اُس روز خلافِ توقع اور خوش قسمتی سے ہماری خاتونِ خانہ نے بھی اپنے اِس خادم کی خامہ فرسائی کی خوب پزیرائی کی۔ فرمایا:
’’آپ نے گھڑے پر جو کالم لکھا تھا، وہ بھی اپنے بہانوں کی طرح خوب گھڑا تھا، مگر…‘‘
قطع کلامی کرتے ہوئے عرض کیا:
’’کالم تو ہمیشہ ہم کاغذ ہی پر لکھتے ہیں۔ گھڑے پر فقط قائدِاعظمؒ کے اقوال ’ایمان، اتحاد، تنظیم‘ وغیرہ ہی لکھے جاسکتے تھے، جو خواجہ معین الدین مرحوم اپنے مشہور و معروف و مقبول ڈرامے ’’تعلیمِ بالغان‘‘میں لکھ کر اپنا قلم اورمذکورہ گھڑے توڑ بھی چکے۔ ہم نے تو اپنے کالم میں گھڑے کا صرف ذکر کیا تھا، جس کے متعلق آپ کچھ فرما رہی تھیں۔ ہاں تو، فرمائیے…‘‘
مگر یہ فرمائش سن کر مزید فرمانے کے بجائے اُنھوں نے صرف غصہ فرمایا اورکہا:
’’توبہ ہے، آپ توزبان پکڑتے ہیں‘‘۔
یہ کہہ کر اپنی زبان اور پاؤں پٹختے ہوئے باورچی خانے کی طرف جانے لگیں۔ اُن کو جاتے دیکھ کر مزید عرض کیا:
’’زبان پکڑنے ہی کی تو ہم کمائی کھا رہے ہیں۔ اِسی کمائی سے آپ کے باورچی خانے کا چولھا بھی جلتا ہے‘‘۔
مگر اُنھوں نے آخری فقرہ سنا نہیں۔ یہ بھی اچھا ہوا، بُرا نہ ہوا۔ ورنہ کیا جانے اور کیا بُرا بھلا سننا پڑتا۔
صاحبو! ہم نے اپنے کالم (مطبوعہ 9 دسمبر 2022ء) میں لکھا تھا:
’’ہمارے آگے پانی بھرنے کے لیے ’گھڑا‘ کسی کمھار نے’گھڑا‘ ہی ہوگا۔ جب پہلے پہل چاک پر کوئی گھڑا اُس نے ’گھڑا‘ ہوگا تو بڑے فخر سے شائقین، صارفین اور اپنے مدّاحین سے کہا ہوگا کہ ’’میں نے آج یہ گھڑا‘‘۔ بس شاید اُسی دن سے اس ظرف کا نام ’گھڑا‘ پڑ گیا۔‘‘
اس پر رابغ (سعودی عرب) سے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب کا نہایت مفید، معلوماتی اور مزے دار مراسلہ موصول ہوا، جس سے معلوم ہوا کہ ہم اور ہمارے گھڑے کتنے پانی میں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’پانی والا گھڑا سنسکرت کے لفظ ’گھٹ‘ سے مشتق ہے۔ پانی کے حوالے سے کئی الفاظ اسی ’گھٹ‘ سے نکلتے ہیں۔’گھٹا‘ سے پانی برستا ہے۔’گھاٹی‘ پانی کی گزرگاہ ہوتی ہے۔’گھاٹ‘ ندی یا تالاب کے کنارے اُس ہموار و اُستوار جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے پانی لے سکیں۔‘‘
شاید ’گھونٹ بھرنے‘ کا محاورہ بھی کسی کو غٹ غٹ یا غٹاغٹ پانی پیتے دیکھ کرہی گھڑا گیا ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’پہلے جب سارا کاروبار ندیوں کے راستے ہوتا تھا تو جو بہت سفر کرتا اُسے ’گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا‘ پڑتا۔ یوں مختلف المزاج لوگوں سے سابقہ پیش آتا اور سفر کے تجربات و مشاہدات اُسے چالاک بنا دیتے۔ اب ندیوں کے راستے اتنا سفر تو نہیں ہوتا لیکن کسی چتر، چالاک اور تجربہ کار انسان کو اب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اُس نے ’گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے‘۔ ’گھٹ‘ (گھڑا) پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بنا۔ لیکن اصلاً ’گھٹ‘ پانی کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہے جمع کرنا، جمع ہونا، نکالنا، وہ جگہ جہاں کچھ جمع کیا جا سکے، جہاں کچھ سما سکے۔ رکھ تو کچھ بھی سکتے ہیں، مگر پانی بنیادی ضرورت ہے۔ بادل کے اکیلے ٹکڑے کو گھٹا نہیں کہتے۔ جب بہت سے ٹکڑے مل جائیں تو ’گھٹا چھا جاتی ہے‘۔ البتہ شاعروں کے ہاں ’اُن‘ کی زلفیں لہرا جانے سے بھی گھٹا چھا جاتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے درست فرمایا۔ ایک دن برسات کے موسم میں ہمارے سیلانی شاعر نظیرؔ اکبر آبادی ’’برسات کی بہاریں‘‘ دیکھتے ہوئے، ہر چیز اور ہرشخص کے پانی کیچڑ میں پھسلنے سے لطف اندوز ہوتے پھر رہے تھے۔ ’’پر جب دکھائی دی کھلے بالوںکی اِک گھٹا‘‘… تو:
آخر کو واں نظیرؔ بھی آ کر پھسل پڑا
پھسلن کیچڑ پانی کی محتاج نہیں۔ شہر ’واہ‘ کے شاعر نذیرؔ احمد شیخ ایک بار ایک ایسی گلی میں جا متمکن ہوئے جس میں گھی کا کارخانہ تھا:
گھی گلی میں قیام ہے صاحب
خوب چکنا مقام ہے صاحب
گھی گلی میں نذیرؔ احمد شیخ بھی اپنے گھر کے دریچے سے لگ کر، نظیرؔ اکبر آبادی کی طرح، لوگوں کے پھسلنے کا تماشا دیکھا کرتے۔گاہک گھی لینے کے لیے خالی کنستردونوں ہاتھوں میں تھامے گلی میں داخل ہوتے اورگھی کے کارخانے تک پھسلتے ہی چلے جاتے۔ شیخ صاحب اس منظر سے لطف اندوز ہوا کرتے:
کیسی پُھرتی سے لوگ پھسلے ہیں
کیا دھڑا دھڑ دھڑام ہے صاحب
گھٹ، گھاٹ، گھونٹ، گھاٹی اور گھٹا کا ذکر ہواتو خیال آیا، بلکہ ذہن میں سوال آیا کہ یہ ’گھاٹا‘ ہے کس حساب میں؟ یعنی حساب کتاب میں ’گھاٹا‘ آخرکیوں آتا ہے؟ ’گھاٹی‘ کے متعلق تو سلیم صاحب نے بتا دیا کہ’پانی کی گزر گاہ‘ ہوتی ہے۔ اس میں ’پانی کا دریا‘ رواں رہتا ہے۔ (قرۃ العین حیدر نے جب سے ’’آگ کا دریا‘‘ جاری کیا ہے، تب سے قارئین کو بتانا پڑتا ہے کہ ہمارا دریا ’پانی کا دریا‘ ہے) کاروبار میں’گھاٹا‘ ہو جائے تو روپیہ پیسہ بھی پانی کی طرح رواں دواں ہو جاتا ہے۔ممکن ہے اسی وجہ سے تجارت کی گھاٹی میں گھاٹا پڑ جاتا ہو۔ لغت کی رُو سے ’گھاٹا‘ نقصان یا خسارے کو کہتے ہیں۔ یہ غالباً اُس ’گھٹ‘ سے ہے جس کی ضد ’بڑھ‘ ہے۔ بڑھنا اور گھٹنا ایک دوسرے کے متضاد کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ میجرجاذبؔ ترین کو غم تھا کہ ’’گھٹتی بڑھتی رہی انسان کی قیمت لیکن… مفت بازار میں کوئی نہ بِکا میرے بعد‘‘۔’گھٹانا‘ کم کرنے، تفریق کرنے یا منہا کرنے کو کہتے ہیں۔جگرؔ مراد آبادی نے جب عقل والوں کی بے عقلی کا ماتم کیا تو فرمایا:
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
’گھ‘ پر پیش کے ساتھ ’گُھٹ‘ سانس رُکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔’گُھٹ گُھٹ کے جان دینا‘ ضیق سے اور تڑپ تڑپ کر جان دینے کے معنوں میں آتا ہے۔’گُھٹن‘ میں بھی دَم گُھٹنے لگتا ہے۔ شاد لکھنوی خبر دیتے ہیں:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گُھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
’دم گُھٹنا‘ کی ترکیب ہمارے ہاں عام استعمال ہوتی ہے۔ کوئی چیز ’گھونٹنے‘ بمعنی حلق سے نیچے اُتارنے میں بھی دم ہی گُھٹتا ہوگا۔ مگر بھنگ گھونٹنے میں شاید ایسا نہ ہوتا ہو۔ درست کیفیت تو ہمارے سابق وزیراعلیٰ سندھ محترم قائم علی شاہ ہی بتا سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ ان کا سایہ اس برگِ سبز پرقائم و دائم رہے۔ ’گُھٹنا‘ ویسے تو ران اور پنڈلی کے جوڑ کو بھی کہتے ہیں، لیکن ’گُھٹنا‘ کے ایک معنی ’خوب میل جول ہونا، بے تکلف دوستی اور موافقت ہونا‘ بھی ہیں۔ جیسے کہا جائے کہ … ’’آج کل دونوں میں خوب گُھٹتی ہے‘‘… مگریہ دونوں کون ہیں؟ پردے میں رہنے دو، پردہ نہ اُٹھاؤ۔