حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ رسو ل کر یم ﷺ نے فر مایا:
” جو شخص یہ چا ہتا ہو کہ اس کے رزق میں فرا خی کی جا ئے یا اس کی عمر دراز کی جا ئے
تو وہ صلہ رحمی (رشتہ دا روں سے اچھا سلو ک) کر ے “۔
(مسلم،کتا ب البر وا لصلۃ) (بخاری ) ( سنن ابی داوُد، جلد اول کتاب الزکوٰۃ :1691
اسلام کے معاشرتی نظام کا سنگِ بنیاد یہ نظریہ ہے کہ دنیا کے سب انسان ایک نسل سے ہیں۔ خدا نے سب سے پہلے ایک انسانی جوڑا پیدا کیا تھا۔ پھر اسی جوڑے سے وہ سارے لوگ پیدا ہوئے جو دنیا میں آباد ہیں۔ ابتدا میں ایک مدت تک اس جوڑے کی اولاد ایک ہی امت بنی رہی۔ ایک ہی اس کا دین تھا، ایک ہی اس کی زبان تھی۔ کوئی اختلاف اس کے درمیان نہ تھا۔ مگر جوں جوں ان کی تعداد بڑھتی گئی، وہ زمین پر پھیلتے چلے گئے۔ اور اس پھیلائو کی وجہ سے قدرتی طور پر مختلف نسلوں، قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہوگئے۔ ان کی زبانیں الگ ہوگئیں۔ ان کے لباس الگ ہوگئے۔ رہن سہن کے طریقے الگ ہوگئے۔ اور جگہ جگہ کی آب و ہوا نے ان کے رنگ روپ اور خدوخال تک بدل دیئے۔ یہ سب اختلافات فطری اختلافات ہیں۔ واقعات کی دنیا میں موجود ہیں۔ اس لیے اسلام ان کو بطور ایک واقعے کے تسلیم کرتا ہے۔ وہ ان کو مٹانا نہیں چاہتا بلکہ ان کا یہ فائدہ مانتا ہے کہ انسان کا باہم تعارف اور تعاون اسی صورت سے ممکن ہے۔ لیکن ان اختلافات کی بنا پر انسانوں میں نسل، رنگ، زبان، قومیت اور وطنیت کے جو تعصبات پیدا ہوگئے ہیں ان سب کو اسلام غلط قرار دیتا ہے۔ انسان اور انسان کے درمیان اونچ نیچ، شریف اور کمین، اپنے اور غیر کے جتنے فرق پیدائش کی بنیاد پر کرلیے گئے ہیں اسلام کے نزدیک یہ سب جاہلیت کی باتیں ہیں۔ وہ تمام دنیا کے انسانوں سے کہتا ہے کہ تم سب ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ہو، لہٰذا ایک دوسرے کے بھائی ہو اور انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہو۔
انسانیت کا یہ تصور اختیار کرنے کے بعد اسلام کہتا ہے کہ انسان اور انسان کے درمیان اصل فرق اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ نسل، رنگ، وطن اور زبان کا نہیں، بلکہ خیالات، اخلاق اور اصولوں کا ہوسکتا ہے۔ ایک ماں کے دو بچے اپنے نسب کے لحاظ سے چاہے ایک ہوں، لیکن اگر ان کے خیالات اور اخلاق ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو زندگی میں دونوں کی راہیں الگ ہوجائیں گی۔ اس کے برعکس مشرق اور مغرب کے انتہائی فاصلے پر رہنے والے دو انسان اگرچہ ظاہر میں کتنے ہی ایک دوسرے سے دور ہوں، لیکن اگر ان کے خیالات متفق ہیں اور اخلاق ملتے جلتے ہیں تو ان کی زندگی کا راستہ ایک ہوگا۔ اس نظریے کی بنیاد پر اسلام دنیا کے تمام نسلی، وطنی اور قومی معاشروں کے برعکس ایک فکری، اخلاقی اور اصولی معاشرہ تعمیر کرتا ہے، جس میں انسان اور انسان کے ملنے کی بنیاد اس کی پیدائش نہیں، بلکہ ایک عقیدہ اور ایک اخلاقی ضابطہ ہے۔ ہر وہ شخص جو ایک خدا کو اپنا مالک و معبود مانے اور پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کو اپنا قانونِ زندگی تسلیم کرے، اس معاشرے میں شامل ہوسکتا ہے، خواہ وہ افریقہ کا رہنے والا ہو یا امریکہ کا، خواہ وہ سامی نسل کا ہو یا آریہ نسل کا، خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ ہندی بولتا ہو یا عربی۔ جو انسان بھی اس معاشرے میں شامل ہوں گے ان سب کے حقوق اور معاشرتی مرتبے یکساں ہوں گے۔ کسی قسم کے نسلی، قومی یا طبقاتی امتیازات ان کے درمیان نہ ہوں گے۔ کوئی اونچا اور کوئی نیچا نہ ہوگا۔ کوئی چھوت چھات ان میں نہ ہوگی۔ کسی کا ہاتھ لگنے سے کوئی ناپاک نہ ہوگا۔ شادی بیاہ اور کھانے پینے، مجلسی میل جول میں ان کے درمیان کسی قسم کی رکاوٹیں نہ ہوں گی۔ کوئی اپنی پیدائش یا اپنے پیشے کے لحاظ سے ذلیل یا کمین نہ ہوگا۔ کسی کو اپنی ذات برادری یا حسب نسب کی بنا پر کوئی مخصوص حقوق حاصل نہ ہوسکیں گے۔ آدمی کی بزرگی اس کے خاندان یا اس کے مال کی وجہ سے نہ ہوگی بلکہ صرف اس وجہ سے ہوگی کہ اس کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں اور وہ خدا ترسی میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہے۔
یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو نسل و رنگ اور زبان کی حد بندیوں اور جغرافیائی سرحدوں کو توڑ کر روئے زمین کے تمام خطوں پر پھیل سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر انسانوں کی ایک عالم گیر برادری قائم ہوسکتی ہے۔ نسلی اور وطنی معاشروں میں تو صرف وہ لوگ شامل ہوسکتے ہیں جو کسی نسل یا وطن میں پیدا ہوئے ہوں، اس سے باہر کے لوگوں پر ہر ایسے معاشرے کا دروازہ بند ہوتا ہے۔ مگر اس فکری اور اصولی معاشرے میں ہر وہ شخص برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہوسکتا ہے جو ایک عقیدے اور ایک اخلاقی ضابطے کو تسلیم کرے۔ رہے وہ لوگ جو اس عقیدے اور ضابطے کو نہ مانیں، تو یہ معاشرہ انہیں اپنے دائرے میں تو نہیں لیتا، مگر انسانی برادری کا تعلق ان کے ساتھ قائم کرنے اور انسانیت کے حقوق انہیں دینے کے لیے تیار ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایک ماں کے دو بچے اگر خیالات میں مختلف ہیں تو ان کے طریقِ زندگی بہرحال مختلف ہوں گے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے بھائی نہیں رہے۔ بالکل اسی طرح نسلِ انسانی کے دو گروہ یا ایک ملک میں رہنے والے لوگوں کے دو گروہ بھی اگر عقیدے اور اصول میں اختلافات رکھتے ہیں تو ان کے معاشرے یقیناً الگ ہوں گے، مگر انسانیت بہرحال ان میں مشترک رہے گی۔ اس مشترک انسانیت کی بنا پر زیادہ سے زیادہ جن حقوق کا تصور کیا جاسکتا ہے وہ سب اسلامی معاشرے نے غیر اسلامی معاشروں کے لیے تسلیم کیے ہیں۔
(تفہیم احکام القرآن، جلد سوم)