مفاد کی جنگ ہے جس میں ہر ایک اپنی سیاسی برتری چاہتا ہے۔ سب یہی چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اُن کی حمایت اور اُن کے سیاسی مخالفین کی مخالفت میں کھڑی ہو۔ اس لیے اس پوری سیاسی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار سب سے اہم ہوگا۔ اسی کردار کی بنیاد پر مستقبل کی سیاسی جنگ کا منظرنامہ بھی نمایاں ہوگا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ خود کو جس حد تک سیاسی انجینئرنگ کے کھیل سے دور رکھے گی اتنا ہی یہ ملک کی سیاست، آئین اور جمہوریت سمیت خود ہماری اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جہاں داخلی مسائل کا چیلنج ہے، وہیں سب سے بڑا چیلنج قومی سیکورٹی سے جڑے مسائل اور علاقائی یا عالمی سیاست کے مسائل ہیں۔ ہمیں مضبوط سیاسی نظام درکار ہے، اور کمزور یا لاچار سا سیاسی نظام یا سیاسی حکومت بناکر آگے بڑھنے کا ایجنڈا کسی بھی طور پرملک کے مفاد میں نہیں ہے۔سب سے بڑا چیلنج اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شفاف، اور سیاسی انجینئرنگ سے پاک انتخابات کا ہے۔ کیونکہ اگر ماضی کی طرح نئے انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرنی ہے، یا انتخابات کی شفافیت کے مقابلے میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے ہیں تو ہمارا سیاسی بحران کم نہیں ہوگا بلکہ یہ نہ صرف بڑھے گابلکہ ہمیں معاشی، سیکورٹی اور ریاستی بحران میں بھی مزید سنگینی دیکھنے کو ملے گی۔