ابا جی: پروفیسر غفور احمد مرحوم کی برسی کے موقع پر خصوصی تحریر

ابا جی کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے دس سال ہوچکے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں آتا جس میں امی اور ابا جی یاد نہ آتے ہوں۔ 2007ء میں امی کے انتقال کے بعد ابا جی بالکل خاموش ہوگئے تھے۔

بہت دیر سے سوچ رہا ہوں کہ ابا جی کے بارے میں کیا لکھوں۔ ان کی سادگی پر لکھوں، انکسار پر لکھوں، یا خدا خوفی اور اللہ کی عدالت میں جواب دہی کا خوف لکھوں۔ میں کیا لکھوں کہ آج کی نوجوان نسل جو کہ موجودہ لیڈروں کو دیکھ کر مایوسی کا شکار ہے‘ وہ جان سکے کہ اس قوم میں ایسے لیڈر بھی ہوتے تھے جو کہ ناجائز دولت اور سستی شہرت سے اس طرح نفرت کرتے تھے جیسی ہمیں شیطان سے کرنی چاہیے۔

آج کی نوجوان نسل ابا جی کے نام سے بھی واقف نہیں ہوگی۔ لیکن ایک زمانہ تھا جب ان کا شمار ممتاز ترین سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔

چوں کہ میں یہ جسارت کے لیے لکھ رہا ہوں تو مجھے ابا جی کی ایک بات یاد آرہی ہے۔ زیڈ اے بھٹو کی حکومت کے زمانے میں 1971-77)ء) جسارت پر کڑی سنسرشپ عائد تھی۔ صلاح الدین صاحب ایڈیٹر تھے، کبھی کبھی پورا اخبار بغیر کسی خبر کے بالکل Blank شائع ہوا کرتا تھا۔ پھر جسارت پر پابندی لگا دی گئی۔ سکھر کے ایک جلسے میں ابا جی سے کسی صحافی نے پوچھا کہ ’’جسارت کب نکلے گا؟‘‘ ابا جی نے جواب دیا کہ ’’جسارت اور بھٹو ساتھ ہی نکلیں گے۔‘‘

ابا جی کہا کرتے تھے کہ کبھی کبھی اللہ ایسی باتیں انسانوں کی زبان سے نکال دیا کرتا ہے جو کہ سچ ہوجاتی ہے۔ یہی ہوا، بھٹو کے نکلنے کے بعد حکومت نے جسارت کی اشاعت پر سے پابندی بھی اٹھا لی۔

1970ء کی قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے چار ارکان منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر نذیر احمد جو کہ ڈیرہ غازی خان سے منتخب ہوئے تھے انہیں شہید کردیا گیا۔ بھٹو نے ایک تقریر میں کہا کہ ’’اب تو صرف تین رہ گئے ہیں۔ جماعت کا جنازہ کون اٹھائے گا؟‘‘

ابا جی نے اپنی تقریر میں اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’فکر نہ کرو، حکومت کا جنازہ ہمارے دو ممبر بھی اسٹریچر پر اٹھا لیں گے۔‘‘

ابا جی نے اس اسمبلی میں بہت محنت سے کام کیا تھا۔ 1973ء کے آئین کو بنانے اور اسے پاس کروانے میں ابا جی نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ ابا جی قومی اسمبلی کے ایک اجلاس سے بھی غیر حاضر رہے ہوں۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد جب ابا جی کراچی واپس آتے تو میں اکثر انہیں ائرپورٹ لینے جاتا تھا۔ وہ گھر آنے کے بجائے پہلے خالد اسحاق جو کہ جانے پہچانے وکیل تھے، کے گھر جاکر اُن سے قانونی باتوں پر مشورہ لیا کرتے تھے۔

1970ء کے بعد جتنی بھی اسمبلیاں آج تک آئی ہیں اُن کے اراکین اپنے نام کے آگے ممبر لگانے کے سوا کوئی کام نہیں کرتے۔ عوام کے بجٹ پر قوم کا پیسہ اور وقت ضائع کرتے ہیں۔

ابا جی کی زندگی کا سب سے اہم تاریخی کردار 1977ء میں پی این اے اور پی پی پی کے درمیان مذاکرات میں تھا۔ دونوں طرف کے تین تین ممبر تھے، ابا جی پی این اے کی ٹیم کے ممبر تھے، دوسرے دو ممبران میں مفتی محمود اور نواب زادہ نصراللہ خان تھے۔ ابا جی نے اپنی ایک کتاب میں ان مذاکرات کی تفصیل لکھی ہے۔

یہ مذاکرات کامیاب ہوگئے تھے اور جس رات مارشل لا لگا اُس رات مذاکرات میں ابا جی نے بھٹو سے کہا تھا کہ مذکرات کے معاہدے پر دستخط کردو ورنہ میرا خیال ہے کہ جلد مارشل لا لگ جائے گا۔ اور اسی رات مارشل لا لگ گیا۔

بھٹو ابا جی کی ذہانت کے بہت معترف تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ بات درست ہے یا نہیں لیکن یہ بات اُس زمانے کے اخبارات میں چھپی تھی کہ بھٹو کہتے تھے ’’اگر میرے پاس پروفیسر غفور جیسا شخص ہوتا تو میرا یہ انجام نہ ہوتا۔‘‘ آخری زمانے میں بھٹو اپنے ساتھیوں سے خاصے مایوس تھے۔

1986ء کے بعد سے کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں الطافی شیطانی قوتوں کا راج ہوگیا۔ ایک رات ہمارے گھر کی دیوار پر ان شیطانوں نے کراس کے نشان لگا دیے، ہمارے گھر کا ایم کیو ایم نے اپنی جیت کے بعد کئی گھنٹوں تک محاصرہ کیے رکھا اور ابا جی کے نام بگاڑ کر نعرے لگاتے رہے۔ ہم سب گھر کے اندر تھے۔ ہم نے ابا جی کے اندر کوئی پریشانی نہیں پائی، اور پھر ابا جی فجر کی نماز پڑھنے پیدل چلے گئے جیسا کہ ہر روز جایا کرتے تھے۔ ابا جی کے اس طرح کے بیانات اخبارات میں چھپا کرتے تھے کہ آج مارنے والا بھی مہاجر ہے اور مرنے والا بھی۔

ابا جی آئی جے آئی کے سیکرٹری جنرل تھے اور نوازشریف اس کے صدر تھے۔ آئی جے آئی کی جیت کے بعد نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔ یہ بات مجھے ابا جی نے بتائی تھی کہ وزیراعظم بننے کے بعد نوازشریف نے ایک دفعہ ابا جی کو ناشتے پر بلایا۔ وہاں نوازشریف نے ابا جی کو پیشکش کی کہ آپ کو پورے پاکستان میں جہاں کوئی انڈسٹریل پلاٹ چاہیے تو مجھے بتائیں۔ ابا جی وہاں سے ’نہ‘ کہہ کر اٹھ گئے۔الحمدللہ ہمارے تمام بہن بھائیوں میں کسی کو بھی دولت سے محبت نہیں ہے۔ ہم سب سیدھے سادے مسلمان ہیں۔

ایک زمانے میں ایم کیو ایم کے دو دھڑوں الطاف اور آفاق گروپ میں لڑائی عروج پر پہنچ گئی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک رات ابا جی ان دونوں دھڑوں سے ملنے ان کے آفس گئے تاکہ ان میں صلح ہوجائے اور مہاجروںکا خون نہ بہے، حالانکہ الطاف گروپ ابا جی کا جانی دشمن تھا۔

ایک دفعہ الطاف حسین جھوٹ موٹ کا بیمار بن کر اسپتال میں داخل ہوگیا۔ ابا جی اس سے ملنے گئے۔ ابا جی نے یہ بات مجھے خود بتائی تھی کہ الطاف میرا ہاتھ پڑ کر بیٹھ گیا کہ اسے بچا لیں ورنہ یہ لوگ اسے مار دیں گے۔کیا آج کے سیاست دان مخالف سیاست دانوں سے ملتے ہیں؟،ہمارے گھر ایک دفعہ ڈاکا پڑا، دوسرے دن ابا جی کا یہ بیان جنگ اخبار میں چھپا کہ ’’خبر یہ نہیں ہے کہ پروفیسر غفور کے گھر ڈاکا پڑا، بلکہ خبر یہ ہے کہ پروفیسر غفور کے گھر ڈاکا نہیں پڑا۔‘‘

آج اہلِ پاکستان روزانہ اپنے لیڈروںکو ٹی وی پر لڑتے اور گالیاں دیتے ہوئے دیکھتے ہیں، روز جھوٹ بولتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ سارے لیڈر ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں۔

ابا جی کے زمانے میں بھی لیڈر ایک دوسرے کی مخالفت کرتے تھے، لیکن ابا جی کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ کٹّر سے کٹّر مخالف سے بھی بات چیت جاری رہنی چاہیے۔ وہ واحد سیاست دان تھے جن سے تمام لیڈروں کے اچھے تعلقات تھے۔

آج کے لیڈروں والی تو کوئی خصوصیت ابا جی میں نہیں تھی، نہ کسی قسم کا غرور، نہ دولت کی ہوس، نہ گارڈ، نہ بڑی بڑی گاڑیاں اور نہ کوئی سیکرٹری۔ ان کے پاس چند سفید شلوار قمیص، چند شیروانیاں اور دو، چار واسکٹ جن کے کالر بھی دھل دھل کر پھٹ چکے تھے‘

جنہیں ہماری امی ٹھیک کیا کرتی تھیں، دو یا تین جوڑے جوتے کے، جو کہ اتنے ’’قیمتی‘‘ تھے کہ چور بھی مسجد سے نہیں چراتے تھے۔ ابا جی پانچ وقت نماز مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔انہوں نے تقریباً 30 سال کی سیاسی تاریخ اپنی 9 کتابوں میں آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑی ہے۔ اس سارے زمانے میں ابا جی کا کردار بہت مرکزی ہوا کرتا تھا۔ لیکن یہ ایسے عجیب سیاست دان تھے کہ ان کتابوں میں خود ان کا ذکر نہیں ہے۔

ہماری قوم بھی بڑی نادان ہے۔ ہر دفعہ اپنے دشمن خود منتخب کرتی ہے۔ لیڈروں کو بت بناکر اُن کو حکومت دلواتی ہے، پھر ان کو جانوروں کے ناموں سے یاد کرتی ہے اور ایک نئے بت کی تلاش شروع کردیتی ہے۔ شاباش میری قوم۔

تاریخ کے طالب علموں سے میری گزارش ہے کہ ابا جی کی 9 کتابوںکا ضرور مطالعہ کریں۔ میں نے تمام کتابیں پڑھنے اور ڈائون لوڈ کے لیے ابا جی کی ویب سائٹ profghafoorahmed.com پر ڈال دی ہیں۔

ہر گزرنے والا دن ہماری ابا جی اور امی سے ملاقات میں ایک دن کی کمی کررہا ہے۔ وہ تو یقیناً بہت اچھی جگہ ہیں اور اِن شاء اللہ ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ ہمیں بھی Upgrade کرکے جنت میں ان سے ملا دے گا۔