فرائیڈے اسپیشل 2022 ایک نظر میں (دوسرا اور آخری حصہ)

سیاست کی طرح پاکستانی صحافت میں بھی گندگی بھری ہوئی ہے، لیکن سیاست کی طرح صحافت میں بھی کچھ لوگوں اور اداروں نے اپنے اچھے پن کو نمایاں کررکھا ہے اور سخت نامساعد حالات میں ضمیر کی آواز کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ صحافت میں ذمہ داری اور سنجیدگی کا دوسرا نام فرائیڈے اسپیشل ہے جس نے اہم ایشوز اور واقعات پر رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ذیل میں فرائیڈے اسپیشل کے جنوری 2022ء سے دسمبر 2022ء تک کے 51شماروں کے جائزے کا دوسرا حصہ پیش کیا جارہا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فرائیڈے اسپیشل نے کن کن موضوعات اور ایشوز کا احاطہ کیا ہے۔

2022ء میں فرائیڈے اسپیشل یکم اپریل کے شمارے میں شاہنواز فاروقی نے ”اسٹیبلشمنٹ کس کے ساتھ ہے؟“ کے عنوان سے لکھا کہ ”بدقسمتی سے پاکستان کا پورا کلچر بھی پاکستان مرکز ہونے کے بجائے ’’اسٹیبلشمنٹ مرکز‘‘ ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی رہنما اسٹیبلشمنٹ کی ’’پروڈکٹ‘‘ ہیں۔ بھٹو صاحب جنرل ایوب کی کابینہ میں تھے اور انہیں ڈیڈی کہتے تھے۔ نوازشریف جیسا بدعنوان اور بھارت پرست سیاست دان بھی جرنیلوں کا پیدا کردہ ہے۔ جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم بنایا۔ یہ جرنیل ہیں جنہوں نے بڑی بڑی جماعتیں تخلیق کیں۔ جنرل ایوب نے کنونشن لیگ بنائی، جنرل ضیا الحق نے جونیجو لیگ کو جنم دیا، جنرل پرویزمشرف نے قاف لیگ خلق کی۔ پاکستان میں جتنے نام نہاد الیکٹ ایبلز ہیں وہ سب اسٹیبلشمنٹ کی جیب میں پڑے ہوئے لوگ ہیں۔ اس صورتِ حال نے پاکستان کی سیاست کو الف سے یے تک اسٹیبلشمنٹ زدہ بنادیا ہے۔“ اس طرح  شمارے میں ”رمضان، قرآن اور ایمان“ کے عنوان سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا خصوصی مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے رمضان کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ ”روزے کا ایک اہم مقصد معاشرے میں موجود غربا و مساکین اور ناداروں کی بھوک، پیاس اور ضروریات کا احساس دلانا بھی ہے۔“

”ری بلڈ کراچی… ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ.. ماضی حال اور مستقبل“ کے عنوان سے اے اے سید، ”او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس، چین کا مسلم ممالک…“ مسعود ابدالی، ”صدارتی ریفرنس پر سماعت.. عدالت کا فیصلہ کیا ہوگا؟“ میاں منیر احمد، 8 اپریل کے شمارے میں اداریہ کا موضوع ”ملک کو درپیش سیاسی و آئینی بحران“ حامد ریاض ڈوگر، ابونثر نے غلطی ہائے مضامین میں ”قصہ موَالیوں کا“ کے عنوان سے، جب کہ ”ڈاکٹر اسرار احمد کے یوٹیوب چینل کی بندش“ پر اے اے سید نے لکھا۔

15اپریل کے شمارے میں ”باقیاتِ اقبال“ حامد ریاض ڈوگر کا تبصرئہ کتب تھا۔ ”پاکستان کی دھماکہ خیز سیاسی صورتِ حال“ شاہنواز فاروقی، ”جمہوریت کا چیلنج اور سیاسی جنگ“ سلمان عابد، ”نیو بورن/ پری میچور نیوبورن نومولود قبل ازوقت بچے“ ڈاکٹر اظہر چغتائی کا عنوان تھا۔ مکھن کی کہانی کے عنوان سے ابوالحسن اجمیری نے لکھا کہ ”مکھن سے ہماری محبت فطری چیز ہے کیونکہ یہ ہمارے ورثے کا حصہ رہا ہے۔ شمال مغربی ترکی میں 6500 قبل مسیح کے برتنوں میں دودھ کی چربی کی باقیات ملی ہیں“۔ ”کیا سیاسی بحران ٹل گیا ہے؟“ سلمان عابد، ”متحدہ حزب اختلاف متحدہ حکومت بن گئی“ میاں منیر احمد، ”امریکہ کی سفارتی تنہائی“ مسعود ابدالی، ”مستقبل کے پاک بھارت تعلقات میں کشمیر کا مقام“ سید عارف بہار، ”غزوۂ بدر، شوکتِ اسلام، شکستِ کفار“ حافظ ادریس، ”حسین خاں، جاپان میں“ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مضامین کے عنوان تھے۔

22اپریل کے شمارے میں ”خود اعتمادی اور مسلمان حکمراں“ کے عنوان سے سید ابوالحسن ندوی کا مضمون شائع کیا گیا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ”خود اعتمادی انسان کی بہترین دولت ہے، اور ہر زمانے میں انسان اس سے متمتع ہوتا رہا ہے“۔ ”مشرق، مغرب اور جدید سائنس“ پر مرحوم ملک نواز احمد اعوان نے تبصرئہ کتب لکھا تھا، اسی طرح  ”مغرب کیا ہے؟ کیا مغرب زوال کی جانب گامزن ہے؟“ میں ڈاکٹر اسامہ شفیق نے لکھا کہ ”مادی ترقی کو سب کچھ سمجھ لینے والا مغرب آج خاندانی نظام کے زوال کا شکار ہے جو کہ لامحالہ مغرب کے نظام کی شکست و ریخت پر منتج ہوگا“۔ ”دائم آباد رہے گا داماد“ احمد حاطب صدیقی، ”کنڑ اور خوست میں بمباری“ جلال نورزئی، ”نئی حکومت اور سیاسی و معاشی چیلنجز“ سلمان عابد، ”ہند امریکہ سربراہی ملاقات.. صدر بائیڈن، مودی جی کو قائل نہ کرسکے“ مسعود ابدالی، ”اتحادی حکومت کا قیام“ تاثیر مصطفیٰ کا عنوان تھا، جب کہ شاہنواز فاروقی نے ”پاکستانی سیاست کی تعمیر میں مضمر ہے ہر صورت خرابی کی“ میں لکھا کہ ”پاکستان کی سیاست کی ایک بہت بڑی بیماری اس کا ’’امریکہ مرکز‘‘ یا America centric ہونا ہے۔ امریکہ کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر کا مشہور زمانہ قول ہے کہ امریکہ کی دشمنی ’’خطرناک‘‘ ہے اور اور دوستی ’’جان لیوا‘‘۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے امریکہ کے حوالے سے زیادہ خطرناک چیز ایجاد کی۔ یہ تھی ’’امریکہ کی غلامی‘‘۔ امریکہ کی غلامی ایسا زہر ہے جو کسی قوم کو زندہ رہنے دیتا ہے نہ مرنے دیتا ہے۔“

29اپریل کے شمارے میں ”ابر آلود سیاسی افق“ میاں منیر احمد، ”افغان وزیراعظم کا شہبازشریف کو پیغام“ میاں منیر احمد، ”کچھ خیالات ساسوں کے، کچھ سسروں کے“ احمد حاطب صدیقی، ”ماحول کا تو ہم سوچ ہی نہیں رہے، موسمیاتی تبدیلی“ ابوالحسن اجمیری کے مضمون کا عنوان تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ”زیادہ سے زیادہ شہر بسانے کے لیے جنگلات کا رقبہ کم کرنے کا بھی رجحان سا چل پڑا ہے۔ یہ مسئلہ بھی عالمگیر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہروں کو منظم انداز سے وسعت دی ہے مگر ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث شہر بے طور بڑھ رہے ہیں اور اِس کے نتیجے میں جنگلی حیات کے لیے گنجائش کم ہوتی جارہی ہے۔ درختوں کی بہتات والے علاقے اب تیزی سے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔“ جب کہ شاہنواز فاروقی نے ”مغرب کی مزاحمت مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ“ کے عنوان سے لکھا کہ ”مسلمان مغرب کی مزاحمت نہیں کریں گے تو وہ کبھی روحانی، اخلاقی، علمی، تہذیبی اور سیاسی طور پر صحت مند نہیں ہوسکیں گے۔ امام غزالیؒ نے ایک بار فرمایا تھا: اگر آپ زندہ ہیں تو غلط باتوں کی مزاحمت کرنا سیکھیں، کیوں کہ لہروں کے ساتھ لاشیں بہا کرتی ہیں تیراک نہیں۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ مغرب کی مزاحمت نہ کرنے والے ایک ارب 80 کروڑ مسلمان، مسلمان ہیں یا لاشیں؟“

6 مئی کو شمارہ شائع نہیں ہوا تھا۔ 13مئی کے شمارے میں شاہنواز فاروقی نے ”انسانی تاریخ میں عوام کی طاقت پرستی“ کے عنوان سے لکھا تھا کہ ”آج پوری دنیا پر مغرب کے سیاسی غلبے کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری دنیا کی سیاست مغرب کی سیاست ہے، پوری دنیا کی معیشت کا ماڈل مغربی ہے، پوری دنیا مغربی لباس زیب تن کیے ہوئے ہے، پوری دنیا مغرب کی زبانیں سیکھ رہی ہے، مغرب کی فلمیں دیکھ رہی ہے، مغرب کی موسیقی سن رہی ہے، مغرب کے کھانے کھا رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ آدھی سے زیادہ دنیا پر سوویت یونین کا سیاسی غلبہ تھا۔ چنانچہ آدھی سے زیادہ دنیا کا سیاسی نظام بھی سوشلزم سے ماخوذ تھا، ان کی معیشت کا ماڈل بھی سوشلزم سے برآمد ہورہا تھا، ان کا تصورِ ادب یہ تھا کہ ادب کو ’’سوشلسٹ ادب‘‘ ہونا چاہیے۔ آج سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے، سوشلزم کو فنا ہوئے مدتیں ہوگئی ہیں۔ چنانچہ اب پاکستان جیسے ملکوں میں بھی سابق سوشلسٹ عناصر سوشلزم کو گالیاں دیتے ہیں“۔ میاں منیر احمد نے ”انا کی جنگ“، مسعود ابدالی نے ”ترک صدر طیب اردوان کا دورئہ سعودی عرب“ پر لکھا، اور ”محاذ آرائی کی سیاست اور سیاسی استحکام“ سلمان عابد کے کالم کا عنوان تھا۔

”بلاسود معیشت: ماضی، حال، مستقبل“ کے عنوان سے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے سوال اٹھایا کہ کیا اسلامک بینک حقیقت میں بلا سود بینکاری کرتے ہیں؟ انہوں نے لکھا کہ ”پاکستان میں اسلامی بینکاری کے نام پر جو نظام وضع کیا گیا ہے وہ سودی نظام کے نقشِ پا پر ہے، اور بینکوں کی متعدد پروڈکٹس کے اسلامی اصولوں کے مطابق نہ ہونے کے متعدد شواہد موجود ہیں اور ان میں سود کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے جس کو درست کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر ان ’’اسلامی بینکوں‘‘ کو ’’سودی بینک‘‘ قرار نہ دیا گیا تو یہ سنگین خطرہ موجود ہے کہ مستقبل میں نیک نیتی یا بدنیتی سے ان ’’اسلامی بینکوں‘‘ کو عدالتوں کی جانب سے بھی غیر اسلامی قرار دیا جا سکتا ہے جس کے نتائج کا سوچ کر روح بھی کانپ جاتی ہے“۔ ”کراچی سمیت سندھ میں پانی کا بحران“ اے اے سید، ”اسلامی ملک کا نظام کون لوگ چلا سکتے ہیں؟ حقیقی تبدیلی کے لیے درکار خصوصیات؟“ اسد احمد کا عنوان تھا۔

20مئی کے شمارے میں ”فیصلہ کن گھڑی“ میاں منیر احمد، ”متحدہ حزب اختلاف سے حزبِ اقتدار تک پست ذہن قیادت کے…“ شاہنواز فاروقی، ”کے الیکٹرک کے ہاتھوں یرغمال کراچی… جماعت اسلامی سراپا احتجاج“ اے اے سید، ”افغانستان:نئی جنگ مسلط کرانے کی سازش“ جلال نورزئی کے مضمون کا عنوان تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ”افغانستان میں امن کے تسلسل، اس کی جغرافیائی سلامتی اور وحدت کے خلاف ایک بار پھر مسلح جتھہ بندی کے جال بُنے جارہے ہیں۔ افغانستان کا استقلال عوام کی 20 سال کی طویل جدوجہد کا حاصل ہے۔“ ”ماحولیاتی تباہی:گرم کرۂ ارض پر گزر بسر“ ناصر فاروق، ”کیا فرق ہے محاورے اور کہاوت میں“ احمد حاطب صدیقی، ”کیا نیا نظام آرہا ہے؟ کیا چین آگے بڑھ رہا ہے؟“ ابوالحسن اجمیری کا عنوان تھا۔

27مئی کے شمارے میں ”سودی معیشت اور مہنگائی کے خلاف تحریک کا آغاز“ میاں منیر احمد، ”کراچی: پانی کا سنگین بحران.. جماعت اسلامی کا واٹر بورڈ ہیڈ…“ اے اے سید، ”بھارت کا ”پنڈت کارڈ‘‘ اور کشمیر“ سید عارف بہار، ”باپ کی شفقت کا سایہ“ سلمان عابد، ”دنیا پر نئی خطرناک وبا کا خطرہ ”منکی پاکس”(آبلہ بندر)کیا ہے؟“ ڈاکٹر فریحہ عامر، جبکہ ’’سندھ میں ’’کاپی کلچر‘‘ کی دیمک.. اربابِ اختیار کیا کررہے ہیں؟“ اسامہ تنولی کے مضمون کا عنوان تھا۔ ”یوکرین کی بے نتیجہ جنگ اور نیٹو،روس کش مکش“ کے موضوع پر مسعود ابدالی نے لکھا کہ ”روس کے گرد نیٹو کی گرفت مضبوط ہونے سے دنیا کی سیاست پر کیا نتائج مرتب ہوں گے اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن سیانے کہہ رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں دنیا پر امریکہ کی ظالمانہ و خون آشام چودھراہٹ اور مضبوط ہوجائے گی۔ تاہم یہ امید بھی ہے کہ شاید اس کے نتیجے میں بدسلوکی کا شکار روسی تاتاروں اور شیشانوں (چیچنیا) کو کچھ راحت نصیب ہوجائے۔“

3جون کے شمارے میں ”آئی ایم ایف کا شکنجہ“ کے عنوان سے اے اے سید نے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا چشم کشا تجزیہ پیش کیا ہے جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ آج بھی کچھ نہیں بدلا ہے ”ان ملک دشمن حکمرانوں نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ آگے کھائی اور پیچھے کنواں والا معاملہ ہے“۔ لیکن پھر بھی اُن کا کہنا تھا کہ ”پاکستان جیسا ملک ڈیفالٹ نہیں کرسکتا۔ ہم اپنے کھیتوں، گھروں کے لان میں سبزیاں کاشت کرکے بھوکے رہے بغیر بیرونی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا محل وقوع دفاعی اور تجارتی لحاظ سے انتہائی شاندار ہے۔ دنیا کے چار ملکوں سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں۔ چین کے پاس امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر سے کہیں زیادہ ذخائر ہیں۔ چین دنیا میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے اور اپنے ملک میں غربت میں کمی کرنے کے لیے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ سی پیک منصوبہ اس کا اہم ترین حصہ ہے“۔ ”تحریک آزادی کشمیر کے رہنما یاسین ملک کو عمر قید کی سزا“ سید عارف بہار، ”تخلیق کے معنی اور مغرب کی مادی ترقی کے اسباب“ شاہنواز فاروقی، ”تعطل کے بعد ترکی اسرائیل تعلقات کی بحالی“ مسعود ابدالی، ”مغرب:جنت کا ٹکڑا“ ڈاکٹر اسامہ شفیق، ”گرمی اور بچے.. کریں کیا؟“ڈاکٹر اظہر چغتائی کے مضامین کے عنوانات تھے۔

10جون کے شمارے میں ”پاکستان خطرے میں ہے؟“ کے عنوان سے شاہنواز فاروقی، ”شہید ِماحولیات ناظم جوکھیو کا خونِ ناحق“ اسامہ تنولی، ”کبھی کبھی زیادہ تمباکو نوشی پر بھی کینسر کیوں نہیں ہوتا؟“ ابوالحسن اجمیری، ”لالہ صحرائی اور نعت گوئی“ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے لکھے ہوئے مضامین تھے۔ جبکہ کتاب ”مساعی فہم القرآن“ پر مرحوم ملک نواز احمد اعوان کا تبصرہ تھا۔

17جون کے شمارے میں ”موجودہ قومی بحران اور حل“ سلیم منصورخالد کا، ”دودھ ہضم نہیں ہوتا“ ڈاکٹر اظہر چغتائی کا، اسرائیلی میزائیل حملوں میں دمشق ایئرپورٹ کی تباہی پر مسعود ابدالی کا مضمون تھا، ”بھارت کے انتہا پسند ہندو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟“ کے عنوان سے شاہنواز فاروقی نے لکھا تھا۔

24جون کے شمارے میں ”فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF)،بے مہری سے مہربانی تک، پسِ پردہ کہانی“ سید عارف بہار کا مضمون تھا،اور مسعود ابدالی نے ”غزہ کے بچے… انسانیت کا نوحہ“، عارف الحق عارف نے مرگ نامہ میں ”برادر حمزہ…ہاکر سے کورٹ رپورٹر تک“، ڈاکٹر جاوید ظفر نے ”تاریخ کا تسلسل اور تہذیبوں کی ہم آہنگی“، اور ڈاکٹر اُسامہ شفیق نے برطانیہ سے خصوصی مضمون ”وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی امریکہ حوالگی کا فیصلہ“ کے عنوان سے لکھا تھا۔