مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک(دوسرا حصہ)

زندہ قومیں فتح ہی سے نہیں شکست سے بھی بہت کچھ سیکھا کرتی ہیں مگر پاکستان کے اہل اقتدار نے سقوط ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا

تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ملکوں کے ٹوٹنے اور ان کی جغرافیائی حدوں کے بدل جانے کے واقعات اتفاقی یا حادثاتی نہیں ہوتے، ان کے پیچھے ایک طویل ارتقائی عمل ہوتا ہے، تب جاکر حالات منطقی انجام کو پہنچتے ہیں۔ آئیے تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں اور دیکھیں وہ کون سے حالات و واقعات تھے جن کے بطن سے سانحہ مشرقی پاکستان نے جنم لیا۔

بنگالی قوم کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا سیاسی شعور بہت پختہ تھا۔ انہوں نے آمریت اور غلامی سے کبھی مصالحت نہیں کی۔ برصغیر میں انگریز کی غلامی کے خلاف سب سے پہلے راست اقدام اہل بنگال ہی نے کیا تھا۔ سراج الدولہ نے جنگ پلاسی میں حریت کی تاریخ رقم کی۔ 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام لاہور، پشاور، کوئٹہ یا کراچی میں نہیں ڈھاکہ میں عمل میں لایا گیاتھا۔ یہ اعزاز بھی بنگالی مسلمان کو حاصل تھا کہ اس نے 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان پیش کی ۔ 1946ء کے انتخابات جو قیام پاکستان کے لیے ریفرنڈم تھے، ان انتخابات میں بنگالی مسلمانوں کے 96 فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں آئے تھے لیکن مغربی پاکستان کے اہل اقتدار کا رویہ بنگالی مسلمانوں کے ساتھ اول روز سے انتہائی غیر منصفانہ ہی نہیں توہین آمیز بھی رہا۔ انگریز بنگالی مسلمان کو “Non-Martial Race” کہتا تھا، چنانچہ دور غلامی میں انہیں فوج میں نہیں لیا جاتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں نے وہی توہین آمیز سلوک جاری رکھا اور فوج کے لیے ان کے دروازے بند تھے۔ 1960ء کے بعد بنگالی مسلمانوں کو فوج میں شمولیت کا حق حاصل ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان تک 56 فیصد بنگالی آبادی کا فوج میں تناسب 10 فیصد سے آگے نہ بڑھا اور ان میں بھی ایک بنگالی بھی میجر جنرل کے عہدہ تک نہیں جاسکا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے 12فیصد زائد تھی لیکن Law of Parity بنا کر 56 فیصد بنگالی آبادی کو مغربی پاکستان کی 44فیصد کے مساوی قرار دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی اور اس پر ہر سال سیلاب ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق سیلاب ان کی جمع پونجی بہا لے جاتا تھا۔ ایک طرف اہل مشرقی پاکستان 24 سال سے معاشی، معاشرتی اور سیاسی استحصال جاری تھا، دوسری جانب جنرل ایوب صاحب مغربی پاکستان میں نیا عالی شان شہر اسلام آباد بسانے میں مصروف تھے۔

انسانی جبلت ہے کہ وہ بھوک اور ناانصافی تو کسی نہ کسی درجہ میں برداشت کرلیتا ہے لیکن توہین یا تحقیر ایک لمحہ کے لیے بھی برداشت نہیں ہوتی۔ بنگالیوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک وہ سب سے بڑا سبب تھا جس کے باعث اہل مشرقی پاکستان کا پیمانہ صبر چھلکنے لگا تھا۔ پاکستان میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سازشی گروہ اقتدار پر قابض ہوا اور اس نے تحریک پاکستان کے رہنما اور شریف النفس بنگالی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو کسی اخلاقی اور قانونی جواز کے بغیر بڑے توہین آمیز انداز میں برطرف کیا، اس سے بنگالی مسلمانوں کی عزت نفس مجروح ہونا ایک فطری امر تھا۔ اس کے بعد تو بنگالی لیڈروں کے ساتھ غیر آبرو مندانہ سلوک ایک عام روایت بن گئی۔

آخری بنگالی وزیراعظم حسین شہید سہروردی کو جب استعفیٰ دینا پڑا تو تب مشرقی پاکستان میں بے توقیری کا احساس مزید گہرا ہوگیا۔ مگر 1958ء میں جب فوج نے حکومت پر قبضہ جما لیا اور فوجی راج نافذ کردیا، تب حالات نے مزید سنگین رخ اختیار کرنا شروع کردیا۔ بنگالی ہمیشہ سے سیاسی طور پر بیدار قوم تھے، انہوں نے فوجی حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ ادھر فوجی حکومت نے طاقت کے بل بوتے پر بنگالیوں کو کچلنے کی پالیسی اختیار کرلی۔ حسین شہید سہروردی جو پاکستان کے پانچویں وزیراعظم تھے، 1963ء میں ان کا بیروت میں انتقال ہوا۔

ان کی نواسی کا بیان ہے کہ سہروردی مرحوم کے اہل خانہ انہیں مغربی پاکستان میں دفنانا چاہتے تھے لیکن ایوب خان نے اس کی اجازت نہ دی اور انہیں ڈھاکہ میں دفنانا پڑا۔ یاد رہے کہ سہروردی صاحب کے خاندان نے بنگالی ہونے کے باوجود بنگلہ دیش کے بجائے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی اور آج بھی وہ پاکستان میں آباد ہیں۔ ایوب خان کے حواریوں کا رویہ بھی بنگالی مسلمانوں سے کتنا توہین آمیز تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔

الطاف گوہر کہتے ہیں کہ مغربی پاکستان کے گورنر امیر کالاغ، گورنر کانفرنس میں ڈھاکہ گئے ہوئے تھے تو انہوں نے مجھے رات کے کھانے پر بلایا اور اس بات کی وضاحت کردی کہ میں اپنا باورچی ، سبزی، گوشت، مصالح اور پانی ساتھ لایا ہوں۔ الطاف گوہر مزید کہتے ہیں کہ جس طرح انگریز یا امریکن ہم لوگوں کے ہاں دودھ یا پانی نہیں پیتے، مشرقی پاکستان کے معاملے میں ہم بھی یہی احتیاط کرتے تھے۔

جنرل ایوب خان کا رعونت آمیز رویہ مشرقی پاکستان میں شدید احساس محرومی کے دوام کا باعث بنا ۔ایوب خان جب 1962ء کا صدارتی نظام لارہے تھے تو ان کی اپنی کابینہ کے بنگالی وزیر قانون جسٹس ابراہیم نے انہیں متنبہ کیا کہ ان کا یہ عمل لازمی طور پر ملک توڑنے کا باعث بنے گا لیکن ایوب خان نے ان کی تنبیہ کو یکسر مسترد کردیا۔اس کے بعد جسٹس صاحب کابینہ سے علیحدہ ہوگئے۔ یہ ساری تفصیل جسٹس محمد ابراہیم کی طبع شدہ کتاب “Diaries of Justice M.Ibrahim” میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کے جانے کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے جسٹس منیر احمد نے وزیر قانون کا عہدہ سنبھالا۔ وہ خود کہتے ہیں کہ جنرل ایوب نے مجھے بنگالی وزیر رمیض الدین کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدگی اختیار کرلے۔ رمیض الدین نے جواباً کہا کہ ہم 56 فیصد ہیں اور ہم پاکستان ہیں۔ اگر آپ (مغربی پاکستان) علیحدہ ہونا چاہتے ہیں تو شوق پورا کرلیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو “Jinnah to Zia by Justice Munir Ahmed”

1965ء کے صدارتی معرکہ میں مشرقی پاکستان کے لوگوں نے مردانہ وار فاطمہ جناح کا ساتھ دیا لیکن فوج کی قوت قاہرہ کے بل بوتے پر مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا، چنانچہ اگلے دن ڈھاکہ کے سب سے بڑے اخبار نے یہ سرخی لگائی:

’ایک شخص جیت گیا اور 10 کروڑ لوگ ہار گئے‘
1962ء کے آئین کے مطابق صدر کی بیماری یا استعفیٰ کی صورت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کو قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالنا تھا۔ اپنے پورے دور حکومت میں بنگالیوں پر عدم اعتماد کرنے والے جنرل ایوب خان نے دانستہ طور پر بنگالی اسپیکر قومی اسمبلی کو حکومت حوالے کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سونپ دیا۔ اور اس بات کا اعتراف انہوں نے بعد میں ایک انٹرویو میں کہا بھی تھا۔

جنرل ایوب کے دس سالہ دور میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کا معاشی، معاشرتی اور سیاسی استحصال اور ان کے ساتھ بے توقیری کے رویے کو جنرل یحییٰ خان نے مزید پروان چڑھایا۔ اس بادہ مست جنرل نے اپنی نگرانی میں منعقد کردہ 7دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں جب عوامی لیگ واضح اکثریت حاصل کرگئی تو ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے بجائے کچلنے کی کوشش کی اور اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک موخر کرنے کا اعلان کرکے متحدہ پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ اس زیادتی پر جب مشرقی پاکستان میں احتجاجی مظاہرے ہونے لگے تو معقولیت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے عوامی لیگ پر پابندی لگادی اور فوجی آپریشن کی طاقت سے کچلنے کے عمل نے معاملات کو “Point of No return” کی طرف موڑ دیا۔ فوجی آپریشن میں مشرقی پاکستان کی عوام پر جو ظلم ڈھایا اس کا اعتراف خود ان کے مقرر کردہ جنرل نیازی نے اس طرح کیا : ’’یہ غالباً پہلا اور آخری موقع تھا جب کسی حکومت نے اپنی عوام ہی کے خلاف مہلک ہتھیار استعمال کیے۔ ‘‘

جنرل صاحب زادہ یعقوب جو مشرقی پاکستان میں فوج کے سالار اعلیٰ تھے، انہوں نے فوجی آپریشن کی شدت سے مخالفت کی اور معاملات کو مذاکرات سے طے کرنے پر زور دیا۔ جنرل یحییٰ سے ان کی تاریخی خط و کتابت ان کے استعفیٰ پر ختم ہوئی۔ صاحب زادہ صاحب نے 5 صفحات پر مشتمل استعفیٰ میں لکھا کہ طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے اگر امریکہ ویت نام میں چین سے نہ رہ سکا تو آخر ہم کیسے رہ لیں گے۔ جب ان کی بات نہ مانی گئی انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ میں کسی ایسے مشن کا حصہ نہیں بن سکتا جس سے ملک اور فوج دونوں تباہ ہوجائیں، اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس طرز پر کسی فوجی جرنیل کا مستعفی ہونے کا یہ پہلا اور شاید آخری واقعہ ہے۔ ایڈمرل ایس ایم احسن جن کا شمار پاکستان بحریہ کے معماروں میں ہوتا ہے وہ اس وقت مشرقی پاکستان کے گورنر تھے۔ وہ پنڈی میں یحییٰ خانی ٹولہ کے سامنے تن تنہا مشرقی پاکستان کا مقدمہ لڑتے رہے جس پر انہیں ’’مشکل آدمی‘‘ اور ’’بنگالیوں کے ہاتھوں بکا ہوا‘‘ کے القابات سے نوازا جارہا تھا۔ جب ایڈمرل ایس ایم احسن کی بات نہ مانی گئی تو انہوں نے بھی اپنے عوام کے خلاف فوجی آپریشن کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔

جنرل صاحب زادہ یعقوب کے استعفیٰ کے بعد جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کی کمان سونپی گئی۔ جن کا یہ جملہ بڑا مشہور ہوا ’’مجھے لوگ نہیں زمین چاہیے‘‘۔ خدا کی پناہ اس طرح کا رویہ تو دشمن کے ساتھ بھی نہیں روا نہیں رکھا جاتا، کجا یہ کہ اپنے ہم وطنوں کے لیے اس طرح کے جملے کہے جائیں۔ جنرل موصوف نے 24 اور 25 مارچ 1971ء کی درمیانی رات کو فوجی آپریشن ’’سرچ لائٹ‘‘ کا آغاز کیا اور ساتھ ہی عوامی لیگ پر پابندی عائد کردی گئی۔ 27 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان سے غیر ملکی صحافیوں کو نکال دیا گیا۔
(جاری ہے)
ا