دینیات کی تعلیم کی تحقیر

ہم نے اپنے قومی خرچ پر جو درس گاہیں قائم کیں ان میں بھی ہم نے وہی سارا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جو سرکاری درس گاہوں میں تھا۔ ہم نے کوشش کی کہ ہمارے طلبہ انگریزی بولیں اور انگریزی لباس پہنیں۔ ہم نے کوشش کی کہ وہ انگریزی کلچر ہی کے رنگ میں رنگے جائیں۔ ہم نے کھیلوں میں اور نشست و برخاست میں اور رہنے سہنے میں اور مسائل پر مباحثوں میں، غرض ہرچیز میں یہی کوشش کی کہ ہماری یہ قومی درس گاہیں کسی طرح بھی سرکاری درس گاہوں سے مختلف نہ ہوں….. اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ انگریزی معیار کے لحاظ سے سرکاری درس گاہوں سے نکلے ہوئے لوگوں سے کسی طرح بھی کم تر ہیں…..اس ماحول کے اندر اسلام کی وہ ذرا سی قلم جو ہم نے لگائی وہ آخر اپنا کیا رنگ دکھا سکتی تھی۔ تعلیمی حیثیت سے وہ نہایت کمزور تھی۔ دوسرے کسی نصابِ تعلیم سے اس کا کوئی جوڑ نہ تھا….. اس پر مزید ستم ہم نے یہ کیا کہ اپنے قومی کالجوں میں بھی سرکاری کالجوں کی طرح زندگی کا پورا ماحول اور ذہنی تربیت کا پورا نظام ایسا رکھا جو اسلام کے اس کمزور سے پیوند کے بجاے فرنگیت اور الحاد کے لیے ہی سازگار تھا۔ اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہ تھی جو اس پیوند کو غذا دینے والی ہو، بلکہ ہرچیز عین اس کی فطرت کے خلاف تھی۔

یہ سب کچھ کرکے ہم اس معجزے کی توقع رکھتے تھے کہ دینیات کی اس تعلیم سے حقیقت میں کوئی دینی جذبہ پیدا ہوگا، کوئی دینی رجحان نشوونماپائے گا، اسلام کی قدروقیمت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہوگی اور ان کے اندر اسلامی کیریکٹر پیدا ہوگا۔ حالانکہ قانونِ فطرت کے مطابق اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا اور یہی عملاً برآمد ہوا کہ جن طلبہ کو اس طریقے سے دینیات کی تعلیم دی گئی ان کی نگاہوں سے دین گر گیا اور ان کی دینی حالت مشن کالجوں اور گورنمنٹ کالجوں کے طلبہ سے بھی زیادہ بدتر ہوگئی۔ یہ واقعہ ہے کہ ہمارے کالجوں میں بالعموم دینیات کا گھنٹہ تفریح اور مذاق کا گھنٹہ رہا ہے اور اس نے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کے بجاے رہے سہے ایمان کا بھی خاتمہ کردینے کی خدمت انجام دی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم خود اپنی اولاد کے سامنے اپنے دین کو تمام دوسرے مضامین سے حقیر تر بناکر پیش کریں گے تو اس کی کم سے کم سزا جو قدرت کی طرف سے ہمیں ملنی چاہیے وہ یہی ہے کہ ہمارے بچے ہماری آنکھوں کے سامنے ملحد اور زندیق بن کر اُٹھیں اور اپنے اُن بزرگوں کو احمق سمجھیں جو خدا اور رسولؐ اور آخرت کو مانتے تھے۔

(’اسلامی نظامِ تعلیم‘سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد ۳۹، عدد ۲، صفر ۱۳۷۲ھ، نومبر ۱۹۵۲ء، ص ۶۲، ۶۳)

مجلس اقبال
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

”شکوہ“ علامہ کی مشہور نظم ہے جس میں وہ اللہ کے حضور اپنی ملت کا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ وہ اللہ کریم سے گہری محبت و بندگی کے جذبوں سے سرشار ہوکر ایک لاڈلے غلام کے طور پر کبھی شکوہ شکایت اور کبھی طرح طرح کی اٹکھیلیاں بھی کرتے ہیں اور پھر شکوہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملنے والے جواب کو ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا نام دیتے ہیں، جس میں اپنے ہر سوال کا جواب پیش کرتے ہیں۔ اور نہایت قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ’’شکوہ و جوابِ شکوہ‘‘ کے نام سے طویل شعری سلسلے کا اختتام اس شعر پر کرتے ہیں، جس سے علامہ کے عشقِ رسولؐ کی کیفیات کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب وصول کرتے ہیں کہ دیکھو اگر تم نے میرے پیارے پیغمبرؐ سے سچی محبت و اطاعت اور وفاداری کا ثبوت دیا تو پھر گویا ہم خود ہی تمہارے ہوجائیں گے اور پھر جو تم چاہوگے وہ تمہیں عطا کیا جائے گا، یعنی ایسے سمجھ لو کہ تم اپنی تقدیر اپنے ہاتھ سے لکھنے کا اختیار حاصل کرلوگے۔ یہ اللہ کی طرف سے اس اجر کا اعلان ہے کہ جو میرے نبیِ برحقؐ کے نقشِ قدم کو اپنائے گا تو گویا اُس نے دنیا جہان کی بھلائیاں حاصل کرلیں۔ یہ ابدی سچائی کا حامل شعر ہے جو قیامت تک آنے والے ہر فرد کو مخاطب بنا کر اسے اللہ کی رضا حاصل کرنے کا راستہ بتا رہا ہے۔ یہ قرآن پاک کے اس اعلان کی حقیقت بتاتا ہے کہ اتباع ِرسولؐ کرنے والاتو اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔