نظامِ حکمرانی کے زوال کے اسباب
افلاطون نے کہا ہے کہ سیاست کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ یا تو فلسفی کو حکمران بنادو، یا حکمران کو فلسفی بنادو۔ مغربی فکر میں افلاطون کی یہ اہمیت ہے کہ وائٹ ہیڈ نے کہا ہے کہ سارا مغربی فلسفہ افلاطون کی فکر پر ایک حاشیے یا Foot Note کی حیثیت رکھتا ہے۔ بعض لوگ اس رائے کو مبالغہ آمیز کہتے ہیں۔ بالفرض اگر یہ رائے مبالغہ آمیز بھی ہے تو اس سے مغربی فکر میں افلاطون کی مرکزیت ظاہر ہے۔ مغربی فکر میں اتنی مرکزیت کی حامل شخصیت نے ریاست اور سیاست کو چلانے کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ علم کی بالادستی کے بغیر ریاست و سیاست کو کامیابی کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا۔ افلاطون سقراط کا شاگرد تھا اور سقراط کا صوفی ہونا تقریباً طے نظر آتا ہے۔ افلاطون نے بھی فلسفے کی یہ تعریف بیان کی ہے کہ فلسفہ دانش کی محبت ہے۔ لیکن سقراط اور افلاطون کے یہاں دانش کی محبت سے کیا مراد ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سقراط اور افلاطون وحی اور الہام کی روایت کو حقیقی دانش سمجھتے تھے، اور اسی روایت کی تشریح اُن کے نزدیک فلسفہ کہلانے کی مستحق تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ افلاطون کے نزدیک ایک حکمران کا تصور یہ تھا کہ اسے ’’لازماً‘‘ وحی و الہام کی روایت کا پابند ہونا چاہیے۔ افلاطون کے لیے ریاست اتنی اہم تھی کہ اس نے شاعروں کی ایک خاص قسم کو اپنی مثالی ریاست میں جگہ دینے سے صاف انکار کردیا تھا۔ افلاطون کا کہنا تھا کہ شاعر جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو افلاطون اپنی مثالی ریاست میں مغربی جمہوریت کے علَم برداروں کو پیدا ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتا، اس لیے کہ ان کا وحی و الہام کی روایت سے نہ صرف یہ کہ تعلق نہیں بلکہ وہ وحی و الہام کی روایت کے بدترین مخالف ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو افلاطون خواص نہیں بلکہ ’’خواص الخواص‘‘ کی حکمت کا قائل تھا۔
ہندوئوں کی تاریخ میں رام کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ قرآن و حدیث میں رام کے بارے میں کوئی وضاحت یا صراحت موجود نہیں، لیکن رام کے کردار میں ایسی صفات موجود ہیں جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ رام کا پیغمبر ہونا ممکن ہے۔ رام شہزادے تھے اور اقتدار کے مستحق، مگر اُن کے والد نے اُن کی سوتیلی ماں سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ اپنے بعد اُس کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے کو بادشاہ بنائیں گے۔ رام کے والد کا انتقال ہوا تو رام کے سوتیلے بھائی کو بادشاہ بنادیا گیا اور رام کے لیے یہ سزا تجویز ہوئی کہ وہ چودہ سال جنگلوں میں گزاریں۔ رام کا سوتیلا بھائی رام سے بے پناہ محبت کرتا تھا اور وہ رام کو بادشاہ بنانا چاہتا تھا، مگر رام نے کہا کہ میں اپنے والد کے وعدے کی پاسداری کروں گا۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی سیتا اور سوتیلے بھائی لکشمن کے ہمراہ جنگل کی طرف روانہ ہوگئے۔ بادشاہ بننے والے چھوٹے بھائی نے یہ دیکھا کہ رام بادشاہ بننے کے لیے تیار نہیں تو اُس نے کہا: اچھا آپ جارہے ہیں تو جائیں مگر اپنے جوتے مجھے دیتے جائیں۔ رام نے اپنے جوتے بادشاہ بننے والے اپنے سوتیلے بھائی کے حوالے کردیے۔ اس سوتیلے بھائی نے رام کے جوتوں کے ساتھ یہ ’’سلوک‘‘ کیا کہ انہیں لاکر بادشاہ کے تخت پر رکھ دیا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ چودہ سال تک حکومت رام کے جوتوں کی ہوگی اور ان کا بھائی ریاست کے ایک کارندے کی حیثیت سے حکومت چلائے گا۔ رام اور اُن کے خاندان کے ’’تقویٰ‘‘ کا یہ عالم تھا کہ رام، اُن کی بیوی اور بھائی لکشمن جنگل میں رہتے تھے، لیکن جب راون رام کی بیوی سیتا کو اغوا کرکے سری لنکا لے گیا تو رام نے لکشمن سے کہا کہ اپنی بھابھی کو تلاش کرو، میں ایک سمت میں جاتا ہوں اور تم دوسری سمت میں جائو۔ لکشمن نے کہا: پتا نہیں بھابھی دیکھنے میں کیسی لگتی ہیں، یعنی اُن کی شکل و صورت کیسی ہے، کیوںکہ میں نے آج تک اُن کے پیروں کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔ رام کو بالآخر معلوم ہوگیا کہ اُن کی بیوی کو راون نے اغوا کیا ہے۔ رام نے سیتا کی بازیابی کے لیے راون سے جنگ کی اور اسے شکست سے دوچار کیا، لیکن خود لنکا پر اپنا تسلط قائم کرنا پسند نہ کیا بلکہ راون کے چھوٹے بھائی کو جو فریقین کی معرکہ آرائی سے قبل رام کے ساتھ آکر مل گیا تھا، لنکا کا بادشاہ بنادیا۔ رام اپنے والد کے وعدے کے مطابق چودہ سال تک جنگل میں رہنے کے بعد ملک لوٹے اور اقتدار سنبھالا۔ رام کا دور امن و انصاف اور خوش حالی کا دور تھا اور ہندوئوں کی تاریخ میں اس سے اچھے دور کا تصور موجود نہیں۔ لیکن رام کی حکومت وحی اور الہام کی روایت کے دائرے میں تھی۔
یہودی اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے سب سے بڑے منکر ہیں مگر ان کی تاریخ کا بہترین زمانہ حضرت سلیمانؑ کا زمانہ ہے، اور یہودیوں نے اسرائیل کی ریاست اسی زمانے کی ’’یاد‘‘ میں قائم کی، اور وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اور بات کہ اسرائیل پہلے دن سے ایک سیکولر ریاست ہے اور یہودیوں کی ایک بڑی تعداد خود کہتی ہے کہ اسرائیل کا حضرت سلیمانؑ یا ان کے دورِ حکومت کی یاد سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ اسرائیل خود یہودیوں کے خلاف ’’زائن ازم‘‘ کی سازش ہے۔ لیکن بہرحال یہ حقیقت ہے کہ یہودیوں کے لیے مثالی ریاست کا نمونہ حضرت سلیمانؑ کی ریاست ہے، ایسی ریاست نہ کہیں موجود ہے نہ کبھی موجود ہوگی، لیکن اگر یہودیوں کی روایت میں ایسی ریاست کا تصور کیا جائے تو وہ بھی ’’خواص الخواص‘‘ کی حکومت ہوگی۔
زیربحث موضوع کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیثِ مبارکہ بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ میرے زمانے کے بعد خلافتِ راشدہ ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو منظور ہوگا۔ خلافت کے بعد ملوکیت ہوگی اور اُس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ پسند فرمائیں گے۔ ملوکیت کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اُس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کی مرضی ہوگی۔ لیکن اس کے بعد ایک بار پھر زمانہ خلافت علیٰ منہاج النبوت کی جانب لوٹے گا۔‘‘
اس حدیث شریف سے ہمیں کئی اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اسلام کا تصورِ تاریخ دائروی یا Cyclic ہے، یعنی اسلام کے مطابق مسلمانوں کی تاریخ دائرے کی صورت میں سفر کررہی ہے، چنانچہ اس سفر میں وہ ایک بار پھر ’خلافت علیٰ منہاج النبوہ‘ کے تجربے کی بازیافت کے عمل سے گزرے گی۔ اس کے برعکس جدید مغرب کا تصورِ تاریخ یہ ہے کہ تاریخ خطِ مستقیم میں مسلسل آگے کی طرف سفر کررہی ہے اور وہ کبھی ماضی کے کسی تجربے کی بازیافت نہیں کرے گی۔ مثلاً مغرب کے ممتاز دانش ور جیمز فریزر نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’گولڈن بائو‘‘ (The Golden Bough) میں جس کا اردو میں ’’شاخِ زریں‘‘ کے عنوان سے ترجمہ ہوچکا ہے‘ انسانی فکر کی تاریخ کو یکے بعد دیگرے آنے والے چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ فریزر کے مطابق انسان کی کم سنی کا زمانہ جادو کا عہد ہے۔ انسان نے مزید ترقی کی، مذہب کا عہد شروع ہوا، یہ گویا انسان کی نوجوانی کا عہد ہے۔ انسانی فکر نے مزید ترقی کی تو انسان نے مذہب کے ’’مافوق الفطرت‘‘ مزاج سے جان چھڑائی اور عقل کی بنیاد پر مرتب دور کا آغاز کیا۔ انسانیت کا یہ دور فلسفے کا دور کہلایا۔ یہ انسان کی جوانی کا دور ہے۔ انسانی فکر مزید پختہ ہوئی تو اس نے سائنسی طرزِ فکر کی بنیاد رکھی۔ اور یہ زمانہ انسان کی پختگی کا زمانہ ہے۔ تاریخ کے اس تصور کے مطابق اہلِ مغرب جمہوریت کو ایک ترقی یافتہ سیاسی نظام سمجھتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام اور مغرب کے تصورِ تاریخ میں زمین آسمان کا فرق ہے، اور اسلامی تصورِ تاریخ کی رو سے جمہوریت کا دور کاٹ کھانے والی آمریت کا دور ہے اور یہ دور انسانی، بالخصوص مسلم تاریخ کی رو سے سیاسی زوال کی علامت ہے۔ لیکن مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں بیان ہونے والے چار ادوار کی روحانی اور علمی معنویت کیا ہے؟
اسلام میں حکمرانی چار طاقتوں کا مجموعہ ہے: روحانی طاقت، اخلاقی طاقت، علمی طاقت اور جسمانی طاقت۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانۂ مبارک ان چاروں طاقتوں کی بیک وقت موجودگی اور ان کے نقطۂ کمال کی علامت ہے۔ خلافتِ راشدہ میں براہِ راست وحی کی رہنمائی تو موجود نہیں تھی مگر ’’راشد‘‘ کا مطلب ہے ’’ہدایت یافتہ‘‘ یا The Guidedd One، جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے چاروں خلفائے راشدین کی رہنمائی کا کوئی نہ کوئی انتظام کیا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خلافتِ راشدہ عہدِ نبویؐ کے بعد ’’کمال‘‘ کا استعارہ ہے۔ ملوکیت کا مطلب ہے کہ ملوک ہدایت کے نظام سے محروم تھے، یعنی اُن کی حکومت میں روحانی اور اخلاقی قوت موجود نہ تھی۔ البتہ اُن میں حکومت کی علمی یا انتظامی اہلیت تھی۔ کاٹ کھانے والی آمریت کا مطلب یہ ہے کہ اب حکمران روحانی اور اخلاقی اہلیت ہی سے نہیں بلکہ حکومت کی علمی یا انتظامی اہلیت سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ اب وہ جسمانی طاقت کے زور پر حکومت کررہے ہیں۔ حدیث شریف کے مطابق چونکہ کاٹ کھانے والی آمریت سے حکمرانوں کے زوال کا دائرہ مکمل ہوجائے گا اس لیے تاریخ کو اب ایک نئے آغاز کی ضرورت ہوگی، اور یہ نیا آغاز خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس عہد کی صورت میں مسلم تاریخ ایک بار پھر اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گی۔
مسلمانوں کی عصری تاریخ میں اقبال جمہوریت پر گفتگو کرنے والی سب سے اہم شخصیت ہیں۔ اگرچہ اقبال کی اردو کلیات میں جمہوریت پر نو‘ دس شعر ہی موجود ہیں، مگر ان نو دس شعروںمیں بھی اقبال نے جمہوریت کی مبادیات کو سمیٹ لیا ہے۔ اقبال نے اپنے شعروں میں جمہوریت پر چار بڑے اعتراضات کیے ہیں۔
ان کا پہلا اعتراض مغربی دانش اسٹینڈل کے حوالے سے یہ ہے:
جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جمہوریت ایک معیاری یا Qualitative نظام نہیں ہے، بلکہ ایک مقداری یا Quantitative نظام ہے۔ اس طرح گویا جمہوریت نے پوری انسانی تاریخ کی نفی کردی ہے۔ انسان کی پوری فکری تاریخ معیاری نظام بندی کی تاریخ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی معنویت، اس کا حسن و جمال، اس کی پائیداری، اس کی افادیت معیار سے ہے، مقدار سے نہیں۔ چنانچہ جمہوریت نے گاڑی کے آگے گھوڑا باندھنے کے بجائے گھوڑے کے آگے گاڑی باندھ دی ہے۔ جمہوریت کے مقداری پہلو کے اطلاق سے امام غزالیؒ اور ایک جاہل برابر ہوجاتا ہے۔ جمہوریت کا مزید غضب یہ ہے کہ وہ کم تر سے ’’برتر‘‘ کا انتخاب کراتی ہے، حالانکہ اصولی، اخلاقی اور علمی اعتبار سے کم تر، برتر کے انتخاب کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اقبال نے جمہوریت پر دوسرا بنیادی اعتراض یہ کیا ہے کہ
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جمہوریت کا ’’نیا نظام‘‘ ہونے کا دعویٰ فریب کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’بادشاہت‘‘ جمہوریت کا لباس پہن کر آگئی۔ فی زمانہ اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے۔ کہنے کو امریکہ دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے اکثر فیصلے امریکہ کے عوام نہیں بلکہ امریکی سی آئی اے یا پینٹاگون، امریکہ کا ایوانِِ صنعت و تجارت، ملٹی نیشنلز اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ کرتے ہیں۔ یہ ادارے ’’خواص الخواص‘‘ کی علامت ہیں، یہ الگ بات کہ اُن کی آرا کو عوام کی آرا اور اُن کے فیصلوں کو عوام کے فیصلے کہا جاتا ہے۔ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، لیکن بھارت کے حکمرانوں کی تاریخ کا نصف حصہ نہرو خاندان کی ’’میراث‘‘ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کہنے کو عوامی جماعت ہے لیکن اس پر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کا قبضہ ہے۔ باقی ماندہ بھارتی سیاست پر جرائم پیشہ عناصر کا قبضہ ہے۔ اقبال نے جمہوریت پر تیسرا بنیادی اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے:
تُو نے دیکھا نہیں یورپ کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
چنگیز خان جارحیت اور خون آشامی کی بڑی علامت ہے، لیکن چنگیز خان نے کبھی نہیں کہا کہ وہ انسانی آزادی کا علَم بردار ہے۔ اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ انسانی حقوق کا چیمپئن ہے۔ اس نے کبھی نہیں کہا کہ وہ مساوات اور بھائی چارے کے تصورات پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن مغربی جمہوریت نے آزادی کا نعرہ لگا کر درجنوں اقوام کی آزادی سلب کی۔ اس نے انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرکے انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ رقم کی۔ اس نے مساوات کا پرچم اٹھاکر عدم مساوات، اور بھائی چارے کی مالا جپتے ہوئے انسانی تعلقات کو روندا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چنگیز خان کی پوزیشن جمہوریت اور اس کے علَمب رداروں سے بہتر ہے، اس لیے کہ چنگیز خان کے قول و فعل میں ہولناک تضاد تو موجود نہیں۔ اقبال کا جمہوریت پر چوتھا بنیادی اعتراض یہ ہے:
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مغربی جمہوریت عہدِ حاضر میں انسانی آزادی کی سب سے بڑی علامت ہے، لیکن وہ ایک سطح پر عوام کی پست خواہشات کی خدائی کا اعلان ہے، دوسری سطح پر وہ اکثریت کے جبر کا مظہر ہے، اور یہ دونوں استبداد کی دو مختلف صورتیں ہیں۔ اسلامی اصطلاحوں میں گفتگو کی جائے تو مغربی جمہوریت ’’نفسِ امارہ‘‘ کی علامت ہے، اور اسلامی نظام ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کی علامت۔ جمہوریت نفسِ امارہ سے آغاز کرتی ہے، اس کے دائرے میں سفر کرتی ہے اور اسی کے دائرے میں اس کا سفر تمام ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب اسلامی نظام کے دائرے میں حکمران خود بھی نفسِ مطمئنہ کی علامت ہیں اور وہ مسلم عوام کو بھی نفسِ امارہ کے چنگل سے نکال کر انہیں نفسِ لوامہ، نفسِ مطمئنہ اور پھر نفسِ مطمئنہ کی مزید برتر صورتوں کی طرف لانا چاہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی نظام فرد کو ’’بندگی‘‘ کی سطح پر پہنچاتا ہے اور اس کی بندگی کو کامل تر بناکر اُسے اس کے خالق اور تمام انسانوں کے قریب تر کرتا ہے۔ اس کے برعکس جمہوریت فرد کو اُس کی پست خواہشات اور ادنیٰ مطالبات کی سطح پر پہنچاتی ہے، اور وہ پست خواہشات اور ادنیٰ مطالبات کی نفسیات کو ایک نظام بنادیتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی نظام کا بنیادی تصور لا الٰہ الا اللہ ہے، اور جمہوریت لا الٰہ الاانسان ہے۔ جمہوریت کی تعریف ’’عوام کا نظام، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے‘‘ کا اصل پیغام یہی ہے۔ عصرِ جدید میں علماء کی عظیم اکثریت نے جمہوریت کی اس فلسفیانہ بنیاد کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ مسلم معاشرے میں حاکمیت صرف اللہ کی ہوگی اور قرآن و سنت کے خلاف کسی قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس پوزیشن کا سب سے بڑا مظہر پاکستان اور اس کا ’’اسلامی آئین‘‘ ہے، لیکن 1973ء سے اب تک کا تلخ تجربہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو کبھی آئین کی قید سے نکلنے نہیں دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کا آئین اسلام کا سب سے بڑا زندان ہے، اور یہ صورت جمہوریت کے مجموعی کلچر اور مزاج کے عین مطابق ہے۔