جنس کی شناخت کا قانون اور مغربی سیکولرازم کا داخلی بحران

اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ میں بل کی منظوری کو برطانوی وزیراعظم نے متنازع قرار دے دیا

اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے جنس کی پہچان میں اصلاحات کا بل 2022ء (Gender Recognition Reform Bill) پاس کرلیا جس کے تحت اب کوئی بھی فرد اپنی جنس کی تبدیلی کے لیے کسی بھی قسم کے میڈیکل و نفسیاتی معائنے کے بغیر اپنی جنس کو تبدیل کرسکتا ہے۔ اس کے علاؤہ جنس کی تبدیلی کی کم سے کم عمر کی حد 18 سال سے مزید کم کرکے 16 سال کردی گئی ہے۔ یہ بل اسکاٹش پارلیمنٹ نے 22 دسمبر 2022ء کو کثرتِ رائے سے منظور کیا ہے۔ اس بل پر اگر وفاقی حکومت نے کوئی اعتراض نہ کیا تو 28 دن میں یہ برطانوی قانون کا حصہ بن جائے گا، تاہم اس کا اطلاق صرف اسکاٹ لینڈ کے باشندوں پر ہوگا۔ برطانوی آئین کے مطابق اسکاٹ لینڈ کو ایک نیم خودمختار ریاست کی حیثیت حاصل ہے جہاں وہ اپنی پارلیمنٹ منتخب کرسکتے ہیں وہیں وہ اس پارلیمان میں قانون سازی کا حق بھی رکھتے ہیں، لیکن ان قوانین کا دائرئہ کار صرف اسکاٹ لینڈ تک محدود ہوتا ہے۔ اس سے قبل برطانیہ میں جنس کی پہچان کا قانون 2004 موجود ہے جس میں جنس کی تبدیلی کی عمر کم از کم 18 سال مقرر کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی میڈیکل اور نفسیاتی معائنے کے بعد اس فرد کی جنس کی شناخت کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا تھا، اس کے لیے کم سے کم چھے ماہ کا عرصہ درکار تھا جوکہ اس فرد کی جانچ کے لیے ایک عبوری مدت تھی۔ لیکن اب سرٹیفکیٹ کے اجراء کے لیے اس عرصے کو بھی کم کرکے تین ماہ کردیا گیا ہے۔ اس پر برطانوی حکومت کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے اس بل کو متنازع اور برطانوی قانونِ برابری 2010 (Equality Act 2010) کے خلاف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس بل کے پاس ہونے کے باوجود برطانوی حکومت اس کو برطانوی قانون کا حصے بننے سے روکنے کے لیے سیکشن 35 کا استعمال کرے گی۔ سیکشن 35 دراصل ایک ایسا خفیہ ہتھیار ہے جو حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ کسی قانون کو پارلیمان سے پاس ہونے کے باوجود حکومت اس کو ریاستی قانون کا حصہ بننے سے روک سکتی ہے۔ سیکشن 35 کا استعمال برطانوی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا لیکن اب لگتا یہ ہے کہ برطانوی حکومت اس کا استعمال کرنے جارہی ہے، اور اس کے استعمال کے لیے ”قانونِ برابری 2010“ کو بنیاد بناکر سیکشن 35 کا استعمال کیا جائے گا، کیونکہ اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو پھر ایک ہی ملک میں دو قوانین موجود ہوں گے اور اس کے ساتھ ہی چند بنیادی نکات جوکہ خود برطانیہ میں معاشرے کو ایک شدید خلفشار کا شکار کرسکتے ہیں:

1- عمر کی حد کا تعین ایک ایسا معاملہ ہے جو خود برطانوی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ برطانیہ میں بلوغت کی قانونی عمر 18 سال ہے، اس سے کم عمر ہر حال میں بچہ تصور کیا جاتا ہے، لہٰذا کسی کو بھی یہ اختیار دینا دراصل بچوں کو بھی جنس کے تعین کا اختیار دینے جیسا ہوگا، جس کے تباہ کن نتائج پیدا ہوں گے۔

2- پرانے قانون کے تحت میڈیکل اور نفسیاتی معائنے کے بعد ہی کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ مذکورہ درخواست گزار کی جنس کیا ہے۔ اس ضمن میں جنس اور سیکس میں تفریق بھی موجود ہے، یعنی اگر کوئی اعضائے رئیسہ رکھتا ہے لیکن وہ خاتون بننے کی درخواست دائر کرتا ہے تو ایک عرصے تک نفسیاتی معائنے اور چھے ماہ تک مشاہدے کے بعد اُس کو جنس تبدیل کرنے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔ اب کیونکہ دونوں معائنوں کی شرائط ختم کردی گئی ہیں تو کوئی بھی فرد مرد یا عورت بن کر ان حقوق میں دراندازی کرسکتا ہے۔ مثلاً کوئی مرد عورت بننے کی درخواست دے کر بغیر معائنے کے عورت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرکے عورت بن جاتا ہے جبکہ اصل میں وہ مرد ہے، جس کے بعد کھیلوں کے مقابلوں سے لے کر خواتین کی مختص ملازمتوں اور کوٹے پر وہ اصلی خواتین کا حق مارے گا۔

3- خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں میں اضافہ ہوگا، اور اس کے تدارک میں ایک مزید مشکل یہ پیدا ہوگی کہ قانونی طور پر ایک جنس رکھنے والے/ والیوں پر جرائم کے حوالے سے چارج فریم کرنے اور ان کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔

دوسری جانب اس بل کے محرک نے اسے بین الاقوامی قوانین کے مطابق کرنے کی تحریک قرار دیا اور یورپی یونین کے دیگر ممالک جیسا کہ مالٹا اور آئس لینڈ کے قوانین کے قریب تر کرنے کی کاوش قرار کہا ہے۔ یہ بل اسکاٹش نیشل پارٹی کی رکن شونا روبن سن نے قانون سازی کے لیے جمع کروایا تھا، لیکن خود اُن کی پارٹی کے 9 اراکین نے اس بل کے خلاف ووٹ دیا جبکہ ایک رکن نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، دیگر جماعتوں میں اسکاٹش کنزرویٹو پارٹی کے 3 اراکین نے حق میں جبکہ 28 نے مخالفت میں ووٹ دیا، اسکاٹش گرین پارٹی کے تمام 7 اراکین نے بل کی حمایت میں اپنا ووٹ دیا، جبکہ اسکاٹش لیبر پارٹی کے بھی تمام 4 اراکین نے اس بل کی مکمل حمایت کی۔ اور یوں یہ بل 86 ووٹ لے کر پاس ہوگیا، اس کی مخالفت میں محض 39 ووٹ آئے، جبکہ 4 اراکین نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ ادھر خود انگلینڈ میں اس بل کے حوالے سے دلچسپ صورتِ حال ہے۔ ایک جانب کنزرویٹو پارٹی کی حکومت ہے اور اس کی اسکاٹ لینڈ میں نمائندہ جماعت اسکاٹش کنزرویٹو پارٹی کے اراکین کی واضح اکثریت نے اس بل کے خلاف ووٹ دیا ہے اور کنزرویٹو پارٹی کے مؤقف کی بھی حمایت کی ہے، جبکہ دوسری جانب اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کی نمائندہ جماعت اسکاٹش لیبر پارٹی نے اسکاٹ لینڈ میں تو اس بل کی مکمل حمایت کی تاہم انگلینڈ میں وہ اس قانون سازی کی مخالفت بھی کررہی ہے۔ سیاسی طور پر ایسا قانون جس میں وفاقی حکومت اور اسکاٹ لینڈ کی حکومت کی مابین تناؤ پیدا ہو، کسی طور بھی وفاق کے حق میں نہیں ہے، کیونکہ پے درپے واقعات اسکاٹ لینڈ اور وفاقی حکومت میں خلیج مزید گہری کررہے ہیں۔ ابھی چند دن قبل ہی برطانوی سپریم کورٹ نے اسکاٹ لینڈ کی پارلیمان کو اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کا ریفرنڈم کروانے سے روک دیا تھا، جس پر اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سرجن نے کہا تھا کہ آئندہ آنے والے انتخابات خود اس بات کا ریفرنڈم ہوں گے کہ اسکاٹ لینڈ کے عوام برطانیہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اُس وقت بھی یہ بل اسکاٹش نیشنل پارٹی نے پیش کیا تھا۔ اگر اس بل کو برطانوی قانون کا حصہ بننے سے روک دیا جاتا ہے تو یقیناً سیاسی طور پر حالات مزید کشیدہ ہوں گے۔ اس وقت کنزرویٹو پارٹی کی حکومت ہے جوکہ خود عوامی مقبولیت کی کم ترین سطح پر ہے۔ وہ اگر سیکشن 35 کا اطلاق کرکے اس کو قانون بننے سے روک بھی دے تو آئندہ سال ہونے والے انتخابات تک ہی یہ ممکن ہوگا، کیونکہ سروے اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ اب آئندہ آنے والی حکومت لیبر پارٹی کی ہوگی اور اُس وقت لیبر پارٹی کا اصل امتحان ہوگا کہ جنس کی پہچان میں اصلاحات کے بل جیسے متنازع قانون کو اگر وہ برطانوی قانون کا حصہ بناتی ہے تو پھر خود ویلز اور انگلینڈ میں بھی اس کو کبھی نہ کبھی قانون کا حصہ بنانا پڑ جائے گا۔ اِس وقت خود لبرل اور سیکولر کہلانے والا برطانوی میڈیا اس بل کو قانون نہ بننے دینے کے لیے مہم جوئی کررہا ہے، دوسری جانب ماہرینِ قانون، مفکرین اور محققین یہ بات بار بار لکھ رہے ہیں کہ اگر یہ بل قانون کا حصہ بنا تو برطانیہ میں رہی سہی خاندانی و تہذیبی روایات کا بھی خاتمہ ہوجائے گا، دوسری جانب حقوقِ نسواں کی علَم بردار بھی اس پر احتجاج کررہی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ جنس میں تبدیلی کا قانون بلا کسی روک ٹوک کے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ ادھر ٹرانس جینڈر کو شناخت دلوانے کو اس قانون کا محرک قرار دیا جارہا ہے، تاہم اس پر بھی برطانیہ میں شدید تنقید کی جارہی ہے اور اسے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پورے برطانیہ بشمول اسکاٹ لینڈ میں ٹرانس جینڈر کی کُل تعداد آبادی کا محض صفر اعشاریہ پانچ فیصد 0.5)) ہے، اور اُس کو پچھلے قانون سے بھی جنس کی شناخت کا حق حاصل تھا، تاہم اب اس نئی قانون سازی سے خود 50 فیصد سے زائد خواتین کو نہ صرف غیر محفوظ کردیا گیا ہے بلکہ ان کے حقوق کو غصب کرنے کا ایک قانونی جواز بھی فراہم کردیا گیا ہے۔

2004ء سے 2022ء تک محض اٹھارہ سال کی مختصر سی مدت میں جنس کی شناخت کا مسئلہ برطانوی سماج کے تار و پود بکھیر رہا ہے، گوکہ میڈیا میں اس کو خاصا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود برطانوی عوام کی واضح اکثریت اب تک ہم جنس پرستی میں نہ صرف مبتلا نہیں بلکہ اس کو ایک ناپسندیدہ عمل سمجھتی ہے۔ لبرل اور سیکولر ریاستوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ خود اپنی پالیسیوں اور قانون سازی کو بھی مکمل لبرل اور سیکولر نہ بناسکیں۔ اسکاٹش پارلیمنٹ کا بل اس مکمل لبرل حقیقت کا اگر عکاس ہے تو خود ایک اور لبرل حکومت برطانیہ اس کو حدود سے تجاوز قرار دے رہی ہے۔ دنیا کو چاند پر پہنچانے، حیرت انگیز ترقی اور ٹیکنالوجی کے حامل خود اپنی جنس کی شناخت کا مسئلہ حل نہیں کرپارہے ہیں، اور ان کی اپنے قوانین میں ناکامی اور اس سے رجوع خود اس بات کا ثبوت بن جاتا ہے کہ انسانی عقل قدرت کے نظام کے برخلاف اگر کوئی قانون سازی کر بھی لے تو اس کے بھیانک نتائج و اثرات دیکھنے کے بعد وہ خود اس سے رجوع کرنے کی جانب مائل ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک مثال خود برطانوی حکومت کی جانب سے جیل میں رکھے جانے والے افراد کی شناخت کا معاملہ اور اس بنیاد پر اُن کو مرد یا عورتوں کے سیل میں رکھنا تھا۔ گوکہ اس میں بھی میڈیکل و نفسیاتی معائنے کے بعد ان کو مرد یا عورت کے سیل میں بھیج دیا جاتا تھا، لیکن جیل میں خواتین پر جنسی حملوں کے بعد حکومت نے خود جیل قوانین میں ترمیم کرکے اب جنس کے تعین کی بنیاد نفسیات کے بجائے محض جسمانی ساخت کو قرار دیا ہے اور یہی کچھ اسلام نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل بتادیا تھا، اس کے اصول بھی مرتب کردیے تھے، لیکن مغرب اپنے تجربات کی ناکامی کے بعد اسی جگہ پہنچا جہاں اسلام ساڑھے چودہ سو سال قبل پہنچ چکا تھا۔ مغرب کی ترقی کا سفر اور اس کا شاخسانہ بس اتنا سا ہے کہ وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے اس ناکامی کو اپنی ایک نئی دریافت قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد اسلام کے مروجہ اصولوں میں کچھ الفاظ کا ہیر پھیر کرکے اس کو خود اپنی تحقیق و قانون سازی قرار دیتے ہیں۔ یہی کچھ سوشل ویلفیئر اسٹیٹ جیسے اسلامی ریاست کے تصور کے ساتھ ہوا اور اب معاشرتی قوانین میں بھی ہورہا ہے۔ مغرب کا وہ لبرل ازم جو خود مغرب میں قابلِ عمل نہیں اس کو اب اسلامی ریاستوں میں ایکسپورٹ کیا جارہا ہے۔ جب اسلام کہتا ہے کہ کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہوسکتی تو اس کو بنیادی جمہوری روایات کے برخلاف قرار دیا جاتا ہے، لیکن جب ایک پارلیمنٹ کوئی بل پاس کرلے تو اس کے لیے سیکشن 35 کا استعمال کرکے اسے روک دینا عین جمہوری عمل کہا جاتا ہے، کیونکہ اس سے معاشرے کو خطرات لاحق ہیں۔ لیکن مسلمان اب تک کھل کر اس بات کو بیان نہیں کرسکے کہ اللہ اور رسولؐ سے بغاوت اور باغیانہ قوانین سے انسانیت کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور خود مغرب اپنے تجربات کی ناکامی سے اسلام کے اصول و قوانین کی حقانیت کو واضح کررہا ہے۔

جنس کی شناخت کا مسئلہ محض ایک معاملہ نہیں بلکہ مغرب کی ایک واضح ناکامی کا اعتراف بھی ہے اور دوسری جانب اسلام کی حقانیت اور اس کو دینِ فطرت قرار دینے کی عقلی و عملی دلیل بھی۔