’’ڈاکٹر آفتاب صاحب نے پاکستان بننے کے بعد سے سیکولر لابی کے عالمی الحادی قوتوں سے مل کر مختلف النوع پالیسیوں کے آغاز پر تفصیل سے بات کی ہے جن کا ادراک آج نہیں کیا جائے گا تو مستقبل میں بھیانک نتائج آسکتے ہیں جس کا ایک نتیجہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی شکل میں وجود میں آچکا ہے اور جس کی آڑ میں بہت سارے بے ہودہ نعرے تخلیق پاگئے ہیں۔ ‘‘
درج بالا سطور ’پیش لفظ‘ میں عائشہ مسعود نے لکھی ہیں۔
باب اوّل میں دورِ حاضر کے حالات کی عکاسی ماضی کے پس منظر کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے، اور ’ایٹم بم سے زیادہ خطرناک بم‘ مغربی تہذیب کا رنگ ہماری اسلامی تہذیبی روایت پر حاوی کردینے کو کہا گیا ہے، اور اس کام کے لیے ڈاکٹر آفتاب نے مستشرقین کی کوششوں کا ذکر کیا ہے، جن میں تصوف کے تصور کو اجاگر کرنا، مخلوط معاشرے کا قیام، خاندانی نظام کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب صاحب نے ’’کیا ایک مسلمان عورت روحانی لیڈر یا رہنما ہوسکتی ہے؟‘‘جیسے اہم سوال پر بات کی ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ سے لے کر مسلم تاریخ اور تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی خواتین کی علمی فضیلت اور جرأت مندی بیان کرکے ثابت کردیا ہے کہ مسلم خواتین معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں اور کرسکتی ہیں۔
کتاب میں اہم موضوع ’’مغرب میں مساواتِ مرد و زن میں کیا کھویا، کیا پایا‘‘ بہت اہمیت کا حامل اور سبق آموز ہے۔ ایک اور بات جو اِس کتاب میں بیان کی گئی ہے وہ مغرب سے درآمد شدہ این جی اوز کا کردار ہے جس پر حکومتی سطح پر غور و فکر کرنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر آفتاب صاحب کی کتاب میں بہ قول خلیل جبران شہرت کے میناروں سے اونچا اور روشن جذبہ موجود ہے، جو اُن کے قلب سے جب باہر آیا تو اس کی مقدس عریانی نے اس کتاب کی صورت لافانی تخلیق کو اپنی خلعت سے ڈھانپ لیا۔