آزادی پسند سیاسی جماعتوں، شخصیات، اسکالرز اور دینی جماعتوں کے گھروں اور جائیدادوں کی ضبطی کا سلسلہ عروج پر
بھارت کشمیر میں ”وقت کم اور مقابلہ سخت“ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے 5 اگست 2019ء کے فیصلے کے زیادہ سے زیادہ مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ ان میں ایک اہم مقصد کشمیریوں کی زمینوں اور جائدادوں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ یہ کشمیر پر فلسطین ماڈل کا اطلاق ہے جس میں مقامی لوگوں کی جائدادیں بحقِ سرکار ضبط کرکے انہیں حکومت کے تصرف میں لانا ہے۔ پانچ اگست کے بعد بھارت نے اس مقصد میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
کشمیر میں آزادی پسند سیاسی جماعتوں، شخصیات اور دینی تنظیموں اور اسکالرز کی جائدادیں ضبط کرنے کا سلسلہ عروج پر ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اسیر آزادی پسند راہنما شبیر احمد شاہ کے مکان کو ضبط کیا گیا تھا، جس کے بعد یہ سلسلہ دراز ہوکر جماعت اسلامی تک پہنچ گیا۔
جماعت اسلامی کشمیر کے طول وعرض میں دفاتر اور تعلیمی اداروں کی صورت میں غیر منقولہ جائدادوں کا وسیع سلسلہ رکھتی ہے۔ ان میں بہت سی زمینیں مخیر حضرات کی طرف سے عطیہ کی گئی ہیں، کچھ عوام کے تعاون سے خریدی اور تعمیر کی گئی ہیں۔
جماعت اسلامی کے ساتھ جمعیت اہلِ حدیث، جماعت اہلِ سنت، اُمتِ اسلامی پارٹی، میر واعظ عمر فاروق کی انجمن نصرت الاسلام اور کئی ٹرسٹ کی زمینیں، جائدادیں بھارتی حکومت کے نشانے پر ہیں۔ دہشت گردی سے متعلق بھارت کا ادارہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کشمیر میں ایسی جائدادوں کا کھوج لگاکر ان پر غیر قانونی یا مشکوک کا ٹیگ لگادیتی ہے، جس کے بعد یہ جائدادیں ضبط کرلی جاتی ہیں۔ جائدادیں ہتھیانے کا ایک سلسلہ اُن گھروں کو قبضے میں لینا ہے جن میں ان کے بقول عسکریت پسند پناہ لیتے ہیں۔ کسی بھی مکان کے عسکریت پسندوں کے استعمال میں لائے جانے کا الزام لگاکر گھر کو قبضے میں لیا جاسکتا ہے۔ اس وقت تک کروڑوں کی جائدادوں کو ضبط کیا جا چکا ہے۔ سری نگر میں ایک ایسے گھر کو بھی مشکوک قرار دے کر ضبط کیا گیا ہے جو کچھ عرصہ حریت پسند راہنما سید علی گیلانی کے زیر استعمال رہ چکا ہے۔ اس گھر کو ضبط کرنے کے عمل کی خوب تشہیر کی گئی۔ سید علی گیلانی کے اہلِ خانہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ گھر تھوڑی مدت سے ان کے زیر استعمال رہا ہے اور یہ جماعت اسلامی کی ملکیت ہے۔ جماعت اسلامی، جمعیت اہل حدیث سمیت تمام جماعتوں کی قیادت اور دوسری تیسری صف کے کارکن جن میں دانشور اور اسکالرز بھی شامل ہیں، گرفتار ہیں۔ یہ جماعتیں اعلانیہ طور پر ممنوعہ قرار دی جا چکی ہیں۔ جماعت اسلامی 1990ء کی دہائی میں اعلانیہ طور پر عسکریت سے لاتعلق ہوچکی ہے۔ وہ اس بات کی تردید کرچکی ہے کہ حزب المجاہدین اس کا عسکری بازو ہے۔ اس کی جائدادیں برس دو برس کا قصہ نہیں پون صدی کی کہانی ہے۔ جماعت اسلامی کا کشمیر میں قیام برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ اُسی وقت سے کشمیر میں دفاتر، لائبریریوں، اسکولوں اور رفاہی اداروں کا قیام عمل میں لایا جاتا رہا۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتوں اور معروف اسکالرز پر عتاب حقیقت میں بڑے مقاصد کی طرف پیش قدمی کا بہانہ ہے۔ وہ مقصد کشمیر میں زمینوں، جائدادوں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول ہے۔ یہ عمل آگے چل کر غیر مقامی آبادکاروں کی ایک طاقت کے طور پر سامنے آئے گا۔
میرواعظ عمر فاروق بیک وقت دینی اور سیاسی شناخت کی حامل اور بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت ہیں، جنہیں کشمیر کے سیاسی کینوس پر ماڈریٹ بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ حریت کانفرنس میں جس دھڑے کی سربراہی ان کے پاس ہے اُسے عالمی میڈیا بھی ماڈریٹ کہتا اور لکھتا چلا آرہا ہے۔ وہ پرویزمشرف من موہن پیس پروسس کا حصہ رہ چکے ہیں، بھارت کے دو وزرائے اعظم سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ وہ کشمیر کے مرکز میں دینی شناخت کی سب سے بڑی علامت جامع مسجد کے ساتھ وابستہ ہیں۔ جامع مسجد برسوں سے پابندیوں کا شکار ہے اور کئی برس تک تالا بندی کا شکار رہی ہے۔ میرواعظ عمر فاروق پانچ اگست سے ایک دن پہلے سے نظربند ہیں اور جامع مسجد میں ان کے خطبہ جمعہ پر پابندی ہے۔ میرواعظ عمر فاروق انجمن نصرت الاسلام نام کی ایک دینی تنظیم کے بھی سربراہ ہیں جس کی جائدادوں کا وسیع سلسلہ ہے۔
یوں لگتا ہے کہ بھارتی حکومت جماعت اسلامی کی جائدادوں کو کنٹرول کرکے اس جانب ہاتھ بڑھانے کی ریہرسل کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کی اب تک ایک بلین روپے کی جائدادیں ضبط کی جاچکی ہیں جبکہ 188 جائدادوں کے گرد سرخ نشان لگادیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اُس وقت تک کسی بھی جائیداد کو ضبط نہیں کرسکتی جب تک کہ عدالت میں یہ بات ثابت نہ ہو کہ مذکورہ جائداد غیر قانونی ذرائع سے بنائی گئی ہے، یا غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس سے پہلے خالصہ سرکار متروکہ املاک جنگلات کی صورت میں وہ تمام رقبہ جات حاصل کیے جاچکے ہیں جو پہلے کشمیر کی مقامی حکومت کے کنٹرول میں تھے جن پر بھارتی حکومت براہِ راست کوئی سرگرمی نہیں کرسکتی تھی۔ اب بھارت کشمیریوں کی جانوں کے ساتھ ان کے مال اور ذاتی املاک کا مالک بھی بن بیٹھا ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ ضبط کی گئی یہ جائدادیں غیر کشمیری سرمایہ داروں کو تجارتی اور رہائشی مقاصد کے لیے فروخت کی جائیں گی اور یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔
سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اسے کشمیریوں کو اجتماعی سزا دینے کے عمل سے تعبیر کیا اور پانچ اگست کے یک طرفہ فیصلے کے حقیقی مقاصد کی تکمیل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص کے دادا کا تعلق جماعت اسلامی سے نکل آئے گا تو کیا اس کی جائداد بھی ضبط کی جائے گی؟ اس طرح تو ہر کسی کو پرانے تعلق اور الزام کی سزا دی جا سکے گی۔
محبوبہ مفتی کا آبائی تعلق جنوبی کشمیر کے جس علاقے سے ہے وہاں مدتوں جماعت اسلامی کا زور رہا ہے اور وہاں سے بدترین حالات میں جماعت اسلامی انتخابی کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔ انہی لوگوں کی اولادوں نے محبوبہ مفتی کی نوتشکیل جماعت کو سیاسی اور انتخابی اسپیس دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ محبوبہ مفتی نے بھی ہر فورم پر حریت پسند کیمپ کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے محبوبہ مفتی ان معاندانہ کارروائیوں کے خلاف بولنے میں خاصی جرات سے کام لیتی ہیں۔ بھارتی دھارے میں سیاست کرنے والی جماعتوں میں انہی کی جماعت پی ڈی پی اِس وقت سب سے زیادہ بھارت کے نشانے پر بھی ہے۔
بہرحال کشمیر میں بھارت اِس وقت پوری طرح اپنے مقاصد کی تکمیل کررہا ہے اور اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی بھی نہیں۔ کشمیر کا جو میڈیا حق گوئی اور جرأتِ اظہار میں اپنی مثال آپ تھا بدترین سینسر اور پابندیوں کا شکار ہے، کئی معروف صحافی جیلوں میں ڈال دیے گئے، کئی ایک کے قلم کی روشنائی چھین لی گئی ہے۔ تحقیق اور شعور و ابلاغ کو طاقت کی بند مٹھی میں مقید اور محصور کرلیا گیا ہے۔ لوگ سرگوشیوں اور اشاروں میں بھی بات کرنے سے گریزاں ہیں کہ مبادا ان پر غداری کا مقدمہ قائم ہوجائے۔ اسی لیے حالات کی اصلی اور سچی تصویر بھی سامنے نہیں آرہی۔ خوف اور دہشت کی ایک ایسی فضا کشمیر میں ہے جس میں آزادی سے سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ عسکریت کو کچلنے، دبانے اور اس کی جڑیں کھودنے کے نام پر کشمیر ایک سائونڈ پروف قید خانے کا روپ دھار چکا ہے جہاں پورے معاشرے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے اور آوازوں کو باہر جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ اب ہر مقتول اور معتوب کی آخری چیخ بھی اس مقتل کی دیواروں سے سر ٹکرا کر گمنامی اور سکوت کی قبر میں اُتر جاتی ہے۔