ولادت: یکم جنوری 1916ء …وفات: 12 مئی 1999 ء
عصرِ حاضر تجھ کو کیا معلوم ہم کیا لوگ تھے
جو صدی آئی نہیں اُس کی صدا ہم لوگ تھے
(سید ضمیر جعفری)
یہ ناچیز شاعر و ادیب ہے نہ مزاح نگار، نہ ہی نقاد، البتہ قلم سے اس کا رشتہ عملی صحافت کا ہے۔
اپنی تمام تر کمزوریوں‘ خامیوں اور علمی کم مائیگی کے باوجود میں اپنے آپ کو اس اعتبار سے خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے ربِ کریم نے زمانۂ طالب علمی سے اب تک بہت سی نابغۂ روزگار شخصیات کو قریب سے دیکھنے، اُن سے ملنے اور اُن کی صحبتوں میں بیٹھنے،اُن کے علم و فضل سے استفادے کے مواقع فراہم کیے۔ ان شخصیات میں ہر مکتبِ فکر، نظریے، مذہب و مسلک کے لوگ تھے، فکر و نظر کے اختلاف کے باوجود ان شخصیات کا مشترک وصف یہ تھا کہ وہ انسان دوستی کی پیکر اور لوگوں کی دل آزاری سے اجتناب کرنے میں اپنی مثال آپ تھیں۔ ایسی ہی نادرِ روزگار شخصیات میں سے ایک شخصیت سید ضمیر جعفری مرحوم کی تھی۔
اُنہیں مشاعروں میں سنتے اور اخبارات میں پڑھتے تھے لیکن 1969ء میں ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ کے اجرا کے بعد میرا کراچی سے لاہور جانا ہوا تو استاذ محترم الطاف حسن قریشی صاحب مجھے اپنے ساتھ لاہور سے راولپنڈی سیٹلائٹ ٹائون میں ان کی قیام گاہ پر لے گئے تھے۔ اگرچہ قیامِ پاکستان کے بعد سید ضمیر جعفری مرحوم کا بڑا عرصہ کراچی میں گزرا، مگر اُن سے پہلی بار ملاقات کا شرف راولپنڈی میں حاصل ہوا۔ بعدازاں کراچی میں بھی اُن سے متعدد ملاقاتیں رہیں۔ 1990ء کی دہائی میں بھی ان کا ملیر کینٹ کراچی میں بڑے بیٹے میجر جنرل سید احتشام ضمیر (جو اُس وقت ملیر کینٹ میں بریگیڈیئر کمانڈر تھے) کے پاس لمبے عرصے قیام رہا۔ اس دوران میں بھی ان سے مختلف تقاریب میں ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ اس کے بعد سمن آباد لاہور میں ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی کے دفتر میں متعدد ملاقاتیں رہیں اور الطاف حسن قریشی صاحب کی لاہور میں رہائش گاہ پر ان کے ساتھ قیام کا بھی موقع ملا اور الطاف صاحب کے ہمراہ ان کے ساتھ سفر کے مواقع بھی ملے۔
ضمیر جعفری اور الطاف حسن قریشی صاحبان کے ساتھ ایک سفر اردو ڈائجسٹ کی سالانہ تقریب کے سلسلے میں پشاور کا ہوا تھا جس میں کئی دن تک ان کے ساتھ قیام کا موقع ملا۔ سفر و حضر کی ان ملاقاتوں میں ان کی شخصیت کے بہت سے روشن پہلو اجاگر ہوئے۔ ایک بار وہ کراچی الطاف صاحب کے ہمراہ میرے غریب خانے پر بھی تشریف لائے اور ایک رات مجھے اپنی میزبانی کا شرف بخشا۔
طنز و مزاح کے بے مثل ادیب مشتاق احمد یوسفی مرحوم نے ان کی یاد میں ہونے والے تعزیتی اجلاس میں انہیں ’’ضمیرِ واحد متبسم‘‘ کا خطاب دیتے ہوئے کہا تھا:
’’سید ضمیر جعفری اردو طنز و مزاح کے سدا بہار ادیب و شاعر اور کالم نگار ہی نہیں تھے بلکہ ان کا نام اردو ادب میں ایک لافانی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بلاشبہ اقلیم طنز و مزاح کے شہنشاہ تھے۔ وہ اپنی ذات میں انجمن ہی نہیں ایک عہد تھے۔ شاعری اور سپہ گری دونوں ہی ان کے لیے ذریعہ عزت بنیں لیکن اس دورِ قحط الرجال میں انہیں احترام، مقبولیت اور محبت کا جو اعلیٰ مقام حاصل ہوا اس کا ایک واضح سبب ان کی اعلیٰ انسانی صفات تھیں، جن سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی فیاضی کے ساتھ نوازا تھا… میں نے اپنی زندگی میں، جسے کسی اعتبار سے مختصر نہیں کہا جاسکتا، ایک ایسا بھی خدا کا بندہ دیکھا جسے اس کی زندگی میں اور اس کے رخصت ہونے کے بعد بھی کبھی کسی نے برا نہیںکہا۔ یہ فوزِ عظیم اور رتبہ بلند جسے ملا اسے سب کچھ مل گیا۔ سید ضمیر جعفری مرحوم و مغفور کو سب نے اچھا اس لیے کہا کہ وہ واقعی اچھے تھے۔ انہوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کو برا نہیں کہا، کسی کے برے میں نہیں تھے، اور ایسا کسی مصلحت، عافیت بینی یا صلح جوئی کی پالیسی کے تحت نہیں کیا بلکہ انہوں نے سب سے محبت کی، جو بے لاگ، بے غرض اور غیر مشروط تھی… اللہ کے ایسے بھی منتخب بندے ہیں جن کے نام اور کام اُن کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اور زیادہ بلند ہوتے ہیں۔ ضمیر جعفری بھی ان ہی نیک نام، نایاب و عجوبۂ روزگار بندوں میں سے ایک تھے… میں نے انہیں کبھی کسی کی برائی، غیبت یا مذمت کرتے نہیں دیکھا۔ دوستانہ ملاقاتوں میں کبھی اپنے اشعار سناتے نہیں دیکھا۔ اپنے کسی دکھ، تکلیف، پریشانی یا الجھن کا ذکر کرکے اوروں کو مغموم کرنا انہوں نے نہیں سیکھا تھا۔ ہمیشہ مسکراہٹیں اور خوشیاں ہی خوشیاں بانٹیں۔ اپنے دکھ درد میں کسی کو شریک نہیں کیا۔‘‘
اشفاق احمد مرحوم نے لکھا تھا کہ ’’ایسے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ضرور ہیں مگر کم کم اور نایاب ہوتے ہیں۔‘‘
مشفق خواجہ مرحوم نے لکھا تھا کہ ’’سید ضمیر جعفری اپنے اسلوب اور طرزِ نگارش کے خود ہی موجد تھے اور خاتم بھی۔‘‘
الطاف حسن قریشی صاحب انہیں اس لحاظ سے اپنے عہد کا منفرد نثر نگار، شاعر اور مزاح نگار کہتے ہیں کہ ان کے ہاں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں بے ساختگی اور آمد ہی آمد ہے۔ وہ بے ساختہ لکھتے ہیں اور انہیں اسے کانٹ چھانٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔
انتظار حسین مرحوم نے ان کی زندگی میں اُن کا جو خاکہ لکھا تھا اس میں لکھا ہے کہ اُن کی شاعری کی ابتدا اختر شیرانی کے رنگ سے ہوئی تھی، پھر فوج میں جانے کے بعد مزاحیہ شاعری کا غلبہ ہوگیا۔
سید ضمیر جعفری کو اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علم کی حیثیت سے 19 نومبر 1936ء میں وائی ایم سی اے لاہور میں ہونے والے مشاعرے میں ’’گائوں کی ایک شام‘‘ نظم پڑھنے پر سر عبدالقادر مرحوم سے ہمایوں گولڈمیڈل ملا تھا (جو میاں بشیر احمد مرحوم نے اپنے والد کی یاد میں بہترین نظم پیش کرنے والے شاعر کے لیے جاری کیا تھا)۔
اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے جس پر انہیں ’’ہمایوں گولڈ میڈل‘‘ ملا تھا:
لہلہاتے کھیت اور ان پر شفق کی سرخیاں
آسماں پر منتشر ہیں ننھی ننھی بدلیاں
اک وسیع میدان تا حدِ نظر پھیلا ہوا
شعریت انگیز موسم بے خودی پرور فضا
روحِ موسیقی ہے یہ برسے ہوئے پانی کا شور
اس کا چلنا، اس کا تھمنا، اس کا رکنا، اس کا زور
شام اور پھر شام کی دل کش ملاحت ریزیاں
موسمِ باراں کی کافر ولولہ انگیزیاں
کاش ان لمحات میں وہ انجمن آراء بھی ہو
خوب نظارہ بھی ہو گر وہ جانِ نظارہ بھی ہو
ان کی ایک حمد اور نعت ملاحظہ فرمائیں:
حمدِ باری تعالیٰ
جہاں بھر میں سب سے بڑا ہے خدا
زمانے کا حاجت روا ہے خدا
گلستاں اسی کے سجائے ہوئے
سمندر اسی کے بنائے ہوئے
جو پھولوں کو رنگیں لبادے دیے
تو انساں کو اونچے ارادے دیے
دماغ اس نے بخشا، نظر اس نے دی
ضیاء اس نے بخشی، سحر اس نے دی
شجر، شاخ، پھل، پھول، کہسار سب
اسی کی ہیں قدرت کے آثار سب
ہمیں اور تمہیں پالتا ہے وہی
سدا دیکھتا بھالتا ہے وہی
ادا شکر اس کا کریں بار بار
کہ ہم اس کے بندے ہیں وہ کردگار
نعت
محمدؐ سب سے میٹھا، سب سے پیارا نام ہے جس کا
محمدؐ زندگی کا ہر شرف انعام ہے جس کا
خلیجِ رنگ و نسل و کبر و کینہ پاٹ دی جس نے
جہاں بھی تھی کوئی زنجیر بڑھ کے کاٹ دی جس نے
نظر کو ضو عمل کو حُسنِ نیت بخشنے والا
محمدؐ آدمی کو آدمیت بخشنے والا
تمیزِ پست و بالا کو مٹایا جس نے وہ آقا
غلاموں کو غلامی سے چھڑایا جس نے وہ آقا
نظر کو روشنی، دل کو سہارے بخشنے والا
اجالے بانٹنے والا، ستارے بخشنے والا
خرد کی شمع افروزی، جنوں کی چارہ فرمائی
زمانے کو اسی اُمّی کے صدقے میں سمجھ آئی
وہ موجودات کا چہرہ درخشاں کر دیا جس نے
وہ محسوسات کے اندر چراغاں کر دیا جس نے
برائے ہر زماں رخشندہ ہے نقشِ دوام اس کا
قیام اس کا، خرام اس کا، کلام اس کا، پیام اس کا
وہ جس کا دامنِ بخشش دو عالم پر کشادہ ہے
وہ جس کا ظرفِ رحمت، ظرفِ ہستی سے زیادہ ہے
وہ بندہ مرتبہ داں ہے فقط ذاتِ احد اس کی
ہمارے فہم کی حد میں نہ حد اس کی، نہ حد اس کی
ضمیرؔ اس در سے گر نسبت نہ رکھے لوحِ پیشانی
تو کشکولِ گدائی ہے، چہ درویشی چہ سلطانی
ان کے ملّی اور قومی نغموں کی تعداد تو اَن گنت ہے۔
ان کی سنجیدہ شاعری کے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں:
مجھے دیکھ کر جھک گئیں ان کی نظریں
سوالوں سے پہلے جواب آگیا ہے
٭
وہ گورِ غریباں سے گزرے تو بولے
یہ بستی ہماری بسائی ہوئی ہے
٭
جب لفظ لبوں پر سل جائیں
زنجیر بجائو پائوں سے
٭
اُن کے جھروکوں سے اگر فاصلے ممکن نہیں
تو کم سے کم بادشاہوں کے قصیدے اور مقالے مت لکھو
٭
دل مطمئن ہو تو ویرانوں کے سناٹے بھی گیت
دل اُجڑ جائے تو شہروں میں بھی تنہائی بہت
٭
پوچھتے ہو کھیت لوٹنے والوں کا نام
معتبر سمجھا تھا جنہیں میں، چارہ گر سمجھا تھا جنہیں میں
’’پارہ آب بیتی‘‘ کے چند اشعار:
میں کہ تھا انگریز کے طوقِ غلامی کا اسیر
زندگی میں بارہا صادر ہوئی مرگِ ضمیر
تاجِ انگلستاں کا گروی رہا میرا بدن
میری کپتانی کی وردی تھی مرا پہلا کفن
جنگِ عالمگیر کے تمغے جو یہ سینے پہ ہیں
مستقل ذلت کے دھبے دل کے آئینے میں ہیں
سقوطِ ڈھاکہ دل خراش سانحے پر ان کے اشعار:
’’نیازی نے ’’روڑا‘‘ کو باچشمِ تر
کیا پیش جب اپنا ریوالور
تو اک پل میں صدیوں کا خوں ہو گیا
سرِ پاک پرچم نگوں ہو گیا
٭
یہ جانباز لشکر نہ کھاتا شکست
مگر تھا قیادت کا کردار پست
عزائم تو بیدار سینوں میں تھے
مگر سانپ بھی آستینوں میں تھے
سید ضمیر جعفری کی ایک بڑی خصوصیت ہر حال میں سچ بولنا اور سچ لکھنا تھا، چاہے اس کی زد میں ان کی ذات ہی کیوں نہ آتی ہو۔ مثلاً یکم جنوری 1965ء کی ڈائری میں رقم طراز ہیں: ’’ذاتی طور پر مجھے یہ احساس کھائے جا رہا ہے کہ بولنے کا ہنگامہ ہے اور میں خاموش ہوں۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے جو سرزد ہوا۔ علامہ اقبال کا مصرع بھی بہت یاد آرہا ہے
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت ِ قیام آیا
کچھ اپنے جی کے بوجھ کو جمعہ کی نماز ادا کرکے کم کیا جو ہم گاہے گاہے ہی ادا کرتے ہیں۔ ملک کے لیے بہت گڑگڑا کر دعا کی۔ اپنی فوجی وردی کے اندر رہتے ہوئے ہم دعا ہی کرسکتے ہیں‘‘۔
2 جنوری 1965ء کی ڈائری کا پہلا جملہ ’’جنرل یہ جنگ جیت گیا۔ ملک ہار گیا‘‘ّ یہ تحریر فوجی جنرل کے مقابلے میں بانی پاکستان کی بہن مادرِ ملّت فاطمہ جناح کی شکست کے دکھ کا اظہار ہے۔
اس طرح کی بے شمار جھلکیاں ان کی مختلف ڈائریوں میں بھی ملتی ہیں اور تصنیف ’’حفیظ نامہ‘‘ میں بھی جو کہ 700 صفحات پر مشتمل ہے اور 1950ء کی دہائی میں حفیظ جالندھری مرحوم کے ساتھ کراچی میں گزرے ہوئے روز و شب کے واقعات کی تاریخ ہے۔
سید ضمیر جعفری 1950ء کے عشرے میں میجر ضیاء الحق (سابق آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق) کے اسٹاف افسر تھے اور جنرل سرفراز پنڈی کے جی او سی تھے۔ سید ضمیر جعفری نے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا تھا جو کامیاب رہا مگر مشاعرے میں پڑھی جانے والی بعض نظموں اور غزلوں کی وجہ سے جنرل سرفراز کے عتاب کا نشانہ بنے تو انہوں نے لکھا ہے کہ میرے افسر میجر ضیاء الحق نے جنرل سرفراز کے سامنے اپنی گردن پیش کردی کہ اس کی اجازت میں نے دی تھی اور اس کی سزا کا مستحق ضمیر جعفری نہیں بلکہ میں ہوں۔ سید ضمیر جعفری نے اس واقعے کا ذکر اپنی ڈائری میں کیا ہے۔
سید ضمیر جعفری کی ڈائریوں کی ایک خاصیت یہ ہے کہ ان سے پاکستان کی پوری تاریخ بلا کم و کاست مرتب کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے یہ ڈائریاں شائع کرنے کی غرض سے لکھی ہی نہیں تھیں۔ انہوں نے اس کا ذکر اپنی پہلی ڈائری ’’ضمیر حاضر، ضمیر غائب‘‘ میں جو 1943ء سے 1947ء کے ادوار پر مشتمل ہے، اس طرح کیا ہے:
’’’یہ شاید 1978ء کی بات ہے، ہمارے ملک کے ممتاز شاعر اور دانشور جناب عبدالعزیز خالد میرے ہاں تشریف لائے تو ڈائریوں کی قطار دیکھ کر انہوں نے پوچھا :’’ان میںکیا ہے؟‘‘
میں نے عرض کیا:’’راتیں ہیں بند ان میں ہمارے شباب کی۔‘‘
انہوںنے دریافت کیا: ’’آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟‘‘
دوا بھی انہوں نے خود ہی تجویز کی: ’’اس ذخیرے کی چھانٹی کرو۔ منتخبات کو چھپوائو۔ اس متاع کو ٹھکانے لگائو۔‘‘
’’کس کے گھر جائے گا یہ سیلِ بلا تیرے بعد۔‘‘
کئی محفلوں میں ایسا ہوا کہ شریکِ محفل میں سے کسی نے کسی شاعر، ادیب، صحافی، سیاست دان اور مختلف شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے میں سے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جو غیبت کے زمرے میں شمار ہوتی تھی اس پر وہ یہ کہہ کر گفتگوکا موضوع بدل دیتے تھے کہ بھئی آپ جو بات اُن کے بارے میں کہہ رہے ہیں میں اس کی تصدیق یا تردید کرنے کی پوزیشن میں اس لیے نہیں ہوں کہ میرے ذاتی علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ممکن ہے آپ درست کہہ رہے ہوں لیکن میرے علم میں اُن کی ایک ایسی خوبی ہے جس سے کم سے کم میں تو محروم ہوں۔
سید ضمیر جعفری حاضر جوابی میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ جنرل ضیا الحق مرحوم کے دورِ صدارت میں ہونے والی اہلِ قلم کی پہلی کانفرنس کے موقع پر جنرل ضیا الحق عشائیے کے بعد سید ضمیر جعفری کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر لے آئے اور کہا کہ آپ سے تو کچھ سننا ہے۔ اس مجلس میں دیگر اہلِ قلم کے ساتھ حفیظ جالندھری مرحوم بھی موجود تھے۔ واضح رہے کہ سید ضمیر جعفری جنرل ضیا الحق کے بھی اسٹاف افسر رہے ہیں اور ایک زمانہ انہوں نے حفیظ جالندھری صاحب کے ساتھ ان کے نائب کے طور پر ملیر کینٹ کراچی میں گزارا ہے (’’حفیظ نامہ‘‘ اسی دور کی یادگار ہے)۔ اس مجلس میں جب بہت دیر تک جنرل ضیا الحق فرمائش کرکے ضمیر جعفری سے ان کا کلام سنتے رہے تو حفیظ جالندھری نے زور سے کہا ’’اوئے ضمیرے! جیدوں تو میرے کول ہوندا سی تو کوئی چنگا نہیں کہندا سی، ہن تو چنگا کہن لگ گیا‘‘، تو سید ضمیر جعفری نے برجستہ اور بے ساختہ جواب دیتے ہوئے کہا ’’حضور! یہ آپ سے دوری کا فیض ہے۔‘‘
وہ سی ڈی اے اسلام آباد کے طویل عرصہ ڈائریکٹر پبلک ریلیشن رہے، اس کے باوجود اسلام آباد میں ان کا اپنا کوئی ذاتی گھر نہیں تھا۔ سی ڈی اے سے ریٹائرمنٹ کے بعد1980ء کی دہائی میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ادیبوں اور شاعروں کے لیے وفاقی حکومت سے پلاٹ الاٹ کرنے کی مہم چلائی تھی اور اس میں یہ طے کیا تھا کہ اگر یہ مہم کامیاب ہوگئی تو ہم میں سے کوئی اس اسکیم میں اپنے لیے کوئی پلاٹ حاصل نہیں کرے گا۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ’’اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اپنے وعدے پر قائم رہنے کی توفیق بخشی۔‘‘
سید ضمیر جعفری پر ماہر مضمون اردو صفورا شاہد صاحبہ نے ایم فل کا مقالہ تحریر کیا جس پر مشتاق احمد یوسفی نے انہیں گولڈ میڈل عطا کیا تھا۔ اس مقالے کا موضوع ’’سید ضمیر جعفری کی سنجیدہ شاعری کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ‘‘ ہے، جب یہ مقالہ کتابی صورت میں شائع ہوا تو ڈاکٹر معین قریشی مرحوم نے روزنامہ نوائے وقت میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’پروفیسر صفورا شاہد نے ایم فل کے مقالے میں جوتحقیقی کام کیا ہے یہ پتّا ماری تو اب کوئی پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے بھی نہیں کرتا۔‘‘ اس مقالے میں جہاں سید ضمیر جعفری کی سنجیدہ شاعری کا بھرپور انداز میں احاطہ کیا گیا ہے وہیں ان کے خاندان (اس میں ننھیال اور ددھیال دونوں شامل ہیں) کے کوائف بھی تحقیق کرکے لکھے گئے ہیں۔ یہ مقالہ ان پر کام کرنے والوں کے لیے ایک حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔
محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اعلان کیا تھا کہ سید ضمیر جعفری کے کام پر جو پی ایچ ڈی کرے گا اس کے تمام اخراجات کے ساتھ ایک لاکھ روپیہ اُس کو پیش کروں گا۔
سید ضمیر جعفری نے جو خاکے لکھے ہیں وہ بھی خاصے کی چیز ہیں جن کا شمار اردو میں لکھے جانے والے بہترین خاکوں میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی والدہ پر جو مضمون ’’بوٹی کھاساں‘‘ اردو ڈائجسٹ کے ’’عظیم مائیں‘‘ نمبر میں لکھا تھا وہ آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔ سید ضمیر جعفری کے دو بھائی تھے، بڑے بھائی سید نادر حسین شاہ اور ان سے چھوٹے سید شبیر حسین شاہ۔ بڑے بھائی سید شبیر حسین سیشن جج تھے۔ سید ضمیر جعفری لکھتے ہیں کہ ہمارے خاندان کی دونوں شاخیں شیعہ اور سنی چک عبدالخالق میں باہم شیر و شکر رہتی تھیں۔ ہمارا گھرانہ ربیع الاول میں اپنی مسجد میں حضرت مولانا غوث محمد کے وعظ کا، اور اپنی شیعہ شاخ کے خاندان کے لیے حافظ کفایت اللہ مجتہد کی عشرۂ محرم میں مجالس کا اہتمام کرتا مگر بدقسمتی سے ڈیڑھ سو سال کے بعد 1984ء میں ملک اور دین کے دشمنوں نے ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکائی تو چک عبدالخالق بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ ہماری شاخ کے دونوں طرف کے نوجوان لہولہان ہوئے، کسی کی ناک کٹی اور کسی کا کان۔ میں بھی اس غم سے نڈھال ہوا اور سوچنے لگا کہ کوئی ایسی تدبیر کی جائے جس سے ہمارے خاندان کے دونوں طرف کے زخم بھرے جاسکیں۔ ہمارے خاندان کی شیعہ شاخ میں ایک بزرگ بڑا اثر رسوخ رکھتے تھے۔ میں اس غرض کے لیے لمبا سفر کرکے اُن کے ہاں پہنچا تو سلام دعا کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ بزرگ میری مدد کیا کریں گے وہ تو خود اس کے شہ سوار محسوس ہوئے۔ اب میں آگیا تو اس پر میں نے کوئی گفتگو نہیں کی اور اُن کے ساتھ کچھ وقت گزار کر اور دیگر موضوعات پر گفتگو کرکے ناکام و نامراد واپس لوٹ آیا۔
سید ضمیر جعفری کے آبا و اجداد غیر منقسم ہندوستان میں ایران سے آکر پہلے ملتان اور وہاں سے چک عبدالخالق میں جو دینہ ضلع جہلم سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے جو ان کے مورثِ اعلیٰ عبدالخالق کے نام سے منسوب ہے‘ دو سو سال قبل آکر آباد ہوئے تھے، اور ان کے ننھیال کا تعلق میرپور آزاد کشمیر سے ہے۔ سید ضمیر جعفری کی والدہ سیدہ سردار بیگم مشہور صوفی بزرگ محمد احمد شاہ کی پوتی ہیں جو مشہور صوفی بزرگ میاں محمد بخش کے ہم عصر تھے۔ سید ضمیر جعفری کا خاندان اپنی والدہ کے دادا احمد شاہ کی نسبت سے ’’احمد شاہی‘‘ کہلاتا ہے۔
سید ضمیر جعفری نے پرائمری تعلیم اپنے گائوں سے، میٹرک جہلم شہر کے گورنمنٹ ہائی اسکول سے کیا جہاں اُن کے ہم سبق بھارت کے سابق وزیراعظم آنجہانی آئی کے گجرال تھے جس کا ذکر اے کے گجرال نے ضمیر جعفری مرحوم کے نام اپنے تعزیتی بیان میں کیا۔ انٹر گورنمنٹ کالج کیمبل پور ضلع اٹک سے کرکے بی اے لاہور کی مشہور درس گاہ اسلامیہ کالج سے (جو تحریکِ پاکستان کا مرکز رہا) 1938ء میں کیا جہاں اُن کے ہم سبقوں میں ملک معراج خالد مرحوم (سابق وزیراعلیٰ پنجاب، اسپیکر قومی اسمبلی اور نگراں وزیراعظم پاکستان) اور حمید نظامی مرحوم (بانی روزنامہ نوائے وقت)کے علاوہ ملک کی کئی علمی، ادبی اور اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں حیثیت حاصل کرنے والی شخصیات شامل تھیں۔
سید ضمیر جعفری کے دادا ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے اور انہیں تعلیمی خدمات پر 5 مربع زمین فیصل آباد میں انعام کے طور پر دی گئی۔ جب کہ ان کے والد سید حیدر علی شاہ پولیس میں ڈائریکٹ انسپکٹر کے طور پر بھرتی ہوئے تھے اور ضلع انبالہ اور جلیانہ میں تعینات رہے، لیکن جلد ہی ملازمت سے دل اچاٹ ہوا اور مذہب کی طرف رجحان بڑھ گیا تو ملازمت کو خیرباد کہہ کر گائوں لوٹ آئے، مگر اس کے باوجود مطالعے کا شوق کم نہ ہوا اور جہلم شہر سے روزانہ اخبارات و رسائل منگوانے کا اہتمام کرتے تھے۔
سید ضمیر جعفری نے 1938ء میں 25 روپے ماہانہ مشاہرہ پر بطور کلرک ملازمت کا آغاز کیا۔ اس ملازمت کا زیادہ عرصہ دہلی اور شملہ میں گزرا، جس کی وجہ سے انہیں دہلی کی علمی و ادبی شخصیات کو بہت قریب سے ملنے اور دیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے۔ شملہ میں بھی یہی صورت رہی۔اسی زمانے میں ان کی شادی انیس زہرہ سے ہوئی جن کا تعلق گجرات کے متمول خاندان سے تھا،تاہم ناز و نعم میں پلنے والی اس خاتون نے دہلی اور شملہ میں چھوٹے سے گھر میں شیر و شکر ہو کر زندگی گزاری جس کا تفصیلی ذکر سید ضمیر جعفری مرحوم نے اپنی ڈائری ’’ضمیر حاضر، ضمیر غائب‘‘ میں کیا ہے۔ جب وہ امید سے تھیں تو ان کی طبیعت خراب ہوئی، سید ضمیر جعفری نے لکھا کہ میں بڑی مشکل سے ایک ڈاکٹر کو دو سو روپے فیس (اُس زمانے میں بڑی رقم ہوتی تھی) ادا کرکے لے کر آیا لیکن انہیں افاقہ نہ ہوا اور اسی عالم میں30 جون اور یکم جولائی 1944ء کی درمیانی شب شملہ میں انتقال کر گئیں۔ مرحومہ کی وصیت کے مطابق سید ضمیر جعفری ان کی میت ان کے آبائی شہر گجرات لے کر گئے اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔ سید ضمیر جعفری زندگی کے آخری سانس تک اپنی مرحومہ اہلیہ انیس زہرہ کو فراموش نہ کرسکے۔ گاہے بگاہے اپنی تحریروں میں تذکرہ کرتے رہے۔ سید ضمیر جعفری کی پہلی اہلیہ انیس زہرہ مشہور و ممتاز محقق، ادیب اور استاذ پروفیسر سید عابد علی عابد کی اہلیہ کی چچازاد بہن تھیں۔
انیس زہرہ کے بعد ان کی شادی جہاں آرا بیگم سے ہوئی جن سے ایک بیٹی تابندہ اور دو بیٹے سید احتشام ضمیر اور سید امتنان ضمیر پیدا ہوئے۔ تابندہ ان کی پہلی اولاد تھی جو پیدائش کے چند سال بعد ہی اللہ کو پیاری ہوگئی۔
ان کے بڑے بیٹے سید احتشام ضمیر مرحوم (میجر جنرل) زمانہ طالب علمی میں گارڈن کالج راولپنڈی یونین کے منتخب جنرل سیکریٹری بھی رہے اور ان کا رجحان ادب کی طرف تھا۔ احمد ندیم قاسمی مرحوم کے رسالے’’فنون‘‘ میں ان کی تحریریں چھپنے لگی تھیں مگر احتشام ضمیر لکھتے ہیں کہ ’’میرے باپ نے مجھے کہا کہ تم نے میری افسری کا زمانہ دیکھا ہے کلرکی کا زمانہ نہیں دیکھا اور میری خواہش ہے کہ تم پاک فوج جوائن کرو۔‘‘ اور انہوں نے ہی اُن کا ملٹری کا فارم بھر کر جمع کروایا۔
چھوے بیٹے سید امتنان ضمیر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ تعلیمی سرگرمیوں کے بعد ان کی دلچسپی کا اصل محور کرکٹ کھیلنا ہے اور اس میں وہ اتنے منہمک ہوتے ہیں کہ انہیں دوسری چیزوں کا خیال ہی نہیں آتا۔ وہ طویل عرصے سے امریکہ میں مقیم ہے۔
سید ضمیر جعفری امریکہ میں اپنے بیٹے کے پاس گئے تھے تو لکھتے ہیں کہ پاکستان کے معیار کے مطابق وہ ایک بڑا خوش حال آدمی ہے لیکن امریکہ کے اعتبار سے میرے خیال میں ایک مزدور ہی ہے۔
سید ضمیر جعفری کا انتقال بھی امریکہ میں ہوا تھا، ان کی میت پاکستان لائی گئی تھی۔ امتنان ضمیر کا ایک وصف یہ ہے کہ جب وہ اپنے باپ کے انداز میں ان کا کلام پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سید ضمیر جعفری پڑھ رہے ہیں۔ اللہ انہیں صحت دے، وہ طویل عرصے سے گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں۔ ان کا ٹرانسپلانٹ کامیاب نہیں ہوسکا تھا جس کی وجہ سے اب ڈاکٹر انہیں سفر کی اجازت نہیں دیتے۔ البتہ وہ اپنے روزمرہ کے معمولات اور کاروبار معمول کے مطابق انجام دے رہے ہیں۔
سید ضمیر جعفری کی شائع شدہ تصانیف کی تعداد 53 ہے اور اب بھی 100 سے زائد کتابوں کے مسودات پبلشر کے پاس ہیں،جن میں سے کچھ کتابیں ان کے انتقال کے بعد دوست پبلی کیشنز نے شائع تو کی ہیں مگر اس کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ ان کے وارثین اس تگ و دو میں ہیں کہ یا تو انہیں دوست پبلی کیشنز شائع کرے یا پھر مسودات ان کو مل جائیں تاکہ وہ انہیں ’’ضمیر فائونڈیشن‘‘ کے تحت شائع کرنے کا اہتمام کرسکیں۔
سید ضمیر جعفری کی تصانیف میں ’’حفیظ نامہ‘‘ (حفیظ جالندھری خالق قومی ترانہ)، ’’کتابی چہرے‘‘، ’’کلیاتِ ضمیر‘‘، آسٹریلیا کا سفر نامہ ’’سورج میرے پیچھے‘‘، ’’نشانِ منزل‘‘، ’’سوزِ وطن‘‘، ’’پہچان کا لمحہ‘‘، ’’جدائی کا سفر‘‘، ’’شاہی حج‘‘ اور دیگر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوںنے انگریزی ادب کے نثر کے کئی شہ پاروں اور نظموں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
انہوںنے میاں محمد بخش کی ابیات سیف الملوک کا ’’من میلہ ‘‘کے نام سے، اور اپنی والدہ کے دادا سید محمد احمد شاہ کی تصنیف ’’ہیر‘‘ کا ’’من کے تار‘‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ (واضح رہے کہ ’’ہیر‘‘ وارث شاہ کی معروف تصنیف ہے لیکن ان کی والدہ کے دادا کی تصنیف کا نام بھی ’’ہیر‘‘ ہی ہے۔)
یہ ایک واقعہ ان کی پوری شخصیت کے جوہر کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ سید ضمیر جعفری کی بڑی بہو بیگم سید احتشام ضمیر نے مجھے بتایا کہ جب سید ضمیر جعفری کا انتقال ہوا تو پروفیسر سید عابد علی عابد کی صاحبزادی اور مشہور شاعرہ محترمہ شبنم شکیل (مرحومہ) بھی تعزیت کے لیے آئیں، انہوں نے ہمارے سامنے یہ انکشاف کرکے حیرت زدہ کردیا کہ یہ بات جو میں بتا رہی ہوں وہ آپ کو کہیں کسی کتاب میں نہیں ملے گی لیکن یہ امر واقع ہے کہ ہماری خالہ انیس زہرہ کو ہمارے نانا نے تیار شدہ زیورات کی شکل میں اور بسکٹ کی شکل میں بہت زیادہ سونا دیا تھا۔ ان کی تدفین کے بعد ایک دن سید ضمیر جعفری ایک بڑا بکس لے کر آئے جس میں سونے کے زیورات کا بکس بھی موجود تھا اور نئے سلے ہوئے جوڑے بھی تھے۔ اسے ہماری نانی کے حوالے کیا اور کہا کہ یہ امانت ہے اُس کی۔ تو میری نانی نے اُن سے کہا کہ ہم نے تو آپ سے یہ نہیں مانگے، تو اُن کا جواب تھا یہ امانت ہے اُس کی جو آپ کو لینا ہوگی۔
اللہ نے انہیں زندگی میں بھی نیک نام رکھا اور مرنے کے بعد بھی۔ انہوں نے اللہ سے یہ دعا کی تھی جو قبول ہوئی:
یارب مجھے کرم سے اپنے
سورج کی طرح طلوع رکھنا
سورج کی طرح غروب کرنا