اب مرے سامنے آئی ہو تو کیوں آئی ہو؟

محترم عبدالستار اصلاحی صاحب، اسلام آباد سے، سوال کرتے ہیں:
’’آشفتہ سر کسے کہتے ہیں؟‘‘

صاحب! اُستاد اور افسر ہی کو نہیں، آج کل ہر صاحبِ حیثیت شخص کو ’سر‘ کہہ کر مخاطب کرنے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ اب طلبہ و طالبات اپنے اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے اُنھیں ریحان سر، متین سر اور نعمان سر وغیرہ کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’آشفتہ سر‘ کوئی شاعر ٹائپ استاد معلوم ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے سر نے تو یہ بتایا تھا کہ ’آشفتہ سر‘ عاشقِ نامُراد یعنی سر پھرے، سِڑی، سودائی، دیوانے، مجنون، مخبوط الحواس یا بدحواس شخص کو کہتے ہیں۔ میرؔ کا مشہور شعر ہے:

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اِس آشفتہ سری کا

شور، غوغا، غُل غپاڑا، فتنہ و فساد، بغاوت، بلوے اور ہنگامے کو ’شورش‘ کہتے ہیں۔ درجِ بالا شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں میرؔ صاحب سرِ عام غُل غپاڑا کرنے کے الزام اور جنونِ عشق کے کیس میں اندر ہوگئے تھے۔ اندر بھی غُل غپاڑا کرتے رہے۔ اہلِ زنداں عاجز آگئے تو خود ہی اپنا علاج بھی بتادیا کہ اب سنگساری کے سوا اس پاگل پن کا کوئی مداوا نہیں۔

مجازؔ کی مشہور نظم ’’اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو‘‘ کی تقلیدِ معکوس(Parody)کرتے ہوئے ایسی ہی دل خراش داستان اور غالباً اپنی ہی رُودادِ زنداں نذیرؔ احمد شیخ نے بھی بیان کی ہے:

اب مرے سامنے آئی ہو تو کیوں آئی ہو؟
میں نے مانا کہ علاجِ غمِ تنہائی ہو
نقشِ چغتائی ہو، لمبائی ہی لمبائی ہو
حُسنِ شیریں ہو، قلاقند ہو، بالائی ہو
من و سلویٰ ہو جو گردوں سے اُتر آئی ہو
تم کو چھونے میں بھی اندیشۂ رُسوائی ہے
میں نے چھہ سال کی پہلے بھی سزا پائی ہے

جن لوگوں نے پاکستان کے مشہور مصور عبدالرحمٰن چغتائی مرحوم کے مرقعے ملاحظہ فرمائے ہیں اور ان مرقعوں میں حسینوں کی لمبی لمبی منقّش تصویریں دیکھی ہیں صرف وہی تیسرے مصرعے سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

’آشفتن‘ کے معنی ہیں بکھرا ہوا ہونا، منتشر ہونا، پریشان ہونا۔ ’پریشان‘ کے معنی بھی مضطرب اور منتشر کے ہیں۔ افکارِ پریشاں کا مطلب ہے ٹوٹے پھوٹے، بکھرے ہوئے، غیر مربوط خیالات۔ زلفیں بھی پریشان ہوجاتی ہیں۔ شبنم ؔ رومانی کو’کسی‘ نے تسلی دی تھی:

کوئی کہتا ہے یہ مجھ سے کہ پریشان نہ ہوں
میری زلفوں کو تو عادت ہے پریشانی کی

’سر‘ دماغ کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ ’سر پھرا‘ کا مطلب ہے جس کا دماغ پھرا ہوا ہو۔’آشفتہ سر‘ کا دماغ پھر جاتا ہے۔ جس بات کی دُھن لگ جائے بس اُسی دُھن کا ہو رہتا ہے۔ اسی وجہ سے ’آشفتہ سری‘ کی ترکیب مثبت معنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ اقبالؔ اپنی مشہور مسدس ’شکوہ‘ میں جذبۂ ایمانی کو عشق اور ’آشفتہ سری‘ قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے پوچھتے ہیں ’تجھ کو چھوڑاکہ رسولِ عربیؐ کو چھوڑا؟‘

عشق کو، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسمِ سلمانؓ و اویسِ قرنی کو چھوڑا؟

چچا غالبؔ مزدور پیشہ ’کوہ کَن‘ کے جذبۂ جنوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے بہانے اپنا شمار بھی آشفتہ سروںمیں کروا گئے:

پیشے میں عیب نہیں، رکھیے نہ فرہاد کو نام
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا

’آشفتہ حال‘ مصیبت زدہ، پریشان اور مفلوک الحال شخص کو کہتے ہیں، کیوں کہ اس کی زندگی کا نظم بھی بکھر جاتا ہے، سلسلۂ روز و شب منتشر اور بے ربط ہوجاتا ہے۔ ’آشفتہ خاطر‘ یا ’آشفتہ مزاج‘ شخص کی طبیعت ایک کیفیت پر نہیں رہتی، بے چین، بکھری بکھری اور منتشر سی رہتی ہے۔ ’آشفتہ نوا‘ اُسے کہتے ہیں جس کی آواز ہی سے طبیعت کا انتشار اور ذہنی پریشانی ظاہر ہورہی ہو۔ غالبؔ کو توقع تھی کہ

وحشتؔ و شیفتہؔ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبِؔ آشفتہ نوا، کہتے ہیں

’آشفتہ بیانی‘ بھی بے ربط اور غیر مربوط اظہارِ خیال کو کہتے ہیں۔ بقولِ غالبؔ: ’’کیا بیاں کرکے مِرا، روئیں گے یار… مگر آشفتہ بیانی میری‘‘۔ آشفتگی پریشانی، انتشار اور پراگندگی کو کہتے ہیں۔ ’پراگندگی‘ کا مطلب بھی انتشار ہی ہوتا ہے، بکھرا ہوا ہونا۔ ’آشفتہ مُو‘ اُسے کہتے ہیں جس کے بال بکھرے ہوئے ہوں۔ کنایتہً اُس شخص کو کہتے ہیں جو مغموم یا دل گرفتہ ہو۔ غم و ماتم کی حالت میں بال سنوارنے کا خیال کسے رہتا ہے؟ یہی کیفیت پاگل پن میں بھی ہوتی ہے۔آشفتہ سر یعنی دیوانے کو آشفتہ مغز بھی کہا جاتا ہے۔ اقبالؔ نے اشتراکیوںکے شب و روز، ان کے دل و دماغ اور ان کے گیسوؤں سمیت ہر چیز کو منتشر، بے ربط اوردیوانہ پن کا شکار قرار دے کراُن کو یکسرمسترد کردیا:

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد؟
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ سر، آشفتہ مُو

آشفتہ مُو پر یاد آیا کہ برصغیر میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب سر جھاڑ اور منہ پہاڑ بنائے رکھنے کو اشتراکی اور ’ترقی پسند‘ ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ محنت کشوں کے یہ غم خوار حجاموں کی روزی روزگار کے سخت دشمن تھے۔ ڈاڑھی مُنڈاتے تھے، سر اور مونچھیں نہیں مُنڈاتے تھے۔ ان میں سے بہت سے آشفتہ سر، آشفتہ مُو محلوں میں رہ کر جھونپڑوں کا غم کھایا کرتے تھے۔ ان کی ’ترقی پسندی‘ بس اِس حد تک تھی کہ انھوں نے ایک تنظیم برائے ترقیِ انجمن پسند مصنفین بنا رکھی تھی، جس کے وفود یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک جاکر غریبوں کے غم میں شرابیں پیتے اور روبل پاتے۔ یو ایس ایس آر کے پرخچے اُڑ گئے تو انھوں نے اپنا قبلہ کریملن سے بدل کر واشنگٹن کرلیا۔ لبرل ہوگئے۔ روبل کی جگہ ڈالر کمانے لگے۔ایسے ہی ایک صاحب کا لطیفہ مشہور ہے کہ ’تحویلِ قبلہ‘ کے بعد اپنے بال کٹانے باربر کے پاس پہنچے۔ گھنٹوں کی محنت تھی۔ ایک مرحلے پر باتونی حجام نے باتوں باتوں میں اُن سے پوچھ لیا: ’’صاحب! آپ کبھی نیوی میں بھی ملازم رہے ہیں؟‘‘ صاحب نے اعتراف کیا کہ ’’ہاں! کچھ دنوں کے لیے گیا تھا، لیکن اپنے خیالات کی وجہ سے فوراً ہی نکال باہر کیا گیا‘‘۔ پھر حجام کا ہاتھ تھام کر شدید حیرت سے سوال کیا: ’’تمھیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘ حجام نے اطمینان سے جواب دیتے ہوئے انھیں دکھایا: ’’یہ ٹوپی نکلی ہے!‘‘