قومی اداروں کی زبوں حالی

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے قرار دیا ہے کہ اربوں ڈالر قرض لے کر منصوبے لگانے کی بات ہر کوئی کرتا ہے مگر ملک میں اربوں ڈالر کا جو انفراسٹرکچر پہلے سے موجود ہے اس کی کارکردگی سے متعلق کچھ بتانے کو کوئی تیار نہیں، ماضی میں اربوں ڈالر کے قرضے لیے گئے جنہیں آج عوام بھگت رہے ہیں، عدالت عظمیٰ کی اس رائے کا اظہار منصف اعلیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ میں ریلوے گالف کلب کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اس وقت سامنے آیا جب سیکرٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ ایم ایل ون 9.8 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے اور وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی اس کی منظوری دے چکی ہے، اس پر عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مندرجہ بالا رائے دی۔ فاضل عدالت نے ریلوے کو منافع بخش بنانے اور ریلوے کی اراضی لیز پر دینے سے متعلق جامع منصوبہ دو ہفتے میں پیش کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔ منصف اعلیٰ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر اپنی آنکھوں دیکھی صورت حال بیان کی کہ حالیہ تعطیلات میں انہوں نے سندھ میں ریل کا سفر کیا ہے اور خود دیکھا ہے کہ ریلوے لائنوں کے اطراف آج بھی پانی کھڑا ہے، بارش گرمیوں میں ہوئی تھی مگر پانی اب تک نکالا نہیں جا سکا جب کہ ریلوے افسران نے بتایا کہ بلوچستان میں صورت حال سندھ سے بدتر ہے۔ ’’دی اکانومسٹ‘‘ نے پاکستان کی سڑکوں سے متعلق ضمیمہ شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا:۔ ’’وہ سڑکیں جو کہیں نہیں جاتیں۔‘‘ منصف اعلیٰ نے واضح کیا کہ ملک کو یہ پر تعیش آسائشیں نہیں، کارکردگی اور استعداد کار درکار ہے ، اربوں ڈالر کے منصوبے لگانے سے عدالت متاثر نہیں ہو گی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عدالت کے حکم کی وجہ سے گالف کلب، لاہور کی لیز کا عمل رک گیا ہے، جس پر عدالت نے دو ٹوک رائے دی کہ ریلوے کو زمینوں کی فروخت اور لیز کا لائسنس نہیں دے سکتے۔ مکمل اور جامع منصوبہ بنا کر پیش کریں، تب ہی جائزہ لیں گے۔ عدالتی بنچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے اس مرحلہ پر بتایا کہ کوئٹہ میں ریلوے کے رہائشی کوارٹرز فروخت ہو چکے ہیں، سیکرٹری ریلوے نے عدالت کے روبرو موقف پیش کیا کہ جو زمین استعمال نہیں ہو رہی اسے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، منصف اعلیٰ نے رائے دی کہ ریلوے مالی بوجھ تلے دبا ہوا ہے، ملازمین ضرورت سے زیادہ ہیں، پنشن کا بھی بوجھ ہے، ریلوے وفاقی حکومت سے بطور کمرشل ادارہ کام کرنے کی اجازت کیوں نہیں لیتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے رائے دی کہ کئی جگہ پر ریلوے کی قیمتی اراضی پانچ سو روپے سالانہ پر سو برس کے لیے لیز پر دی گئی ہے اسلام آباد کے پرانے ہوائی اڈے کے قریب زمین پر ہائوسنگ سوسائٹی بن گئی ہے۔ منصف اعلیٰ نے استفسار کیا کہ سیکرٹری ریلوے بتائیں کس زمین پر کیا کرنا چاہتے ہیں، پھر لیز سے متعلق سوچیں گے۔ ادارے اپنی زمینوں کا تحفظ نہیں کریں گے تو تجاوزات ہی ہوں گی…!!!

عدالت عظمیٰ نے قومی اقتصادی صورت حال سے متعلق بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ اربوں، کھربوں کے قرضے لے کر نئے نئے منصوبے لگانے کی بات تو تمام حکومتیں کرتی ہیں مگر یہ بتانے پر کوئی تیار نہیں کہ ماضی میں جو بھاری قرضے لیے گئے وہ قومی مفاد کے کس منصوبے پر خرچ کئے گئے اور قومی تعمیر و ترقی میں ان بھاری قرضوں کا کردار اور حصہ کیا رہا؟ اس وقت ہمارا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، ہر بچہ اپنی پیدائش سے قبل ہی ناکردہ گناہوں کی پاداش میں لاکھوں روپے کا مقروض ہوتا ہے اور اب تو نوبت بہ ایں جا رسید کہ اصل زر تو کجا محض سود کی ادائیگی کے لیے بھی ہمیں مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ یوں ملک کو اپنی سلامتی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ’جوہری صلاحیت‘ جو ہم نے بڑی امنگوں، آرزئوں اور بلند عزائم کے ساتھ بڑی محنت کے بعد حاصل کی تھی، وہ نہ صرف اب بوجھ محسوس ہونے لگی ہے بلکہ اس کا تحفظ بھی مشکل ہو رہا ہے، اگر خدا نخواستہ ہماری جوہری صلاحیت، کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو نہ صرف ہم دنیا کی ساتویں اور امت مسلمہ کی پہلی اور واحد جوہری مملکت کے اعزاز سے محروم ہو جائیں گے بلکہ پاکستان کے دشمنوں کے مذموم عزائم کے سبب وطن عزیز کی سالمیت بھی شدید خطرات سے دو چار ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس صورت حال سے محفوظ رکھے… آمین۔

دوسری جانب صورت احوال واقعی یہ ہے کہ جس وقت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ماضی کے قرضوں کی افادیت سے متعلق استفسار کر رہی تھی، عین اس وقت ہمارے وزیر خزانہ جنیوا میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاکستان مشن کے سربراہ سے مزید قرضوں کے لیے منت سماجت میں مصروف تھے، حکومت کی جانب سے بات چیت کو مثبت قرار دیئے جانے کے باوجود زمینی حقائق یہ ہیں کہ آئی ایم ایف نے مزید قرض کے لیے اپنی کڑی شرائط میں نرمی سے انکار کر دیا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر قرض پر مذاکرات کے لیے اپنا وفد پاکستان بھیجنے پر آمادگی تک ظاہر نہیں کی۔ تصویر کا ایک تیسرا رخ یہ بھی ہے کہ اسی وقت ملک کے وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ارکان اور اعلیٰ حکام کے لائو لشکر کے ساتھ جنیوا ہی میں سیلاب زدگان کی بحالی کے نام پر بھیک مانگنے میں مصروف تھے مگر یہ سب خود سادگی اختیار کرنے اور عیش و عشرت سے ہاتھ کھینچنے پر قطعاً آمادہ دکھائی نہیں دیئے۔ بین الاقوامی اداروں اور بعض دوست ممالک کی جانب سے اگرچہ امداد کا اعلان تو کیا گیا ہے مگر خطرہ یہ ہے کہ ’’تاتریاق از عراق آوردہ شود۔ مارگزیدہ مردہ شود۔‘‘

جہاں تک ریلوے کی تباہی اور زبوں حالی سے متعلق عدالت عظمیٰ کی رائے کا تعلق ہے اس سے اختلاف ممکن نہیں اور یہ تباہی صرف ریلوے تک محدود نہیں بلکہ پی آئی اے اور پاکستان سٹیل مل سمیت ان گنت سرکاری ادارے خسارے کے شکار اور قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں حالانکہ ماضی میں یہ ادارے نہ صرف منافع دیتے رہے بلکہ قومی عزت و وقار میں اضافہ کا باعث بھی رہے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کی اقربا پرروری، بدعنوانی اور بد انتظامی نے ان اداروں کو اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ ان کی اصلاح ناممکن معلوم ہونے لگی ہے، حقیقت یہ ہے کہ تمام قومی اداروں کو آج بھی تباہی سے بچا کر منافع بخش بنایا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے حکمرانوں کی سنجیدگی، اخلاص اور امانت و دیانت کو شعار بنانا شرط لازم ہے جس پر ہمارے حکمران اور حکام کوئی بھی فی الحال آمادہ دکھائی نہیں دیتا…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)