پرنٹ،سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر بار بار امتحانات ملتوی کرنے کی خبریں ایک بار پھر سلگتا ہوا موضوع بنی ہوئی ہیں
صوبہ سندھ میں شعبۂ تعلیم کی صورتِ حال وطنِ عزیز کے دیگر صوبوں کی نسبت حد درجہ خراب اور ناقابلِ بیان ہے۔ اس حوالے سے ایک ضخیم کتاب بھی لکھی جاسکتی ہے کہ وہ کون سے اسباب اور عوامل ہیں جن کی بنا پر صوبہ سندھ میں تعلیم کا شعبہ اپنے زوال اور انحطاط کی آخری حدود کو چھو رہا ہے اور تباہی کے دہانے پر آن کھڑا ہوا ہے۔ سندھ میں تعلیم کی تباہی کے بارے میں مندرجہ ذیل اہم ترین وجوہات کو گنوایا جاسکتا ہے جن میں اساتذہ کی بھرتیوں میں سیاسی مداخلت، کاپی کلچر، اسکولوں اور کالجوں کو حکومت کی طرف سے فنڈ کا بروقت اجرا نہ ہونا، ہزاروں کی تعداد میں گھوسٹ اساتذہ اور عملاً سندھ کے گوٹھوں میں اسکولوں کی عمارت کے مقامی وڈیروں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے وہاں پر بجائے تعلیم کے مویشیوں کا باندھا جانا وغیرہ ایسے اہم ترین اور نمایاں عوامل ہیں جن کی وجہ سے صوبہ سندھ کی تعلیم ایک لحاظ سے یکسر تباہ ہوچکی ہے اور بظاہر اصلاحِ احوال کی بھی ایسی کوئی صورتِ حال دکھائی نہیں دیتی جس سے امیدِ فردا باندھ کر دل کو مطمئن اور خوش کیا جاسکے۔ سندھ میں خاص طور پر کاپی کلچر کی لعنت نے نژادِنو کی صلاحیتوں کو بالکل زنگ آلود اور پژمردہ کر ڈالا ہے۔ بدقسمتی سے درجہ پنجم سے یونیورسٹی لیول تک کے امتحانات میں نقل ہوتی ہے، بہ کثرت ہوتی ہے، سرِعام ہوتی ہے اور بڑے دھڑلے کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس مذموم اور مکروہ عمل میں سبھی ’’حسبِ توفیق‘‘ اور ’’حسبِ استطاعت‘‘ بھرپور حصہ لیا کرتے ہیں، یعنی طلبہ و طالبات، اساتذہ، والدین، متعلقہ بورڈ اور جامعات کے اہلکار۔
29 دسمبر سے ایک مرتبہ پھر شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے الحاق شدہ کالجوں میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی اسناد کے حصول کے لیے امتحانات کا انعقاد ہوگا جس میں مذکورہ بالا تمام فریقین پوری تندہی کے ساتھ نقل کرنے اور کرانے کے گھنائونے عمل میں پورے طور سے شرکت کریں گے اور ’’نقل، نقل‘‘ کا مکروہ کھیل ایک بار پھر سے کھیلا جائے گا۔ حقیقت اور امر واقع یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں تعلیم کا حصول اور امتحانات کا اسکول تا یونیورسٹی سطح انعقاد ایک سنگین مذاق سے زیادہ اہمیت اور حیثیت نہیں رکھتا۔ اب تو نقل کے عمل میں بھی جدت طرازی درآئی ہے اور امتحانات میں شرکت کرنے والے امیدواروں کو نقل کا سارا مواد بہ آسانی بذریعہ واٹس ایپ امتحان ہال میں میسر آجاتا ہے۔ طلبہ و طالبات امتحانی عملے کے تعاون اور اپنے اپنے بھائیوں یا والد صاحبان کی زیر سرپرستی خوب خوب نقل کرتے ہیں اور اپنے لیے ایک ’’جعلی سند‘‘ کے حصول کا اہتمام کرنے کی سعی میں اپنے ساتھ آپ ہی ’’دھوکہ دہی‘‘ کی ایک ایسی قابلِ مذمت ’’واردات‘‘ کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا ادراک انہیں تب ہوتا ہے جب نقل کے بل بوتے پر حاصل کردہ اسناد کے توسط سے وہ اپنی عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ تب نقل کرکے امتحانات پاس کرنے والے طلبہ و طالبات کو پتا پڑتا ہے کہ ان کے پاس اعلیٰ نمبروں کے ساتھ پاس کی جانے والی جو ڈگری ہے اس کی حیثیت ’’کاغذ کے ایک معمولی ٹکڑے‘‘ سے زیادہ ہرگز نہیں ہے۔ لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
یہاں پر یہ ذکر کرنا بے حد ضروری اور ناگزیر ہے کہ سندھ کے عظیم شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ سے منسوب شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور کی جانب سے مذکورہ امتحانات کے انعقاد کا اعلان ایک، دو یا تین مرتبہ مؤخر کیے جانے کے بعد نہیں بلکہ گزشتہ چھے ماہ کے عرصے میں چھٹی بار کیا گیا ہے کہ مذکورہ امتحانات 29 دسمبر سے شروع ہوں گے، جو یقیناً ایک عالمی ریکارڈ بنتا ہے۔ خیرپور یونیورسٹی بدعنوانی اور بدانتظامی کا ایک گڑھ بن چکی ہے۔ وائس چانسلر، کنٹرولر، رجسٹرار اور دیگر عملہ مسلسل بہت سارے ناقابلِ بیان غیر اخلاقی الزامات کی زد میں ہیں۔ اب بھی امیدواروں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ معلوم نہیں 29 دسمبر کو بھی ہمارے امتحانات ہوں گے یا ایک دفعہ پھر سے انہیں مؤخر اور ملتوی کردیا جائے گا؟ اس یونیورسٹی کے زیراہتمام سکھر اور لاڑکانہ ریجن کے ہزاروں طلبہ و طالبات ہر سال امتحانات میں شرکت کرتے ہیں۔ اس جامعہ سے الحاق شدہ درجنوں ڈگری کالجوں کے ہزاروں طلبہ و طالبات کے امتحانی فیسوں اور اسناد کے حصول کے لیے جمع کرائی گئی فیسوں کی مد میں یونیورسٹی کے اکائونٹ میں ہر سال کروڑوں روپے بلامبالغہ جمع ہوتے ہیں، تاہم یونیورسٹی کی انتظامیہ اورعملے کی نالائقی اور نااہلی بلکہ بدعنوانی کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ تین برس سے یونیورسٹی کے امتحانات میں حاضر طلبہ و طالبات کو بھی جان بوجھ کر امتحان میں فیل دکھایا جاتا ہے تاکہ دوبارہ ان سے امتحان کے انعقاد کی مد میں فیس بٹوری جاسکے جو بے حد قابلِ مذمت ہے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ ہر سال ظالمانہ انداز میں فیس میں بہ کثرت اضافہ کر ڈالتی ہے۔ ہر سال امتحانات کے موقع پر یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے ایک بہت بڑا ظلم یہ بھی کیا جاتا ہے کہ سیکڑوں امتحانی سلیبس پر طلبہ و طالبات کی جنس کو تبدیل کردیا جاتا ہے، لڑکے کو لڑکی اور لڑکی کو لڑکا لکھ دیا جاتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ تصاویر تک میں ردوبدل کردیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سال ہی امیدواروں کو پریشان کیا جاتا ہے اور لوٹ مار کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ برقرار رکھا جاتا ہے۔ بغیر اطلاع کیے ہر سال اچانک امتحانی مراکز کو تبدیل کردیا جاتا ہے جس سے امیدواروں اور اُن کے والدین کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یونیورسٹی کے امتحانات میں شرکت کرنے والے زیادہ تر امیدوار غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کئی امیدوار پرائیویٹ امیدوار کے طور پر امتحانات میں شامل ہوتے ہیں جو سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں یا پھر بیرون صوبہ نجی اداروں میں ملازمت کرتے ہیں اور انہیں بہ مشکل امتحانات میں شرکت کے لیے اپنے ادارے سے چھٹی ملتی ہے۔ جب یہ امیدوار رخصت لے کر اور بھاری کرایہ خرچ کرکے مختلف دور دراز مقامات سے امتحان میں شرکت کی غرض سے اپنے اپنے شہروں کو لوٹتے ہیں تب اُن پر یہ خبر بجلی بن کر گرتی ہے کہ نااہل، نالائق، بدعنوان خیرپور یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایک مرتبہ پھر امتحانات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر ڈالا ہے۔ خیرپور یونیورسٹی انتظامیہ اور اہلکاروں کی نالائقی کا عالم یہ بھی ہے کہ بہت سارے امیدواروں کو مقررہ مارکس/ متعینہ مارکس سے بہت زیادہ ہزاروں مارکس ان کی مارکس شیٹ میں دے دیے جاتے ہیں جو بلاشبہ ایک سنگین اور ظالمانہ مذاق ہے۔
پرنٹ، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر خیرپور یونیورسٹی انتظامیہ کی بدعنوانی اور نااہلی، اور باربار امتحانات کو ملتوی کرنے کی خبریں ایک سلگتا ہوا موضوع بنی ہوئی ہیں، لیکن حکومتِ سندھ یونیورسٹی کے نالائق منتظمین اور نااہل عملے کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اب بھی امیدواروں کو خدشہ لاحق ہے کہ کہیں پھر سے امتحان مؤخر نہ کردیئے جائیں
خصوصاً بیرونِ صوبہ اور دیگر شہروں میں مقیم امیدواران سخت الجھن، پریشانی اور مخمصے سے دوچار ہیں کہ مبادا ایک بار پھر اُن کی امتحانات کے لیے لی گئی چھٹیاں اور بھاری کرائے رائیگاں اور ضائع چلے جائیں خدانخواستہ!!؟ دریں اثنا سندھ لیکچرر، پروفیسر ایسوسی ایشن (سپلا) کے دونوں دھڑوں نے یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلی، بدعنوانی، طلبہ و طالبات کے ساتھ روا رکھی گئی زیادتیوں اور اساتذہ کو امتحانی فرائض اور امتحانی کاپیوں کی چیکنگ کے واجبات تاحال نہ ملنے کے خلاف 29 دسمبر سے ہونے والے خیرپور یونیورسٹی کے زیراہتمام ڈگری سطح کی اسناد کے حصول کے لیے منعقدہ امتحانات کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے، جس کی وجہ سے امتحانات ایک بار پھر ملتوی ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب بڑی تعداد میں والدین نے انٹرپری میڈیکل کے کامیاب طلبہ و طالبات کے لیے میڈیکل کالجوں اور میڈیکل یونیورسٹیوں کی جانب سے منعقدہ انٹری ٹیسٹوں کی بھاری فیسوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔