بنوں سی ٹی ڈی آپریشن کا ڈراپ سین

خیبرپختونخوا بدامنی کی زد میں

خیبرپختون خوا کے جنوبی اضلاع کے مرکزی شہر بنوں میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ عسکریت پسندوں کی جانب سے یہاں سیکورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنائے جانے کے واقعے کا ڈراپ سین سیکورٹی فورسز کی کارروائی کے نتیجے میں ہوگیا ہے۔ یہاں ہونے والے کمانڈو آپریشن کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی سے کمپاؤنڈ واگزار کرا لیا گیا ہے۔ اس آپریشن میں تمام دہشت گردوں کے مارے جانے، جبکہ 3 سیکورٹی اہلکار وں کے شہید اور ایک آفیسر سمیت 15 اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران بنوں میں سی ٹی ڈی میں دہشت گردوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کی کارروائی کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ کلیئر کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنوں میں سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ کے اندر 33 دہشت گرد گرفتار تھے، ان میں سے ایک دہشت گرد بیت الخلا کی طرف جارہا تھاکہ اس نے ایک اہلکار کے سر پر اینٹ مار کر اُس سے اسلحہ چھین لیا، اس کے بعد انہوں نے عملے کو یرغمال بنالیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 20 دسمبر کو ساڑھے بارہ بجے ایس ایس جی کمانڈوز نے آپریشن شروع کیا، جس کے دوران تمام دہشت گرد مارے گئے اور ڈھائی بجے سی ٹی ڈی کا سارا کمپاؤنڈ کلیئر کردیا گیا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ کارروائی میں شامل ایک افسر سمیت ایس ایس جی کے 10 سے 15 جوان زخمی ہوئے ہیں، جبکہ 2 شہید ہوئے، اور تمام یرغمالیوں کو چھڑوا لیا گیا ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اس واقعے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی خصوصاً خیبر پختون خوا میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، اس سلسلے میں سی ٹی ڈی جو ایک صوبائی ذمہ داری تھی، اس میں صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بحران کے خاتمے میں افواج نے ایک بار پھر بڑی قربانی دی ہے۔

بنوں سی ٹی ڈی آپریشن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ پاک فوج کے کمانڈو جلد ہی حالات پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے تھے تاہم طالبان کا ایک کمانڈر ابراہیم عرف ضرار اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ آخر دم تک مزاحمت کرتا رہا۔ ان دہشت گردوں نے کمپاؤنڈ میں کھڑی بم پروف گاڑی میں پناہ لے رکھی تھی جس کی وجہ سے فورسز کے لیے ان کو نشانہ بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

یرغمال صوبیدار خورشید اکرم کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ انہیں آپریشن شروع ہوتے ہی دہشت گردوں نے شہید کردیا تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ اتوار کے روز سی ٹی ڈی بنوں میں زیر حراست عسکریت پسندوں نے یہاں تعینات اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر انہیں دیگر قیدیوں سمیت یرغمال بنالیا تھا۔ دہشت گردوں نے پہلے افغانستان اور بعد ازاں وزیرستان جانے کے لیے محفوظ راستے کا مطالبہ کیا، تاہم سیکورٹی فورسز نے راستہ دینے سے انکار کیا اور ان کو گرفتاری دینے کا کہا، جس میں ناکامی کے بعد ایس ایس جی کمانڈوز نے یرغمالی بچاؤ آپریشن شروع کیا جس میں چھوٹے بڑے ہتھیار، ڈرون کیمرے، بکتربند گاڑیاں استعمال کی گئیں۔

خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے یہ اطلاعات حیرت ناک بھی ہیں اور افسوس ناک بھی کہ محکمہ انسداد دہشت گردی کے لیے دو سال سے تربیت کی مد میں کسی قسم کے فنڈ جاری نہیں کیے گئے ہیں، جبکہ صوبے میں اہلکاروں کی تربیت کے لیے بھی کوئی مستقل انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ پنجاب کی نسبت خیبر پختون خوا میں بجٹ بھی کم ہے اور سال بھر میں صرف 70 سے80 لاکھ روپے آپریشنل اخراجات کے لیے مختص کیے جارہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ بنوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں انسدادِ دہشت گردی کمپاؤنڈ کو پچاس کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچا ہے،کمپاؤنڈ میں کھڑی قیمتی لگژری گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، دفاتر مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ قیمتی ریکارڈ، کوت میں پڑا اسلحہ، فرنیچر، کمپیوٹر، قیمتی ریکارڈ سے بھری الماریاں اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی ضائع ہوگئے ہیں۔ کمپاؤنڈ میں موجود کوئی بھی چیز استعمال کے قابل نہیں رہی۔ اطلاعات کے مطابق آپریشن کے دوران بم پروف گاڑی جس کی قیمت 30 کروڑ روپے سے زائد بتائی جاتی ہے، مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہے۔ کمپاؤنڈ میں کھڑی دیگر قیمتی بلٹ پروف گاڑیاں بھی ناقابلِ استعمال ہوگئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کمپاؤنڈ میں کچھ بھی درست حالت میں نہیں بچا۔ کمپاؤنڈ اور اس کے اطراف کو تاحال سیل رکھا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ جس عمارت میں واقع ہے وہ عمارت کرائے پر لی گئی ہے جو 6 کمروں پر مشتمل ہے۔ اسی اثناء آئی جی پولیس خیبر پختو ن خوا اعظم جاہ انصاری نے دہشت گردی کا شکار بنوں سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ اور زیر تعمیر سی ٹی ڈی تھانے کی بلڈنگ کا دورہ کیا۔ دورے کے موقع پر بنوں میں اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں ڈی آئی جی بنوں ریجن سید اشفاق انور نے اُنہیں سیکورٹی صورت حال پر بریفنگ دی، اس موقع پر ڈی پی او بنوں ڈاکٹر محمد اقبال اور دیگر پولیس افسر بھی موجود تھے۔ اس موقع پرآئی جی پی کو قبائلی اضلاع سمیت بنوں، کوہاٹ، ڈی آئی خان ریجن کے مختلف شہروں میں سی ٹی ڈی کے کا ؤنٹر ٹیررازم کے حوالے سے اُٹھائے گئے اقدامات اور اہم کارروائیوں پر بھی بریفنگ دی گئی۔ پولیس سربراہ نے سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں شہید ہونے والے فورس کے جوانوں کے ایصالِ ثواب اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔

دریں اثناء آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سیکورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے اور دہشت گردوں کو اُن کے انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کو بھی توڑے گی۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے ان خیالات کا اظہار میران شاہ، شمالی وزیرستان اور تربیلا کے دورے کے موقع پر کیا۔ دورے کے دوران آرمی چیف نے یادگارِ شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور مادرِ وطن کا دفاع کرتے ہوئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے بہادر سپاہیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ جنرل سید عاصم منیر نے جوانوں کی پیشہ ورانہ مہارت، بلند حوصلے اور آپریشنل تیاری کی تعریف کی اور کہا کہ سماجی و اقتصادی ترقی کے ذریعے دیرپا امن کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاک فوج قربانیوں سے حاصل کیے گئے امن کو مستحکم کرے گی کیوں کہ علاقے کا امن پاکستانی قوم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عظیم قربانیوں سے ممکن ہوا ہے۔ آرمی چیف نے ہیڈ کوارٹر ایس ایس جی تربیلا کا بھی دورہ کیا اور اسپیشل سروسز گروپ کے افسران اور جوانوں سے ملاقات کی۔ جنرل عاصم منیر نے ضرار کمپنی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ضرار کمپنی کے سپاہیوں نے حالیہ بنوں سی ٹی ڈی کمپلیکس آپریشن کے ساتھ ساتھ ایوی ایشن میں بھی بہادری سے خدمات انجام دی ہیں۔ آرمی چیف نے مختلف آپریشنز میں ایس ایس جی کمانڈوز کے ناقابلِ تسخیر جذبے، قربانیوں اور ڈیوٹی کے عزم کی تعریف کی اور کہا کہ ایس ایس جی قوم کا فخر ہے اور اس نے کئی سالوں میں جرات اور بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔

ایک ایسے موقع پر جب خیبر پختون خوا میں بدامنی کا ناگ ایک بار پھر پھن پھیلائے سب کچھ نگلنے کے لیے بے چین ہے، اس حوالے سے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، البتہ یہ کریڈٹ ایک بار پھر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کوجاتا ہے جنہوں نے حسبِ روایت حق گوئی وبے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت خیبر پختون خوا میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں، وانا کے پولیس اسٹیشن پر حملے میں ایس ایچ او سمیت پورے عملے کو دہشت گردوں نے اغوا کیا ہے۔ سی ٹی ڈی کا کام دہشت گردی کو کاؤنٹر کرنا ہے لیکن دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی کو کاؤنٹر کیا ہے۔ صوبے میں حکومت کی کوئی رٹ نظر نہیں آرہی اور خیبر پختو ن خوا کے اندر افواہیں گرم ہیں کہ جنہوں نے بنوں سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ پر حملہ کیا ہے وہ پاکستان کے پارلیمنٹ ہاؤس پر حملے کے منصوبے بنارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دن قبل شمالی وزیرستان میں بنوں کے تین تاجروں کو اغوا کرکے قتل کیا گیا، جانی خیل میں باپ بیٹے کو قتل کردیا گیا اور ان کے سرکاٹ دیے گئے، اور ان کے ساتھ خط رکھا گیا کہ اگر کسی نے ان کے جنازے میں شرکت کی تو اُس کا بھی یہی حشر ہوگا۔ آج خیبر پختون خوا کا کوئی والی وارث نہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا تو ایک طرف اُن کے وزراء بھی شہداء کے جنازوں میں جانے کی زحمت نہیں کرتے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ صوبائی حکومت قیامِ امن میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اور اس کے مزید برسراقتدار رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔