امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا ڈیجیٹل خطاب اور دورہ سندھ

عوام کو لوٹوں، لٹیروں سے نجات دلانے کا عزم پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی میں کوئی فرق نہیں

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے ذرائع ابلاغ کے جدید دور کے تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے عوام سے ’’ڈیجیٹل خطاب‘‘ کی ایک نئی روایت کا آغاز کیا ہے۔ اس خطاب کے دوران انہوں نے ملک کے ایک ایک شعبے کی زبوں حالی اور مقتدر طبقات کی بے حسی کو تفصیل سے بے نقاب کیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ جماعت اسلامی کو موقع ملا تو آئین و قانون کی بالادستی، عوام کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا کر ملک و قوم کو مصائب اور مسائل کے گرداب سے نجات دلائی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’’ پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ‘‘ کے وعدہ پر وسائل سے مالا مال یہ مملکت عطا فرمائی اور پھر محض چند برس میں پاکستان کو دنیا کی واحد اسلامی جوہری طاقت بنا دیا جب کہ دیگر ممالک نے یہ صلاحیت حاصل کرنے میں بیسیوں برس صرف کئے۔ پاکستان کو خالق نے سونے، چاندی، کوئلے، تیل اور گیس سمیت بے شمار معدنیات سے نوازا تاکہ خوش حال زندگی بسر کر سکیں مگر ان تمام نعمتوں کے باوجود بھی اگر یہاں غربت ناچ رہی ہے، پانچ دریائوں کے باوجود بجلی اور توانائی سے محروم اور لوڈشیڈنگ کے شکار ہیں زرعی اور آٹھواں بڑا گندم پیدا کرنے والا ملک ہونے کے باوجود اگر لوگ بھوکے سونے پر مجبور ہیں، لائیو سٹاک میں پانچواں بڑا، دال میں تیسرا اور چاول پیدا کرنے میں پانچواں بڑا ملک ہونے کے باوجود لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں پر رہتے اور گھروں سے محروم ہیں تو یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا ہے، بدقسمتی کہ قیام پاکستان کے فوری بعد ابھی شہداء کے کفن بھی میلے نہیں ہوئے تھے کہ جھگڑا شروع کر دیا گیا کہ پاکستان اسلامی ملک ہو گا یا سیکولر…آرمی چیف جنرل گریسی کو لگایا گیا جو انگریز تھا، منڈل وزیر قانون، ہندو تھا، جوگندر ناتھ کو وزیر تعلیم اور سر ظفر اللہ کو وزیر خارجہ بنایا گیا جو قادیانی تھا یوں روز اول سے اسلامی نظام کی منزل سے بے گانہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پچھتر برس بعد بھی ہم حقیقی آزادی، خوش حالی، ترقی اور دنیا کے لیے نمونہ بننے سے محروم رہے۔ اس پون صدی کی سیاست لوٹوں، بوٹوں اور نوٹوں کی سیاست ہے ان تینوں نے ملک کا جغرافیہ بدل دیا، ہم ایک قوم نہیں بن سکے، استعمار کے ایجنٹوں نے اس ملک کے لوگوں کو ایک ملت نہیں بننے دیا، عالمی سطح پر بھی ہم تباہی سے دو چار ہیں پورا نظام دجالی قوتوں کے ہاتھ میں ہے ہماری کرنسی کا فیصلہ بھی عالمی بنک اور آئی ایم ایف کرتے ہیں جو اصل میں امریکہ کے آلہ کار ہیں، تعلیمی نظام ان کے قبضے میں ہے، صحت و پیداوار کے فیصلے بھی عالمی ادارے کرتے ہیں دنیا میں پونے دو ارب مسلمان آباد ہیں مگر استعمار کے غلام اقوام متحدہ نامی ادارے میں مسلمانوں کی نمائندگی موجود نہیں، وہاں فلسطین، کشمیر اور مسلمان اقلیتوں کی بات نہیں ہو سکتی۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک ہی مسئلہ ہے کہ قیادت نہ ہونے کے باعث ہمارے وسائل، ہمارے سمندر، حتیٰ کہ ہماری سوچ بھی ان کے قبضے میں ہے، ہمارے ہیرو، وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر، اہم وزیروں تک کا فیصلہ امریکہ کرتا ہے، یہ جتنے بھی سیاسی بونے آپ کو نظر آتے ہیں ان کے شناختی کارڈ پاکستانی اور نام بھی مسلمانوں جیسے مگر ڈکٹیشن ان قوتوں سے لیتے ہیں جن سے آزادی کی خاطر طویل، عظیم اور مقدس جدوجہد کی گئی تھی…!

ملک کی ترقی کے لیے سونے چاندی سے زیادہ موثر عدل، انصاف اور قانون کی حکمرانی ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ایک ملک کفر کے ساتھ تو چل سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ جنگ عظیم میں برطانیہ پر حملہ ہوا تو چرچل نے لوگوں کو جمع کر کے پوچھا کہ کیا ملک میں انصاف ہے؟ تو لوگوں نے اثبات میں جواب دیا تو چرچل نے کہا کہ تو پھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں انصاف ہے گزشتہ دنوں ایک تقریب میں ایک جج نے کہا کہ وہ ہاتھ اٹھائیں جنہیں پاکستان میں نظام انصاف پر اعتماد ہے تو پونے چار سو ججوں اور سینئر وکلاء میں سے کسی ایک نے بھی ہاتھ نہیں اٹھایا حالانکہ مراعات کے لحاظ سے ہمارے جج صاحبان دنیا کے دس اعلیٰ ممالک میں شامل ہیں مگر فراہمی انصاف میں 139 میں سے 130 ویں نمبر پر ہیں حالانکہ مسلمانوں کا کام ہی دنیا میں عدل کا بول بالا کرنا ہے۔ پاکستان میں موٹر سائیکل سوار کو تو ملکیت ثابت کرنے کے لیے کاغذات دکھانا پڑتے ہیں مگر وزیروں، جاگیرداروں، وڈیروں، ارکان اسمبلی سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ تم نے یہ بڑی بڑی جائیدادیں کیسے بنائیں؟ انہوں نے تو اللہ اور رسولؐ کے نظام سے بھی بغاوت کی اور بانی پاکستان قائد اعظم کے اصولوں کو بھی پامال کیا۔ آخر یہ دو پاکستان کب تک چلیں گے؟ … لوگ یہاں سے بھاگ رہے ہیں کہ یہاں عدل و انصاف نہیں…!!

پاکستان پر 62 ہزار ارب کا قرض چڑھ گیا ہے، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک ہی کلچر کے لوگ ہیں، یہ ہزار سال بھی حکمران رہیں تو مسائل حل نہیں کر سکتے ان کے اپنے اثاثوں اور بنکوں کے بیلنس میں ضرور اضافہ ہوتا جائے گا… باجوہ کو آج عمران خاں برا کہتے ہیں حالانکہ جماعت اسلامی کے سوا یہ تینوں بڑی جماعتیں ان کو توسیع دینے میں متحد اور متفق تھیں… انہوں نے پوری قوم کو بند گلی میں دھکیل دیا۔ اب وقت کہ قوم ان سے نجات کے لیے جہاد کرے۔ گوادر کے لوگوں کو مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں انصاف اور اپنا حق مانگنے پر ظلم اور گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ہم اس ظلم و جبر کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے جماعت اسلامی کو موقع دیا تو محلات مسمار کر کے غریبوں کو گھر بنا کر دیں گے ایک عام پاکستانی 44 قسم کے ٹیکس دیتا ہے ہم یہ ٹیکس کم کریں گے۔ ہم آزاد خارجہ پالیسی بنائیں گے، جب تک بھارتی فوج کے مظالم کشمیر میں جاری ہیں بھارت سے دوستی نہیں ہو سکتی۔ ہمیں موقع ملا تو بنجر زمینیں نوجوانوں میں تقسیم کریں۔ 80 ایکڑ ملین ایکڑ میں سے صرف 22 ملین ایکڑ زمین زیر کاشت ہے، ہم یکساں نظام تعلیم دیں گے دیہاتوں میں سہولتیں دیں گے تاکہ لوگوں کو شہر نہ آنا پڑے۔ نوجوان پاکستان کے لیے ایٹم بم سے بھی بڑی قوت ہیں، جنہیں مایوس کیا گیا ہے ہم انہیں تعلیم، روز گار اور مواقع فراہم کریں گے۔ اس نظام میں عورتیں بھی، بہت مظلوم ہیں… ہم با صلاحیت مائوں ، بہنوں کے لیے ایوانوں کے دروازے کھولیں گے… ہم ملک کے تمام طبقات کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہم نے ماضی میں بار بار ثابت کیا ہے کہ ہم قوم کو مصیبت سے نجات دلا سکتے ہیں…!!! ’’فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں بھی جنوں میرا‘‘ کے مصداق امیر جماعت سراج الحق خطاب کے بعد بیٹھ نہیں گئے بلکہ سیلاب سے تباہ حال سندھی بھائیوں کی داد رسی کے لیے روانہ ہو گئے… اور شہر شہر، گائوں گائوں پہنچ کر یہ پیغام دیا کہ 2023ء کا آغاز سندھ کے مظلوم عوام کو سیلاب زدگان کے فنڈز ہضم کرنے والوں سے نجات دلانے کی تحریک سے کریں گے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی میں کوئی فرق نہیں۔ عوام ان سے جان چھڑانے کے لیے ہماری تحریک کا حصہ بنیں اور امن، خوش حالی اور اسلامی نظام کے لیے جماعت اسلامی کے پرچم تلے متحد ہو کر دیانتدار، مخلص اور خدمت گزار قیادت منتخب کریں تاکہ غربت، بے روز گاری اور مہنگائی جیسے مسئلوں سے جان چھوٹ سکے۔

وزیروں، جاگیرداروں، وڈیروں، ارکان اسمبلی سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ تم نے یہ بڑی بڑی جائیدادیں کیسے بنائیں؟ انہوں نے تو اللہ اور رسولؐ کے نظام سے بھی بغاوت کی اور بانی پاکستان قائد اعظم کے اصولوں کو بھی پامال کیا۔ آخر یہ دو پاکستان کب تک چلیں گے؟