قومی سلامتی کمیٹی نے دہشت گردی کو کسی صورت برداشت نہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اسے کلیتاً جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے پوری ریاستی قوت کو روبہ عمل لانے کے عہد کو دہراتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا، پاک سرزمین کے ایک ایک انچ پر ریاستی عمل داری کو یقینی بنایا جائے گا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں کمیٹی کے رکن وفاقی وزرا، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اجلاس کی دوسری نشست میں بجا طور پر یہ قرار دیا گیا کہ قومی سلامتی کا تصور معاشی سلامتی کے گرد گھومتا ہے، اور یہ کہ معاشی خودانحصاری اور خودمختاری کے بغیر قومی خودمختاری اور وقار پر دبائو آتا ہے۔ اجلاس میں ملک کو درپیش موجودہ معاشی صورتِ حال کے تمام پہلوئوں کا جامع جائزہ لیا گیا جس کی وجہ سے عام آدمی خصوصاً نچلے اور درمیانے طبقے کو حالات کی سنگینی کا سامنا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے اجلاس کو معاشی استحکام سے متعلق حکومتی حکمتِ عملی کی تفصیلات سے آگاہ کیا جس میں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ہونے والی بات چیت، باہمی مفاد پر مبنی دیگر اقتصادی ذرائع کی تلاش اور عوام کی سہولت کے لیے جامع اقدامات شامل ہیں۔ کمیٹی نے درآمدات و برآمدات میں توازن لانے، کرنسی کی غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک منتقلی کی روک تھام، زرعی پیداوار اور صنعتی شعبے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات پر اتفاق کیا، اور تمام متعلقہ فریقوں کی مشاورت سے تیز رفتار معاشی بحالی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کا بھی فیصلہ کیا گیا، تاکہ عام آدمی ان کے ثمرات سے مستفید ہوسکے۔
موجودہ دور میں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قومی سلامتی اور معاشی استحکام لازم و ملزوم ہیں، ایک کے بغیر دوسرے کا تصور محال ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے امن وامان کی صورتِ حال کی بہتری کو معاشی خودمختاری سے منسلک کرکے صحیح سمت میں پیش رفت کی ہے، تاہم اس ضمن میں حکومتی حکمتِ عملی اور وزارتِ خزانہ کید لائحہ عمل اور اقدامات سے متعلق ایک مبہم اعلان سے زیادہ کسی بات سے قوم کوآگاہ کرنا اور تفصیلات کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا گیا، حالانکہ اگر ایسا کرلیا جاتا تو حکومت کو آگے بڑھنے میں آسانی بھی رہتی اور قوم کا تعاون بھی حاصل ہوتا۔ بہرحال سرکار کے اس طرزعمل کے باوجود ہم عرض کریں گے کہ حکومت اگر واقعی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے میں سنجیدہ ہے تو وزیراعظم کو اپنی ذات، خاندان، جماعت، کابینہ اور اتحادیوں سے آغاز کرنا ہوگا، پھرمجلس شوریٰ کے ارکان، بیورو کریسی، فوج اور عدلیہ کے اعلیٰ مناصب پر موجود عہدیداران کو قربانی پر آمادہ کرنا ہوگا، اس کے بعد ملک کے بڑے سرمایہ داروں، تاجروں اور جاگیرداروں کو بھی اس بات پر قائل کرنا ہوگا کہ اگر یہ ملک سلامت ہے تو ان کی جاگیریں، کاروبار اور سرمایہ بھی محفوظ ہے، ورنہ سب کا مستقبل خطرے میں ہے۔ پہلے اقدام کے طور پر وزیراعظم پر لازم ہے کہ وہ ماضی میں اپنے برادرِ بزرگ محمد نوازشریف کی جانب سے چلائی گئی ’’قرض اتارو… ملک سنوارو‘‘ مہم میں حاصل ہونے والی خطیر رقم کے آمدوخرچ کے حسابات اور مہم کے نتائج سے عوام کو آگاہ کریں تاکہ عوام کا اعتماد حکومت اور اُس کے ذمہ داران پر بحال ہوسکے اور وہ اس نیک کام میں تعاون پر بہ رضا و رغبت آمادہ ہوسکیں۔
وزیراعظم کو آگے بڑھنے سے قبل اپنی ذات اور کابینہ کے ارکان کو حاصل بھاری پروٹوکول کو ترک کرکے سادہ زندگی کا نمونہ پیش کرنا ہوگا کہ محض اس اقدام سے اربوں روپے کے سالانہ اخراجات بچائے جاسکتے ہیں۔ وزیراعظم کی کابینہ بھی کم و بیش 80 ارکان پر مشتمل ہے جن میں سے تقریباً ایک تہائی ایسے ہیں جن کے پاس کوئی محکمہ تک نہیں، گویا اُن کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں، جب کہ ایک ایک وزیر کے گھریلو اور دفتری اخراجات، آمدورفت، پروٹوکول اور اسٹاف و دیگر مراعات پر ماہانہ کم از کم ایک کروڑ روپے کے اخراجات اٹھ رہے ہیں۔ وزیراعظم اگر سیاسی مجبوریوں کو بالائے طاق رکھ کر ملک و قوم کی خاطر کابینہ کے ارکان کی تعداد کو حقیقت پسندانہ بنا لیں تو دو تہائی وزرا کے بوجھ سے قوم کو نجات مل سکتی ہے اور اس مد میں بھی سالانہ اربوں روپے کی بچت نہایت آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ اپنی اور کابینہ کی مثال پیش کرنے کے بعد وزیراعظم بجا طور پر اعلیٰ حکام، ججوں، جرنیلوں اور مجلس شوریٰ کے ارکان سے معاوضوں اور مراعات میں خاطر خواہ کمی کا تقاضا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح وزیراعظم خود اور اُن کی کابینہ کے ارکان اور اعلیٰ حکام بیرونی دوروں میں قومی سرمایہ جس بے دردی سے ضائع کرتے ہیں اور مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام و طعام ان سب کا معمول ہے اُس میں کمی کے لیے بلاجواز دورے اور ضروری دوروں میں بے جا اخراجات روک کر قومی معیشت کے استحکام کا سامان کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں یہ دلیل کوئی وزن نہیں رکھتی کہ ہم (ایک دو لوگ) یہ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، کیوں کہ بہرحال بیرونِ ملک خرچ ہونے والی رقوم زر مبادلہ کی صورت میں ہوتی ہیں جس کی شدید قلت کا ملک کو سامنا ہے اور ایک ایک ڈالر بچایا جانا قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ وزیراعظم اور دیگر وزرا اکثر بیرونی سرمایہ داروں سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی درخواست کرتے سنائی دیتے ہیں، جب کہ وزیراعظم کے اپنے خاندان کے اہم افراد پاکستان سے باہر کاروبار میں سرمایہ لگائے ہوئے ہیں، ان کی جماعت اور اتحادیوں میں شامل بہت سے لوگوں کی بیرونِ پاکستان جائدادیں اور سرمایہ کاری کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیا یہ زیادہ قرین انصاف نہیں کہ وزیراعظم پہلے ان لوگوںکو اپنا سرمایہ پاکستان لانے کی ترغیب دیں اور اپنے خاندان کی مثال سب سے پہلے قوم کے سامنے پیش کریں۔
وزیراعظم اور ان کی جماعت کے دیگر قائدین ماضی میں قوم کو بتاتے رہے ہیں کہ بیرونِ ملک خصوصاً سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں اہلِِ پاکستان کے دو سو ارب سے زائد ڈالر پڑے ہوئے ہیں، جن کو ہر صورت پاکستان لانے کے اعلانات بھی ان کی جانب سے کیے جاتے رہے۔ کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ وزیراعظم اپنے ان اعلانات کو عملی شکل دیں تاکہ ملک و قوم نازک معاشی حالات سے نجات پاسکیں۔ اس طرح اگر جناب شہباز شریف، جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کبھی دھیلے کی بدعنوانی نہیں کی، کرپشن کے ناسور کو، جس نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں‘ جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرسکیں تو یقین ہے کہ قوم نہ صرف موجودہ معاشی بحران سے نکل آئے گی بلکہ جس قدر وسائل خالقِ کائنات نے پاکستان کو عطا کیے ہیں اگر ان سے بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے استفادہ کرلیا جائے تو ہمیں آئندہ بین الاقوامی اداروں اور بیرونی ملکوں سے بھیک مانگنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی، اِن شاء اللہ۔
(حامد ریاض ڈوگر)