تاریخ کا بدترین اقتصادی بحران

آئی ایم ایف کا ہدف پاکستان کے جوہری اثاثے ہیں

آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے پاکستان کی معاشی صورت حال ہر روز ابتر ہوتی جارہی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میںکمی کا سلسلہ جاری ہے۔ 10 جنوری کو حکومت کو 1.3 ارب ڈالرکی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے جس کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی ہوگی جس میں 3 ارب ڈالر سعودی عرب اور 2ارب ڈالر چین کے سافٹ ڈپازٹ ہیں جن کو ہم استعمال نہیں کرسکتے۔ ہمیں جنوری سے مارچ کے دوران مزید 7 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے۔ یوں بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا دبائو شدید ہورہا ہے۔ دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹ مانگا گیا ہے لیکن آئی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہونے کی وجہ سے دوست ممالک کترا رہے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کو جولائی2022ء سے جون 2023ء تک 23ارب ڈالر ملنے کی توقع تھی لیکن رواں مالی سال کے پہلے 5مہینوں میں صرف 5.1 ارب ڈالر ملے ہیں جس میں سیلاب زدگان کے لیے 435 ملین ڈالر کی گرانٹس بھی شامل ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی ایک اور وجہ پاکستان سے افغانستان ماہانہ 2ارب ڈالر کی اسمگلنگ ہے جس کے باعث آج کل انٹر بینک میں ڈالر226 روپے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 256روپے میں بھی نہیں مل رہا، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ترسیلاتِ زر بینکنگ کے بجائے حوالے یا ہنڈی سے بھیجی جارہی ہیں۔ آئی ایم ایف نے حکومت سے توانائی کے شعبے میں 4 کھرب روپے سے زائد کے گردشی قرضوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جسے کم کرنے کے لیے بجلی کے نرخوں میں 12.7روپے فی یونٹ سرچارج لگانے کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے اخراجات کی وجہ سے بجٹ خسارہ بڑھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کو اپنے وسائل اور بیرونی امداد سے 340 ارب روپے کے اخراجات پر آمادگی ظاہر کی ہے جس کے لیے حکومت جنوری میں جنیوا میں ڈونرز کانفرنس کررہی ہے۔ اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف نے 1800 ارب روپے کے کسان پیکیج پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ملک کی بزنس کمیونٹی نے انہی ایشوز پر صدر ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی ہے جس میں صدر مملکت سے کہا کہ عمران خان ملک میں مارچ میں انتخابات کے لیے حکومت پر دبائو ڈال رہے ہیں، لہٰذا ہمیں 3 مہینے پہلے فوراً عبوری حکومت تشکیل دینا ہوگی لیکن آئی ایم ایف کسی عبوری حکومت سے معاہدے کے لیے تیار نہیں۔ آئی ایم ایف کی دی گئی مدت میں اگر معاہدہ بحال نہیں ہوتا اور ہمیں دوست ممالک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے مطلوبہ فنڈز نہیں ملتے تو بدقسمتی سے ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے جس کے بعد روپے کی قدر میں مزیدکمی ہوگی اور مہنگائی ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے گی۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مفاہمتی گرائونڈ پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں، تمام سیاسی جماعتیں FATF کی طرح یکجا ہوکر ہر صورت آئی ایم ایف پروگرام بحال کروائیں تاکہ ڈالر آنے کے دروازے کھل سکیں اور ملک ڈیفالٹ سے بچ سکے۔

پاکستان نے آئی ایم ایف سے 2019ء میں 6ارب ڈالر کے توسیعی فنڈز کا معاہدہ کیا تھا جسے جون 2023ء تک بڑھاکر 7ارب ڈالر کردیا گیا تھا۔ اس معاہدے کی ساتویں اور آٹھویں 1.1ارب ڈالر کی جائزہ قسط گزشتہ سال اگست میں ادا کی گئی تھی، لیکن آئی ایم ایف نے 1.18 ارب ڈالر کی نویں قسط 3نومبر 2022ء سے روکی ہوئی ہے کیونکہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی بقیہ شرائط پر عمل درآمد نہیں کیا، جس کے لیے آئی ایم ایف نے حکومت کو 15 سے 20 دن دیے ہیں۔ پاکستان سیلاب اور دیگر وجوہات کی بناء پر آئی ایم ایف معاہدے پر نظرثانی کرنا چاہتا ہے کیونکہ عالمی کساد بازاری اور معاشی بحران کے باعث حکومت نئے ٹیکسز عائد کرنے جیسے سخت فیصلے نہیں کرنا چاہتی، تاہم ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ہامی بھری ہے تاکہ اس سال 7470ارب روپے کا ریونیو ہدف پورا ہوسکے۔

ہمیں اس وقت معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی نئی لہر کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کا بنیادی ایجنڈا معیشت کی بہتری اور انسدادِ دہشت گردی تھا۔ قومی سلامتی کے اداروں نے امن و سلامتی کی مجموعی صورتِ حال، دہشت گردی کی حالیہ لہر کے پس پردہ عوامل اور ان کے تدارک کے لیے کیے گئے اقدامات پر بریفنگ دی۔ وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے فورم کو عبوری افغان حکومت کے ساتھ پاکستان کی بات چیت کے بارے میں آگاہ کیا۔ اجلاس میں غالباً یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث کسی بھی کالعدم تنظیم سے اب براہِ راست کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی، تاہم افغان حکومت سے رابطہ رکھا جائے گا، یہی حکمت عملی آگے بڑھائی جائے گی اور مذاکرات کا راستہ بالکل بند نہیں کیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں قومی معیشت کی موجودہ صورت حال اور مستقبل کے امکانات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے شرکاء کو اس ضمن میں تمام ضروری معلومات فراہم کیں جس کے بعد طے پایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور اس کا جاری رکھا جانا موجودہ حالات میں ملک کے لیے ناگزیر ہے۔ حکمتِ عملی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے ساتھ نرم رویہ اپنانے پر راضی کرنے کے لیے امریکہ اور مغربی اتحادیوں کی حمایت حاصل کی جائے گی۔ طے پایا کہ حکومت عملے کی سطح کے معاہدے کی راہ ہموار کرنے اور زیر التوا نویں جائزے کو پورا کرنے کے لیے سخت فیصلے کرکے مطلوبہ اقدامات کو حتمی شکل دے گی۔ سخت فیصلوں کا مطلب دو ہی راستے ہیں، پہلا یہ کہ حکومت منی بجٹ لائے، دوسرا یہ کہ پارلیمنٹ کو بائی پاس کرے اور فیصلہ آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا جائے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے حکومت کو یہی دو راستے اپناکر اضافی ٹیکس اقدامات کا راستہ ہموار کرنا ہوگا۔ ان میں ایک سے تین فی صد تک فلڈ لیوی کا نفاذ اور گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ شامل ہے۔ ان اقدامات سے مہنگائی لازماً مزید بڑھے گی۔ اس صورت حال سے بچائوکے لیے ضروری ہے کہ حکمرانوں کی غیر ضروری مراعات اور اللے تللے ختم کیے جائیں، بجلی اور گیس کے متعین محدود خرچ پر نرخ نہ بڑھائے جائیں اور لازمی غذائی اشیاء کو سبسڈی دے کر عوام کی دسترس میں رکھا جائے۔

یہ بات حکومت کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ معاشی بحران کی آخری حد آچکی ہے، دشمن نے ہماری معیشت دبائو میں رکھنے کے لیے شرائط پر مبنی ایجنڈا طے کرلیا ہے۔ ملک میںسیاسی انتشار اور افراتفری اسی کا شاخسانہ ہے۔ اگر ہم اپنی سرحدوں سے باہر کی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یورپی یونین ایشیا کے قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، برطانیہ امریکی شراکت سے معاشی مفاد کی خاطر سرگرم عمل ہے، وسط ایشیا کی ریاستیں اور جنوبی ایشیا بالخصوص گرم سمندری علاقے دنیا کی معاشی کشمکش کا مرکز بن چکے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے علاوہ مختلف قرضوں کا حساب ظاہر کرتا ہے کہ ماضی میں قرضوں کی رقم ترقیاتی منصوبوں کے بجائے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کی جاتی رہی ہے۔ اس صورت حال کے باعث ہی آج پاکستان دیوالیہ حد تک پہنچا ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک موروثی سیاست اور قیادت کو مسترد نہیں کیا جاتا۔ آئی ایم ایف سے نجات بہت آسان ہے، اس کے لیے صرف عوام کا اعتماد و تعاون چاہیے۔ ہمارے داخلی حالات میں امریکی CIAکے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان سے لوٹ کر جس پیسے کی غیر ملک میں سرمایہ کاری کی گئی ہے، صرف اس کے تحفظ کی یقین دہانی پر خارجہ پالیسی عالمی ایجنڈے کا حصہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان کے گرد شکنجہ تنگ ہورہا ہے، آئی ایم ایف کا ہدف جوہری اثاثے ہیں۔ بھوک اور غربت کے ستائے ملک میں دشمن نے جال پھیلادیے ہیں تاکہ پاکستان کو مفلوج کردیا جائے۔ دوسری طرف معاشی غارت گروں کی منصوبہ بندی نے عوام کو غربت و بے روزگاری کا شکار بنالیا ہے۔ بڑھتی مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی نے لوگوں کا جینا عذاب بنادیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی پروگرام نہیں کیونکہ موروثی سیاست صرف اپنے خاندان کو بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ قومی سلامتی کی کمیٹی، نحیف فیصلوں کے بجائے ٹھوس فیصلے کرے، اشرافیہ کو دی گئی کھربوں روپے کی مراعات و رعایات بیک جنبش قلم واپس لی جائیں، قومی سلامتی کی کمیٹی مستقل علاج کی منصوبہ بندی کرے۔ عیش و عشرت کی ہائوسنگ سوسائٹیز کا پاکستان غربت کے سمندر میں نہیں ٹھیرسکتا۔ ایک غریب و پسماندہ ملک میں یہ لائف اسٹائل نہیں چل سکتا۔ سب کچھ بدلنے اور بہتر معاشی ماڈل لانے کے لیے آئین اور معیشت سے متعلق شرعی عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد ضروری ہے، ورنہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام ختم نہیں ہوگا اور مسلسل تکرار جاری رہے گی، اور پاکستان کو سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا بھی سامنا رہے گا۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتِ حال ہے، جبکہ ملک کے معاشی منظرنامے میں کسی واضح تبدیلی کے امکانات بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ صرف بیرونی قرضوں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اندرونی قرضوں کے بڑھتے ہوئے دبائو کی وجہ سے بھی ملک دیوالیہ ہونے کے نزدیک ہے، اور بینکوں کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ جاری نہ ہوپانے کی وجہ سے صنعتی پیداوار شدید متاثر ہورہی ہے، بہت سے صنعتی ادارے بند ہوچکے ہیں یا پھر جزوی طور پر کام کررہے ہیں۔ یہ سب ہماری پالیسیوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم بحران کا شکار ہیں۔ موجودہ مالیاتی ٹیم کی موجودگی میں ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے نکل پانے کی امیدیں بہت کم ہیں۔ اندرونی استحکام اور ایٹمی قوت کی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے۔

قومی اسمبلی کی مدت اگست 2023ء میں پوری ہوجائے گی، جبکہ ملک میں اس وقت قبل ازوقت انتخابات کے امکانات نہایت کم ہیں۔ عام انتخابات کے انعقاد میں صرف 8 ماہ کا وقت رہ گیا ہے، جبکہ سیاسی جماعتوں کی تکرار کی وجہ سے ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد مشکوک لگ رہا ہے۔ اس سے صورتِ حال مزید غیرمستحکم ہوسکتی ہے۔ اگرچہ عسکری قیادت سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے دُور رہنے کا اعادہ کرچکی ہے لیکن اس کے باوجود وہ سیاسی منظرنامے پر اثرانداز ہورہی ہے۔ اب یہ اسٹیبلشمنٹ کا امتحان ہوگا کہ وہ اقتدار کے اس کھیل میں کیسے غیر سیاسی رہتی ہے۔

سب سے آخر میں ایک اہم معاملے کی جانب توجہ مبذول کرانا بھی بہت اہم ہے۔ ملک کے سیاسی حلقوں میں ایک بحث چھڑی ہوئی ہے اور سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے سیاسی کردارکی کہانی کی گرہ کھل رہی ہے۔ یہ راز پہلے بھی سامنے آتا رہا تاہم اسے اقتدار کی لڑائی سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، لیکن اب تحریک انصاف کے سربراہ جس طرح راز اگل رہے ہیں، اس سے سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے الزامات پر یقین کرنا اب مشکل نہیں رہا۔ ایک شوشا یہ بھی چھوڑا جارہا ہے کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت بن رہی ہے۔ آئین میں تو ایسی حکومت کی گنجائش نہیں، عدلیہ کی دہلیز پر یہ معاملہ پہنچا تو وہ آئین اور قانون سے بالاتر فیصلہ کیسے دے گی؟ ہوسکتا ہے کہ معاشی بحران ہی کسی کو غیر آئینی آپشن پر سوچنے کے لیے مجبور کررہا ہو۔ یہ بھی تجویز دی جارہی ہے کہ فوج اور عدلیہ کو آئینی طور پر کسی کردار کے لیے راستہ دیا جائے تاکہ ان کی مداخلت بھی روکی جائے اور ان کی صلاحتیوں سے بھی فائدہ اٹھایا جائے۔ اور آئین انہیں یہ راستہ کیسے دے گا؟ اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کی تجویز ماضی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور رضا ربانی کی جانب سے بھی آچکی ہے۔ ماضی میں ڈائیلاگ کے نتیجے میں نیو سوشل کنٹریکٹ کی نوازشریف بھی حمایت کرچکے ہیں۔ اگر کوئی میثاقِ جمہوریت ہوتا ہے تو بعض سیاسی جماعتیں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف اس کا حصہ نہیں ہوگی۔ پہلے میثاق جمہوریت میں کون شامل ہوگا اور کون باہر رہے گا، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، تاہم سب اس میں شامل ہوں تو بات بن سکتی ہے، ورنہ وہی ڈھاک کے تین پات والی بات رہے گی۔ سیاسی قوتوں کو یہ آپشن قبول کرنے، نہ کرنے کے لیے کھلے دل سے باہمی مشاورت اور بحث کرنی چاہیے۔ ایک راستہ تو یہ ہے کہ ملک کی تمام پارلیمانی اور بڑی سیاسی جماعتیں مذاکرات کی میز پر آئیں اور ملک میں عام انتخابات کے لیے پیش رفت ہو۔