گوادر حق دو تحریک کا احتجاج

حکومت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی اور طاقت کا استعمال

پچھلے دنوں گوادر جیسے حساس سیکورٹی زون میں ’’حق دو تحریک‘‘ کے نام سے شدید احتجاج کے باعث گوادر میں سرکاری مشینری رک گئی، چینیوں کا پورٹ سے رابطہ منقطع ہوا، شاہراہیں بند ہوئیں۔ لیکن عالم یہ ہے کہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو محوِ خواب رہے۔ صورتِ حال کی حساسیت سے دانستہ آنکھیں چرائی گئیں۔24دسمبر کو وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو بات چیت کے لیے بھیجے گئے۔ اس خرابی کا محرک ہی دراصل قدوس بزنجو ہیں کہ جنہوں نے پچھلے سال دسمبر میں گوادر جاکر حق دو تحریک کے مطالبات تسلیم کرکے معاہدہ کیا اور ان کا احتجاج ختم کرایا، لیکن کوئٹہ آکر معاہدے پر عمل درآمد فراموش کرگئے، اور لمبی لمبی نیندیں لینے کا مشغلہ جاری رکھا۔ اس طرح گوادر میں نوبت پھر احتجاج، ریلیوں اور دھرنوں کی پیدا ہوئی۔ 27اکتوبر کو دوبارہ دھرنا شروع ہوا جو مسلسل 52، 53 روز جاری رہا، مگر کسی کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔ نتیجتاً حق دو تحریک نے احتجاج میں شدت لاتے ہوئے ایکسپریس وے کو بند کردیا، چینیوں کی نقل و حمل اور حکومتی مشینری مشنری رک گئی۔ حکومت نے 25 اور 26دسمبر کی رات کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دھرنا ختم کرایا۔ حق دو تحریک کے رہنما حسین واڈیلا سمیت دھرنے پر بیٹھے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا۔ مولانا ہدایت الرحمان کی گرفتاری کی کوششیں کی گئیں۔ نتیجتاً حالات مڈبھیڑ پر منتج ہوئے۔ جلائو گھیرائو، گرفتاریو ں اور زدوکوب کے مناظر دیکھے گئے۔ احتجاجیوں کی گرفتاریاں ہوئیں۔ اس دوران خواتین کی بڑی تعداد بھی سڑکوں پر مدمقابل تھی۔ ڈپٹی کمشنر کے گھر اور ڈی آئی جی پولیس کے دفتر کا محاصرہ کیا گیا۔ پولیس شیلنگ کرتی اور مظاہرین پتھر پھینک کر جواب دیتے۔ آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ نے مظاہرین پر پیٹرول بم کے استعمال کا الزام بھی لگایا۔ اس ہنگامے کے دوران ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوا۔ پولیس نے بتایا کہ اہلکار کی موت گردن میں گولی لگنے سے ہوئی۔گوادر کو تربت اور باقی بلوچستان اور کراچی سے ملانے والی شاہراہیں بھی کئی روز بند رہیں۔ گوادر، پسنی، اورماڑہ، جیونی اور سربندر میں چار دنوں تک کاروبارِ زندگی مفلوج رہا۔ کشیدگی کے پیش نظر حکومت نے گوادر میں تقریباً ایک ہفتہ ٹیلی فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس بند رکھی۔ بجلی کی بندش بھی رہی۔ حق دو تحریک کے فعال کارکنوں کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے گئے۔150سے زائد پکڑے گئے۔ مقامی صحافی حاجی عبداللہ سمیت پندرہ افراد کو ڈپٹی کمشنر نے مینٹنسس آف پبلک آرڈر (ایم پی او)کے سیکشن 3 اور 16 کے تحت ایک ماہ کے لیے قید کرکے تربت جیل بھجوادیا۔ نیز مولانا ہدایت الرحمان سمیت حق دو تحریک کے رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف پولیس اہلکار کے قتل، اقدام قتل، دھماکا خیز مواد ایکٹ، انسداد دہشت گردی ایکٹ، کارِ سرکار میں مداخلت، بلوے اور جلائو گھیرائو کی دفعات کے تحت متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

جماعت اسلامی نے پولیس کے کریک ڈائون کے خلاف ملک کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج کیا اور گوادر کے لوگوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ نیشنل پارٹی نے بھی گوادر میں طاقت کے استعمال پر حکومت پر کڑی تنقید کی۔ تاہم بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) اور پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل مطلق خاموش ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ گوادر سے بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی حمل کلمتی کی نشاندہی پر ان کے کارکنوں کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں۔

حق دو تحریک نے چند روز میں دوبارہ احتجاج کا عندیہ دے دیا ہے۔ گوادر تحریک سے بلوچ افراد اثر لیے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے وسائل ہڑپ ہورہے ہیں اور گوادر کی مقامی آبادی فنا ہوجانے کے خطرے سے دوچار ہے۔ صوبے کی حکومت اور محکمہ فشریز سمندر میں غیر قانونی شکار کرنے والے ٹرالرز کے خلاف کارروائیوں کے سطحی اقدامات باور کراکر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی سعی کررہے ہیں، حالاں کہ خود حکومت کے لوگ ٹرالر مافیا کا حصہ ہیں۔ ایران سرحد پر کاروبار کے مواقع اور سہولیات نظرانداز ہیں۔ حالات موافق بنانے اور سدھارنے کے بجائے صوبے اور ملک کی اشرافیہ حکومتوں کی تشکیل کی بھاگ دوڑ میں ہے۔ جبکہ حالات کی خرابی سیکورٹی اداروں کے لیے چھوڑی جارہی ہے۔ صوبے کے اندر مصنوعی کے بجائے حقیقی نمائندے برسراقتدار ہوں تو یقیناً حکومتی رٹ قائم ہوگی۔ رٹ قائم ہوگئی تو ہر محکمہ و ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے گا۔

لاپتا افراد کا مسئلہ حقیقی ہے۔ بڑی تعداد میں نوجوان لاپتا ہیں۔ یہ مسئلہ حقیقت نہ ہوتا تو عدالتی اور حکومتی کمیشن قائم نہ کیے جاتے۔ خود آئی ایس پی آر نے 30 نومبر 2022ء کو کوئٹہ چھائونی کے بلال آڈیٹوریم میں ’’نیشنل ورکشاپ بلوچستان‘‘ (این ڈبلیو بی 10) میں پورا ایک سیشن لاپتا افراد کے حوالے سے بحث کے لیے مخصوص رکھا، جس میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ مدعو تھے۔ نصراللہ بلوچ پوری آزادی سے بولے۔ اس سیشن میں کالم نگار حامد میر، سینئر اینکر عبدالمالک اور تجز یہ کار بیرسٹر سعد رسول شریک ہوئے۔ کالم نگار حامد میر نے کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل آصف غفورکی موجودگی میں کھل کر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ جنرل آصف غفور اُن کے تلخ جملے تحمل اور خندہ پیشانی سے سنتے رہے۔ لاپتا افرادکمیشن کے سربراہ جسٹس فضل الرحمان بازئی نے بات رکھی۔ اس مسئلے کے بارے میں مبالغہ آرائی بھی البتہ کی جاتی ہے۔ ایک تراشے ہوئے کردار کا ذکر حامد میر بھی کرتے رہتے ہیں، اور 24نومبر2022ء کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں ایک بار پھر لکھا ہے کہ ’’بلوچستان کے علاقے کوہلو سے تعلق رکھنے والی ایک اسکول ٹیچر زرینہ مری2005ء سے اپنے شیرخوار بچے سمیت لاپتا ہیں۔ ‘‘ حالاں کہ یہ خلافِ حقیقت ہے۔ زرینہ مری ایک افسانوی کردار ہے۔ اس کی گمشدگی کے خلاف آج تک کوئی فرد دعویٰ لے کر سامنے نہیں آیا ہے۔ نہ اس نام کی کوئی خاتون ضلع کوہلو میں ہے، نہ بچے سمیت لاپتا کی گئی ہے، نہ نادرا ریکارڈ میں موجود ہے، یہاں تک کہ محکمہ داخلہ بلوچستان کی رپورٹ میں بھی اس نام کی کسی خاتون کی متعلقہ ضلع کے محکمہ تعلیم میں ملازمت اور گمشدگی کی نفی کی گئی ہے۔ مذکورہ ورکشاپ میں حامد میر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری میں لاپتا افراد کے حوالے سے سماعت کے موقع پر ان پر حملہ کرایا گیا اور بعد ازاں ان کی سیکورٹی پر مامور ایس پی اور سپاہی بھی قتل ہوا۔ معلوم نہیں میر صاحب کو ایس پی اور سپاہی کے قتل کی خبر کس نے دی ہے؟ جبکہ ایسا کوئی وا قعہ سرے سے رونما نہیں ہوا۔ حملے کی حقیقت یہ ہے کہ ان سے بلوچستان ہائی کورٹ کے احاطے میں کوئٹہ کے ایک معروف پشتون قوم پرست رہنما، سینئر وکیل خالد خان ایڈووکیٹ الجھ پڑے تھے۔ وہ اور ان کے ساتھی وکیل حامد میر کے ایک کالم پر مشتعل تھے جو 24اکتوبر 2011ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا تھا۔ حامد میر نے اس کالم میں ایک برطانوی صحافی’’ لوسی مارگن ایڈورڈ ‘‘کی کتاب سے افغانستان کے تاجکوں کا ایک محاورہ نقل کیا تھا کہ ’’سانپ پر اعتبار کرلو لیکن کبھی کسی طوائف پر اعتبار نہ کرو، اور طوائف پر اعتبار کرلو لیکن کبھی کسی پختون پر اعتبار نہ کرو‘‘۔ خالد خان ایڈووکیٹ کا دعویٰ تھا کہ حامد میر اپنے کالم میں پشتونوں کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یہ ہے دراصل اس حملے کی حقیقت۔ بہرحال لاپتا افراد کا مسئلہ حل طلب ہے، اور یہ حل تبھی ہوگا جب صوبے میں مفاہمت کی فضا پیدا ہوگی۔ جنگ بندی ہوگی تو گمشدگیوں کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ آئے روز سیکورٹی فورسز پر حملے ہوتے ہیں، جن کی ذمہ داری کالعدم بلوچ گروہ دھڑلے سے بغیر ندامت کے قبول کرتے ہیں۔ محض25دسمبر کو کوہلو سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں 9 بم دھماکے ہوئے۔ کوہلو میں ریموٹ کنٹرول بم سے ایف سی کی پٹرولنگ میں مصروف اہلکاروں کی گاڑی نشانہ بنائی گئی جس کے نتیجے میں کیپٹن فہد سمیت پانچ اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ یعنی یہ گروہ آزادی کی جنگ کا دعویٰ رکھتے ہیں، تو ایسے حالات میں لاپتا افراد کا معاملہ حل کیسے ہوسکتا ہے؟ غرض گوادر میں لوگوں کے جائز مطالبات پر سنجیدگی سے پیش رفت ضروری ہے۔ کہیں حالات مزید سنگینی کی طرف نہ چلے جائیں۔ صوبے میں پارٹیاں بنانے اور حکومتیں تشکیل دینے کی کاریگری غیر یقینی حالات کا باعث ہوگی۔